گجرات نے بی جے پی کو دن میں تارے دکھائے۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی

از:حفیظ نعمانی
گجرات کی وزیر اعلیٰ اور نریندر بھائی مودی کی جانشین آنندی بین پٹیل نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، انھوں نے اس کاسبب جو بھی بتایا ہو، اس کی اہمیت اس لیے نہیں ہے کہ ہر وقت ہر کوئی سچ بولے یہ ضروری نہیں اور وہ اس کی پابند بھی نہیںتھیں کہ اگر استعفیٰ دیں تو بتائیں کہ کیوں دیا اور نہ دیں تو یہ بتائیں کہ کیوں نہیںدیا؟
’وزیر اعلیٰ‘نریندر بھائی مودی جب وزیر اعظم بننے لگے تو انھوں نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے عہدہ سے اپنے کو الگ کرلیا اور اپنی سب سے زیادہ بھروسہ والی خاتون آنندی بین کو اپنا جانشین بنادیا، مودی جی نے ۱۲ برس گجرات میں حکومت کی، انھوں نے نام تو جمہوریت کا ہی رکھا لیکن جمہوریت کو اپنے پاس سے بھی نہیں گذرنے دیا، انھوں نے حلف لیا تو وزیر اعلیٰ کیشوبھائی پٹیل کو ہٹا کر لیا، کیشو بھائی پٹیل نے آنندی بین کی طرح یہ نہیں کہا کہ پارٹی جو۷۵ برس کے بعد کسی بھی ذمہ داری سے ہٹنے کی بات کہہ چکی ہے، اس کے پیش نظر میں اس لیے تین مہینے پہلے استعفیٰ دے رہی ہوں تاکہ نومبر ۲۰۱۷ء میں ہونے والے الیکشن کی تیاری کا نئے وزیر ا علیٰ کو وقت مل سکے، بلکہ وہ روتے ہوئے کرسی سے اترے اور جب تک ان میں دم رہا وہ مودی جی کی مخالفت کرتے رہے۔
نریندر مودی نے جب حلف لیا تھا تو کانگریس وہاں اچھی خاصی پوزیشن میں تھی، اس کے بعد کیشو بھائی پٹیل کے مخالف ہونے سے پٹیل سماج سب کا سب مخالف ہوگیا، نریندر مودی نے رفتہ رفتہ کانگریس اور کیشو بھائی دونوں کی ایسی ہوا نکالی کہ جب انھوں نے آنندی بین کو گجرات دیا تو ملک کا سب سے زیادہ پر امن صوبہ وہ تھا،مودی صاحب نے صرف اپنے حریفوں اور مخالفوں کو ہی نہیںگجرات کے گورنر کو اور لوک آیکت کو بھی اس قابل نہیں چھوڑا تھا کہ وہ آنندی بین کو پریشان کرسکیں، لیکن وہ اتنی نا اہل تھیں کہ پہلے تو ان کی ہی پٹیل برادری کا ایک نیا لڑکا لیڈر بن کر ابھرا اور اس نے ریزرویشن کی مانگ پر لاکھوں پٹیلوں کو آنندی بین کے مقابلہ میں کھڑا کردیا اور وہ پٹیل ہوتے ہوئے اسے دبانے کے بجائے خود اس کے دبائو میں آگئیں۔
ہاردک پٹیل کی تحریک کے بعد بھی اڑتی اڑتی خبریں آئی تھیں کہ شاید ان کو اب رخصت کردیا جائے، لیکن جب گرد بیٹھی تو انھیں بھی اس لیے مہلت مل گئی کہ اگر ان کے جانشین کی تلاش کی گئی تو یہ بھی ایک بہت مشکل کام ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وفادار اور ایسا وفادار ملنا اور آج کے زمانہ میں ملنا اتنا ہی دشوار ہے جتنا پتھروں میں ہیرا تلاش کرنا۔ آنندی بین بے شک وفادار تھیں جنھوں نے ایک اشارہ پر استعفیٰ دے دیا، ان کے قریبی لوگوں میںسے ایک صاحب بتا رہے تھے کہ پہلی تاریخ کو پیر کے دن دوپہر میں انھوں نے آنے والے چار دنوں کے پروگرام پر تبادلۂ خیال کیا تھا لیکن اس درمیان میں کیا ہوا؟ کسی کو نہیں معلوم، بس انھوں نے ۳؍ بجے اپنی پرائیویٹ سکریٹری کو بلایا اور بند کمرے میں وہ خط ٹائپ کرادیا جو امت شاہ کے نام لکھا ہے، اور بعد میں وہ بیان جو فیس بک پر پڑھ کر سنایا، کہنے کو کچھ بھی کہا جائے، یہ صرف اور صرف ان دلتوں کی جیت ہے جنھوں نے اپنے بھائیوں کو پنڈتوں اور ٹھاکروں کے ہاتھوں ایسے پٹتے دیکھ کر جیسے پاگل سانڈ کو پیٹا جاتا ہے، جان دینے کے لیے زہر کھالیا کہ بے عزتی کی زندگی سے موت بہتر ہے، اور ان میں سے ایک کی کل موت بھی ہوگئی، اور پھر پوری دلت برادری نے یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ مرے ہوئے جانور کی نہ کھال اتاریںگے اور نہ کریا کرم کریںگے، پھر انھوں نے اس کا مظاہرہ بھی کیا کہ مردہ گائیں سرکاری بنگلوں کے اور کوٹھیوںکے سامنے ڈال کر کہہ دیا کہ لو اب ان کی پوجا کرتے رہو۔ اور زبردست احتجاج کیا اور بعد میں ہزاروں کی تعداد نے حلف لیا کہ وہ اب یہ کام نہیں کریںگے جبکہ گجرات میں ایک کروڑ جانور ہیں جن میں مرنے کا اوسط روز ڈھائی ہزار کا ہے، اس کے بعد تو اگر مودی صاحب خود بھی ہوتے تو استعفیٰ دے دیتے، یہ کانگریس کی بد نصیبی ہے کہ شہرت کے مطابق آج گجرات میں بی جے پی کو ہندوئوں کی اور کانگریس کو مسلمانوں کی پارٹی سمجھا جاتا ہے، اس لیے کہ گجرات میں کانگریس کے نام کے بعد احمد پٹیل کا نام آتا ہے، اور یہ سونیا کی ضد ہے کہ کسی بھی صوبہ میں کسی کو لیڈر نہیںبننے دیتی، جیسے اتر پردیش میں کسی کو نہیں بننے دیا، اورکشمیر سے غلام نبی آزاد اور دہلی سے شیلادکشت کو لانا پڑا۔ اگر گجرات میںکسی کو لیڈر بننے دیا ہوتا تو ہاردک پٹیل کی تحریک سے اور دلت اتحاد سے ملا کر وہ حکومت بنالیتیں۔
ہر چند کہ آنندی بین پٹیل نے بہت خوبصورتی سے خط لکھ کر دلت اتحاد کی طاقت کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے اور امت شاہ نے بھی اسے یہ کہہ کر اپنے پاس رکھ لیا ہے کہ پارلیمنٹری بورڈ اس کا فیصلہ کرے گا، بلکہ پھوہڑ پن کا بھی مظاہرہ کیا ہے کہ ان کے جانشین کے ناموں پر غور شروع کردیا ہے اور قیاس آرائیوں میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جیسی صورت حال گجرات کی ہوگئی ہے کہ اب مودی کے علاوہ کوئی سنبھال سکتا ہے تو وہ صرف امت شاہ ہوسکتے ہیں۔ اب یہ بات صرف اورصرف مودی صاحب کو طے کرنا ہے کہ کون ہو؟
کاش ہمارے سیاست دانوں میں اتنی اخلاقی جرأت ہوتی کہ وہ جھوٹ بولنے کے بجائے سچ بول کر کہہ دیتے کہ مودی صاحب نے کہا وزیر اعلیٰ بن جائو، ہم بن گئے، انھوں نے کہا اب ہٹ جائو، ہم ہٹ گئے، جہاں تک ۷۵ برس کی بات ہے تو ہمیں بھی اخبارسے جڑے ہوئے برسہا برس ہوچکے ہیں، بی جے پی کی کس میٹنگ میں یہ فیصلہ نہیں کیا گیا کہ جو ۷۵ برس کا ہوجائے یا آنندی بین کی کی طرح ہونے والا ہو وہ استعفیٰ دیدے، وزیر اعلیٰ صاحبہ نومبر کی کس تاریخ کو ۷۵ برس کی ہوجائیںگی اور گجرات کے الیکشن اکتوبر یا نومبر میں ہوںگے اگر وہ ستمبر یا اکتوبر میں بھی ۷۵ برس کی ہوجاتیں تب بھی الیکشن ان کو لڑانا چاہئے تھا، کیونکہ پارٹی کے صدر نے کہا ہے کہ شری مودی نے گجرات کو جتنا اچھا بنایا تھاآنندی بین نے اسے اورزیادہ اچھا بنا دیا ہے، جب وہ اچھا ہی اچھا کررہی ہیں تو الیکشن بھی ان کی قیادت میں لڑا جاتا اور جیتنے کے بعد وہ وزیر اعلیٰ نہ بنتیں، بلکہ اسمبلی کا الیکشن بھی نہ لڑتیں ، لیکن ۵ مہینے پہلے چھوڑ کر بھاگنے کامطلب صاف ہے کہ وہ بیڑہ غرق کردیںگی، اوردلت جن تیوروں کے ساتھ مقابلہ پر آئے ہیں وہ گجرات ہی نہیں اتر پردیش اور پنجاب میں بھی بی جے پی کی کھاٹ کھڑی کردیںگے، جس کے ذمہ دار آنندی بین ہی نہیںمودی جی بھی ہوںگے، جنھوں نے ان کا انتخاب کیا تھا، یہ بات کل ہی بڑے اعتماد کے ساتھ کہی گئی ہے کہ اب آر ایس ایس مودی کو کنٹرول نہیں کرتا بلکہ مودی اسے کنٹرول کرتے ہیں، یعنی اب مودی صاحب وہ ہیں جو کبھی اندرا گاندھی ہوا کرتی تھیں۔
اب ا لیکشن میں یا تو بی جے پی واپس آجائے گی یا ہاردک پٹیل دلت سماج سے سودا کریںگے اور اگر یہ محاذ بن گیا تو مسلمان بغیر بلائے ان کے ساتھ کھڑے ہوجائیںگے اور دہلی کی طرح گجرات میں بھی دوسرا کجریوال ہاردک پٹیل بن جائے گا، انجام جو بھی ہو شاید مودی جی نے بھی یہی سوچ کر اتنا سخت قدم اٹھایا ہے۔q