مولانا عبد الباری فرنگی محلی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

04:26PM Sun 19 Dec, 2021

 تحریر و تاثرات:  مولانا عبد الماجد دریابادیؒ،  نشریہ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن ۱۲جنوری ۱۹۵۰ء۔

(لکھنؤ کے مشہور عالم مولانا عبدالباری فرنگی محلی اپنے زمانہ کے شیخ طریقت تھے  اور لکھنؤ کی تہذیبی و  سماجی  زندگی میں مخصوص مقام رکھتے تھے، کانگریس وتحریک خلافت کے لیڈروں سے مولانا  کے خصوصی تعلقات تھے۔)

"بات ۱۹۲۰ءکے آخر کی ہے یا شایدشروع ۱۹۲۱ء کی ۔ ایک روزسہ پہرکو دیکھتے کیا ہیں کہ موٹروں پر موٹریں آکر فرنگی محل کے پل پر رک رہیں ہیں، اورملک کے مشہور لیڈر ایک سے ایک اونچے اتر رہے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ آج شہر میں خلافت اور کانگریس کمیٹیوں کے اجلاس ہیں، اورملک بھر کا لیڈر اُن میں اُمنڈ آیا ہے۔ لیکن شہرکے اس محلہ سے ان حضرات کو واسطہ کیا؟ یہ لیجیے اب تو سواریاں پُل کے ڈھال سے اتر پارچہ والی گلی میں چلنے بھی لگیں۔  اور پہچانیے یہ تو پنڈت موتی لال نہرو اترے۔  یہ ان کا سا نفاست پسند اور شاہانہ مزاج کا لیڈر اس میلی کچیلی گلی میں کہاں۔ اور دیکھیے یہ مسز سروجنی نائڈو کا جلوہ نظر پڑا۔  یہ قیصر باغ اور ڈالی باغ کے سبزہ زاروں کو چھوڑ چھاڑ ادھر کیسے؟ وہ حکیم اجمل خاں نکلے۔  یہ ڈاکٹر انصاری نمودار ہوئے۔  وہ لالہ لاجپت رائے دکھائی دیے ۔غرض کانگریس اورخلافت اور ترکِ موالات کے جتنے بھی لیڈر ہیں، کیا بڑے اور کیا چھوٹے، کیا ہندو اور کیا مسلمان، کیا پنجابی اور کیا گجراتی، سب ہی تو نظر آرہے ہیں۔  اور اب دیکھیے سب کا رخ فرنگی محل کے مشہور مکان محل سرا کی طرف پھر گیا، مشہور عالم و فاضل مولانا قیام الدین عبدالباری کی مشہور حویلی ۔  وہیں دن کے کھانے کی دعوت ہے، عقدہ اب کھلا۔ اللہ اکبر یہ لیڈر فرنگیوں سے اس قدر بیزار اور ایک فرنگی محلی کے یار غار! اور یہ دعوت کچھ آج پہلی یا آخری بارتھوڑے ہی ہے ۔ محل سرا تو گویا اب مہمان سرا ہے۔  ہر روز دعوتیں، آئے دن مہمان داریاں، ہر دعوت مہمان اور میزبان دونوں کے شایان شان ۔

مولانا کی شخصیت اپنے زمانہ میں (اور وہ زمانہ ابھی کل ہی کی بات تو معلوم ہورہا ہے) ایک عجیب وغریب با برکت و نفع رساں، صاحب علم وعمل اور جامع ذات گزری ہے۔  خاندان فرنگی محل پشت ہا پشت سے نامور چلا آرہا تھا۔  یہ بزم ہستی میں آخر میں آئے، لیکن بساط عظمت پر جب بیٹھے تو کسی سے ہیٹے رہے نہ پیچھے۔

سال پیدائش۱۸۷۷ءہے وہی سال جو چند مہینہ ہٹ کر مسلمانوں کے محبوب و مشہور لیڈر مولانا محمدعلی کا سنہ ولادت ہے ۔  وفات ۱۹۲۶ء میں ہوئی ۔  گویا عمر کچھ بھی نہ پائی ۔  ۴۸ سال کی عمربھی کوئی عمر ہوتی ہے۔

دین کی خدمت، پڑھنے پڑھانے کا، لکھنے لکھانے کا ورثہ بزرگوں سے ساتھ لائے تھے، اپنی ذات سے یہ سارے جوہر چمکا دیے۔  پڑھنے کے زمانہ میں علم کی بھوک اس بلا کی تھی کہ لکڑی کے کھرّے  پلنگ پر سرہانے  چمڑہ  کا کڑا تکیہ  رکھ کرسوتے کہ زیادہ  غفلت نہ  ہونے پائے،  اور روشنی  پاس رکھی ہوئی  ادھر آنکھ کھلی  ادھر کتاب  پرنظر جم گئی ۔ بیوی کو دل و  جان  سے  چاہتے  تھے  وہ بیچاری  اپنی کم سنی  میں اللہ  کو پیاری  ہوگئیں ۔  یہ  اس محبوب کو آغوشِ  لحد  میں  اتار  عین  اس روز بھی  استاد کے سبق میں موجود! پڑھانے کی حرص کا یہ عالم  کہ ابھی تحصیل علم جاری  ہی تھی کہ تدریس شروع کردی،  پڑھ  ہی  رہے  تھے کہ پڑھانے بھی لگے،  اور آخر  میں  تو یہ  نوبت  پہنچ گئی تھی کہ بعد فجربھی سبق  اور قبل  دوپہر بھی سبق،  اورسہ پہر کو بھی سبق، اور اکثر شب میں بھی سبق ۔ شاگردوں کا شمار کون کرے،  خدا جانے کتنے بے علموں کو پڑھا لکھا  بنا دیا، حرف شناسوں کو فضیلت کی دستار بندھوا دی ۔ ایک چیز میں اپنے  بزرگوں سے بھی آگے بڑھ گئے ۔ان کے ہاں معقول  و منقول کے اور  درس  تو بہت سے  ہوا کرتے  تھے، مستقل  قرآن  مجید  کا کوئی درس نہ تھا۔ آپ نے انگریزی خوانوں کی ایک مختصر کلاس لے  درس قرآن کی طرح  ڈال  دی۔ شاید پانچ پارے ہوپائے تھے کہ جنت سے بلاوآگیا۔

ایک اور چیز میں بھی  اپنے بڑوں سے بازی لے گئے تھے، ان کے زمانے تک پڑھانے کا وہی پرانا طریقہ منہج  کا جاری تھا،  یعنی ہر  استاد  کی  ذات  خود ایک  مدرسہ بنی  ہوئی، آپ نے پہلی بار یہ کیا کہ اس فیض جاری کو ایک نظام کے ماتحت اورضابطوں کی قید میں  لا کر  ایک با قاعدہ  درس گاہ  کی شکل دے دی،  نام  اپنے مورث اعلیٰ اور بانی  درس نظامیہ  ملا نظام الدین کے نام پر  مدرسہ نظامیہ رکھا۔  مولوی  اور مولانا  کے امتحانات اور سندیں جاری کیں، اور اپنی ہمت عالی سے کام لے کربڑے بڑے عطیے اور درماہے اس کے لیے رئیسوں سے حاصل کرلیے ۔ قلم اٹھایا تو تصنیف و تالیف کا ایک انبار لگا دیا۔ سیرت سلوک، صرف، نحو، ادب، منطق، فقہ، اصول فقہ، کلام،  مناظرہ، حدیث  و تفسیر  خدا جانے کتنے علوم  و فنون  پرچھوٹی بڑی سو سے  اوپر کتابیں تیار کردیں،  اردو کے علاوہ عربی میں بھی  اور یہ گنتی  تو مستقل کتابوں کی ہوئی۔  حاشیے جو بہت سے لکھ ڈالے ان کا شمار ہی نہیں۔  مدت عمر پھر ایک بار یاد کر لجیے  کل ۴۸ سال ۔ بعض بعض کتابوں کے نقشے  اور منصوبے تو ان کے سامنے عظیم الشان تھے، مثلاً نئے علم کلام پر سائنس و کلام کے نام ۲۴ جلدیں پیشِ نظرتھیں، ان میں صرف ایک لکھ پائے تھے اور وہ بھی پوری نہیں اس کا صرف حصہ اول،  اسی طرح مفصّل تفسیرالقرآن الطاف الرحمن کے کل دو پارے چھپ پائے۔

تصوف و سلوک کے کوچہ کو بھی خوب چھانے ہوئے تھے ۔ محی الدین ابن عربی کی فصوص الحکم پر حاشیے لکھے۔ مثنوی مولانائے روم کا مدتوں درس دیتے رہے۔  مجاہدوں پر مجاہدے شرعی اور دینی رنگ کے عمر بھر کرتے رہے۔  ہر وقت با وضو رہتے۔ نماز فجر سے اشراق کے وقت تک اور اورادوظائف میں لگے رہتے ۔شعبان، ذی الحجہ، محرم کے مخصوص  روزے کوئی خالی نہ جانے پاتے۔ نفلی نمازوں کا اہتمام رکھتے، اورنماز با جماعت کا تو وہ  التزام تھا کہ سفر تک میں چھوٹنے  نہ  پاتی۔ ساتھ رہنے والوں کی شہادت ہے کہ عمربھرمیں جماعت صرف ایک بارناغہ ہوئی ہے،  اور یہ فضیلت نہیں کرامت ہے ۔ طریقہ قادریہ کے مشائخ میں ایک خاص امتیازی مقام رکھتے تھے۔ حلقہ بیعت وارادت میں وقت کی اچھی اچھی معروف معروف ہستیاں تھیں ، اور دو مرید  تو ایسے  ہاتھ آگئے تھے جن کا نام  عجب نہیں  کہ رہتی دنیا تک  رہ  جائے،  یعنی محمدعلی  اورشوکت علی۔’بزم صوفیہ‘  جب تک جیتی جاگتی رہی اس میں سے سب سے پیش پیش تھے۔ اور جمعیة العلماءجس کے نام کی گونج آج  تک  گھر گھر  ہے  وہ  تو کہنا چاہیے کہ بڑی  حد تک مولانا  ہی وجودمیں لائے تھے۔ امرتسرمیں دسمبر سنہ ۱۹ء میں لیگ و کانگریس  کا جومعرکہ  کا جلسہ ہوا تھا  وہیں  جمعیة  کی بھی بنیاد پڑی تھی۔ مولانا جمعیت سازی  اور انجمن آفرینی کے کام میں انیلے  یا نو آموز  نہ تھے۔ مدتوں پیشتر جمعیة خدام کعبہ کے نام سے ایک بڑی  پر زور  اور پرشور انجمن قائم کرچکے تھے ،جس کی ممبری تک اس زمانے میں خطرناک تھی ۔ پھر سنہ ۱۹ء میں اور چند رفیقوں کوساتھ لے، آل انڈیا خلافت کمیٹی کے نام سے وہ عظیم الشان ادارہ  بنا چکے تھے جس کی  یاد اب بھی بہت سے دلوں میں تازہ ہوگی۔ یہی وہ طوفانی ادارہ تھاجس نے ایک طرف برطانوی حکومت کی  بنیادیں  ہلادیں  اور دوسری طرف سارے عالمِ اسلامی کے جمود میں حرکت پیداکردی۔

سیاست میں مولانا کا  جو پایہ اور سیاسی  دنیا میں  ان کا جو اثر تھا  اس کے لحاظ سے وہ  اپنی نظیر آپ  تھے۔ ملک کے اندر چھوٹا بڑا  جوبھی سیاسی مسئلہ چھڑتاممکن  نہ تھا کہ اس میں ان کا حصہ اورنمایاں حصہ نہ ہو۔ سنہ ۱۱ء و ۱۲ء کی  جنگ طرابلس اورپھر جنگ  بلقان کے سلسلے میں جو  خدمتیں بھی ہندی مسلمانوں سے ترکوں اورطرابلسیوں کی بن پڑی ان میں اولیت کاعلم مولانا ہی کے ہاتھ میں تھا۔ سنہ ۱۳ء میں جب صوبہ کے اندر مسجد کانپور کا ہنگامہ پیش آیا  تو  دیکھنے  والوں  نے پھر دیکھا  کہ مولانا کا قدم کسی سے  پیچھے نہیں آگے ہی ہے۔ یہ سب مثالیں تو  اسلامی سیاست کی تھیں۔ رہے ملک کے عام سیاسی مشترک مسئلے تو مولانا  اس میدان کے مردنہیں جواں مرد  ثابت ہوئے۔  ان موقعوں پر  نہ  وہ گوشہ نشین مولوی نکلے اورنہ حجرہ گزیں  عابد۔ بلکہ صف اول کے مجاہدوں میں شامل ہوتے۔ اور ہرجگہ علی برادران اور ڈاکٹر انصاری اورحکیم اجمل خاں کے دوش بدوش ہوتے، کانگریس کمیٹی ہو یا خلافت کمیٹی سب کو وہ  اپنے مشوروں سے مستفید کرکے  اور سب کی جد و جہد میں عملی حصہ لیتے رہتے۔

علی برادران تو ان کے اپنے خاص الخاص تھے ہی، عزیزوں سے بڑھ کرعزیز،  اور مخلصو ں سے بڑھ کرمخلص ،فرنگی محل جیسے ان کا گھر ہی ہوگیا تھا۔ مرشدخود ان کی خدمت کے لیے بچھے جاتے تھے۔ مولانا محمدعلی جوہرؒ  کی ایک غزل کے شعرمیں اسی طرف اشارہ ہے ۔:

کرم بھی  ان  کی کرامت  ہے  ورنہ  یوں

کرتا  ہے  کوئی  پیر بھی  خدمت  مرید کی

باقی جوملک کے ہندو لیڈر تھے ان سے بھی مولاناکے تعلقات عام دوستی سے گزر کر یگانگت اور یارانے کی حدتک پہونچے ہوئے، اورخود گاندھی جی سے تو جیسی  گاڑھی چھنا  کی اس کی تو کچھ  پوچھیے ہی نہیں،  حد یہ ہے کہ گاندھی جی کو ہاتھوں ہاتھ لینے والوں اور ان کی مہمان داری کواپنے لیے فخر و ناز کی چیزسمجھنے والوں کی کمی کیاتھی :

ع:          لاکھوں تھے دست شوق ہزاروں کنارشوق

لیکن وہ  دونوں بارمحل سرا  ہی کے ایک ڈیرہ  میں ٹھہرے ۔ آخرکوئی بات  توتھی جو بڑے بڑے آرام دہ اورتفریح کے مقامات چھوڑ مہاتما نے مولانا ہی کے کاشانہ کا انتخاب کیا۔یہی وہ  زمانہ ہے کہ مولانا کی بے پناہ عملی سرگرمیوں نے وقت کے نامور اورحساس شاعر لسان العصر حضرت اکبر کومتاثرکیا، اور ان کی زبان حقیقت ترجمان سے  یہ شعرکہلا دیاتھا:

اے چرخ ہوائے شوق چلی ،اے شاخ عمل گلہاری کر

کچھ سعی کریں  کچھ کام کریں ہرشیخ  کو عبدالباری  کر

فیاضی اورمہمان نوازی کے تو کہنا چاہیے کہ بادشاہ  تھے۔ اللہ نے صاحب مقدیر بنایا تھا لیکن حوصلہ حیثیت سے کہیں بڑھا  ہوا  تھا، اورلوگوں کے کھلانے پلانے میں، نقد و جنس سے ان کی مددکرنے میں علانیہ اورپوشیدہ ان کی جیبیں پُرکرنے میں لحاظ اپنی حیثیت کا نہیں اپنے حوصلے کارکھتے تھے۔ اور اس میں کوئی فرق اپنے پرائے دوست اور دشمن کا روا نہ رکھتے۔  پرانے دسترخوانوں پر اکثر فارسی کا یہ مصرعہ چھپا ہوا دیکھنے میں آتا  تھا کہ ۔:۔

ع :          بریں خوان نعیماچہ دشمن چہ دوست !۔

مصرعہ معلوم ہوتاہے کہ مولاناکے ہاں ہردسترخوان کے لیے قال نہیں حال تھا۔ نفیس اورلذیز کھانوں سے شوق رکھتے تھے ۔ کھانے سے زیادہ کھلانے کا، دوسرے کھاتے تھے اوریہ دیکھ دیکھ کرخوش ہوتے جاتے تھے۔ کشمیری چائے کا پینا پلانا  تو ان  کاحصہ تھا۔ صبح جب جائیے  تو  سماور پرسماور تیار، پیجیےاورہونٹ چاٹتے رہیے، سنگین اتنی  کہ آدھی پیالی میں پیٹ بھر جائے، لطیف اتنی  کہ پیالیاں خالی ہوجائیں اورنیت نہ بھرے۔

مزاج میں حدت اورحرارت تھی بات ناگوار جلدہوجاتی لیکن گرانی جس تیزی سے آتی اسی تیزی سے دوربھی ہوجاتی، اورپھر معذرت ،صفائی، دل جوئی کی وہ وہ تدبیریں کرتے اوراس اس طرح مناتے کہ جی یہ چاہنے لگتا کہ ایسے موقع ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر پیدا  کیے جائیں۔  وقتِ عزیز مخلوق کی حاجت برآری کے لیے وقف رکھتے ۔ ابھی کسی کی عیادت کوجارہے ہیں ابھی کسی دکھیارے کوڈھارس دیے چلے آرہے ہیں، غرض یہ کہ مشغلے دو ہی تھے، خالق کی اطاعت وعبادت اورمخلوق کی مخلصانہ خدمت۔

مولویانہ خشکی کہیں آس پاس نہ تھی۔ نورانی مسکراتا  ہوا چہرہ،  دمکتا ہوا سرخ وسفید رنگ ، خوش نما خوب سیاہ  داڑھی ،گٹھا ہوا  ورزشی  بدن، باغ و بہار بذلہ سنج طبیعت ، لطیفوں سے لطف لیتے اورخودبھی کہنے سے نہ چوکتے ۔ذہانت و ذکاوت کے پتلے تھے۔ سنہ ۲۲ءکا ذکر ہے سفر اجمیر میں لکھنؤ سے ساتھ ہوا۔ قافلہ میں رفیق سفر و حضرت شیخ الطاف الرحمن بھی تھے۔ شیخ صاحب ہیں مہمان نواز۔  اتفاق سے رات کے وقت ناشتہ سے تنہاشغل فرمانے لگے ۔ اس خاکسار نے برجستہ عرض کیا:

ع  :          الطاف سے بعیدتھا کھانا الگ  الگ ۔

شیخ صاحب تو مسکراتے رہے۔ مولانا نے پے درپے مصرعہ لگانا شروع کردیے، ہوتے ہوتے پوری غزل تیارکردی۔ غزل  اور نظم سے یوں بھی کبھی کبھی شوق کرلیا کرتے،  کلام میں شوخی اچھی خاصی ہوتی ۔کہہ کر  اپنے  ایک عزیز حضرت  زخمی کوبخش  دیتے اورکلام منسوب انھیں کے نام سے ہوجاتا۔

صحت بالعموم بہت اچھی رہتی تھی۔ جنوری سنہ ۲۶ء تک اچھے خاصے تندرست و توانا  عرس اجمیرکے سفرکے لیے روانہ ہوہی رہے تھے کہ وضوکرنے کی حالت میں فالج گرا۔ عیادت کے لیے ساراشہر امنڈ پڑا۔ مریدوں، معتقدوں ،عزیزوں دوستوں نے علاج وتیمار داری میں جان لڑادی۔ حکیموں، ڈاکٹروں نے دن کودن اوررات کو رات نہ سمجھا ۔ لیکن نوشتہ الٰہی بہرحال پورا ہوا۔ ۱۹جنوری کو۱۱ بجے شب کے وقت یہ شمع اتحاد جوسارے ملک ہندمیں اجا لا پھیلائے ہوئے تھی ہمیشہ کے لیے گل ہوگئی، اورلکھنؤ کی جیتی جاگتی محفل کوبالکل ہی سونا  ہی کرگئی۔ جنازہ کا اژدہام کچھ نہ  پوچھیے خدا معلوم خلقت کہاں سے ٹوٹ پڑی تھی۔  ہزارہا  مخلوق کاندھا  دینے سے محروم رہ گئی۔ نماز  دو دو بار  پڑھائی  گئی اورجس چارپائی  پرنعش تھی اسے تو تار تارکرکے لوگ تبرک بنا کر لے گئے۔ خاندانی قبرستان ملا، انوار کے باغ  میں سنگ مرمر کامختصرسا مزار آج بھی عجیب  دلکشی  رکھتاہے۔  ہمیشہ رہے نام اللہ کا!! "

(منقول: نشریات  ماجدی،  ترتیب  جدید  مع  تخریج  و  تحشیہ،  مرتبہ  زبیر  احمد  صدیقی، ۲۰۱۶ء)

٭٭٭