ہمہ گیر اخوت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:01PM Tue 13 Oct, 2020

ہمہ گیراخوت

۔(یہ نشریہ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے ۳۱ اگست ۱۹۱۵ء کونشر کیا گیا۔  اس میں عالم گیر برادری اور بین الاقوامی اتحاد کے تصور پر مولانا مرحوم نے ایک نئے زاویے سے روشنی ڈالی ہے، اور زندگی کو صحیح راہ اور بندگی کی شاہراہ پر چلنے کی تلقین کی ہے۔  مولانا کی یہ تحریر عالمی امن و امان و اخوت ومساوات میں حائل وجوہ کوسمجھنے اور ان کے سد باب کے لیے انتہائی مفید ہے۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اگر یہ سچ ہے کہ سارے انسان چاہے گورے ہوں یا کالے، لال ہوں یا پیلے، امیر ہوں یا غریب، مشرق کے ہوں یا مغرب کے، چین کے ہوں یا فلسطین کے،  بولی انگریزوں کی بولنے والے ہوں یا برما والوں کی، اولاد ایک آدمؑ اور ایک حواؑ کی ہیں۔  ایک ہی دریا کی لہریں ہیں۔ ایک ہی پھول کی پتیاں ہیں۔  اور یہ عقیدہ روئے زمین کے مسلمانوں کا عیسائیوں کا یہودیوں کا تو خیر ہے ہی، دوسرے بھی جتنے مذہب ہیں سب نے کسی نہ کسی طرح اسی کو مانا ہے۔  لفظوں کے الٹ پلٹ اور اصطلاحوں کے ہیر پھیر سے کہیں حقیقتیں تھوڑی ہی بدل جاتی ہیں۔

اور جب ماں باپ ایک ٹھہرے چاہے وہ ایک پشت اوپر ہو یا سو، دوسو، ہزار پشتیں اوپر، تو بھائی بننے میں کیا کوئی کسر باقی رہ گئی؟ رہا طبیعت کا اختلاف، مزاج و مذاق کا اختلاف، صورت وشکل کا اختلاف، عقیدوں کا اورخیالات کا اختلاف، تو وہ کیا سگے بھائیوں میں نہیں ہوتا! اور پورے زور کے ساتھ نہیں ہوتا؟ لیکن اس کے باوجود بھی بھائی بھائی ہی رہتے ہیں۔  ایک دوسرے کے حق میں سنگ دل قصائی نہیں بن جاتے ۔ تو پھرقوموں اور ملکوں کا اختلاف بردرانہ یک جہتی کی راہ میں اس سے زیادہ کیوں حائل ہو؟ یہ اختلاف چاہے زبان اور بولی کا ہو یا رنگ و روپ کا، یہاں تک کہ مذہب کے اختلاف کا، اسے آخر اس کے درجہ سے زیادہ کیوں اہمیت دیجیے اور اسے انسان کی مشترک انسانیت یا آدم زادوں کی عام آدمیت پہ کیوں غالب آنے دیجیے؟

یہ تو ہوئی مسئلہ پرگفتگو ذرا مذہبی بنیاد پر اب محض عقلی حیثیت سے سوچیے، ساری دنیا میں فطرت کی طرف جونظم و نظام اور ضابطہ و انتظام قائم ہے وہ ہمیں کس نتیجہ کی طرف لے جاتاہے؟ ہرشئے دوسرے کی محتاج، ہر وجود قدم قدم پر دوسرے کی مددگار حاجت مند، بڑے چھوٹے کی کوئی خصوصیت نہیں۔ سردارکے بغیر فوج اگر بے سری رہ جاتی ہے تو خود افسر بھی بغیر سپاہیوں کے ایک بلا بارات کا دولہا ۔ رعایا اگر چتر شاہی کے سایہ کے بغیر منتشر و آوارہ بے والی وبے وارث، تو بادشاہ سلامت بھی بغیر رعایا کے لفظ بے معنیٰ وسایہ بلا جسم وہم بغیرحقیقت، چمار اور موچی، مہتر اور دھوبی، گھسیارے اور نائی، اگر یہ اپنے اپنے کام چھوڑ دیں تو پھر دیکھیے! وکیل صاحب اور ڈاکٹر صاحب، ڈپٹی صاحب اور کلکٹر صاحب، نواب صاحب اور راجہ صاحب کی کیا گت بن کر رہتی ہے۔  ان کے کام ان سے اٹکے ہوئے، ان کی ضرورتوں کی زنجیر ان کے دامن سے بندھی ہوئی، نہ کوئی کسی سے بے نیاز، ہر فرد دوسرے فرد کی طرف ہمہ احتیاج، تو سوا اسکے کیا چارہ رہ جاتاہے کہ عمل میں ایک دوسرے کو بھائی بنائے، دل سے بھی بھائی سمجھے اور زبان سے بھی بھائی کہہ کر پکارے ۔

انسان کی جوساخت وفطرت جو ترکیب و بناوٹ ہے ذرا اس پر دھیان دیجیے کہ خود اس کی پکار یا دعوت کیاہے۔  بھوک جیسی ایک انسان کو لگتی ہے ویسی ہی دوسرے کو، نیند جیسے مشرقی  کو آتی ہے ویسے ہی مغربی کو، محنت سے تھک کر چور اگر جسم ایک مسلمان کا ہوتا ہے تو ایک ہندو کا بھی۔  غصہ جس طرح ایک عیسائی کو آتا ہے اسی طرح ایک یہودی کو بھی۔  مال و دولت، صحت وطاقت، بیوی بچوں سے خوش جس طرح ایک افریقی ہوتا ہے اسی طرح ایک آسٹریلوی بھی، بیمار جس طرح ایک ملک کا باشندہ پڑتا ہے دوسرے ملک کا بھی ۔ پیدائش، حمل، وضع حمل کے جو قانون گورے کے لیے ہیں کالے کے لیے بھی، موت سے اپنے وقت پر جس طرح یہاں والے فنا ہوتے ہیں اسی طرح وہاں والے بھی ۔ غرض بشری جذبات، طبعی کیفیات، زندگی کے چڑھاﺅ اتار، شرکت کی یکسانیت، جبلتوں کی نوعیت کے اعتبار سے سارے انسان ایک ہی سطح پر ہیں۔  اور یہ گویا فطرت کی طرف سے پکار ہے کہ سب انسان بھائی ہی بھائی ہیں۔

بات اتنی صاف اورموٹی ہے کہ اب اس کو زیادہ پھیلایا کیا جائے ۔ سوا اس کے کہ اب یہ دیکھ لیا جائے کہ اس راہ میں حائل کون کون سے پتھر ہوتے ہیں، اور ہوسکے تو انھیں دور کردیا جائے۔

ہمہ گیر اخوت کا سب سے بڑا دشمن نیشنلزم یا قومیت کا چلا ہوا تصور ہے۔  رہی دوستی یا قوم پروری! بجائے خود بری چیز نہیں بلکہ انسان کے لیے تو عین ایک جذبہ فطری ہے، جیسے گھر بار کی محبت ویسے ملک وقوم کی محبت، اور وہ انسان ہی کیا جس کا دل اس جذبہ طبعی سے خالی ہو، لیکن نیشنلزم کا جو عام اور چلا ہوا تخیل یہ …

قوم جب تک خود میں تبدیلی پیدا نہیں کرلیتی اللہ تعالیٰ اپنی عطا کردہ نعمتوں سے اسے محروم نہیں کرتا۔  اسی پس منظر میں مولانا دریابادیؒ قوم کو جھنجھوڑ نے اور اسے اپنے احتساب پر آمادہ کرنے کی غرض سے لکھتے ہیں:

" یہ بیان کرتے ہوئے کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم زیادتی ذرا بھی نہیں کرتا۔  اور فرعونیوں یا ان کے پیشنیوں پر جو بھی گرفتیں ہوئیں۔  وہ محض ان کی مسلسل نا فرمانیوں کے پاداش میں ہوئیں آگے ارشاد ہوتا ہے کہ۔  ذالک........سمیع علیم ( الانفال پارہ ۱۰ ، آیت ۵۴) اور یہ سب اس لیے کہ اللہ جب کسی نعمت سے کسی قوم کو سرفراز کر چکتا ہے تو اس سے وہ نعمت نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ قوم اسی چیز کو نہ بدل لے جو اس کے دلوں کے اندر ہے اور اللہ بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے۔ اور یہی مضمون ایک دوسری جگہ مختصر اً یوں ارشاد ہوا ہے: اِن اللہ........ بانفسِھم ( الرعد، پ۱۳) اللہ کسی قوم کی (اچھی) حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے اندر تبدیلی نہ پیدا کرلے۔  دونوں آیتوں میں کلیدی لفظ بانفسھم ہے۔  یعنی جو کچھ ان کے اندر ہے۔  جو کچھ ان کے دلوں یا باطنوں میں ہے۔  آج کے عام فہم لفظوں میں۔  کوئی قوم جب تک اپنی سایکالوجی نہیں بدل دیتی۔  اپنے اندر نفسیاتی تبدیلی پیدا نہیں کرلیتی، اس سے کوئی بھی نعمت واپس نہیں لی جاتی۔  اور یہ تبدیلی اضطراراً  سہواً، اتفاقیہ نہیں ہوجاتی، بلکہ وہ قوم اسے اپنے ارادہ وہ اختیار سے کرتی ہے۔  حتیٰ یغیروا۔

امت کی تاریخ خود ان آیتوں کی بہتر ین اور جیتی جاگتی تصویر ہے۔  ان کی دنیوی نعمتیں جو ہجرت رسول سے چند سال کے اندر ہی اس امت کو مل گئی تھیں، وہ بجائے خود ایک معجزہ ہے اور ترقی و اقبال کی اس صبار رفتاری کی نظیر سے تاریخ عالم کے صفحات یکسر خالی ہیں۔  اب اس بلند اقبالی کا کہیں پتہ نشان بھی ہے؟ اسپین کی سر زمین پر سات سو سال تک حکومت کی۔  پھر جس حسرت اور بے کسی کے ساتھ اس زمین کو چھوڑنا پڑا۔  وہ بھی اپنی نظیر آپ ہے۔  ہندوستان جنت نشان  پر نو سوسال تک فرمان روائی کی۔  پھر حکومت چھنی۔  اور اب جو حالت ہورہی ہے۔  بالکل ظاہر و روشن ہے۔  ترکی کا رقبہ حصے بخرے ہوکر، آخر میں سکڑکر کتنا سا رہ گیا، حیدرآباد کو دیکھتے دیکھتے اپنے ہاتھوں گنوانا  پڑا، آج نام کی چھوٹی بڑی بیسوں مسلمان حکومتوں کے باوجود کسی ایک جگہ بھی مسلم قوم کا  احترام باقی ہے؟  وقار،  اعزاز کسی کی نظر میں بھی ہے،_ چو طرفہ اور ہر جہتی  نکبت و ادبار کا یہ عذاب۔ کیا آپ ہی آپ ہے؟ کون ساظلم شقاوت بہمیت، سنگدلی ہے، جو مسلمانوں نے اپنے  پر  اٹھا رکھی ہے امت کی تاریخ  کا  کون سا  صفحہ اپنوں ہی کے خون سے رنگین نہیں، شراب کتنے  شاہی  درباروں کا  ایک جزو لا ینفک نہیں رہی ہے؟ فسق  و فجور کی  دوسری  بدترین قسموں میں کب آپ کے بڑے اور چھوٹے عوام اور خواص کثرت سے نہیں پڑے ہیں۔  بیسواء اور حرام کاری کو پیشہ بنالینے میں کسی قوم کی عورتیں ہم  پر سبقت لے گئی ہیں؛_ آپ اس خیالِ خام میں اب بھی مگن ہیں، کہ یہ سب کچھ کر گزرتے رہیں، اور محض " ہم محبوب کی امت ہیں"  کی شاعری اور قوالی ۔  آپ کو اللہ کے قانون تکوینی کی زد میں آکر  پسنے  اور  پامال  ہونے سے  بچالے گی!(صدق جدید،لکھنؤ، ۳دسمبر ۱۹۶۵ء)  ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی

٭٭٭

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/