علامہ اقبال اور ملکہ وکٹویہ کا مرثیہ
آج اس محفل علم وکتاب میں بنگلور سے مولوی مدثر صاحب نے برطانوی ملکہ وکٹوریہ کی رحلت پر علامہ اقبال کے لکھے مرثیہ کے ان اشعار کی تحقیق طلب کی ہے۔
اے ہند تیرے سر سے اٹھا سایہ خدا
اک غمگسار تیرے مکینوں کی تھی گئی
برطانیہ تو آج گلے مل کے ہم سے رو
سلمان بحر ریزی طوفاں کئے ہوئے
میت اٹھی ہے شاہ کی تعظیم کے لئے
ااقبل اڑ کے خاک سر راہ گزار ہو
اور اس پر ہمارے ایک بزرگ نے لکھا ہے کہ بظاہر علامہ پر بہتان ہے۔ کلیات اقبال میں یہ اشعار نہیں پائے جاتے۔
ہمیں اس کی تصدیق یا تکذیب نہیں کرنی ہے، لیکن اتنا عرض کرنا ہے کہ ہر بڑے شاعر کے کچھ متروک اشعار ہوا کرتے ہیں، جو وہ اپنے دیوان کی اشاعت کے موقعہ پر حذف کردیتے ہیں، علامہ اقبال کا جب پہلا مجموعہ کلام بانگ درا شائع ہوا تھا تو آپ نے اس میں سے اپنا بہت سارا کلام حذف کردیا تھا۔ اور محققین کا کہنا ہے کہ اس حذف شدہ کلام میں اقبال کا یہ مرثیہ اشک خون بھی شامل ہے۔
علامہ اقبال کے متروک کلام پر کئی ایک کتابیں آئی ہیں جن میں عبد الواحد معینی کی کتاب باقیات اقبال جس پر بابائے اردو مولوی عبد الحق کی تقریظ ہے اور اس پر تحشیہ محمد عبد اللہ قریشی کا ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر محمد صابرکلوری کا تحقیقی مقالہ کلیات باقیات اقبال اور خرم علی شفیق کی "اقبال ابتدائی دور" میں شامل ہے، ان تینوں کتابوں شمار مستند کتابوں میں ہوتا ہے۔ ان سے اقبال کے اس مرثیہ کی توثیق ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں محمد عبداللہ قریشی فرماتےہیں کہ :
دس بند یا ایک سو دس شعر کا یہ ترکیب بند اس ماتمی جلسے میں پڑھا گیا۔جو ملکہ وکٹوریا کی وفات پر لاہور میں منعقد ہوا تھا ۔ ملکہ کا انتقال ۲۲ جنوری ۱۹۰۱ء کو ہوا ۔ اتفاق سے اس روز عید الفطر تھی ۔ پہلے دو بندوں میں اسی طرف اشارہ ہے ۔ یہ مرثیہ مطبع خادم اتعلیم میں چھاپ کر کتابچے کی شکل میں شائع کیا گیا تھا جو میرے پاس اب بھی موجود ہے۔
اس سلسلے میں ہمارا تاثر یہ ہے کہ یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں ہے، نہ ہی اس سے اقبال کی عظمت پر کوئی اثر پڑتا ہے، اصل خامی ہمارے فہم کی ہے، دراصل ہم جن شخصیات کا احترام کرتے ہیں، ان کے سلسلے میں ہمارا اعتقاد ہوتا ہے کہ یہ ان کے افکار وخیالات ومعتقدات جنہوں نے ہمیں ان شخصیات کا معتقد بنایا ہے ابتدا ہی سے ایسے ہی چلے آرہے ہیں، لیکن ہمیشہ حقائق ایسے نہیں ہوا کرتے، ایک انسان جیسے جیسے علم حاصل کرتا ہے، اس کی معلومات بڑھتی ہیں، وہ اڑوس پڑوس کو دیکھتا ہے، اور متاثر ہوتا ہے تو وہ فکری تغیر وتبدل سے گذرتا رہتا ہے، افکار کی اسی فطری تبدیلی کو ہم کبھی تضادات کا نام دیتے ہیں، جو حقیقتا درست نہیں ہے۔ اصل حکم کسی مفکر اور دانشور کا اختتام ہے، اگر اختتام درست ہے تو اور اپنے سابقہ افکار واقوال سے اس نے رجوع کرلیا ہے تو پھر ان چیزوں کی حیثیت تاریخی ہے، جو ایک مفکر ودانشور کی فکر میں تبدیل وتغیر کے مراحل سے آشکار کرتی ہے، اور یہ سیرت وسوانح کا لازمی جزء ہے۔
علامہ اقبال بھی ابتدا سے مختلف فکری ادوار اور تغیر وتبدل سے گذرے ہیں، کہا جاتا ہے کہ مولانا آزاد نے ۱۹۱۲ء میں جب الہلال کا صور پھونکا تو اسی سال علامہ نے ملی شاعری پیش کرنی شروع کی ۔ انیسویں صدی کے بعد فکر اسلامی مختلف ادوار سے گذری ہے، ۱۸۵۷ء کے بعد شکست خوردگی کا عالم تھا، محققین سرسید کو سامراجی دور کے پہلے متکلم کی حیثیت دیتے ہیں، لیکن چونکہ یہ دور برطانیہ کے مکمل تسلط کا کا زمانہ ہے، لہذا سرسید کے کلام میں معذرت خواہانہ اور دفاعی انداز غالب نظر آتا ہے، اس کے بعد کا دور جوہر ی طنطاوی جیسے مفکرین کا ہے، جنہوں نے سائنس سے مرعوب ہوکر سرسید کی طرح سائنس کی ایجادات کو اصل بنایا اور قرآن کی اس کے مطابق تشریح کی، اس کے بعد کا دور محمد عبدہ اور رشید رضا کا ہے، جن کے یہاں شکست خوردگی اور معذرت سرسید احمد خان سے کچھ کم ہے، پھر اقبال کا دور آتا ہے، ۱۹۱۲ کے بعد ان کے یہاں مغربی تہذیب کے خلاف یلغار نظر آتی ہے، اقبال سے کچھ پہلے علامہ شبلی اور مولانا ظفر علی خان کا دور ہے، اپنی ملی شاعری سے ملت کے دلوں کو پہلے پہل زندہ کرنے کا سہر ا دراصل انہی کے سر جاتا ہے، چونکہ ان دونوں کی شاعری مخصوص حالات کے تناظر میں ہوا کرتی تھی، لہذا اس نے وقتی جوش دلانے کا کام کیا، لیکن یہ شاعری زیادہ دن زندہ نہ رہ سکی، ورنہ ملت کو جگانے کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں ان دونوں کو اقبال پر سبقت حاصل ہے۔ اقبال کے بعد دور آتا ہے صاحب تفہیم کا، جنہوں نے پہلے پہلے یہ اصول دلوں میں مضبوط کیا کہ اصل قرآن ہے سائنس نہیں، قرآن اٹل اور نہ بدلنے والا ہے، جب کہ سائنس کے نظریات روز بدلتے ہیں، اور بدلنے والے نظریات کو بنیاد بنا کر قرآن کے معنی ومفہوم ہر روز بدلے نہیں جاسکتے۔ پھر ان کے بعد مفکرین اور دانشوروں کی ایک نسل پیدا ہوئی۔
ہم نے ایک بار شیخ محمد ناصر الدین البانیؒ سے دریافت کیا تھا کہ آپ کی تحریروں میں تضادات کی بات کی جاتی ہے، تو فرمایا پہلے مضمون کے وقت جتنے وسائل اور مراجع مہیا تھے اس کے مطابق مسئلہ بیان کیا، اب نئے مراجع اور کتابوں کی فراہمی کے بعد سابقہ رائے بدلنی پڑی ہے، طویل سابقہ عمر میں جو چیزیں چھپ چکی ہیں، ان پر نظر ثانی اور تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے، آپ ہماری آخری رائے ہی کو لیں، دراصل صورت حال کچھ ایسی ہی ہے، جو کچھ نہ کرنے اس سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوتی،لیکن جو کام کرتا ہے اس سے غلطی سرزد ہو جاتی ہے۔ اور جب آدمی رجوع کرتا ہے تو پھر یہ عیب کی بات نہیں رہتی۔ ہم اپنے ممدوحین کو انسان کی دائرے ہی میں رکھیں، اور ان سے اگر کوئی غلطی سرزد ہو تو اسے بشریت کے تقاضہ سمجھیں، اور دل میں احترام رکھ کر درست موقف اختیار کریں۔