خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ زبان کی کساد بازاری۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
رشید حسن خان نے کی تھی جن کا ایک مقصد تھا۔ انھوں نے ’اعلیٰ‘ کو ’’اعلا‘‘ اور ’ادنیٰ‘ کو ’’ادنا‘‘ کردیا، اور اب کہیں کہیں یہ استعمال میں بھی ہے۔
آج کل کورونا کی وجہ سے ’’کساد بازاری‘‘ کا چرچا ہے۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ ہو تو پڑھے لکھے لوگ سمجھ جاتے ہیں۔ ہم جیسے پوچھتے ہی پھرتے ہیں کہ یہ کون سا بازار اور بازاری ہے۔ بازاری تو وہ زبان ہوتی ہے جو بازار کے لوگ استعمال کرتے ہیں اور اچھی نہیں سمجھی جاتی، یا پھر بازاری عورتیں ہوتی ہیں۔ بازاری زبان کو سوقیانہ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ عربی میں بازار کو ’سوق‘ کہتے ہیں۔ مگر کساد بازاری؟ ’کساد‘ عربی کا لفظ اور مؤنث ہے۔ اس کا مطلب ہے اشیاء کی خریداری نہ ہونا، بے رونقی، بے رواجی۔ کساد بازاری کا مطلب ہے بِکری نہ ہونا، بازار سرد ہونا۔
رندؔ کا شعر ہے:۔