سفر تمام ہوا نیند آئی جاتی ہے حفیظ نعمانی

Bhatkallys

Published in - Other

02:06PM Sun 13 Aug, 2017
آؤ کہ آج ختم کریں داستان عشق اب ختمِ عاشقی کے فسانے سنائیں ہم دس سال تک ہندوستان کے نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے پوری کرکے حامد انصاری صاحب سرکاری پابندیوں سے آزاد ہوگئے۔ انہوں نے رُخصت ہوتے ہوئے جو کچھ کہا اس کے ایک ایک لفظ سے محسوس ہورہا تھا کہ یہ دس برس انہوں نے پھولوں ہی پر نہیں کانٹوں پر بھی گذارے ہیں۔ اور یہ تو پانچ برس پہلے بھی ہم نے لکھا تھا اور پھر دُہرایا بھی تھا کہ جب صدر کا انتخاب ہورہا تھا تو حامد انصاری صاحب نائب صدر تھے اور ہمیشہ تو نہیں لیکن بار بار ایسا ہوا ہے کہ جو نائب صدر رہا اس کو ہی صدر بنا دیا گیا۔ ملک کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد کی صدارت کو جب پانچ برس پورے ہوگئے تو کانگریس ورکنگ کمیٹی میں یہ مسئلہ اُٹھا کہ اگلا صدر کون؟ ڈاکٹر رادھا کرشنن پانچ سال سے نائب صدر تھے۔ مولانا آزاد نے کہا کہ راجن بابو صدر ہیں اور وہی رہیں گے۔ اس کے جواب میں کسی نے کہا کہ ڈاکٹر رادھا کرشنن نے کہہ دیا ہے کہ میں دوبارہ نائب صدر نہیں رہوں گا۔ مولانا آزاد نے اپنے خاص انداز میں فرمایا کہ تو پھر ہم لوگوں کو بھی پانچ پانچ برس ہوگئے سب کو ہٹ جانا چاہئے۔ پھر فرمایا ڈاکٹر رادھا کرشنن کا مسئلہ میرے اوپر چھوڑ دیئے۔ اور سب نے دیکھا کہ مولانا نے جادو کردیا اور وہ دوبارہ نائب صدر بن گئے۔ حامد انصاری صاحب جب نائب صدر تھے اور صدارت کا الیکشن آیا تو مسز سونیا گاندھی نے نہ جانے کتنی بار کہا کہ کانگریس کے پاس دو اُمیدوار ہیں پرنب مکھرجی اور حامد انصاری۔ اور جب فیصلہ کا وقت آیا تو وزیر اعظم اور سونیا گاندھی نے پرنب مکھرجی کے کاندھوں پر شال ڈال دی۔ ہم تو غور سے یہی دیکھتے رہے کہ وہ حامد انصاری صاحب کہاں گئے جو برابر کے اُمیدوار تھے؟ اگر انہیں نہیں بنانا تھا تو پرنب مکھرجی کی تاج پوشی میں ایک ریشمی چادر اُن کے ہاتھ سے بھی ڈلوانا چاہئے تھے۔ نائب صدر حامد انصاری صاحب نے رُخصت ہوتے وقت ان تمام زخموں کے اوپر سے پردہ ہٹا دیا جو دس برس سے کھاتے رہے تھے۔ وہ پہلے بھی بولتے رہے ہیں اور اشارہ کرتے رہے ہیں۔ لیکن جن کی طرف اشارہ تھا ان کی کھال اتنی موٹی ہے کہ اثر ہی نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے بل پر جتنا اور دوسروں کا دکھانے کے لئے بنانا، دونوں میں بہت فرق ہے۔ جب دوسرے مصلحت کے تحت بناتے ہیں تو وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ صرف ہماری تعریف کرے اور قصیدہ پڑھے انہیں یہ برداشت نہیں کہ اپنے علم و فضل، تجربہ اور مشاہدہ سے ہیں نصیحت کرے۔ انصاری صاحب نے جب کہا کہ ’’کسی بھی جمہوریت کی شناخت اس میں ملے اقلیتوں کے تحفظ سے ہوتی ہے‘‘۔ انہوں نے ڈاکٹر رادھا کرشنن کے الفاظ بھی دُہرائے۔ لیکن ملک کے موجودہ مالکوں کا مزاج بہت نازک ہے پر انہیں نہ یہ اچھا لگا کہ نائب صدر نے گھر واپسی، لوجہاد اور گؤ رکشکوں کی بھیڑ کی چیرہ دستیوں کی طرف اشارہ کیا اور نہ یہ اچھا لگا کہ مسلمانوں میں عدم تحفظ کے احساس کا ذکر کیا۔ آج جو حکومت ہے وہ یہ بھی برداشت نہیں کرتی کہ کوئی 2002 ء کے گجرات کی بات کرے۔ اسے صرف سابق وزیر شاہ نواز حسین جیسے مسلمان اچھے لگتے ہیں جو جب گفتگو شروع کرتے ہیں تو دنیا کے ہر ملک کا نام لینے کے بعد یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ اور پورے عالم اسلام میں بھی مسلمان اتنے محفوظ نہیں ہیں جتنے بھارت میں ہیں۔ حامد انصاری صاحب نے دس برس راجیہ سبھا کے چیئرمین کی حیثیت سے جو کردار ادا کیا ہے اس کے بارے میں ان کے یہ الفاظ کہ ’’مجھ پر الزام اتنے لگے کہ بے گناہی کے انداز بدل گئے۔‘‘ لیکن ایک بار بھی راجیہ سبھا سے باہر کسی کو ان کی طرف انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں ہوئی۔ الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ ہم دونوں ایوانوں اور ہم وطنوں کی طرف سے مسٹر انصاری کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اور ان کو نیک خواہشات پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ مسٹر انصاری مختلف کردار میں ملک کی خدمت کرتے رہیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایوان کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا ہے ہوسکتا ہے کہ انہیں کچھ پریشانی محسوس ہوئی ہو لیکن اب اس سے نجات مل گئی۔ وزیر اعظم نے تسلیم کیا کہ انہوں نے اپنے غیرملکی دوروں میں ان کے سفارتی تجربات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے مسٹر انصاری کے ساتھ اپنے تعلقات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے انہیں مسٹر انصاری کا ہمیشہ تعاون حاصل رہا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اقبالؔ اور غالبؔ کے شعر بھی پڑھے ’اور تم سلامت رہو ہزار برس‘ کی دعائیں دیں۔ مسٹر حامد انصاری صاحب نے اگر دس برس نہیں تو تین برس ایسے ضرور گذارے جن کی تلخ یادیں وہ کوشش کے باوجود نہ بھلا سکیں گے۔ ان کی عمر ماشاء اللہ 80 سال ہوچکی لیکن وہ پوری طرح چاق و چوبند ہیں۔ اور وہ مسلم یونیورسٹی جس کے وہ وائس چانسلر رہے اور وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ جو مسلمانوں کے لئے چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں وہ ان کی طرف اُمید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ خدا کرے وہ اپنے قیمتی وقت میں سے ان کے لئے ضروری وقت نکال لیں۔