سچی باتیں (۸؍جنوری ۱۹۳۲ء)۔۔۔ میدان حشر۔۔۔مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

02:00PM Sun 21 May, 2023

وَلَو تَرَی اذِ الظَّالمون فی غمراتِ المَوتِ والملائکۃ باسطوا أیدیہم أخرجوا أنفسکم الیوم تُجْزَوْنَ عذاب الہون بما کنتم تَقُولون علَی اللہ غَیر الحقِّ وَکُنتم عَن آیاتہ تستکبرون وَلَقد جئتمونا فُرادیٰ کَما خَلقَکُمْ وتَرکْتُم ما خوّلناکم وراء ظہورکم وَما تَریٰ معکم شُفعاء کم الَّذین زَعمتم أنّہم فیکُم شرکاء وَلَقَد تَقَطّع منکم وضلّ عنکم ما کنتم تَزْعُمون۔

کاش تم دیکھتے، جس وقت یہ ظالم مَوت کے بے ہوشیوں میں ہوں، اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوں، کہ اے اپنی جانیں نکالو۔ آج ہی تو تم کو ذلت والی سزا ملے گی، اُس جُرم کی، کہ تم اللہ کی جانب کیسا کیسا جھوٹ گڑھا کرتے تھے !اور تم ہمارے پاس ایک ہی ایک کرکے آؤ گے، جیسے اول بار پیدائش کے وقت، بھی ایک ہی ایک تھے۔ اور جو کچھ ہم نے سازوسامان دے رکھاتھا، سب پیچھے ہی چھوڑ آؤ گے۔ اور اب (یعنی قیامت کے دن) تمہارے ساتھ وہ سفارشی تو دکھائی نہیں دیتے، جن کی بابت تمہارا یہ دعویٰ تھا کہ وہ تمہارے شریک ہیں، اور جو جو تمہارے رابطے تھے سب ٹوٹ پھوٹ گئے، اور جو جو دعوے تمہارے تھے، وہ سب پاش پاش ہوکر رہ گئے!

روزِ آخر کا ہولناک نقشہ آپ نے دیکھا؟ یہاں کی بڑائیاں اور یہاں کی لذتیں کچھ کام نہ آئیں گی۔ یہاں کی خوش تدبیریاں اور یہاں کی پارٹی سازیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی، یہاں کے ساعی، سفارشی، دوست احباب کوئی نہ پوچھے جائیں گے۔ کام اُس سے پڑتاہے، جو زبانوں کا نہیں، دلوں کا عالِم ہے، لفظوں پر نہیں، معانی پر خبردار ہے۔ ساری چالاکیاں، سارے جوڑ توڑ، بیکار ثابت ہوں گے، اور دودھ کا دودھ، پانی کا پانی الگ ہوکر رہے گا۔ آج جو اپنی بڑائی کے قائم رکھنے کی دُھن میں ہیں، آج جو حق کے وضوح کے بعد بھی، اس کے قبول کرنے میں عار وتوہین محسوس کرتے ہیں، اور جو حق تعالیٰ کی شان میں طرح طرح کی بیہودہ گوئی کرتے رہتے ہیں، اُن کے حق میں یہ ارشاد ہورہاہے، کہ اُنھیں جو عذاب دیا جائے گا ، وہ خیر سخت وتکلیف دہ تو ہوتا ہی، اُن کے لئے باعث ذلت وتوہین (عذاب الہُون) بھی ہوگا۔ آہ، آج جو چند انسانوں کے سامنے قبول حق واعتراف خطا کرتے شرماتے ہیں، اُس وقت اُن کے دلوں پر کیا گزرے گی ، جب میدان حشر میں، بے شمار اور بے انداز مجمع کے روبرو، وہ اپنی طرح طرح کی توہین ورسوائی ہوتے دیکھیں گے، اور اتنے بے بس ہوں گے، کہ زبان تک نہ ہلاسکیں گے!

سب سے زیادہ غوروتامل کے قابل یہ الفاظ ہیں، کہ جس طرح اکیلے، دنیا میں بھیجے گئے تھے، اُسی طرح اکیلے واپس بھی آؤ گے (ولقد جئتمونا فرادیٰ کما خلقناکم أول مرۃ)۔ پُرسش ہر شخص سے اس کے اپنے اعمال کی ہوگی۔ جو ابدہی کے وقت کوئی کانفرنس، کوئی کمیٹی منعقد نہ ہوگی۔ ہر شخص سے سوال یہ ہوگا، کہ اُس نے اپنے فرائض کے اداکرنے میں کیوں کوتاہی کی۔ دوسروں کے افعال کی ذمہ داری دوسروں پر ہے، ہرشخص ذمہ دار خود اپنے اعمال کاہے۔ آہ، کہ آج کتنے اسی ابتدائی سبق کوبھولے ہوئے ہیں، او ر اپنے فرائض کو چھوڑ کر ، فلاں کانفرنس، فلاں انجمن، فلاں کمیٹی کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں۔ مقدم فکر خود اپنی ، اور اپنے اعمال کی ہونی چاہئے، نہ کہ دنیا جہان کے قصوں کی۔

  (مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید  لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب )