تبصرات ماجدی۔۔۔ ۱۱۴۔۔۔ کلیات سلطان محمد قلی شاہ۔۔۔ مرتبہ: ڈاکٹر محی الدین زور

Bhatkallys

Published in - Other

09:35AM Sat 20 Feb, 2021

*تبصرات ماجدی*

*(114) کلیات سلطان محمد قلی شاہ*

مرتبہ ڈاکٹر محی الدین زور

*(115) کلیات سراج*

مرتبہ سید عبد القادر سروری

کتاب گھر خیریت آباد، حیدر آباد

دکن کی مجلس اشاعت دکنی مخطوطات اپنے ہاں کی علمی و ادبی تاریخ کو جس قابل رشک طریقہ سے زندہ کر رہی ہے اس کا تازہ نمونہ دکن کے دو قدیم شاعروں کی کلیات کی اشاعت ہے، محمد قلی قطب شاہ کا زمانہ گیارھویں صدی ہجری کا اور سراج کا بارھویں صدی کا تھا۔

دونوں کلیات کے مرتبوں نے کام چونکہ کسی تجارتی غرض کے ما تحت نہیں بلکہ دلی شوق کے جذبہ صادق سے کیا ہے اس لیے کاوش و تحقیق کا حق ادا کردیا ہے۔

کلیات محمد قلی شاہ کے 382 صفحات تو محض مقدمہ مرتب کی نذر ہیں، باقی 368 صفحات میں شاعر کی نظمیں، غزلیں اور متفرق اصناف سخن۔ کلیات سراج کا مقدمہ بھی 128 صفحات کی ضخامت کا ہے، اس کے بعد شاعر کا کلام ہے، پہلے مثنویاں وغیرہ ہیں اور پھر غزلیں، زبان سراج کی پرانی اور متروک ہو چکی ہے پھر بھی اتنی زائد پرانی نہیں ہوئی ہے، مرتب کے حواشی سے فی الجملہ سمجھ میں آجاتی ہے۔ قطب کی زبان بہت ہی پرانی دکھنی ہے، اس کے لیے فاضل مرتب کے حواشی کافی نہیں، کلام صرف طلبہ فن کے کام کا رہ گیا ہے، فاضل مرتب کا ذہن ادھر نہیں گیا اور جانا تھا بھی مشکل کہ جو الفاظ اور ترکیبیں ان کو معمولی معلوم ہو رہی ہیں وہ عام ناظرین کے لیے کتنی سنگلاخ ثابت ہوں گی۔ ڈاکٹر زور اور پروفیسر سردری دونوں کی زندگیاں ہمارے نوجوانوں کے لیے قابل رشک اور قابل تقلید ہیں، سالہا سال سے کس انہماک، یکسوئی اور مستعدی کے ساتھ اپنے کو اردو زبان و ادب کی خدمت کے لیے وقف کئے ہوئے ہیں اور ان کی ہمتیں کس سرگرمی کے ساتھ اس میدان میں اور ایک نئی راہ عمل اپنے لیے ڈھونڈتی ہیں۔ لکھائی، چھپائی دونوں کتابوں کی بہت صاف و روشن ہے۔ کلیات سلطان جس اعلا اہتمام کے ساتھ چھپی ہے اس کے لیے تو بے اختیار لفظ ‘‘شاہانہ’’ استعمال کرنے کا جی چاہتا ہے، کیوں نہ ہو آخر ہے بھی تو بادشاہ کا کلام۔ رہی قیمت کی ظاہری زیادتی کو سمجھ لیجیے کہ یہاں بھی وہی ‘‘شاہی’’ اور ‘‘شاہانہ’’ کا تلازمہ چل رہا ہے۔

صدق نمبر  17، جلد  نمبر 7 ،  مورخہ 25؍ اگست 1941

ناقل : اسامہ احمد  برماور ندوی

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/

 

*(114) کلیات سلطان محمد قلی شاہ*

مرتبہ ڈاکٹر محی الدین زور

*(115) کلیات سراج*

مرتبہ سید عبد القادر سروری

کتاب گھر خیریت آباد، حیدر آباد

دکن کی مجلس اشاعت دکنی مخطوطات اپنے ہاں کی علمی و ادبی تاریخ کو جس قابل رشک طریقہ سے زندہ کر رہی ہے اس کا تازہ نمونہ دکن کے دو قدیم شاعروں کی کلیات کی اشاعت ہے، محمد قلی قطب شاہ کا زمانہ گیارھویں صدی ہجری کا اور سراج کا بارھویں صدی کا تھا۔

دونوں کلیات کے مرتبوں نے کام چونکہ کسی تجارتی غرض کے ما تحت نہیں بلکہ دلی شوق کے جذبہ صادق سے کیا ہے اس لیے کاوش و تحقیق کا حق ادا کردیا ہے۔

کلیات محمد قلی شاہ کے 382 صفحات تو محض مقدمہ مرتب کی نذر ہیں، باقی 368 صفحات میں شاعر کی نظمیں، غزلیں اور متفرق اصناف سخن۔ کلیات سراج کا مقدمہ بھی 128 صفحات کی ضخامت کا ہے، اس کے بعد شاعر کا کلام ہے، پہلے مثنویاں وغیرہ ہیں اور پھر غزلیں، زبان سراج کی پرانی اور متروک ہو چکی ہے پھر بھی اتنی زائد پرانی نہیں ہوئی ہے، مرتب کے حواشی سے فی الجملہ سمجھ میں آجاتی ہے۔ قطب کی زبان بہت ہی پرانی دکھنی ہے، اس کے لیے فاضل مرتب کے حواشی کافی نہیں، کلام صرف طلبہ فن کے کام کا رہ گیا ہے، فاضل مرتب کا ذہن ادھر نہیں گیا اور جانا تھا بھی مشکل کہ جو الفاظ اور ترکیبیں ان کو معمولی معلوم ہو رہی ہیں وہ عام ناظرین کے لیے کتنی سنگلاخ ثابت ہوں گی۔ ڈاکٹر زور اور پروفیسر سردری دونوں کی زندگیاں ہمارے نوجوانوں کے لیے قابل رشک اور قابل تقلید ہیں، سالہا سال سے کس انہماک، یکسوئی اور مستعدی کے ساتھ اپنے کو اردو زبان و ادب کی خدمت کے لیے وقف کئے ہوئے ہیں اور ان کی ہمتیں کس سرگرمی کے ساتھ اس میدان میں اور ایک نئی راہ عمل اپنے لیے ڈھونڈتی ہیں۔ لکھائی، چھپائی دونوں کتابوں کی بہت صاف و روشن ہے۔ کلیات سلطان جس اعلا اہتمام کے ساتھ چھپی ہے اس کے لیے تو بے اختیار لفظ ‘‘شاہانہ’’ استعمال کرنے کا جی چاہتا ہے، کیوں نہ ہو آخر ہے بھی تو بادشاہ کا کلام۔ رہی قیمت کی ظاہری زیادتی کو سمجھ لیجیے کہ یہاں بھی وہی ‘‘شاہی’’ اور ‘‘شاہانہ’’ کا تلازمہ چل رہا ہے۔

صدق نمبر  17، جلد  نمبر 7 ،  مورخہ 25؍ اگست 1941

ناقل : اسامہ احمد  برماور ندوی

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/