علامہ اقبال اور علمائے کرام(۲) ۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Bat Say Bat

07:16PM Mon 21 Nov, 2022

اس پر یاد آیا کہ ۱۹۷۸ء میں مصر سے جاری ایک مجلہ میں ثقافۃ الداعیۃ کے عنوان سے سلسلہ  وار مضامین شروع ہوئے تھے، ان میں طلبہ واساتذہ کو پڑھنے کےلئےاہم اور بنیادی کتابوں کی طرف رہنمائی کی گئی تھی، اس کے ایک مضمون میں مصنف نے لکھا تھا کہ ایک داعی کو تصوف اور تزکیہ نفس کی کتابیں بھی پڑھنی چاہئے، اس سے دل میں گداز پیدا ہوتا ہے، اسی زمانے میں شیخ الازہر ڈاکٹر عبد الحلیم محمود کا انتقال ہوا تھا، تو ہم نے  اس وقت ایک تاثراتی مضمون آپ پر لکھا تھا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ  سابق شیخ الازہر  تصوف کے عاشق  زار اور اس  کے ممتاز ماہرین میں تھے، اس وقت  آپ کی رہنمائی میں علم تصوف کی بنیادی کتابیں نئی تحقیق اور خوبصورت طباعت کے ساتھ منظر عام پر آنی شروع ہوئی تھیں، ۱۹۷۹ء کے آغاز میں حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ کے حالات زندگی پر ایک طویل انٹرویو لینے کا ہمیں شرف ملا تھا، اس میں خاص طور پر آپ نے بتایا تھا کہ آپ کے سرپرست و مربی ڈاکٹر سید عبد العلی حسنی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو نصیحت کی تھی کہ  مکتوبات مجدد الف ثانی کی چاروں جلدیں حرف بحرف پڑھوں، جہاں مکتوبات کی عبارتین گنجلک اور قابل اعتراض محسوس ہوں، وہاں سے خاموش گذر جاؤں، ان پر کوئی اعتراض نہ کروں۔ اسی کا اثر تھا کہ تصوف کے بنیادی لٹریچر کا براہ راست مطالعہ کا  ہم میں شوق پیدا ہوا، اس سلسلے میں ڈاکٹر عبد الحلیم محمود ؒکی زیر سرپرستی شائع شدہ زیادہ تر کتابیں حاصل کیں،امام عبد الوہاب شعرانیؒ کی الانوار القدسیۃ في معرفة القواعد الصوفية، طبقات الصوفية الكبرى، شیخ شرف الدین یحیی منیریؒ کی مکتوبات صدی،خواجہ نظام الدین اولیاء کی فوائد الفواد،  شاہ معین لدین اجمیری، اور بختیار کاکی کے ملفوظات ،شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تاویل الاحادیث، الذکر الجمیل،  شیخ علی المصری کی تحفۃ الاکیاس فی حسن الظن بالناس وغیرہ بہت ساری کتابیں پڑھ ڈالیں،دوران مطالعہ کئی ایک جگہوں پر ہمیں محسوس ہوا کہ ہمارے اکابر کو یہاں خاموش نہیں رہنا چاہئے تھا،اگر توفیق یزدی شامل حال نہ ہوتی تو  شاید خود ساختہ جماعت المسلمین کے پیشوا مسعود احمد بی یس کی طرح ہم بھی لوگوں کو کتابیں دکھا دکھا کر اکابر سے بدظن  کررہے ہوتے، لیکن ہمیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ برصغیر  کے مسلمانوں کا خمیر شخصیت پرستی سے اٹھا ہے، اسے کوئی بڑی سے بڑی تحریک جڑوں سے اکھاڑ نہیں سکتی ، اگر ہم ان بزرگوں کی عبارتوں کے خلاف اٹھتے ہیں تو ملت کا سواد اعظم ان کے ساتھ رہے گا، اور ان شخصیات کی تائید میں جو باتیں انہیں معلوم نہیں ہیں، ان کی نسبت معلوم ہونے کے بعد  ان عقائد میں وہ اور  پختہ ہوجائے گا، جس کا پورا وبال ہمارے سر پر ہوگا۔ عامۃ الناس پر اکابر کی لغزشوں کو اجاگر کرنا، اور ان سے بد ظن کرنا دونوں  بہت خطرناک ہوا کرتے ہیں۔یہ ایک جنگ کی طرح ہوتے ہیں، جنہیں کوئی سپہ سالا ر شروع تو کرسکتا ہے، لیکن اسے روک نہیں سکتا۔

علاوہ ازیں۱۹۸۱ ئ میں  دبی آمد کے ابتدائی دنوں میں ہمارے شعبہ کے سربراہ ایک عراقی عالم دین اور مفکر تھے، جن کی دعوت وفکر کے موضوع پر کئی ایک کتابیں مقبول ہیں، آپ نے مدارج السالکین کی تہذیب وطباعت کے سلسلے میں ہم سے بھی کام لیا تھا، اس وقت انہوں نے ہمیں نصیحت کی تھی کہ، عبد المتین ! اپنا مطالعہ جاری رکھو، ہر چیز پڑھو، لیکن کسی بات سے متاثر ہوکر فیصلہ فورا نہ سناؤ، بہت ممکن ہے، بعد میں آپ کو رائے بدلنی پڑے، اور بار بار رائے بدلنے والوں کا اعتبار نہیں ہوا کرتا، آج چالیس سال بعد بھی آپ کی یہ نصیحت کام آرہی ہے، تصوف کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے کئی باتیں سامنے آئیں، جو کبھی صراحتا صحیح دینی مفہوم سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوئیں، اس  کے باوجود ہمارے کئی ایک اکابر کا نہ صرف ان کے لئے احترام بلکہ بعض شخصیات کا دفاع بھی نظر آیا۔

۔ اس خاموشی کا تیسرا سبب یہ نظر آتا ہے، جیسا کہ مولانا اکبرآبادی نے بھی تذکرہ کیا ہے، علامہ اقبال کے یہاں علم کا غرور نہیں ہے، جو ان کے نام کو استعمال کرنے والے بہت سے بونوں کےیہاں  دیکھا جاتا ہے، علامہ اقبالؒ کے علامہ سید سلیمان ندویؒ، علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، مولانا عبد الماجد دریابادیؒ وغیرہ سے روابط تھے، اور دینی معاملات میں وہ ان حضرات اکابر سے مشورے بھی لیا کرتے تھے، اس کا اندازہ محمد اعجاز الحق قدوسی کی کتاب (اقبال اورعلمائے پاک وہند) اور دوسری کتابوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ ہماری رائے میں اقبال کا علماء و اکابر کے تئیں نیازمندانہ رویہ بھی ان سے ہمدردی اور ان پر تند وتیز تنقید سے روکنے کا  اہم ترین سبب ہے۔

۔ رہی بات اقبال کے اپنے افکار وخیالات کی تبلیغ نہ کرنے کی تو یہ بات ہمیں زیادہ وزنی محسوس نہیں ہوتی ، کیونکہ کوئی مفکر یا مصنف جب خطبات دیتا ہے تو اس کا مقصد اپنے افکار وخیالات کی تبلیغ اور دعوت ہی ہوتا ہے، اور اقبال کے بارے میں یہ سمجھنا کہ انہوں نے اپنے افکار وخیالات کی اشاعت وتبلیغ کےلئے نثر ونظم نہیں لکھے تھے تو یہ سادہ لوحی کی بات ہے، ہمارے خیال میں سرسید کے غلط خیالات کو اتنا نہیں اپنا یا گیا جتنا اقبال کے افکار وخیالات کو اپنانے والے پیدا ہوئے، اور آج تک دانشوروں کا بڑا طبقہ جن میں اقبال کے نام پر قائم ہونے والی اکاڈمیوں کے سربراہان بھی شامل ہیں، ان کی اشاعت اور تشریح وتفسیر میں بڑی دلچسپی لے رہا ہے، اور یہ فکر روز بروز پھیل رہی ہے، اقبال نے زندگی کے آخری دنوں میں تشکیل الہیات جدیدہ کے عنوان سے عقیدہ اور علم کلام کی تشکیل نو کا بیڑا اٹھایا تھا، اس کے بارے میں ایک چوٹی کے اسلامی مفکر نے کہاں تھا کہ  ( (ہم اسلامی فکر کو ہیگل اور اوگسٹ کانٹ کے فلسفے کے ڈھانچے میں ڈھانے کی اقبال کی کوششوں کی مخالفت کرتے ہیں))۔ہمارے شیخ اور اقبال کے بڑے ہی معتقد مولانا شہباز اصلاحیؒ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالی کو اقبال کی لاج رکھنی  مقصود تھی، اور ان کے اچھے کاموں کو باقی رکھنا تھا، لہذا اس منصوبہ کی تکمیل سے پہلے ہی  اللہ نے انہیں اٹھالیا۔ اقبال کے امت پر بڑے احسانات ہیں، انہوں نے ایک ایسے وقت  میں مسلمانوں کو اغیار کی مرعوبیت سے نکالا تھا، جب عالم اسلام مکمل  طورمغربی اور صلیبی سامراج کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا، خلافت عثمایہ کے خاتمہ نے مسلمانوں کی رہی سہی مرکزیت کو بھی تہ وبالا کردیا تھا، غلامی کا عفریت عالم اسلام پر چھایا ہوا تھا، اس غلبہ نے مسلمانوں کو فکری طور پر دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کردیا تھا، اقبال کے اس کارنامے کو امت اسلامیہ تا قیامت بھلانہیں سکتی، اور آپ کا یہ کارنامہ ان کی تمام لغزشوں کو دھونے کے لئے کافی ہے، اقبال نے امت اسلامیہ کو جو حوصلہ دیا، اس کی روشنی تاقیامت امت اسلامیہ کی رہنمائی کرتی رہے گی، اور جب جب مایوسی اور ظلمت اور ادبار کے بادل اس امت پر چھائیں گے اس روشنی سے امید کی کرنیں پھوٹ کر آفاق کو روشن کریں گی، اللہ آپ کے درجات بلند کرے۔

2022-11-21