اللجنۃ العربیہ، ادب اطفال اور جامعہ(۱) ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

07:40AM Sat 21 May, 2022

 آج جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہے، امید ہے کہ طلبہ واساتذہ تازہ دم ہوکر نئے حوصلے اور ولولے کے ساتھ اس کی شروعات کریں گے، جامعہ بھٹکل واطراف کے لوگوں کے لئے روشنی کا ایک  ایسا مینار ہے جس سے گزشتہ ساٹھ سال سے علم ودانش کی شعاعیں پھوٹ رہی ہے، اور جس کے طفیل یہاں کی فضاؤوں میں  قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں گونج رہی ہیں، جب جامعہ آباد کے درودیوار پرتعلیمی نئے سال کی کرنیں پڑنی لگتی ہیں  تو پھر ذہن ودماغ کے نہان خانے سے پرانی یادیں جھانکنے لگتی ہیں، کیونکہ ایک طالب علم اور ایک مدرس کی حیثیت سے اس ناچیز کی زندگی کے چند قیمتی لمحات یہاں پر گذرے ہیں۔ اور اس کی ہمہ جہت ترقی کی فکر میں شرکت کی توفیق کچھ اسے بھی نصیب ہوئی ہے، جو کہ زندگی کا ماحصل ہے۔

دوسرے تعلیمی اداروں کی طرح یہاں بھی طلبہ و اساتذہ کو ہمیشہ درسیات میں استحکام کے ساتھ اعلی نمبرات میں کامیابی کی فکر رہتی ہے، لیکن اس کے وابستگان میں چند سرپھرے ایسے بھی رہے ہیں جو صرف ان کوششوں کوکسی تعلیمی ادارے کی کامیابی کا اصل معیار نہیں سمجھتے، ان کے خیال میں صرف درسیات پر ساری توجہ صرف کرنے سے کسی ادارے میں تعلیمی ماحول پیدا نہیں ہواکرتا، اس کے لئے ضروری ہے کہ ساتھ ہی ساتھ طلبہ میں نئے کی تلاش، درسیات سے آگے اپنی معلومات کو بڑھانے کی طلب اور جستجو پیدا ہو، ان میں مطالعہ اور کتب بینی کا شوق اور ادارے کی چہار دیواری  میں تعلیمی ماحول پیدا ہو، اور لازمی  ہے کہ درسیات کے ساتھ ساتھ غیر درسی مطالعہ کی ترویج پر بھی توجہ دی جائے، مضمون نویسی اور تقریر کے مقابلے، ڈرامے، شعر وادب کی محفلوں کا نظم کیا جائے۔ الحمد للہ جامعہ میں ان سرگرمیوں کا آغازحضرت مولانا عبد الحمید جیسکھ پوری ندوی رحمۃ اللہ علیہ  (اولین معتمد جامعہ  ) کے ابتدائی دنوں ہی سے ہوگیا تھا۔

اس سلسلے میں جن اساتذہ کا شروع ہی سے نمایاں کردار رہا ان میں ایک بڑا نام احمد نوری ماسٹر اور مولانا اکبر علی ندوی مرحوم کا ہے، یہ دونوں اساتذہ ۱۹۶۶ء میں جامعہ سے منسلک ہوئے تھے۔ اور ۱۹۶۷ء میں حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ جب پہلی مرتبہ بھٹکل تشریف لائے تھے، اوراس موقعہ پر گورنمنٹ پرائمری بورڈ اسکول گراونڈ میں طلبہ کے تقریری مقابلے اور دوسرے ثقافتی پروگرام منعقد ہوئے تھے، تو ان کی کامیابی میں ان اساتذہ کا کلیدی کردار رہا تھا، ویسے اس زمانے کے مدرسین میں مولانا حافظ محمد رمضان ندوی، ماسٹر محی الدین ، عبد الرحمن خان نشتر، کافشی احمد بن عبد الرزاق خلفو بھی پیچھے نہیں تھے۔

اس پروگرام میں دینی وعصری تعلیم کے موضوع پر ڈرامہ کی شکل میں ایک اسلامی کانفرنس پیش ہوئی تھی، اس ڈرامہ کی تحریر اور تشکیل میں ماسٹر احمد نوری مرحوم کا مرکزی کردار رہا تھا، اس ڈرامہ میں ایک پارلیمنٹ کا نمونہ پیش کیا گیا تھا، جس میں طالب علم محمد انصار شابندری ( چرکن ) کو شیروانی اور پائجامہ پہنا کر صدر کی مسند پر بٹھایا گیا تھا، اس مباحثہ میں طالب علم عبد اللہ کوبٹے کو عصری تعلیم کی تائید اور مذہبی تعلیم کی مخالفت میں تقریر دی گئی تھی ، اوردوسرے طالب علم محمد خلیل خطیبی کو اس کے جواب اور دینی تعلیم کے دفاع میں دھواں دھار تقریر سونپی گئی تھی، دیگر اسپیکر طلبہ میں عبد العزیز خلیفہ  (حال نائب مہتمم ندوۃ العلماء  ) وغیرہ شریک تھے،اس ڈرامے نے اپنے وقت میں بڑی دھوم مچائی تھی، اوروالدین کو اپنے بچے جامعہ میں داخل کرنے پر آمادہ کرنے میں یہ ڈرامہ بڑا محرک ثابت ہوا تھا۔

ماسٹر احمد نوری ان اساتذہ میں تھے جنہوں نے طلبہ میں خارجی مطالعہ کو فروغ دینے میں بہت دلچسپی لی، انہی کے تدریسی دور میں پندرہ روزہ نور رامپور، پیام تعلیم دہلی جیسے بچوں کے پرچے طلبہ میں رائج ہوئے، جب بچے شام کے آخری پیریڈ میں تھکے ماندے اونگھ رہے ہوتے تھے تو آپ مائل خیرآبادی جیسے بچوں کے مصنفین کی کہانیوں کو سناکر بچوں کو جگا دیتے تھے۔ ماسٹر صاحب کی یہ روایت آگے بھی چلتی رہی۔ (مزید تفصیلات کے لئے ماسٹر صاحب کی رحلت پرلکھا ہوا ہمارا تاثراتی مضمون ملاحظہ فرمائیں)

 ۔۱۹۷۶ء کے وسط میں اس ناچیز کی تدریسی خدمات مکتب سے جامعہ آباد منتقل ہوئی، ایک ماہ بعد مولانا محمد خالد غازیپوری ندوی، مولانا تفضیل احمد قاسمی ندوی، او مولانا محمد یوسف شاہجہانپوری ندوی بھی جامعہ آباد میں سلسلہ تدریس سے وابستہ ہوئے، یہ چاروں افراد سال دوسال کے فرق کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئے تھے، اور نئے ولولے اور حوصلے کے ساتھ تعلیم وتربیت میں جدت اور طلبہ میں زبان وادب کا ذوق پیدا کرنے کے لئے کوشاں تھے۔غالبا ۱۹۷۸ کا سال تھا کہ ان حضرات نے مشورہ کیا کہ طلبہ میں مطالعہ کا ذوق پیدا کرنے، مضمون نویسی ، تقریر و خطابت میں مہارت پیدا کرنے، اور زبان وادب سے تعلق پیدا کرنے کے لئے طلبہ کی ایک انجمن تشکیل دی جائے،جس میں ذمہ داریاں طلبہ ہی میں تقسیم ہوں، اس وقت طلبہ کی کسی انجمن اور انہیں ذمہ داریاں سونپنے کی بعض حلقوں سے مخالفت بھی ہوئی، لیکن یہ اخلاص کے ساتھ  فکر اور تگ دو تھی کہ اللجنۃ العربیۃ کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل پائی۔ جو الحمد للہ چوالیس سال سے تسلسل کے ساتھ متحرک ہے۔ اس وقت کمیٹی کے نام میں کافی غور کیا گیا تھا، النادی العربی، النادی الثقافی، وغیرہ مختلف نام سامنے آئے تھے، لیکن مولانا تفضیل احمد قاسمی ندوی صاحب کے پیش کردہ نام اللجنۃ العربیہ پر اتفاق ہوا تھا۔

اللجنۃ العربیہ کے قیام کا سہرا جن اساتذہ کے سروں پر سجا تھا، ان میں سے مولانا محمد خالد غازی پوری ندوی، ملک کے جانے مانے خطیب، اور ندوۃ العلماء لکھنو کے سینیر استاد اور نگران اعلی ہیں، مولانا تفصیل احمد ندوی ،ندوہ اور جامعہ سے وابستگی کے دنوں میں بڑے متحرک تھے، عربی زبان لکھنے پر انہیں خصوصی مہارت حاصل تھی، الرائد لکھنو میں ان کے مضامین  مسلسل چھپتے تھے، ان سے علمی دنیا میں آگے بڑھنے کی بڑی امیدیں تھیں، لیکن بہار کے سرکاری عربی مدرسہ کی ملازمت سے وابستگی کے بعد وہ علمی و ادبی دنیا سے اوجھل ہوگئے، مولانا محمد یوسف شاہجہانپوری، تعمیر حیات لکھنو کے مایہ ناز مدیر مولانا محمداسحاق جلیس ندوی مرحوم کے زیر تربیت رہے، تعمیر حیات اور ندائے ملت لکھنو میں انکے خوبصورت مضامین چھپتے تھے، ۱۹۷۹ء میں جامعہ سے جانے کے بعد وہ بھی گم شدگان کی فہرست میں شامل ہوگئے۔اس زمانے کے اساتذہ میں ماسٹر ظفر اللہ خان نے بھی لجنہ کے پروگراموں کی کامیابی میں خوب محنت کی۔ خوش الحان تھے، نظموں کی دھنیں خوب بناتے تھے۔ یہ ناچیز بھی اس کے محرکین میں شامل رہا، چونکہ اس کی دلچسپیاں خطابت اور اسٹیج سے وابستہ نہیں تھیں ، لہذا اس کی دلچسپیاں طلبہ میں مطالعہ وکتب بینی کے فروغ میں زیادہ رہیں۔ اوریہ فیض اپنے اساتذہ کے ساتھ ساتھ اس کے ایک محسن اور مشفق مولانا فیاض محی الدین لطیفی مرحوم کی رہنمائی کا تسلسل تھا، جس نے عین جوانی میں اس دنیا کو داغ مفارقت دے دی، ہم نے چراغ سے چراغ جلانے کا انجام دیا۔ (مزید تفصیلات کے مرحوم پر لکھے ہمارے تاثراتی مضمون کو ملاحظہ کریں )