ڈاکٹر رقیہ جعفری کی یاد میں ۔۔۔۔ تحریر : عبدا لمتین منیری ۔ بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Other

05:24PM Mon 30 Jul, 2018

ammuniri@gmail.com

آج 29 /جولائی  2018ء محترمہ ڈاکٹر رقیہ جعفری کی رحلت کی خبر سن کر دلی صدمہ ہوا ۔ وہ ہمارے محسن صدیق محمد جعفری مرحوم کی رفیق حیات تھیں ۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ جوڑیاں آسمان پر بنتی ہیں  یہ جوڑی  اس کے مصداق تھی ۔  جعفری صاحب نے 2005 میں 63 سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔ اپنے شوہر نامدار کے بعد آپ  تیرہ سال بقید حیات رہیں ۔ اس  دوران آپ نے جعفری صاحب کی یاد دلوں میں زندہ رکھنے کے لئے بھرپور جتن کئے ، اور مرحوم کے مشن کو جاری رکھنے  کی  بساط بھر کوشش کرتی رہیں۔ایک وفا شعار بیوی کا  رویہ  زندگی کے آخری سانس  تک نبھایا ۔   جعفری صاحب کے انتقال کے کوئی دو ایک سال بعد اتفاقا  ایک  دفعہ  ملاقات ہوئی تھی۔ بڑی ناراض لگ رہی تھیں کہ قوم نے جعفری صاحب کو بھلادیا ، ان کی خدمات کو یاد نہیں رکھا ،انہیں اس اظہار  ناراضگی کا حق تھا ، لیکن  انہیں کون بتاتا کہ آپ تو مرنے والے کی بات کررہی ہیں ۔ یہاں تو زندگی ہی میں ان افراد کو   کنارے لگادیا جاتا ہے ، جن کی خدمات کی نہر ابھی رواں دواں  ہے ۔خدمت کی روح ابھی ان میں تازہ ہے ۔

  بھٹکل کے جن لوگوں نے  1970 سے پہلے کے معاشی حالات نہیں دیکھے ان کے لئے اب جعفری صاحب اور ان کے والد کی خدمات کا اندازہ لگا نا آسان نہیں ۔ جعفری صاحب 1968 ء میں دبی آئے تھے ۔ اس زمانے میں یہاں پر بھٹکلی احباب کی تعداد ہاتھ پر انگلیوں  کی تعداد سے بھی کم تھی ، اب  یہ ڈھائی تین ہزار تک پہنچ چکی ہے ،  بعد کے دنوں میں بھٹکل میں جو خوشحالی آئی، یہاں پر تعلیمی ادارے فروغ پائے ،اس میں  سنہ ستر کے بعد  دبی  آنے والوں کی قربانی کا بھی بڑا حصہ رہا  ہے ، مرحوم نے کوئی تیس قبل  باتوں باتوں میں کہا  تھا کہ اب تک وہ  قومی احباب کے پانچسو ویزٹ ویزے میں اپنی کمپنیوں سے مفت  نکال  چکے ہیں  ، اور اس وقت جتنے بھٹکلی دبی میں معاش سے لگے ہوئے ہیں ان میں سے زیادہ تر ان ویزوں پر پہلے پہل آئے ،یا پھر  آنے والے  اپنے ان اعزہ و اقارب کے توسط سے یہاں پر بہتر ذریعہ معاش سے جڑے ہیں ۔  اسی طرح  آپ  کے والد ماجد  نے جہاں اب الراس میٹرو ہے اس کے قریب  ایک ہوٹل لگا   کروطن سے آنے والے نوواردوں کو بھوک پیاس کی فکر سے   آزاد کردیا، اور ذریعہ معاش سے لگنے کے بعد ادائیگی کی  انہیں سہولت  فراہم کی ،جن میں سے  ایک اچھی خاصی تعداد نے  کشادگی رزق کے بعد  اس کا بل قرض سمجھ کر ادا نہیں کیا  ۔ ، ان  دونوں باپ بیٹے کی فراہم کردہ آسانیوں سے قوم آگے بڑھتے  گئی ،   ان کی یہ خدمت مسلمانان بھٹکل کی ترقی کی راہ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ انہیں بھولنا احسان فراموشی شمار ہوگی ۔

مرحومہ کا تعلق بنگلور سے تھا، یہیں سے آپ نے میڈیکل میں یم بی بی یس پاس کیا تھا، اورجعفری صاحب سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی تھیں ۔ اور جلد ہی یہ میاں بیوی دبی پہنچ گئے تھے  ۔جہاں جعفری صاحب نے چند روز ملازمت  اختیار کی  اور پھر  اپنا ذاتی کاروبار شروع کر دیا ، اور ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی  الصدیق کلینک اوپن کی جو دبی میں نسوانی امراض کی ابتدائی علاج گاہوں میں شمار ہوتی تھی ، سنہ 1970 کی دہائی میں ڈاکٹر صاحبہ دبی میں بہت معروف رہیں ۔ اس وقت  یہاں نسوانی علاج و معالجہ  کرنے والی ڈاکٹرنیاں شاذ و نادر تھیں  لہذا  اولین مقامی ڈاکٹر زینب کاظم کے ساتھ ساتھ آپ کا بھی  نام  لیا جاتا تھا۔ مقامی حکمران خاندان کی مستورات بھی علاج معالجے میں آپ پر اعتماد کرتی تھیں ۔ جعفری صاحب نے  سنہ 1970 کی دہائی  کے نصف اخیر میں اسلامی فکر پر مبنی الصدیق انٹرنیشل اسلامک اسکول اور پھر سنٹرل اسکول آف انڈیا قائم کیا ، آج تو یہاں اسکولوں اور کالجوں کا ایک جال بچھاہوا ہے ۔لیکن آپ نے بالکل  ابتدئی زمانے میں سینٹ میر ی  وغیر ہ   مقبول مشنری اسکولوں کے بالمقابل اسلامی طرز کا ایک عصری اسکول قائم کرنے  کا سہرا اٹھایا ۔ اس کے لئے انہوں نے باقاعدہ نصاب تعلیم تیار کرنے کی بنا ڈالی ، جس کے لئے  ایک باصلاحیت خاتون صفیہ اقبال ورق والا کی رفاقت نے اس کوشش میں چار چاند لگادئے ۔  اب  یہ چاروں یکے بعد دیگرے  اللہ کو پیارے ہوگئے  ، اسی طرح سب کو  اپنی آخری آرام گاہ کی طرف لوٹنا ہے ۔

اس جوڑے میں فکر ی یکسانیت تھی ، کچھ دینی و اجتماعی کام کرنے کا ولولہ بھی تھا۔  ڈاکٹر صاحبہ نے اسکول کی تعمیر و ترقی    میں اپنے شوہر نامدار کا خوب ہاتھ بٹایا ، اور اس کے لئے دن رات ایک کردئے ۔ اور خود کو یکسوئی کے ساتھ اسکول کے لئے وقف کردیا ۔ قانونی پیچیدگیا ں بھی کچھ ایسی آئیں کہ سنہ 1980 ء کی دہائی میں کلیکنک کے لئے  انہیں وقت دینا  مشکل  ہوگیا ۔ شاید  اسی میں اللہ کی مصلحت پوشیدہ تھی ۔ اسکول اس جوڑے کی جد و جہد سے ترقی کی منازل طے کرتے  بلندی کی طرف رواں دواں تھا ، اچانک  1988ء میں جعفری صاحب کو دوسرے تجارتی نقصانات کی بھرپائی  کے لئے  دبی چھوڑنا پڑا جس کے بعد یہ اسکول ان کے  ہاتھوں سے چلا گیا۔   آج اس زمین پر  الصادق اسکول کے نام سے  ایک اسکول قائم ہے  ۔ یہ اس جوڑے کی زندگی کا بہت بڑا سانحہ تھا۔

وطن جاکر بھی اس جوڑے نے ہمت نہیں ہاری ، تعلیمی و تربیتی خدمات  اور سرگرمیوں میں  اپنی صلاحیت اور وقت نچھاور کرتے رہے ۔مظفر کولا صاحب نے نونہال اسکول کے قیام میں ان کی خدمات حاصل کیں ۔ اس  دور میں ناموری نے اس اسکول کے  قدم چومے ۔ اوریہاں پر بھی اسلامی بنیادوں پر قوم کی  نسلیں بہترین تعلیم و تربیت کے زیور سے مزین و آراستہ ہوئیں ۔

جعفری صاحب کی رحلت کے بعد تو مرحومہ بنگلور ہی کی بن کر رہ گئی تھیں  ۔ کبھی کبھار بچوں ملنے  امریکہ وغیرہ آنا جانا ہوتا ۔شوہر کے  بعد جوان بیٹے شاہد کی جدائی کا غم بھی انہیں سہنا پڑا ۔ اپنے شوہر کے ایصال ثواب کے لئے انہوں نے ایک مسجد بھی تعمیر کی تھی ، اور ان کے نقش قدم پر انگریزی میں دعوتی لٹریچر بھی تیار کرکے بانٹا کرتی تھیں ۔ ان کے کئی ایک منصوبے تھے جو اپنے سینے میں دبا کر قبر میں  لیٹ گئیں۔

اب جب کہ مسلمان لڑکیوں  میں عصری تعلیم کا شوق بڑھ گیا ہے ، بھٹکل جیسے قصبوں میں جہاں مقامی  لڑکیوں میں تعلیم کا تناسب سوفیصد   کے قریب ہے  ، ایسی فکر مند باصلاحیت اور تعلیمی مقاصد کے لئے سب کچھ قربان کرنے والی خواتین کی ضرورت کب ختم ہونے والی ہے ۔

ڈاکٹر رقیہ کوئی فرشتہ نہیں تھیں ،بحیثیت انسان ان میں بھی خامیا ں رہی ہونگی ۔ لیکن ان کی خوبیاں خامیوں سے زیادہ نظر آتی تھیں ، ان سے ملنے والے ان خوبیوں کومحسوس بھی کرتے تھے ۔ اللہ ان کی مغفرت کرے او ر ان کے درجات بلند کرے ۔

‏30‏/07‏/2018ء