اخلاق ومروت کے پیکر،عظیم عالم دین ومربی، مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری (۴)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

08:05PM Sun 29 May, 2022

 اخلاق ومروت کے پیکر ،عظیم عالم دین و مربی ،مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی ؒ  (4)

 تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل 

مصر جانے کی امید میں آپ نے ڈیڑھ سال شیخ شرقاوی کی تربیت میں  گزار دئے، مصر درخواستیں بھیجنے کی تاریخ نکل جانے کی وجہ سے پہلے سال آپ کی درخواست قبول نہ ہوسکی ۔ اوراگلے  سال پر مسئلہ ٹل گیا۔

اسی دوران سعودی عرب کے    شاہ سعود بن عبد العزیز  کو سنہ ۱۹۶۱ء میں  خیال آیا کہ تاریخ کے ہر دور میں مدینہ منورہ علوم اسلامیہ کا سرچشمہ رہا ہے، اورحق کا پیغام مدینہ ہی سے عام ہوتا رہا ہے، تو پھر آج بھی یہاں سے اسلام کے کام کو زندہ رکھنے اور پھیلانے کے لیے مدینے میں ایک عالمی درس گاہ کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے۔ بادشاہ بادشاہ ہی ہوتے ہیں۔ بات دل میں آجائے تو انتظار اور تاخیر کیوں؟ مدینہ منورہ میں وادی عقیق کے کنارے قصر سلطان کے بغل میں ، فوجیوں کی طویل وعریض رہائش گاہ تھی۔ اسی کو جامعہ کے لیے وقف کر دیا، اور دنیا بھر کے اخبارات میں اعلان کر دیا کہ اکتوبر ۱۹۹۱ء سے یہاں تعلیم شروع ہو جائے گی۔ اس میں سعودی طلبہ صرف بیس فی صد ہوں گے، اور اسی (۸۰  ) فی صد غیر سعودی،  عربی مدارس کے فارغین داخل کیے جائیں گے  ۔ (  میرے اساتذہ۔ ۲۲)

 یونیورسٹی کی سال اول کھیپ میں ہندوستان سے  (۱۲  ) طالب علم منتخب کئے گئے تھے، جن  میں جنوبی ہند کے لئے  (  ۳) طالب علم تھے، "اندھے کو کیا چاہئے " لاٹھی کے مصداق ، آپ نے ازہر شریف جانے کا ارادہ ترک کرکے مدینہ منورہ جانے کا فیصلہ کردیا۔نومبر ۱۹۶۱ء میں آپ کا داخلہ جامعہ اسلامیہ  مدینہ منورہ میں ہوا، جہاں سے آپ کی فراغت سنہ ۱۹۶۵ میں مکمل ہوئی۔ ا س واقت ٓپ کے ہندوستا ن کے ساتھیوں میں ، مولانا فضیل الرحمن ہلال عثمانی ؒ، ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی، مولانا رشید الوحیدی،اور ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی قابل ذکر ہیں۔ مولانا کے مطابق  جامعہ کا مزاج اور ماحول اس زمانے میں اس طرح کا تھا کہ:

   ″شاہ نے اس یونی ورسٹی کے قیام کے سلسلے میں نہ صرف عالم اسلام کے چوٹی کے  علماء سے رائے مشورہ کیا تھا، بلکہ مجلس شوری کی ایک مستقل کمیٹی بنادی تھی، جس میں نجد وحجاز ہی کے نہیں مصر و شام، عراق و اردن تونس ومغرب اور ہندو پاک کے ممتاز اہل علم اور دانش ور حضرات بھی شامل تھے۔ ان میں سے چند بڑے بڑے نام یہ تھے، مصر کے شیخ حسنین  محمد مخلوف (  مالکی) ، شام کے شیخ مصطفى الزرقا ء (  حنفی)، شیخ محمد المبارک اور شیخ بهجت البيطار عراق کے شیخ بہجت الاثری، اردن کے شیخ عبد اللہ القلیقلی ، ہندوستان کے شیخ ابو الحسن علی ندوی، پاکستان کے شیخ  مودودی اور شیخ داؤدغزنوی رحمہم اللہ اجمعین ۔ یہ سارے بزرگ سال میں دو مرتبہ رجب اور ذی الحجہ میں بالالتزام تشریف لاتے، سر جوڑ کر بیٹھتے ، جامعہ کے کام کو مفید اور موثر بنانے کے لیے بے لاگ مشورے دیتے،   اور سعودی علماء ان کی باتوں پر کان دھرتے اور ان کی تجاویز قبول کرتے،  مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پہلے سال ہم نے فقہ میں امام  ابن قدامہ حنبلی کی″ المقنع ″پڑھی تھی، مگر دوسرے سال انہی علماء کے مشورے سے″ المقنع″ کی جگہ ابن رشد کی ″بدایۃ المجتھد″ آگئی، سعودی علماء کی کشادہ دلی اور بلند نگاہی ملاحظہ ہو کہ وہاں کا سرکاری مذہب حنبلی ہے۔ اس کے مطابق محاکم شرعیہ میں فیصلے ہوتے ہیں، المقنع ان کے مراجع کی ایک کتاب ہے، لیکن جامعہ میں چونکہ کئی مسلکوں   کے طلبہ پڑھتے ہیں، اس لیے انھوں نے مناسب مذاہب  معروفہ کی کتاب ”بدایۃ المجتھد″ کو المقنع کی جگہ خندہ روئی کے ساتھ قبول کرلیا۔

جامعہ میں آپ کو اس دور کے چوٹی کے اساتذہ  ، شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن بازؒ، شیخ محمد ناصر الدین البانیؒ، شیخ محمد امین شنقطی، شیخ عبد المحسن بن حمد العباد البدر، شیخ محمد عطیہ سالم، شیخ عبد القادر شیبۃ الحمد،  شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد گوندلویؒ، شیخ الحدیث مولانا عبد الغفار حسن رحمانیؒ ، شیخ ابو العز رمضانؒ، شیخ عبد اللہ بن زاید، مولانا محمد ناظم ندویؒ،  سےآپ کو باقاعدہ پڑھنے کا موقعہ ملا۔ ان اساتذہ سے آپ نے استفادہ کی بھرپور کوشش کی، خاص طور پر شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز ؒسے آپ کے ذاتی روابط قائم ہوئے ۔ (میرے اساتذہ ۔ ۱۳۶  )، جو آخر تک قائم رہے، ان روابط  نے شیخ بن بازؒ اور  جامعہ دارالسلام عمر آباد کے مابین تعلقات کو  مضبوط تر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا، میرے اساتذہ کے عنوان سے آپ نے جو مجموعہ مرتب کیا ہے اس میں ان اساتذہ  کی زندگیوں کی جھلکیوں کی خوب منظر کشی ملتی ہے۔

جامعہ جب شروع ہوئی اور اس میں عالم اسلام کی کئی ایک نامور شخصیات اس کی مجلس استشاری کی رکن بنیں  تو سال میں دو مرتبہ رجب اور ذہ الحجہ میں یہ سب جمع ہوتے تھے، ساتھ ہی ساتھ استاذ زائر کی حیثیت سے اس دور کی عظیم شخصیات کے علمی خطبات  پابندی سے رکھے جاتے تھے،جن کی صدارت شیخ بن باز خود کیاکرتے تھے،  اس سلسلے میں آپ کو حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے محاضرات جو عربی میں  (  النبوۃ والانبیاء فی ضوء القرآن الکریم  ) جن کا اردو ترجمہ   (منصب نبوت اور اس کے عالی مقام حاملین  ) کے نام سے شائع ہوا، انہیں  حرف  بہ حرف  مصنف علیہ الرحمۃ کی زبانی سننے کا موقعہ ملا ، اسی طرح ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم ، مفتی محمد امین الحسین  (  فلسطین)، ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشیؒ وغیرہ کے محاضرات میں بھی شرکت نصیب میں آئی۔

چونکہ اس وقت جامعہ میں طلبہ کی تعداد تین سو کے سے زیادہ نہیں  تھی، ان میں  برصغیر کے طلبہ کی تعداد اور بھی بہت  کم تھی، تو آپ  ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی، ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی،  کے ساتھ آنے والے مہمانوں سے ملاقات اور خدمت  کا خصوصی اہتمام کرتے تھے، لہذا ان حضرات کے تعلقات حضرت مولانا علی میاں ؒ اور دوسری علمی وملی شخصیات سے بڑے گہرے ہوگئے تھے۔  ان کے علاوہ جامعہ کے ساتھیوں میں  مولانا عبد الرحمن بن عبید اللہ مبارکپوری (شارح مشکوۃ  ) ، شیخ عبد الرحمن عبد الخالق، شیخ ربیع بن ہادی المدخلی، ڈاکٹر صہیب حسن عبد الغفار قابل ذکر ہیں،  انہی دنوں ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمن الاعظمی مرحوم نے  داخل اسلام ہو کر کچھ عرصہ  بعد جامعہ دارالسلام سے تعلیم مکمل کی تھی، مدینہ  منورہ میں داخلہ کے لئے قانونی عمر زیادہ ہونے کے باوجود آپ کی کوششوں سے استثنائی طور پر  شیخ بن باز نے  ڈاکٹر صاحب کا  داخلہ جامعہ اسلامیہ میں کروایا تھا۔

 یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب آپ اپنے مشفق مولانا محمد مسلم ؒ  ۔ مدیر سہ روزہ دعوت دہلی کو یونیورسٹی میں اپنے کمرے لے گئے تھے، اس امید کے ساتھ کہ مسلم صاحب جو ہمیشہ آپ کو  خوش دیکھنا چاہتے تھے، آپ کے یہاں کے  ٹھاٹ باٹ سے آپ کو دلی مسرت ہوگی، لیکن آپ کا چہرہ مرجھا گیا، آپ نے پوچھا کیوں، کیا بات ہے؟ افسوس کے ساتھ فرمایا ، آپ واپس ہوکر وہ کام نہیں کرسکیں گے جو یہاں آنے سے پہلے کیا کرتے تھے ۔ (  میرے اساتذہ۔ ۱۹۳)۔

ترے صوفے ہیں  افرنگی، ترے قالین ہیں ایرانی

لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

شاید اسی کا اثر تھا کہ مدینہ  منورہ سے فراغت کے چند سال بعد  جولائی ۱۹۷۰ ء میں آپ کو جامعہ سے سند مرحمت ہوئی ، آپ وطن واپسی کی خوشی میں سرشار تھے، مستقبل کے سنہرے خواب دیکھ رہے تھے، سفر کی تیاری شروع کردی تھی، مگر اڑنے نہ پائے ہم کہ گرفتار ہوگئے، کے مصداق ملک فیصل ؒ نے شیخ بن باز سے فرمائش کی کہ فارغین کی کھیپ سے افریقہ کے مختلف ممالک میں اسلام کی نشرواشاعت اور تعلیم و تدریس کے لئے پچاس افراد منتخب کرلئے جائیں، آپ کے اکثر ساتھیوں نے اس پیش کش کو نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر قبول کرلیا، لیکن آپ کے دماغ میں ماں جی کی محبت اور مادر علمی  کی خدمت کا جذبہ وطن واپسی کا تقاضا کررہا تھا، شیخ بن بازؒ کی خدمت میں پہنچ کرآپ نے عرض کیا کہ سفر کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ اس کے بعد کا قصہ آپ ہی کہ زبانی سنئے،″  پوچھا ملازمت کا یہ نادر موقع کیوں ضائع کرنا چاہتے ہو؟، میں  نے کہا : گھر پر میری ماں میرا انتظار کررہی ہیں،سوال فرمایا: تم کتنے بھائی ہو؟ جواب دیا: چار ۔ فرمانےلگے : خل الثلاثۃ، یخدمون الام، وانت تخدم الدین۔ تینوں بھائیوں کو ماں کی خدمت کرنے دو اور تم دین کی خدمت کرو۔ لاجواب ہوکر واپس ہوگیا۔ دو ہفتوں بعد صبر نہیں ہوا، تو پھر اپنی درخواست کا اعادہ کیا۔ آپ کو اندازہ ہو گیا کہ میں اپنے فیصلے پر اٹل ہوں، تو نہ صرف اجازت عنایت کی، بلکہ متعلقہ ذمے داروں کو لکھ کر میرے تمام حقوق اور ٹکٹ جاری کرنے کے احکام صادر فرمائے، اور میں بدھو گھر واپس آگیا″ ۔ (  میرے اساتذہ۔ ۱۴۷)

۱۱ ؍ فروری ۱۹۶۶ء سے آپ جامعہ دارالسلام عمرآباد میں بحیثیت مدرس وابستہ ہوئے، اور تادم واپسیں اسی کے ہورہے، اس دوران وقفہ وقفہ سے ۱۹۷۶ء سے ۱۹۷۸ء تک نائجیریا میں اور ۱۹۸۲ ء میں  افریقہ  میں اور ۱۹۸۶ء میں ملیشیا میں  دعوتی و تعلیمی خدمات انجام دیں۔

جامعہ داالسلام عمرآباد سے تدریس اور نظامت کا زمانہ  جامعہ کی وسعتوں کا زمانہ ہے، اس دور میں اللہ تعالی نے اس ادارے کو جناب کاکا محمد عمر مرحوم اور مولانا کاکا محمد سعید عمری جیسے معتمد دئے، اس دوران مادی وسائل کے دوروازے بھی جامعہ پر کھلے، اور ان حضرات کے اخلاص، وسعت نظری، اور جدوجہد سے جامعہ نے بڑی ترقیاں کیں، ان کے ادوار میں جامعہ کے روابط ندوۃ العلماء لکھنو وغیرہ دیگر مرکزی تعلیمی اداروں سے مضبوط ہوئے، یہاں پر رابطہ ادب اسلامی کے سیمینار منعقد ہوئے، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے زیر سرپرستی اسلامی فقہ اکیڈمی کا عظیم الشان سیمینار منعقد ہوا، دعوتی پروگراموں میں مولانا کلیم صدیقی صاحب وغیرہ کے بھی پروگرام  منعقد ہوتے رہے۔  جامعہ کے احاطہ میں وسیع  کیمپس  کھڑے ہوئے، عظیم الشان مسجد تعمیر ہوئی، جامعہ سے فارغین کی ایک وسیع تعداد نکلی، جو دنیا بھر میں علمی و دعوتی خدمت سے منسلک ہوئی، فارغین  پر کشائش معاش کے بھی دروازے کھلے۔

جامعہ کے احاطہ میں علمی وادبی سرگرمیاں بھی رو ز افزو ں ترقی پر رہیں۔جامعہ دارالسلام کا  ترجمان( راہ اعتدال) جاری ہوا، جس میں آپ کے دیڑھ سو سے زیادہ علمی و ادبی مضامین شائع ہوئے، (۱ )  متاع قرآن (۲  ) فکری یلغار۔ (۳) میری زندگی کا حاصل  (  ۴)اسلام میں اختلاف کے آداب ( ۵ ) ارض حرم میں پہلا قدم (سفرنامہ حج و عمرہ ) 6 (۶  )صدائے دل(مجموعہ خطبات( وغیرہ آپ کی علمی وفکری کتابیں منظر عام پر آئیں۔

آپ ایک بہترین مدرس تھے،  بدایۃ المجتھد، صحیح مسلم، سنن ترمذی، حجۃ اللہ البالغۃ، نخبۃ الفکر جیسی کتابوں کی تدریس آپ کے ذمے رہی،  جس میں آپ نے موجود زمانے کے مسائل کو ان کتابوں سے مربوط کرنے کی اپنے شاگردوں کو سمجھانے کی کوشش کی، قرآن شریف آپ کے مطالعہ کا محورتھا، راہ اعتدال میں آپ قرآن کی سورتوں کا تعارف شروع کیا تھا، جو تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔

جامعہ کے طلبہ آپ سے بہت مانوس تھے، اور آپ سے بلاکسی جھجھک اور  رکاوٹ کے  بغیر کبھی بھی استفادہ کرسکتے تھے۔ آپ کے اس دور کی تفصیلات  آپ کے شاگردوں کی  زبانی ان شاء اللہ  منظر عام  پر آئیں گی۔  اور آئندہ نسلوں کی رہنمائی کا باعث بنیں گی۔

مولانا حفیظ الرحمن اعظمی ایک بھرپور زندگی گزار  کراپنے خالق حقیقی سے جاملے، آپ کی رحلت کی خبر نے بہتوں کی آنکھوں  کو آنسؤوں سے ترکیا، وہ اللہ کے مقبول بندو ں جیسی  زندگی گزار کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ آپ نے زندگی کے جو نقوش چھوڑے ہیں وہ آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ بنے رہیں گے، اور آپ کے حق میں دعاؤں کے لئے ہاتھ بلند ہوتے رہیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگیوں میں شہرت وناموری میں اپنا حق نہیں پاتے، لیکن اپنے کردار اور خدمات سے ان کا نام تا قیامت دلوں میں  زندہ رہتا ہے۔ اللہ آپ کے درجات بلند کرے۔

+971555636151

2022-05-29