کرناٹکا کی مخلوط ریاستی حکومت پر لٹکتی ’آپریشن کنول۔۳‘ کی تلوار۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
ایسا لگ رہا ہے کہ کرناٹکا کی ریاستی مخلوط حکومت اور زعفرانی کنول میں چل رہی سیاسی بقا کی جنگ اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ چکی ہے اور آئندہ چند دنوں کے اندرکوئی دھماکہ خیز نتیجہ سامنے آنے والا ہے۔ ریاست کے سیاسی منچ پر کھیلے جارہے اس ڈرامے کا آخری سین کس کے لئے المیہ(Tragedy) بنے گا اور کس کے لئے خوشگوار اختتام(Happy Ending) بن کر سامنے آئے گا ،یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ۔محسوس یہ ہورہا ہے کہ ’آپریشن کنول ۔۳ ‘ کی افواہوں کے بیچ دن بدن کروٹ لیتے ہوئے حالات نے کانگریس ہائی کمان کی نیندیں بھی حرام کردی ہیں۔
بی جے پی کی خفیہ مہم: بی جے پی نے سیاسی جوڑ توڑ کی جو خفیہ مہم 2006کے اسمبلی الیکشن کے بعد چلائی تھی اسے آپریشن کنول؍لوٹس کا نام دیا گیا تھا جس میں میگنیز لابی کے سرغنہ جناردھن ریڈی کی مدد سے جنتا دل اور کانگریس کے اراکین اسمبلی کو بھاری رقم دے کر خریدا گیا تھا۔ اس وقت بی جے پی نے اسمبلی کی 110سیٹیں جیتی تھیں۔ پہلے قدم کے طور پر اس نے پانچ آزاد اراکین اسمبلی کو خریدلیا اور اپنی تعداد 115کرلی۔ جنتادل کے ساتھ مخلوط قائم کرتے ہوئے کماراسوامی کو ابتدائی 20مہینوں کے لئے چیف منسٹر قبول کرلیا گیا۔سال 2008میں’’آپریشن کنول۔۱‘‘ کے تحت ہی جناردھن ریڈی کے توسط سے جنتا دل کے ساتھ اراکین اسمبلی اور کانگریس کے تین اراکین کو خریدا گیا۔ سیاسی گلیاروں میں سنی گئی سرگوشیوں کے مطابق اس وقت اپنی پارٹی سے بغاوت کرکے بی جے پی میں شامل ہونے والوں کو وزارتی قلمدان کے علاوہ کروڑوں روپوں کا پیکیج دیاگیا تھا۔خریدے گئے اراکین اسمبلی نے پارٹی سے استعفیٰ دے کر ضمنی انتخابات میں حصہ لیااور بی جے پی نے پانچ سیٹیں جیت لیں جس سے اسمبلی میں اس کی تعداد 115سے بڑھ کر 120ہوگئی تھی۔
آپریشن کنول ۔۲میں ناکامی : 2018کے اسمبلی انتخابات میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال بی جے پی کے حصے میں آئی کہ وہ محض چند سیٹوں کی کمی کی وجہ سے اقتدار پر اپنا دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ حالانکہ اس نے انتخابی نتائج کے فوری بعد ’آپریشن کنول۔۲‘ کی مہم چلائی تھی اور پلان یہ بنایا تھا کہ وہ اعتماد کا ووٹ جیتنے سے قبل کم از کم 15اراکین اسمبلی کو خرید لے گی اورانہیں ووٹنگ کے دوران اسمبلی سے غیر حاضر رکھنے میں کامیاب ہوجائے گی۔مگر کانگریس کے ایک طاقتور لیڈر ڈی کے شیوکمار کے تعاون سے کانگریس اور جنتا دل کی قیادت اپنے اپنے اراکین اسمبلی کوبی جے پی کی دسترس دور رکھنے کا منصوبہ پوری کامیابی سے تکمیل تک پہنچایا۔اس وجہ سے اپنی تگڑم بازی پر پورا بھروسہ رکھ کر اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے پہنچے ہوئے ایڈی یورپا کا وزیر اعلیٰ بنے رہنے کا خواب چکنا چور ہوگیااور وہ اعتماد کی تجویز پر ووٹنگ کے بغیر ہی منھ لٹکائے اسمبلی سے نکل گئے۔
بی جے پی کیسے چپ رہے گی؟!: 2018کی اس مہم میں ریاستی گورنر کے رول پر بھی سوال اٹھے تھے اور اگر سپریم کورٹ نے فوری مداخلت نہ کی ہوتی تو شاید بی جے پی کی یہ مہم بھی کامیاب ہوگئی ہوتی۔یہ تو جگ ظاہر بات ہے کہ ’آپریشن کنول۔۲‘‘کے ذریعے کرناٹکا میں حکومت بنانے کی سازش میں بی جے پی کو جو منھ کی کھانی پڑی تھی، وہ اس کے لئے ایک سخت صدمے اور رسوائی کا سبب بن گیاتھا۔ اور سیاست کا معمولی طالب علم بھی یہ بات جانتا ہے کہ بی جے پی ایسی پارٹی نہیں ہے جو خاموش بیٹھ کر اپنے زخم چاٹتی رہے گی۔ لہٰذا بی جے پی کے ریاستی صدر اور سابق وزیراعلیٰ ایڈی یورپانے کچھ دن کے لئے تو زہر کا گھونٹ پی لیا تھا، مگر اپنے سازشی ہتھکنڈوں سے باز آنانہ سنگھی ذہنیت کی پالیسی ہے اور نہ ہی ان کی فطرت میں شامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ریاست میں ’’آپریشن کنول۔۳‘‘ کی افواہیں ان دنوں گردش میں ہیں،اور کچھ ہوا کا رخ بھی اس کی تائید کرتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔
نئے کردار آتے جا رہے ہیں مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
کانگریسیوں کی رسّہ کشی: اس مرتبہ آپریشن کنول۔۳ کے لئے شاید سازگار ماحول فراہم کرنے میں کانگریسی لیڈروں کی آپسی رسّہ کشی بنیادی کردار ادا کرے گی۔ پچھلے کچھ دنوں سے بیلگاوی علاقے کے اراکین اسمبلی اورایک وزارت کا قلمدان رکھنے والے جارکیہولی برادران نے اپنی ہی پارٹی کے قدآور اور طاقتور نیتا ڈی کے شیو کمار کے خلاف علمِ بغاوت بلند کررکھا ہے۔ ڈی کے شیوکمار کے لئے جارکیہولی برادران کایہ انداز اپنی انا کا مسئلہ بن گیا ہے ، کیونکہ ڈی کے شیوکمار کے مطابق جاکیہولی برادران کو سیاسی استحکام اور بلندی دلانے میں خود ان کا پنا رول رہا ہے۔ اپنے ہی سیاسی گرو کے خلاف شاگردوں کی لام بندی سے جو تناؤ اور رسّہ کشی کا ماحول پید ا ہوگیا ہے اس کی قیمت شاید پارٹی کا چکانی پڑ سکتی ہے۔سابق وزیراعلیٰ سدارامیا کے تعلق سے وقتاً فوقتاً جو باتیں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں ، اس سے بھی کچھ اچھے سگنل نہیں مل رہے ہیں۔ بلّی سے تھیلے باہر آچکی ہے!: یہ افواہیں پھر گرم ہوگئی ہیں کہ ریاست کی مخلوط حکومت کو گرانے کے لئے مرکزی قیادت کی رضا مندی سے ریاستی بی جے پی نے اپنا سازشی ہتھکنڈا ’آپریشن کنول۔۳‘ شروع کردیا ہے۔حالانکہ ریاستی بی جے پی لیڈرشپ اس سے فی الحال انکار کررہی ہے۔ مگرمعتبر ذرائع سے ملنے والی رپورٹ کی مطابق ضلع شمالی کینرا کے یلاپور حلقے سے کانگریسی ایم ایل اے شیورام ہیبار نے اپنے حامیوں کے سامنے کھل کر یہ تجویز رکھ دی ہے کہ وہ آر وی دیشپانڈے کی موجودگی میں کبھی بھی وزارتی قلمدان حاصل کرنہیں پائیں گے۔ بی جے پی میں شامل ہونے پر انہیں وزارت کے قلمدان کے ساتھ ضلع انچارج وزیر بھی بنایاجائے گا۔ اور ان کے حامیوں کی اکثریت نے انہیں اس راہ پر آگے بڑھنے کی اجازت دیدی ہے۔خبر یہ بھی ہے کہ بیلگاوی کے جارکیہولی برادران نے اپنے باغی بریگیڈ میں شامل کرنے کے لئے شیورام ہیبار کے سامنے مشروط پیش کش رکھی ہے کہ وہ آئندہ کبھی کانگریسی لیڈر ڈی کے شیو کمار سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔اس باغی بریگیڈ میں 15سے 18اراکین اسمبلی شامل ہونے کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔یعنی یہ تو وہی بات ہوگئی کہ:ان سے امید نہ رکھ ، یہ ہیں سیاست والے یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے
شیورام ہیبار کی تردید: ادھررکن اسمبلی شیورام ہیبار نے بی جے پی نے شامل ہونے والی خبروں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ کانگریس چھوڑ کر کہیں جانے والے نہیں ہیں۔ خیال رہے کہ اسمبلی الیکشن کے نتائج سامنے آتے ہی آپریشن کنول ۔۲ کی افواہوں کے وقت بھی کانگریسی قیادت نے شیورام ہیبار کو بی جے پی کی طرف سے دل بدلی کے لئے فون پر بہت بڑی پیش کش کیے جانے کی بات کہی تھی۔لیکن دو تین دنوں بعد شیورام ہیبار نے بی جے پی کو کلین چٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ایساکوئی آفر بی جے پی سے نہیں دیا گیا۔ ہیبار کے اس بیان سے اس وقت کانگریس کے اعلیٰ لیڈروں کی سبکی ہوئی تھی۔اس مرتبہ بھی دو دن کی خاموشی کے بعد شیورام ہیبار نے وزارت حاصل کرنے کے لئے کانگریس سے نکل کر بی جے پی شامل ہونے کی باتوں کو افواہ قرار دیا ہے۔ حالات کا بغور جائزہ لیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ کھچڑی ضرورپک رہی ہے: کانگریس اور جے ڈی ایس لیڈروں کے بیانات سے بھی ظاہر ہورہا ہے کہ انہوں نے ہوا کا رخ دیکھ لیا ہے کہ بی جے پی کے خیمے میں کچھ بڑی سیاسی کچھڑی ضرور پک رہی ہے۔ چھوٹی آب پاشی محکمے کے وزیر پُٹا راجو اور دیگرکانگریسی لیڈروں نے بار بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ کانگریس پارٹی سے کوئی بھی بی جے پی میں جانے والا نہیں ہے۔ الٹے بی جے پی سے کچھ اراکین کانگریس او رجے ڈی ایس میں شامل ہونے کی تیاری میں ہیں۔ کانگریس اور جے ڈی ایس لیڈر یہ دھمکیاں بھی دیتے دکھائی دے رہیں کہ اگر بی جے پی ’آپریشن کنول ‘ کا راستہ اپنائے گی تو پھر انہیں پلٹ وار کرتے ہوئے بی جے پی کے خیمے میں توڑ پھوڑ کرناپڑے گااور وہ لوگ اس کے لئے بس موقع کا انتظار کررہے ہیں۔ان بیانات پر غور کرنے سے لگتا ہے کہ بی جے پی کی جانب سے خفیہ کارروائیوں کی بھنک نے کانگریس اور جے ڈی ایس کو حوس باختہ کردیا ہے اور شاید وقت آنے پر یہ دھمکیاں صرف گیدڑبھبکیاں ثابت ہوجائیں گی۔ وزیر اعلیٰ بھی بولے: مخلوط حکومت کو درپیش مسئلے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیرا علیٰ کمار سوامی نے بھی اس مسئلے پر اپنی زبان کھولی اور بی جے پی پر بہت ہی سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ ’جوئے کے اڈے اور لاٹریاں چلانے والے سرغنہ(kingpin) ‘آپریشن کنول ۔۳ کے لئے کروڑوں روپوں کا فنڈ بی جے پی کودے رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے پاس انٹلی جنس کا محکمہ بھی ہے اس لئے اسے انٹلی جنس رپورٹ سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہہ تو دیا ہے کہ وہ تمام اندرونی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے اور کسی بھی کارروائی سے غافل نہیں ہیں۔وہ خاموش بیٹھے نہیں رہیں گے بلک وقت آنے پر اپنی چال چل کردکھائیں گے۔لیکن حالات پر جن لوگوں نے نظر بنائے رکھی ہے اور جو بی جے پی کی خفیہ چالوں کا اداراک رکھتے ہیں انہیں وزیراعلیٰ کے بیان میں کوئی بہت زیادہ اعتماد اور مثبت نتیجے کی جھلک نظر نہیں آرہی ہے۔ کانگریس ہائی کمان میں ریڈ الرٹ؟: ریاستی سیاست میں بدلتے موسم کی وجہ سے کانگریس ہائی کمان میں بھی ریڈ الرٹ کا پیغام پہنچ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس نئے بحران کو جلد از جلد ختم کرنے کے لئے ریاستی کابینہ میں جلد ہی توسیع کرنے اورکچھ نئے اراکین کو وزارتیں دے کر مطمئن کرنے کی کوشش پر غور کیا جارہا ہے۔کانگریس پارٹی کی طرف سے بی جے پی کی اس خفیہ مہم کا جائزہ لینے کے لئے کرناٹکا معاملات کے انچارج کے ۔سی۔ وینوگوپال کوکرناٹکا کے دورے پر بھیج دیاگیا ہے جنہوں نے بنگلورو پہنچتے ہی نائب وزیراعلیٰ پرمیشور، ریاستی صدر دنیش گنڈوراؤ اور وزیر ڈی کے شیوکمار جیسے پارٹی لیڈروں کے ساتھ ایمرجنسی میٹنگ منعقد کی اورتمام جانکاری لینے کے بعد اعلیٰ کمان کو اس کی آگاہی دی ہے۔ خبر ہے کہ سابق وزیراعلیٰ سدارامیا کے یوروپی دورے سے لوٹتے ہی اس بحران سے نمٹنے کے نقشے پر غور کیا جائے گا۔ بہرحال یہ طے کہ ریاستی سیاسی منچ پر کھیلے جارہے اس ڈرامے کا سین دیکھنے کے لئے پردہ اٹھنے کا انتظار کیجئے۔اور تب تک یہ شعر گنگنائیے کہ :وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
haneefshabab@gmail.com