عالمی کانفرنس برائے اسلامی اتحاد ۔۔۔تحریر:۔۔ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی۔ کویت

Bhatkallys

Published in - Other

03:15PM Wed 2 Jan, 2019

مکہ مکرمہ میں منعقد ہونے والی اسلامی اتحاد کانفرنس

دسمبر ۲۰۱۸ء کی ۱۲ اور ۱۳؍تاریخ کو مکہ مکرمہ میں ایک بڑی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس کا عنوان:

-        عالمی کانفرنس برائے اسلامی اتحاد

-        افراد امت کو ملت سے خارج کرنے کے نقصانات

-        ‘‘وطنی حکومت’’ کے تصور اور اس کی مشترکہ قدروں کی حمایت

رکھا گیا تھا۔

کانفرنس کا انعقاد ‘‘رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ’’ کی دعوت پر اور سعودی عرب کے بادشاہ معظم کی سرپرستی میں ہوا اور اس کا افتتاح مکہ مکرمہ کے گورنر شاہزادہ خالد الفیصل نے کیا۔

ارض حرم کی نسبت ہی ایسی ہے کہ ادنی اشارہ پر ساری دنیا سے لوگ کشاں کشاں چلے آتے ہیں، چنانچہ شرکائے کانفرنس کی تعداد ایک ہزار دو سو (۱۲۰۰) بتلائی گئی جو دنیا کے ۱۲۷؍ملکوں کی شہریت رکھنے والے تھے۔

‘‘امت مسلمہ کا اتحاد’’ ہر زمانہ میں وقت کا اہم ترین مسئلہ رہا ہے اور موجودہ زمانہ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف چیلنجوں کو دیکھتے ہوئے یہ ضرورت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔

مکہ مکرمہ کی سرزمین پر اور خانہ کعبہ کے زیر سایہ اس طرح کی ہر کوشش قابل تحسین کہلائے گی۔

حضرت علامہ مناظر احسن گیلانی نے اب سے تقریباً پون صدی پہلے ‘‘مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا افسانہ’’ نامی کتاب لکھ کر مسلمانوں کے درمیان نقطۂ اتحاد کی نشاندہی کی تھی اور اختلاف وانتشار کو خارجی اسباب سے جوڑا تھا کہ جب اللہ ایک پیغمبرﷺ ایک، قرآن ایک، اور قبلہ ایک تو پھر یہ فرقہ بندیاں کیوں؟

لیکن حقیقت یہی ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے اور اختلاف وانتشار سے بچنے کی تلقین کرنے والی یہ امت مختلف سیاسی وغیر سیاسی عوامل کی وجہ سے مختلف گروہوں اور جماعتوں میں بنٹتی ہی چلی جارہی ہے اور ہر طرح کی کوششوں، تدبیروں اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجانے کی دعوتوں کے باوجود صورت حال یہی ہے۔                  ع

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

جس سے دشمنان اسلام کو ‘‘لڑاؤ اور حکومت کرو’’ کے اصول پر عمل کرکے مسلمانوں کو مزید کمزور کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

مکہ مکرمہ کی اس عظیم کانفرنس میں شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، زیدی، صوفی، دروزی سبھی فرقوں اور جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے اور سبھوں نے کانفرنس کے مقصد سے اتفاق کیا اور اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔

شرکائے کانفرنس کے عمومی تاثرات کے علاوہ علمی نشستوں میں جو موضوعات پیش کئے گئے وہ اس طرح کے تھے:

-          وسیع تر اسلامی اتحاد کی ضرورت

-          باہم اختلافات کے آداب

-          اسلامی اتحاد کی راہیں درپیش رکاوٹیں

اور ذیلی عنوانات ہیں:

-          مشترکہ قدریں

-          بقائے باہم کے اصول

-          دینی خطاب کی اصلاح

-          اسلامی اتحاد کا پروگرام

-          امت اور وطن کا مفہوم

-          دین کے محکمات

-          امت اور وطن کے درمیان تفریق میں انتہا پسندی کا دخل

-          دوسروں کو نظر انداز کرنے کا ذہن

-          تکفیر اور انتہا پسندی کے درمیان رشتہ

-          فقہی جمود کے اسباب ونتائج، وغیرہ

اس کانفرنس کے شرکاء میں سعودی عرب، مصر اور لبنان کے مفتیوں کے علاوہ برصغیر کے علماء میں حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی، مولانا ارشد مدنی، امام جامع مسجد دہلی، مولانا سید  احمد بخاری، جماعت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر امام مہدی، مولانا تقی الدین ندوی مظاہری، مولانا ڈاکٹر اقبال ندوی مدنی بھوپال اور بے شمار علماء ومشائخ شامل تھے۔

اس کانفرنس میں میری شرکت رابطہ عالم اسلامی کی دعوت پر ہوئی جس کے شرکاء کی تعداد توقع ہی نہیں تصور سے بھی زیادہ تھی۔

دراصل مکہ مکرمہ پہنچنے اور خانہ کعبہ کی زیارت کا ہر مسلمان کے دل میں والہانہ اشتیاق ہوتا ہے پھر جب ‘‘اتحاد امت’’ کا عنوان ہو مقدس شہر میں ضیافت کا شایان شان نظم، عمرہ اور زیارت مدینہ کا بیش بہا موقع تو ‘‘ہم خرما وہم ثواب’’ کے حصول کے لئے ہر کوئی آمادہ نظر آتا ہے۔

کانفرنس میں دو موقعے ایسے آئے جس میں نے اپنی رائے پیش کی اور زیر بحث موضوع سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ایک نشست میں ‘‘اختلاف کے اصول وآداب اور محکمات دین’’ کا موضوع زیر بحث تھا، اجلاس کی صدارت محمد بن سعود یونیورسٹی کے ڈائریکٹر سلیمان اباالخیل کررہے تھے اس نشست میں میری گفتگو کا حاصل یہ تھا:

‘‘تکفیر’’ کا فتنہ اتنا عام ہوگیا ہے کہ اس کی وجہ سے امت سخت آزمائش میں مبتلا ہے اور لوگوں کی جان ومال کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ‘‘تکفیر’’ کے اصول وضوابط عام فہم انداز پر مرتب کئے جائیں اور کسی کلمہ گو کی تکفیر کے نقصانات کو واضح کیا جائے اس سلسلہ میں امام غزالی کی کتاب ‘‘فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ’’ اور علامہ انور شاہ کشمیری کی کتاب ‘‘إکفار الملحدین’’ سے مدد لی جاسکتی ہے۔

اسی طرح بہت سے نوجوانوں کے ذہن میں ‘‘ولاء وبراء’’ کی اصطلاح کا صحیح مفہوم نہیں ہے چنانچہ جو چیزیں عقیدہ کے دائرہ میں نہیں آتی ہیں ان کو بھی غلط فہمی کی وجہ سے اس کا جزء سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر لوگوں پر ایسے حکم لگائے جاتے ہیں جو ملت میں تفریق کا باعث بنتے ہیں۔

حضور اکرمﷺ نے ہرقل کے نام اپنے گرامی نامہ میں إلی ہرقل ‘‘عظیم الروم’’ لکھا جس سے معلوم ہوتا ہےکہ اگر کسی غیر مسلم کی ہدایت کی امید ہو یا اس کے شر سے بچنے کی ضرورت ہو تو اس کے لئے ایسے القاب یا الفاظ لکھے جاسکتے ہیں جو احترام پر دلالت کرنے والے ہیں لیکن یہ ‘‘موالاۃ’’ نہیں ‘‘مدارات’’ کا مسئلہ ہے۔

اسی طرح اگر کوئی غیر مسلم حادثہ کا شکار ہویا بیماری میں مبتلا ہو تو اس کی مدد کرنا شرعی حکم کے منافی نہیں ہے لیکن یہ ‘‘مواسات’’ کا مسئلہ ہے، اسے ‘‘موالات’’ کے خانہ میں نہیں رکھنا چاہئے اور اس طرح کی اصطلاحات کو واضح طور پر بیان کیا جانا چاہئے۔

اسی طرح ‘‘اسلامی وحدت’’ کے موضوع پر بحث سے متعلق نشست میں جو کانفرنس کی تیسری علمی نشست تھی اور اس میں لبنان کے شیعی مرجع علی الامین کویت کے ڈاکٹر محمد الطبطبائی اور سوڈان کے ڈاکٹر اسماعیل، حی  اور مصر کے ڈاکٹر محی الدین عفیفی کے مقالات پیش ہوئےاور فرقہ واریت، تکفیر اور ملت سے خارج کرنے کی کوشش اور فکری جمود وغیرہ کے عنوانات پر گفتگو کی گئی۔

میرے تبصرہ کا حاصل یہ تھا کہ نظریاتی طور پر جو باتیں کہی گئی ہیں وہ بے حد اہم ہیں لیکن سوال یہ ہے ‘‘بلی کی گردن میں گھنٹی کون باندھے گا’’ کہ باہمی اختلافات پر قابو پایا جاسکے۔

اہل سنت کی نظر میں صحابہؓ اور آل بیتؓ سبھی قابل احترام ہیں اور دونوں سے محبت ہر مسلمان پر واجب ہے، چنانچہ آل بیت کے کسی فرد پر تنقید کو وہ برداشت نہیں کرسکتے، اب اگر دوسرا فریق حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کے بارے میں اپنا رویہ اگر بدل لے اور سب وشتم سے باز آجائے تو اتحاد کے راستہ کی رکاوٹ دور ہوسکتی ہے۔

اسی طرح وہ لوگ جو دوسروں کی تکفیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہیں، اور ان کا حال فرقہ مرداریہ کے سردار عیسی المردار کی طرح ہر کسی کی تکفیر کرتے رہتے ہیں جیسے ایک شخص نے ہاتھ پکڑ کے کہا کہ اللہ کی جنت جس کی وسعت زمین وآسمان سے بڑھ کر ہے اس میں کیا صرف تم اور تمہارے دو ماننے والے جائیں گے؟ تو وہ لاجواب ہوگیا۔

ایسے لوگ اپنا رویہ اگر بدل لیں اور کسی مسلمان کو کافر نہ کہیں تو اتحاد کی راہ میں حائل ایک اور رکاوٹ ختم ہوجائے گی۔

اس نشست کے ایک مقالہ نگار اور مجمع البحوث الاسلامیہ مصر کے سکریٹری جنرل نے فکری اور فقہی جمود پر گفتگو کرتے ہوئے یہ دعوی کر ڈالا کہ ساتویں اور آٹھویں صدی اجتہاد ترک کرکے تقلید کی راہ اختیار کرلینے کی وجہ سے تاریکی کا دور سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں ابن حجر، ابن الہمام، ابن تیمیہ، ابن القیم اور دوسری نابغۂ روزگار شخصیتیں پیدا ہوئیں اور اور ہر مذہب کے فقہاء نے لوگوں کو نئے مسائل کے احکام سے آگاہ کیا اور ضرورت کے مطابق اجتہاد کا سلسلہ کبھی موقوف نہیں ہوا، چنانچہ میں نے ان کے تجزیہ کو غیر مناسب قرار دیا اور کہا کہ فقہ اسلامی کی تاریخ میں ایسا تاریک دور کبھی نہیں آیا البتہ وہ لوگ جو اجتہاد کی اہلیت نہ رکھتے ہوں ان کے سامنے تو اجتہاد کا دروازہ بند ہی ہونا چاہئے۔

شرکائے کانفرنس میں ایک شخصیت مشہور مالکی فقیہ اور موریتانیہ کے سابق وزیر عبد اللہ بن بیہ کی ہے جو عرصہ تک ملک عبد العزیز یونیورسٹی جدہ کے پروفیسر رہے، اس وقت ان کو متحدہ عرب امارات کی افتا کونسل کا صدر بھی منتخب کرلیا گیا ہے اور معمر ہونے کے باوجود ان کا حافظہ قوی، ان کا علم تازہ، ان کے فکر میں ندرت ہے، انہوں نے ڈاکٹر یوسف قرضاوی صاحب کے عالمی اتحاد سے علاحدگی اختیار کرلی تھی۔

کانفرنس کی افتتاحی اور اختتامی نشستوں میں وہ شریک رہے ان کا کہنا ہے کہ ‘‘خلافت’’کے احیاء کا مسئلہ اجتہاد اور مصلحت سے جڑا ہوا ہے، وہ کوئی لازمی شرعی یا تعبدی مسئلہ نہیں ہے۔

اس سے ‘‘حکومت الہیہ’’ کے قیام اور ‘‘حاکمیت’’ کے خاص مفہوم کو سامنے رکھ کر سو سال سے جاری نزاع کو ایک نئی سمت میں لے جانے کی راہ کھلتی ہے، اور بیرونی محاذ سے ہٹ کر جو داخلی کشمکش مختلف مسلم ملکوں میں جاری ہے اور جس کی وجہ سے ہزاروں جانیں اس طرح جارہی ہیں کہ قاتل بھی مسلمان اور مقتول بھی مسلمان اس سے نکلنے کی راہ کی نشاندہی ہوتی ہے، یہ موضوع مزید توضیح وتنقیح چاہتا ہے، لہذا      ع

صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے

حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں امامت وخلافت کے تصور کو خود عصر حاضر کے بعض مفکرین نے معمہ بناکر رکھ دیا ہے اس لئے ‘‘الاحکام السلطانیہ’’ سے لے کر حضرت شاہ اسماعیل شہید کی ‘‘منصب امامت’’ تک کا جائزہ لے کر عصر حاضر کے مفکرین کی کتابیں پڑھنی چاہئیں اور ان کے فکر وخیال پر عصر حاضر کے سرمایہ دارانہ اور جمہوری نظام اور اشتراکیت وغیرہ کے رد عمل کا جائزہ لینا چاہئے ورنہ خلافت وملوکیت پر حکم لگانے میں ناہمواری بر قرار رہنے کی اس وقت تو      ع

شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیرہا

کے مرحلہ سے امت دوچار ہے۔

انہو ں نے مشہور مالکی عالم قاضی عیاض کے حوالہ سے یہ دلچسپ نکتہ بھی پیش کیا کہ اختلاف وانتشارکی حالت اور متعدد مسلم حکومتوں کے قیام کی شکل میں حرمین شریفین پر جس کا اقتدار ہوا سے ‘‘خلیفہ’’ کا مقام حاصل ہوسکتا ہے۔

کانفرنس کے اختتام پر ۱۳؍صفحات پر مشتمل بیان جاری کیا گیا جس میں کانفرنس کی کارروائی اور مستقبل میں اسلامی اتحاد کی پائیداری کے لئے تفصیلی پروگرام پیش کیا گیا ہے اور انتہا پسندی سے باز رہنے اور ‘‘وطنی حکومت’’ کے تصور کو پختہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ واللہ ولی التوفیق۔