تبصرہ کتب ۔۔۔ تحریر : عبد الصمد تاجی

Bhatkallys

Published in - Other

01:57PM Fri 29 Sep, 2017

کتاب   :       ہم کا استعارہ

مصنف/مرتب: سید عون عباس

صفحات:194۔ قیمت 200 روپے

ملنے کا پتا:جہانِ حمد پبلی کیشنز کراچی

2/19 نوشین سینٹر اردو بازار کراچی

یاور مہدی ایک شخص ہی نہیں بلکہ ایک ادارہ ہیں، اور ان کی کہانی گزشتہ آٹھ دہائیوں پر محیط ہے۔ آپ کے فن اور شخصیت پر غالباً پہلی کتاب 1998ء میں برادرِ محترم اویس ادیب انصاری نے مرتب کی جو بنام ’’یاور مہدی‘‘ جاوداں پبلشر نے شائع کی۔ 674 صفحات پر محیط یہ دستاویز ان محبتوں، عقیدتوں کی آئینہ دار ہے جن کا منبع یاور مہدی ہیں۔ مخدوم محی الدین کا یہ شعر آپ پر صادق آتا ہے   ؂

حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

یاور مہدی کے کردار کی سچی تصویر ڈاکٹر عالیہ امام نے لفظوں میں یوں کھینچی: ’’ایک دن میں ریڈیو پاکستان اپنے ایک دوست کے کام سے گئی۔ چپراسی نے کام کا لفظ سنتے ہی ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’بیگم صاحبہ! کام تو بس یہاں ہی ہووے ہے، ہاں! باقی تو سب فضول جی!‘‘ کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک صاحب نے ہنستے مسکراتے ہوئے پُرتپاک انداز میں استقبال کیا۔ ۔ ۔  لانبا قد، چھریرا جسم، سرخ و سفید رنگت، سر سے پیر تک مسکرانے کا موسم۔ ۔ ۔  سکون، ضبط، خوداعتمادی مضبوط بھاری بھرکم شخصیت کا پتا دے رہی تھی۔ کمرے میں ہجومِ یاراں تھا، ’’سر آپ نے ہمارے گھر کی قسطیں تو کرادی ہیں لیکن بھائی کے داخلے کا۔ ۔ ۔ ‘‘ ’’وہ بھی ہوجائے گا‘‘۔ لڑکی جواب سے مطمئن ہوکر جاچکی تھی۔ ’’بھائی صاحب قبلہ! ہمارے پروگرام تو آپ نے کروائے، ذرا اضافہ کرادیجیے‘‘۔ ’’دیکھیے بیٹی کی شادی ہے۔ ۔ ۔  بیٹا طبلے پر بہت اچھی سنگت کررہا ہے‘‘۔ ’’خاں صاحب آپ پریشان نہ ہوں، وہ بھی ہوجائے گا‘‘۔ ۔ ۔  ’’چچا! امی کہہ رہی تھیں کہ بابو کے علاج کے لیے پیسوں کی اور بھی ضرورت ہے، وہ آپ ہی کرادیں۔ ۔ ۔  اور بتایئے کس سے کہیں؟‘‘ ’’گھبرایئے نہیں، ہم کردیں گے۔ ۔ ۔ ‘‘ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے۔ ۔ ۔ ’’جی جناب! ہمارا کیا ہوا؟ کتاب تو آپ نے چھپوادی لیکن اس کی مارکیٹنگ کا بھی تو بندوبست کیجیے، گھر کا خرچ بھی تو چلانا ہے۔‘‘

ان صاحب کا کمرہ تو بہت مختصر تھا لیکن دل میدانی درخت تھا جو بہت دیر تک جلتا اور لو دیتا ہے۔ چاروں طرف دھنک نکلی ہوئی تھی۔ ۔ ۔  قرمزی، بادامی، فیروزی، سرمئی، یاقوتی۔ پورا وجود پھولوں اور پتیوں کے ہار پہنے ہوئے تھا۔ کسی نے بتایا کہ یہ کہانی تو روز کا معمول ہے۔ صرف ریڈیو اسٹیشن ہی نہیں، گھر پر بھی رنگ دیکھنے کا ہوتا ہے۔ یوں سمجھیے آدم کی شرافتِ نفس کا خوب صورت باب، بے رنگی میں رنگوں کی معطر وادی۔ آدمی تو سبھی ہوتے ہیں، لیکن بقول شاہ بھٹائیؒ کسی کسی شخص میں بہار کی خوشبو آتی ہے اور کبھی کبھی کوئی انسان رنگوں کی معطر وادی بنتا ہے۔ یاور مہدی کی سوانح اور کارنامے سید عون عباس نے ’’ہم کا استعارہ‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں بڑے سلیقے سے پیش کیے۔ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے اپنے تبصرے میں لکھا: ’’ہم کا استعارہ‘‘ بااعتبارِ نام یاور مہدی کی شخصیت پر پورا اترتا ہے، میں نے اسے جستہ جستہ پڑھا تو بعض جگہ مجھے حیرت سے دوچار ہونا پڑا کہ آج بھی نوجوانوں میں علم و ادب کے ساتھ اپنی روایت کی پاسداری کا احساس جاگزیں ہے۔ حیرت کا سبب دانش کا قحط ہے اور قحط میں سید عون عباس جیسے نوجوان غنیمت ہیں۔ یاور مہدی جیسی شخصیت پر قلم اٹھانا ’’ایسا آساں نہیں لہو رونا‘‘ کے مترادف ہے۔ سید عون عباس کی یہ کتاب یقینا نوجوان نسل کو نہ صرف اس کے ماضی سے، بلکہ اس کی تہذیبی اقدار سے بھی آشنا کرنے کا سبب بنے گی۔ آج جتنی ہمیں ’’ہم‘‘ کی ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔‘‘

 کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر شاداب احسانی رقم کرتے ہیں: ’’ہم کا استعارہ‘‘ نامی کتاب ایک ایسے وقت میں شائع ہورہی ہے کہ جب پاکستان میڈیا کے زیراثر آچکا ہے۔ میڈیا کے معاملات ایک ایشو سے دوسرے ایشو کو پیدا کرنے جیسے ہیں۔ میڈیا کے چار بنیادی مقاصد فقیر کی کسی کُٹیا کے الاؤ کا ایندھن بن چکے ہیں۔  ہم ایک دوسرے پر اس الاؤ کا راکھ مَل رہے ہیں۔ قحط الرجال ہے۔ شاید ’’ہم کا استعارہ‘‘ سے قحط الرجال میں کمی واقع ہو۔‘‘

کتاب ایک تاریخی دستاویز ہے جو جابجا حقائق سے بھری پڑی ہے۔ منیر حسین نے بتایا: ’’مجھے پاکستان میں اردو میں ریڈیو کمنٹری کا بانی سمجھا جاتا ہے مگر اس کے پیچھے کسی شخص کی محنت ہے تو وہ یاور مہدی ہیں‘‘۔ یاور مہدی ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جس نے تمام عمر علم و ادب کے فروغ کے لیے صرف کردی۔ موصوف 78 برس کے ہوچکے ہیں، قیام لکھنؤ سے لے کر پاکستان تک ایک ہی روش پر گامزن نظر آتے ہیں۔

’’ہم کا استعارہ‘‘ چھے ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول ’’یاور مہدی، سوانحی خاکہ‘‘۔ باب دوئم ’’یاور مہدی کے ریڈیائی کارنامے‘‘۔ باب سوئم ’’یاور مہدی اور آرٹس کونسل کراچی‘‘۔ باب چہارم ’’یاور مہدی بحیثیت منتظم‘‘۔ باب پنجم ’’ایک دن کی بادشاہت‘‘۔ باب ششم میں آٹو گراف/تصاویر شامل ہیں۔

’’ایک دن کی بادشاہت‘‘ یہ عنوان ہے مقابلۂ مضمون نویسی کا، جو 1977ء میں بی بی سی اردو سروس نے کرایا جس میں اوّل انعام کے حقدار یاور مہدی قرار پائے۔ سید عون عباس نے اس مضمون کو کتاب میں شامل کرکے قارئین کو یاور مہدی کے طرزِ تحریر سے آگاہ کیا ہے جس سے کتاب کے حسن میں اضافہ ہوا۔ پہلا پیراگراف دیکھیے:

’’دیکھا کہ نہ تو وہ میرا بوسیدہ مکان ہے، نہ میرے سات عدد بچے چاروں طرف لڑھک رہے ہیں۔ اور نہ میری لڑاکا بیوی ہے، جو بات بات پر مجھے گھر سے نکالتی ہے۔ بلکہ یہ ایک محل ہے۔ بے شمار کنیزیں اور خادم ہیں اور درباریوں کا ہجوم ہے۔ ایک باوقار درباری آگے بڑھا اور اس نے ادب سے جھک کر کہا ’’جہاں پناہ کو آج کے دن بادشاہ مقرر کیا گیا ہے‘‘۔ پہلے تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، حیرت ذرا کم ہوئی تو خوف و دہشت سے تھر تھر کانپنے لگا، لیکن جلد ہی اپنے اوپر قابو پالیا کہ خوف کی یہ تھرتھری اور کپکپی کسی بادشاہ کو زیب نہیں دیتی، اور یہ سوچ کر کہ یہی تقدیر کا لکھا تھا جو ہونا تھا سو ہوگیا، میں نے ایک دن کی بادشاہت کے لیے اپنے آپ کو پوری طرح آمادہ کرلیا اور فیصلہ کرلیا کہ یہ دن ہنس بول کر گزاروں۔‘‘

’’یاور مہدی کا چمتکار‘‘ کے عنوان سے معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی نے فلیپ پر لکھا کہ ’’میرے اخبار کے دفتر میں بھی ریڈیو کے ایک صاحب ایک صفحے کی خبر لے کر آتے تھے۔ ایک روز میں نے اُن سے اپنی پرانی خواہش کا اظہار کیا کہ کسی دن آکر ریڈیو کی عمارت اندر سے دیکھنا چاہتا ہوں لیکن باہر کے گیٹ پر کھڑے رکھوالے بھلا مجھے اندر کیوں آنے دیں گے! اس پر ان صاحب نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں اور رکھوالوں سے صرف اتنا کہیں کہ آپ یاور مہدی سے ملنے آئے ہیں۔ اس کے بعد جو ہوا وہ کھل جا سم سم کی کہانی میں بھی نہ ہوا ہوگا۔‘‘

کتاب نہایت دلچسپ ہے۔ اس میں ماضی کی سنہری یادیں اور روشن لمحوں کے جگنو جا بجا چمکتے دکھائی دیتے ہیں۔ عمدہ کاغذ پر طبع کی گئی یہ کتاب جہانِ حمد پبلی کیشنز کراچی نے شائع کی ہے، سرورق عزیزم حافظ محمد نعمان طاہر نے بنایا، جبکہ خطاطی سید رفیع الحسن نقوی نے کی ہے۔ قیمت مناسب ہے۔

فرائیڈے اسپیشل

www.akhbaroafkar.com