سچی باتیں۔۔۔ اتہام تراشی۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

03:19PM Sun 8 Jan, 2023

*سچی باتیں۔۔۔اتہام تراشی۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ*

  (مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید  لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب )

 http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/

1931.06.19

سچی باتیں (۱۹؍جون ۱۹۳۱ء)

رسول کریمؐ کے زمانے میں، جب بعض منافقین کی شرار ت سے، امت کی سب سے بڑی مومنۂ صدیقہ پر ایک نہایت گندی تہمت لگی، اور اس کے چرچے پھیلے، تو کلام مجید میں یہ دو آیتیں ناز ل ہوئیں:۔

۔(۱)  لولااذ سمعتموہ ظن المؤمنون والمؤمنات بأنفسہم خیرًا وقالوا ہذا افک مبین۔

جب تم لوگوں نے یہ گندی حکایت سنی تھی، تو مسلمان مردوں اور عورتوں نے اپنے لوگوں سے متعلق گمان نیک سے کام نہ لیا، اور چھوٹتے ہی یہ کیوں نہ کہہ دیا، کہ یہ صریح افتراء ہے!۔

۔(۲)  ولولا اذ سمعتموہ قلتم مایکون لنا أن نتکلم بہذا، سبحانک ہذا بہتان عظیم، یعظکم اللہ أن تعودُوا لمثلہ أبدًا ان کنتم مؤمنین۔

اور جب تمہارے کانوں تک یہ گندی حکایت پہونچی تھی، اُسی وقت تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا، کہ ہم کو، ایسی بات منہ سے بھی نہ نکالنا چاہئے۔ معاذ اللہ یہ تو بڑی سخت تُہمت ہے۔ اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ اگر تم ایمان والے ہو، تو ایسی حرکت پھر ہرگز کبھی نہ کرنا۔

خبر کے گڑھنے کا ذِکر نہیں، اتہام تراشی کا مذکور نہیں۔ گڑھی ہوئی خبر کے صرف قبول کرنے، اور بے سوچے سمجھے اُس کے چرچے کرنے پر یہ ڈانٹ پڑرہی ہے۔ کسی مسلمان پر افتراء تو کوئی مسلمان کیوں کرنے لگا، کسی افتراء کوقبول کرنا، اور اُس کی اشاعت میں معین ہونا بھی ہرگز کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا۔ ارشاد ہوتاہے، کہ ایسی نامعقول روایتوں او ر حکایتوں کے سننے کے ساتھ ہی انھیں رَد کردینا چاہئے، اور کسی مسلمان کی عزت پر حملہ سُن کراُسی وقت اس کے قبول کرنے سے صاف انکار کردینا چاہئے۔ وہ مسلمان کیسا، جو دوسرے مسلمان کی دیانت پر، عزت پر، اخلاق پر، حملہ ہوتے ہوئے دیکھے، اور چِپکا بیٹھارہے، یا یہ کہہ کر اپنا پیچھا چھُرالے، کہ سُنا ایسا ہی تھا۔ اُسے تو فورًا اُٹھ کر اُس کی تردید کرنا چاہئے۔ بغیر ا س کے وہ مسلمان ہی کیسا اور اُس کا ایمان ہی کیا!۔

آج دنیائے اسلام کے کسی گوشہ میں، اس پر عمل ہے؟ پبلک جلسے ہوں، یا گھروں کے اندر تخلیہ کی صحبتیں، اخبارات کے مقالات ہوں یا خانگی خطوط، کہاں یہی چرچے یہی تذکرے نہیں، کہ فلاں لیڈر قوم کا روپیہ کھاگیا، فلاں لیڈر انگریزوں سے مل گیا، فلاں لیڈر نے ہندوؤں سے رشوت لے لی، فلاں مولانا صاحب چھپے رستم نکلے، فلاں شاہ صاحب کی چوری پکڑ لی گئی، محلہ کے چودھری صاحب کی جوہر یوں کھُل کر رہے، شہر کے قاضی صاحب کی یہ یہ حرکتیں ظاہر ہوئیں، اس کا گھر جُواریوں کا اڈّا ہے، اُس کے ہاں کی بہو بیٹیوں تک کی عزت کا ٹھیک نہیں؟ جہاں چارمسلمان جمع ہوئے، نہ خدا کا ذِکر نہ رسول کا، نہ موت کی یاد، نہ اخرت کا فکر، بس غیبتیں ہیں تو مسلمانوں کی، اور بدگوئیاں ہیں تو اپنے ہی بھائی بندوں کی! ایک ایک گھر کے پتّرے کھُل رہے ہیں، اور دُنیا جہان کا کوئی عیب، کوئی الزام، ایسا نہیں، جو خود مسلمانوں ہی کی زبان سے مسلمانوں پر نہ لگ رہاہو! تہمتیں تراشنے والے مسلمان، اُن پر یقین کرنے والے مسلمان، اُنھیں پھیلانے والے مسلمان، نتیجہ رنجشوں، عداوتوں، مقدمہ بازیوں، فوجداریوں کی صورت میں، روزآنہ موجود، لیکن زبانوں کی چاٹ ایسی پڑی ہوئی، کہ ساری تکلیفیں گوارا، لیکن ان چرچوں اور تذکروں سے ہاتھ اُٹھانا ناممکن!۔

1931.06.19

رسول کریمؐ کے زمانے میں، جب بعض منافقین کی شرار ت سے، امت کی سب سے بڑی مومنۂ صدیقہ پر ایک نہایت گندی تہمت لگی، اور اس کے چرچے پھیلے، تو کلام مجید میں یہ دو آیتیں ناز ل ہوئیں:۔

۔(۱)  لولااذ سمعتموہ ظن المؤمنون والمؤمنات بأنفسہم خیرًا وقالوا ہذا افک مبین۔

جب تم لوگوں نے یہ گندی حکایت سنی تھی، تو مسلمان مردوں اور عورتوں نے اپنے لوگوں سے متعلق گمان نیک سے کام نہ لیا، اور چھوٹتے ہی یہ کیوں نہ کہہ دیا، کہ یہ صریح افتراء ہے!۔

۔(۲)  ولولا اذ سمعتموہ قلتم مایکون لنا أن نتکلم بہذا، سبحانک ہذا بہتان عظیم، یعظکم اللہ أن تعودُوا لمثلہ أبدًا ان کنتم مؤمنین۔

اور جب تمہارے کانوں تک یہ گندی حکایت پہونچی تھی، اُسی وقت تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا، کہ ہم کو، ایسی بات منہ سے بھی نہ نکالنا چاہئے۔ معاذ اللہ یہ تو بڑی سخت تُہمت ہے۔ اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ اگر تم ایمان والے ہو، تو ایسی حرکت پھر ہرگز کبھی نہ کرنا۔

خبر کے گڑھنے کا ذِکر نہیں، اتہام تراشی کا مذکور نہیں۔ گڑھی ہوئی خبر کے صرف قبول کرنے، اور بے سوچے سمجھے اُس کے چرچے کرنے پر یہ ڈانٹ پڑرہی ہے۔ کسی مسلمان پر افتراء تو کوئی مسلمان کیوں کرنے لگا، کسی افتراء کوقبول کرنا، اور اُس کی اشاعت میں معین ہونا بھی ہرگز کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا۔ ارشاد ہوتاہے، کہ ایسی نامعقول روایتوں او ر حکایتوں کے سننے کے ساتھ ہی انھیں رَد کردینا چاہئے، اور کسی مسلمان کی عزت پر حملہ سُن کراُسی وقت اس کے قبول کرنے سے صاف انکار کردینا چاہئے۔ وہ مسلمان کیسا، جو دوسرے مسلمان کی دیانت پر، عزت پر، اخلاق پر، حملہ ہوتے ہوئے دیکھے، اور چِپکا بیٹھارہے، یا یہ کہہ کر اپنا پیچھا چھُرالے، کہ سُنا ایسا ہی تھا۔ اُسے تو فورًا اُٹھ کر اُس کی تردید کرنا چاہئے۔ بغیر ا س کے وہ مسلمان ہی کیسا اور اُس کا ایمان ہی کیا!۔

آج دنیائے اسلام کے کسی گوشہ میں، اس پر عمل ہے؟ پبلک جلسے ہوں، یا گھروں کے اندر تخلیہ کی صحبتیں، اخبارات کے مقالات ہوں یا خانگی خطوط، کہاں یہی چرچے یہی تذکرے نہیں، کہ فلاں لیڈر قوم کا روپیہ کھاگیا، فلاں لیڈر انگریزوں سے مل گیا، فلاں لیڈر نے ہندوؤں سے رشوت لے لی، فلاں مولانا صاحب چھپے رستم نکلے، فلاں شاہ صاحب کی چوری پکڑ لی گئی، محلہ کے چودھری صاحب کی جوہر یوں کھُل کر رہے، شہر کے قاضی صاحب کی یہ یہ حرکتیں ظاہر ہوئیں، اس کا گھر جُواریوں کا اڈّا ہے، اُس کے ہاں کی بہو بیٹیوں تک کی عزت کا ٹھیک نہیں؟ جہاں چارمسلمان جمع ہوئے، نہ خدا کا ذِکر نہ رسول کا، نہ موت کی یاد، نہ اخرت کا فکر، بس غیبتیں ہیں تو مسلمانوں کی، اور بدگوئیاں ہیں تو اپنے ہی بھائی بندوں کی! ایک ایک گھر کے پتّرے کھُل رہے ہیں، اور دُنیا جہان کا کوئی عیب، کوئی الزام، ایسا نہیں، جو خود مسلمانوں ہی کی زبان سے مسلمانوں پر نہ لگ رہاہو! تہمتیں تراشنے والے مسلمان، اُن پر یقین کرنے والے مسلمان، اُنھیں پھیلانے والے مسلمان، نتیجہ رنجشوں، عداوتوں، مقدمہ بازیوں، فوجداریوں کی صورت میں، روزآنہ موجود، لیکن زبانوں کی چاٹ ایسی پڑی ہوئی، کہ ساری تکلیفیں گوارا، لیکن ان چرچوں اور تذکروں سے ہاتھ اُٹھانا ناممکن!۔