گھڑوں پانی میں ڈوبنا ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی

Bhatkallys

Published in - Other

11:45AM Sat 23 Sep, 2017

فرائیڈے اسپیشل کے تازہ شمارے (15 تا 21 ستمبر) میں ایک نیا محاورہ پڑھنے میں آیا۔ مولانا مفتی محمد اشرف علی باقویؒ کے بارے میں ایک بہت معلوماتی مضمون شائع ہوا اور مرحوم کا تعارف کرانے والے اردو اور عربی پر بھرپور عبور رکھتے ہیں۔ تاہم انہوں نے لکھا ’’میں شرم کے مارے گھڑوں پانی میں ڈوب گیا‘‘۔ حضرت! محاورہ یہ نہیں ہے، اور گھڑوں میں ڈوبنا ممکن بھی نہیں۔ البتہ پانی سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ڈوبنے کے واقعات عام ہیں، خاص طور پر کراچی میں، جہاں بارش کے بعد قدم قدم پر پانی سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ڈوبنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ اصل محاورہ ہے ’’گھڑوں پانی پڑ جانا‘‘۔ یعنی کمال شرمندہ ہونا۔ جیسے ایک شعر ہے: تم کو نہیں یوں بھی غیرت آتی پڑتا ہے گھڑوں مجھی پر پانی ویسے لوگ چلّو بھر پانی میں بھی ڈوب جاتے ہیں، یا کم از کم یہ مشورہ ضرور دیا جاتا ہے کہ ذرا سی شرم ہو تو چلّو بھر پانی میں ڈوب مرو۔ اس لحاظ سے تو گھڑوں پانی میں ڈوبنا زیادہ آسان ہے، مگر محاورے کا کیا کیا جائے۔ چلّو بھر پانی بھی محاورہ ہے۔ ہندی کا لفظ ہے۔ مذکورہ محاورہ غیرت دلانے کے لیے بولتے ہیں۔ اس چلّو کے اور بھی کئی استعمال ہیں مثلاً ’’چلّو میں اُلّو ہونا‘‘۔ ذرا سی تند شراب یا بھنگ میں مدہوش ہوجانا۔ چلوؤں خون بڑھنا بھی محاورہ ہے، یعنی نہایت خوشی حاصل ہونا۔ اور پھر چلوؤں لہو پینا، چلوؤں لہو خشک ہونا وغیرہ۔ ذوقؔ کا ایک شعر ہے: زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں کیا ایک چلّو پانی میں ایمان بہہ گیا ہم اب تک ’’دِلَدّر دور ہونا‘‘ ہی پڑھتے اور بولتے آئے ہیں۔ لیکن سید مودودیؒ نے ’’دِلَدّر پار ہوگئے‘‘ لکھا ہے۔ سید مودودیؒ اردو زبان پر بھی سند ہیں۔ یہاں تک کہ ایک بار ماہرالقادری صاحب نے توجہ دلائی تھی کہ لغت میں تو یوں ہے۔ اس پر مولانا کا جواب تھا ’’لغت میں تصحیح کرلیں‘‘۔ اب اگر وہ لکھتے ہیں کہ دِلدّر پار ہوگئے (ترجمہ سورہ ہود) تو یہی فصیح ہوگا، تاہم لغت میں ’’دِلدّر دور ہوگیا‘‘ ہی ہے۔ اس سے قطع نظر دیکھتے ہیں دِلدّر کیا ہے؟ اس میں پہلی دال بالکسر ہے تاہم کچھ لوگوں کو بالفتح بولتے بھی سنا ہے، اور وہ پہلے حرف سے زیر اٹھاکر دوسرے حرف ’ل‘ کے نیچے رکھ دیتے ہیں۔ یہ ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے افلاس، محتاجی، تنگ دستی، نحوست۔ ۔ ۔ جیسے ’’نوکری ہوتے ہی سارا دِلَدّر دور ہوگیا‘‘۔ دِلدر کو نکالا بھی جاتا ہے۔ ہندوؤں میں ایک رسم ہے، دیوالی کے دن ایک ٹوکرا لے کر گھر کے ایک ایک کونے پر جھاڑو مارتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ’’الیسر آوے، دلدر جاوے‘‘۔ اس طرح یہ گھر کو صاف کرنے کے معنی میں بھی آگیا ہے۔ ’’الیسر‘‘ کا مطلب یا یہ لفظ لغت میں نہیں ملا۔ 17 ستمبر کو لاہور میں ضمنی انتخاب ہوا۔ اس کی خبر دیتے ہوئے ایک اخبار نے سرخی میں لکھا ’’ایک صاحب گھوڑے پر مٹر گشت کرتے رہے‘‘۔ گھوڑا یا کوئی اور سواری، اس پر مٹر گشت نہیں ہوتا، گشت ہوسکتا ہے۔ مٹر گشت تو پیدل ہی ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے ہوا خوری، سیر، بے فائدہ مارے مارے پھرنا، آوارہ گردی کرنا وغیرہ۔ ایک مضمون نگار جناب محمد سعید اپنے خط میں لکھتے ہیں ’’5 ستمبر کے اداریہ (اداریے) میں لفظ ’ملکوں‘ استعمال ہوا ہے لیکن لغت کے لحاظ سے ملک کی جمع ممالک ہے، حسبِ ضرورت ملکوں کا استعمال ہوسکتا ہے‘‘۔ محترم جانے کہاں سے یہ نکتہ نکال لائے ہیں۔ ملک کی جمع ممالک عربی طریقے پر ہے جب کہ ملکوں اردو طریقے پر جمع بنائی گئی ہے اور یہ حسبِ ضرورت نہیں بلکہ اردو میں یہی فصیح ہے۔ موصوف نے شاید کبھی استاد شاد عظیم آبادی کا مشہور مصرع نہیں سنا ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم اردو میں جمع بنانے کا اپنا طریقہ ہے جیسے نکتہ کی جمع نکتے، رسم کی جمع عربی میں رسوم مگر اردو میں رسمیں، وغیرہ۔ کچھ مضمون نگاروں کو مشورہ ہے کہ وہ آسان اردو میں لکھنے کی مشق کریں تاکہ ایک عام قاری بھی سمجھ سکے، ورنہ محترم محمد سعید کا جملہ ’’اسے پشت بہ منزل کرنے کے لیے‘‘ ’’پس پشت منزل‘‘ ہوسکتا ہے۔ یوں بھی آسان تحریروں میں بھی مشینی کتابت (کمپوزنگ) کچھ سے کچھ کردیتی ہے۔ محمد سعید صاحب، ذریعے میں ہمزہ نہیں آتا، یعنی ’’ذریعۓ‘‘ لکھنا غلط ہے۔ اسی طرح ’’کیلئے‘‘ لکھنا بھی غلط ہے۔ اس کا تلفظ تو ’’کے لئے‘‘ ہوجائے گا اور لئے بے معنی ہے۔ پہلے بھی نشاندہی کی جاچکی ہے کہ ’لیے‘، ’دیے‘، ’کیے‘ کے سر پر ہمزہ سجانا غلط ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ لکھنے والے کبھی کبھی لغت بھی دیکھتے رہیں۔ ہم تو یہی کرتے ہیں کہ جہاں شک ہوا، لغت سے رجوع کرلیا۔ چند الفاظ کا تلظ عموماً غلط کیا جاتا ہے: اِغواء ۔ اَلْوداع۔ اَقسام ہم بھی لغت دیکھنے سے پہلے زیر، زبر کی غلطی کرتے رہے ہیں۔ برقی ذرائع ابلاغ پر سننے میں آتا ہے ’’اے ٹی سی کورٹ‘‘۔ اب کوئی پوچھے کہ بھائی اے ٹی سی میں سی (C) کس لیے ہے۔ یہ اینٹی ٹیررسٹ کورٹ کا مخفف ہے اس میں کورٹ موجود ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کئی بار پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی اخبارات میں نظر سے گزرا۔ اس میں بھی آخری ایس سوسائٹی ہی کے لیے ہے۔ ایک عمومی غلطی اخبارات میں یہ ہو رہی ہے کہ دو جمع ایک ساتھ آرہی ہیں مثلاً ’’بھیجیں گئیں، کرائیں گئیں، لائیں گئیں‘‘۔ اصول یہ ہے کہ جب گئیں آجائے تو اس سے پہلے واحد ہی کافی ہو گا۔ اغواء کا مطلب اردو میں تو سب کو معلوم ہے۔ لیکن یہ عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے بہکانا، ورغلانا، راہ سے بے راہ کرنا۔ اغواء کرنے والے یہی تو کرتے ہیں کہ کسی کو اس کی راہ سے بھٹکا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے شخص کو مغوی کہا جاتا ہے جب کہ عربی میں اس کا مطلب ہے اغوا کرنے والا۔ لیکن اب یہ الفاظ عربی کے نہیں، اردو کے بن گئے ہیں چنانچہ اب یہی صحیح سمجھے جائیں گے۔ کئی الفاظ ایسے ہیں جو دوسری زبانوں میں جا کر اپنے معانی بدل گئے۔ اس کی بڑی واضح مثال، جلوس ہے۔ عربی میں اس کا مطلب ہے بیٹھنا۔ ہم لوگ جلوس میں بیٹھتے نہیں، چل پڑتے ہیں۔ ماہنامہ ’افکارِ معلم‘ لاہور میں ایک پروفیسر جمیل چوہدری (چودھری) کا بہت اچھا مضمون ’’سید مودودیؒ کی یادیں اور باتیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے، لیکن مضمون کی تمام دلکشی زبان و املا کی غلطیوں نے گہنا دی۔ مثال کے طور پر ’’ممبر رسول‘‘، طلبہ کی جگہ ’’طلبائ‘‘، لیے کی جگہ ’’لئے‘‘، ’’ننھی منھی لائبریری‘‘، دھواں دھار کی جگہ ’’دھنواں دار‘‘، ’’علمی لہاظ‘‘ وغیرہ۔ اس مضمون میں آگے چل کر طلباء، طلبہ ہوگئے۔ اس مضمون میں کئی غلطیاں ممکن ہے کہ کمپوزنگ کے سر جائیں، لیکن یہ مضمون شائع ہوچکا ہے اس لیے ذمے داری پروفیسر صاحب ہی پر آئے گی جو بقول خود طالب علمی کے زمانے ہی سے سید کا لٹریچر پڑھتے رہے، ان کی تقاریر سنتے رہے اور پروفیسر بھی ہیں۔  بشکریہ : فرائیڈے اسپیشل

www.akhbaroafkar.com