پرسنل لاء صرف مسلمانوں کا مسئلہ تھوڑی ہے؟ !(تیسری اور آخری قسط)۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
ایک طرف ایک ملک ،ایک طرح کی شہریت اور ایک قانون کے نام پرسرکار کی طرف سے ملک میں یونیفارم سول کوڈ کے لئے راہیں ہموار کرنے اور ماحول گرمانے کا کام ہورہا ہے۔ تو دوسری طرف سپریم کورٹ میں تین طلاق کا مسئلہ اس طرح پیش کیا جارہا ہے کہ اس کی آڑ میں مسلمانوں کو اسلامی شرعی قوانین پر عمل پیرائی سے روکنے اور اپنی شادی ، طلاق، وراثت جیسے مسائل سے نمٹنے کے لئے موجودمسلم پرسنل لاء کی سہولت سے محروم کرنے کی فسطائی حکومت اور سنگھی ذہنیت کی سازش بے نقاب ہوتی جارہی ہے۔اور حالات پر نظر رکھنے والے مسلم دماغ سوچ رہے ہیں کہ :
ہَوا بہت ہے متاعِ سفر سنبھال کے رکھ دریدہ چادرِ جاں ہے ، مگر سنبھال کے رکھ
جیساکہ میں نے گزشتہ قسطوں میں بتایا کہ ہندوستان میں صرف ایک مسلمانوں کو ہی پرسنل لاء پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ ہندوؤں کے لئے جیسے الگ سے قوانین ہیں اسی طرح میں عیسائیوں کے لئے بھی ان کے عائلی قوانین جداگانہ ہیں۔اسی ملک کا حصہ ہونے کے باوجودریاست گوا کے اپنے عائلی قوانین ہیں ۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں بالکل معدوم ہوتی ہوئی پارسی قوم کے لئے بھی جدا گانہ عائلی قوانین موجود ہیں۔ اور اگر ان کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اس میں عورتوں کے ساتھ عدم مساوات اور غیر منصفانہ رویہ صاف نظر آتا ہے۔ لیکن جن کو اسلام کے ساتھ ازلی کد ہے ، ان کو کیڑے تو صرف مسلم معاشرے اور ظلم و جبر صرف اسلامی قوانین میں ہی نظر آتے ہیں۔ ہندو پرسنل لاء اورخواتین کے ساتھ ناانصافی: مسلم پرسنل لا ء میں مسلم خواتین کے ساتھ ہونے والی "ناانصافی اور ظلم و زیادتی" کا مسئلہ کھڑا کرکے مگر مچھ کے آنسو بہانے والے ہندتووادی سیاستدانوں اوردانشوروں نے اس طرف سے بھی آنکھیں بند رکھی ہیں کہ خود ہندوؤں پر لاگو ہونے والے ہندو میریج ایکٹ اور Hindu Minority and Guardianship Actمیں ہندو خواتین کے ساتھ کس قسم کی ناانصافی اور عدم مساوات کا معاملہ ہورہا ہے۔اس قانون کے تحت ہندو مائیں باپ کی طرح اپنے بچوں کی یکساں سرپرست guardianنہیں ہوتی ہیں۔یہاں بچے کے باپ کو فطری سرپرستnatural guardian مانا جاتاہے اورزیادہ سے زیادہ پانچ سال کی عمر تک ہی بچے کو ماں کی سرپرستی میں دیا جاسکتا ہے۔ ہندو عورت اگر بے اولاد مرجاتی ہے اور اس کا شوہر بھی زندہ نہ ہوتو اس عورت کا مال اور جائیداد شوہر کے رشتے داروں میں تقسیم کیا جائے گا اور متوفیہ کے والدین یا خاندان کو اس میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا، جبکہ مرد کے معاملے میں ایسا نہیں قانون نہیں ہے۔ماہر قانون کیرتی سنگھ کے بقول:"اگر وفات پانے والی ہندو عورت کے ساتھ اس کی سسرال میں ظلم و زیادتی اور جبر وستم کا رویہ ہی کیوں نہ اپنایا گیا ہو، مگر اس کی جائیداداس کے اپنے والدین کے بجائے شوہر کے والدین کوہی ملے گی۔" دیگر طبقات کے پرسنل لاء اور ان کے غیر منصفانہ قوانین: ہندوستان کے عیسائیوں پر Indian Christian marriage act 1872لاگوہوتا ہے ، جو ان کے پرسنل لاء کی ہی شاخ ہے۔اور طلاق کے لئے ان پر Indian divorce act 1869اور concerts Marriage dissolution act 1936کا اطلاق کیا جاتا ہے۔اس میں ایک شوہرکو بیوی سے اس صورت میں طلاق لینے کا حق حاصل ہے ، جبکہ وہ بے وفائی کرے۔ اور بیوی طلاق اس وقت مانگ سکتی ہے جب شوہر عیسائی مذہب چھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کرے اور کسی دوسری عورت سے شادی کرلے ۔یاپھر امرد پرستیsodomy (لڑکوں کے ساتھ جنسی عمل)،bestality(جانوروں کے ساتھ جنسی عمل )اور Incestuous adulteryیعنی کسی محرم رشتے دار کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو۔اس کے علاوہ ان کے یہاں طلاق کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ عیسائیوں کے اپنے The Canon Law (پرسنل لاء )کے مطابق کیتھولک عیسائیوں کی شادیاں چرچ میں ہی انجام دی جاتی ہیں اور طلاق کے فیصلے بھی چرچ کی عدالت میں کیے جاتے ہیں۔ ان کے یہاں چرچ سے ہٹ کر انجام دی گئی شادی یا طلاق کومذہبی اعتبار سے قبول نہیں کیا جاتا۔ پارسی طبقہ اور ان کے سخت قوانین: حالانکہ ہندوستان میں پارسی قوم بالکل معدوم ہوتی جارہی ہے، لیکن کے لئے بھی خصوصی عائلی قانون موجود ہے۔ اور ان پرThe Parsi Marriage and Divorce Act, 1936کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کی رُو سے اگر کسی پارسی مرد نے کسی غیر پارسی خاتون سے شادی رچائی تو اس عورت کو وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملتا۔پارسی قوم کی طرف سے پارسی مرد یا عورت کو غیر پارسیوں کے ساتھ شادی رچانے کی ممانعت ہے اور ایسا کرنے پر انہیں سزا دی جاتی ہے۔غیر پارسی خاتون سے شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کو پارسی قوم کا حصہ شمار نہیں کیا جاتا۔ جبکہ ان طبقات کی خواتین کے مقابلے میں نکاح ، طلاق، وراثت بچوں کی سرپرستی وغیرہ کے حوالے سے مسلم خواتین کو زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ مسلم پرسنل لاء کے تحت مسلم شوہر کوطلاق کا ہی ہی نہیں بلکہ بیوی کو بھی خلع اور فسخ کا مطالبہ کرنے کا حق دیا گیا ہے۔شوہر کے لاپتہ ہونے، نان نفقہ ادانہ کرنے، نامرد ہونے، پاگل ہوجانے،برسوں تک حق زوجیت ادا نہ کرنے،لمبے عرصے کے لئے جیل میں قید ہونے،کوڑھ کے مرض اور جنسی امراض میں مبتلا ہونے کے علاوہ شوہر کو کسی وجہ سے ناپسند کرنے کی صورت میں بھی بیوی شوہر سے خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ دیگر ملکی قوانین اور ان کے تضادات: اسی طرح عائلی مسائل سے متعلق ملک میں رائج دیگر قوانین کے اندر بھی تضادات اور عدم یکسانیت موجود ہے۔ مثلاًProhibition of Child Marriage Actکو لیجئے، جس میں کم عمر کی شادیوں پر پابندی لگائی گئی ہے، اور شادی کے لئے لڑکی کی عمر 18سال اور لڑکے کے لئے 22سال مقر ر کر دی گئی ہے۔ یہ عمر کی حد خود جنس کی بنیاد پر مرد اور عورت کے بیچ تفریق کی کھلی علامت ہے۔ ورنہ جس طرح مر دو عورت کی برابری کا (غیر فطری) پروپگنڈہ کیا جارہا ہے اس کے مطابق یکساں قانون کے طور پر دونوں کے لئے شادی کی عمر ایک ہی ہونی چاہیے تھی۔اس کے علاوہ اس قانون کی رُو سے اس سے کم عمر کی شادی پر پابندی تو لگائی گئی ہے ، لیکن کم عمر کی شادی اگر واقع ہوجاتی ہے تو پھر اس شادی کو قانوناً کالعدمnull and void قرار نہیں دیا جاسکتا۔لہٰذا قانونی پابندی کے باوجود ملک میں کم عمری کی شادیاں اور وہ بھی غیر مسلموں میں دھڑلے سے انجام دی جارہی ہیں۔البتہ شادی شدہ جوڑے کی طرف سے خود اس کم عمری کی شادی کو کالعدم قرار دینے کی گنجائش ہے۔لیکن یہاں بھی عورت اور مرد کی عمر کے بیچ جنس کی بنیاد پر تفاوت ہے، کیونکہ عورت کے لئے شادی کو کالعدم قرار دینے کی عمر 20سال اور مرد کے لئے 22سال متعین کی گئی ہے۔ عصمت دری کے معاملے میں قانونی فرق : 18سال سے کم عمر کی کسی لڑکی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرناقانوناً جرم ہے اوراسے نابالغ کے ساتھ عصمت دری rape میں شمار کیا جاتا ہے ، جس کے لئے حالیہ دنوں میں POCSOجیسے سخت قانون پر عمل کیا جانے لگا ہے۔لیکن چونکہ قانونی طور پر مقررہ عمر سے پہلے عمل میں آئی ہوئی شادی غیر قانونی نہیں ہوتی، اس لئے پندرہ یا سولہ سال کی بیوی کے ساتھ جنسی عمل کرنے والے پر یہ قانون لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ اپنے سے علاحدہ رہنے والی seperatedبیوی سے اگر کوئی شوہر مجامعت کرتا ہے تو اسے بھی ریپ ماناجاتا ہے اور اس کے لئے تین سال سے سات سال تک کی سزا ہوسکتی ہے، جبکہ وہی مرد کسی غیر عورت کا ریپ کرتا ہے، تو اس کے لئے سات سال سے عمر قید تک کی سزا ہوسکتی ہے۔ کیااسے عورتوں کے ساتھ قانون کا غیر منصفانہ رویہ نہیں کہا جاسکتا!ان سب کے علاوہ بھی ملک کے مختلف قوانین او ر ان کے اطلاق میں بہت سارے تضادات پائے جاتے ہیں مگر طوالت سے بچنے کے لئے اس سے گریز کرتے ہوئے کچھ اشارات پر ہی اکتفا کیاگیاہے۔ ہندو لاء رسم و رواج ہے تو پھر اسلامی قوانین سے مخاصمت کیوں؟: مسلم پرسنل لاء پر جو ہنگامہ مچایا جارہا ہے اس کے تحت معترضین تین طلاق (بلکہ درپردہ حق طلاق) پر آج کل جو سوال اٹھا رہے ہیں اور اسے اسلامی قوانین کا حصہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں، وہ ہندو کوڈ بل کے تحت رائج ان کے پرسنل لاء یا ہندو لاء کے تعلق سے کیوں اعتراض نہیں کرتے ، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کا منبع رسم ورواج، ثقافت اور سالہا سال سے انجام دئے گئے اعمال ہے۔ Hindu Marriage Act 1955 کی دفعہ 3میں درج ہے کہ: "Custom or usage is a rule which has been continuously and uniformity observed for a long time among the Hindus in any local area, tribe, community, group of family.........." حالانکہ اس قانون کے دائرے میں بدھسٹ، جین اور سکھوں کو بھی لایا گیا ہے، مگر بدھسٹ اور سکھ تو اپنے آپ کو ہندو مانتے ہی نہیں ہیں، اس لئے وہ اس پر عمل پیرائی کے لئے تیار نہیں ہیں۔ کثرت ازواج کا مسئلہ اور پولی اینڈری: تعدد یا کثرت ازواج کا مسئلہ بھی مسلم پرسنل لاء پر حملہ کرنے والوں کا بڑا ہتھیار ہے، لیکن قبائلیوں میں موجود ایک شرمناک رواج polyandryیعنی عورتوں کے بیک وقت ایک سے زیادہ شوہررکھنے پر کوئی ناک بھوں نہیں چڑھاتا۔ نہ اسے عورت کی تذلیل سمجھاجاتا ہے اور نہ ہی غیر مہذب عمل قرار دیا جاتا ہے۔ پولی اینڈری ایک ایسی رسم یا ثقافتی رواج ہے جس کے تحت خاندان کا بڑا بیٹا کسی عورت سے شادی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس مرد کے تمام چھوٹے بھائیوں کو اپنی بھابھی پر جسمانی حق مل جاتا ہے اور وہ بیک وقت تمام بھائیوں کی بیوی کہلاتی ہے۔ لیکن جب و ہ بچے کو جنم دیتی ہے تو پھر بڑے بھائی کو ہی اس بچے کا باپ مانا جاتا ہے۔اس کے علاوہ پولی اینڈری پر عمل کرنے والے قبائل میں یہ ضروری نہیں کہ ایک عورت کے ایک زائد شوہر آپس میں بھائی بھائی ہوں۔ بیک وقت ایک سے زائد غیر رشتہ دار مردوں سے ایک ہی عورت کا شاد ی رچانا بھی ان کی ثقافت کا حصہ مانا جاتا ہے۔ تعجب ہے کہ مسلمانوں کے قوانین کو دقیانوسی ،غیر مہذب ، غیر منصفانہ اور خلاف حقوق انسانی کہنے والے" تہذیب یافتہ دانشور"اس قبیح عمل کے خلاف اپنی زبانیں کھولنا کبھی پسند نہیں کرتے۔قیصرؔ رولو ، غزلیں کہہ لو ، باقی کچھ ہے درد ابھی اگلی رُتوں میں یوں لگتا ہے سب پتھر ہو جائے گا
یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت ہندوؤں نے کی تھی: ہندوؤں کے قوانین کا مجموعہ ہندو کوڈ بل پیش کرنے سے قبل19481501951اور 19511501954کے پارلیمانی اجلاس کے دوران Hindu law committeeکی رپورٹوں پر بحث کی گئی تھی۔ وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو، ان کے ساتھی اورپارلیمنٹ کی رکن خواتین نے اس وقت ہندوؤں کے مختلف طبقات کے لئے یونی فارم سول کوڈلانے کی کوشش کی تھی اورہندوستان کے پہلے وزیر قانون ڈاکٹر امبیڈ کر نے اس بل کے خط وخال پیش کیے تھے۔مگر قدامت پرست ہندوؤں، ہندو مہاسبھا جیسی انتہاپسند تنظیموں اور ملک کے نامور رہنماؤں نے پوری طاقت سے اس کی مخالفت کی اور اسے" ہندوستان مخالف" اور "ہندو مخالف" بل قرار دیاتھا۔اس کے علاوہ ذات پات کے حامی ہندو دانشوروں نے بھی امبیڈکر کوہی مخالفت کا نشانہ بنایا تھا۔ہندو قوانین میں اصلاحات کی مخالفت کرنے والوں میں ملک کے پہلے صدر ڈاکٹر راجیندر پرساد اور سردار ولبھ بھائی پٹیل جیسی شخصیات شامل تھیں۔خود وزیر اعظم نہرو نے ڈاکٹر امبیڈکرکی قانونی اصلاحات کو پسند کرنے کے باوجود ہندو سماج کے خلاف امبیڈکر کے منفی نظریات کا ساتھ دینے سے اپنے آپ کو دور کرلیا۔اسی دباؤ کے پس منظر میں ہندو قوانین میں اصلاحات کو پس پشت ڈالتے ہوئے کچھ کمزور قسم کا ایک نیا مجموعۂ قانون دی ہندو کوڈ بل 1956 پاس کیا گیا، اور تمام شہریوں کے لئے یونیفارم سول کوڈ کے مسئلے کو دستورمیں آرٹیکل 44کے تحت رہنما اصول directive principlesکے خانے میں رکھ دیا گیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ: "The State shall endeavour to secure for citizens a uniform civil code throughout the territory of India." مگر یہ کارِ طفیلاں کب ہے!: اور اسی رہنما اصول کو بنیاد بناکر اسلامی شریعت اورمسلم پرسنل لاء پر تیشہ چلایا جارہا ہے۔مگر ہماری اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ہندوستان میں یونی فارم سول کوڈ نافذ کرنے کاعمل کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ یہ امریکہ اور یوروپی ممالک جیسا کوئی ایک نسل اور ایک تہذیب والا ملک نہیں ہے۔یہ مختلف مذاہب،فرقوں طبقات اور قبائل پر مشتمل رنگارنگت ثقافتوں والا ایک وسیع وعریض ملک ہے۔کثرت میں وحدت اور اختلاف کے باوجود اتحاد اس کی اصل بنیاد ہے۔ یہاں کشمیر سے لے کر کنیا کماری اور گجرات سے لے بنگال تک ہر علاقے اور ہر مقام پرطبقات اور گروہوں میں ایک دوسرے کے ساتھ اور خود آپس میں بھی تہذیبی ، سماجی اور مذہبی اختلافات موجود ہیں ۔ اسی ماحول میں پر امن بقائے باہمی ہی میں اس ملک کی ترقی کا راز مضمر ہے۔یہاں سب کو ایک ہی رسی سے ہانکنا اور ایک مذہب یا فرقے کی آئیڈیا لوجی کو قانون کی شکل میں بلا امتیاز ہر شہری پر تھونپنے کی کوشش یقیناًشہد کے چھتے کو چھیڑنے کے برابر ہے۔ یہ بات فسطائی بریگیڈ کو معلوم ہے: حقیقت یہ بھی ہے کہ اس بات سے حکمراں ٹولہ اور فسطائی بریگیڈ دونوں پوری طرح واقف ہیں۔ لیکن یونی فارم سو ل کوڈ کے بہانے مسلم پرسنل لاء کو نشانے پر لینا اصل مقصد تھا، سو یہ کام انہوں نے کرلیا۔ عدالت میں جاری بحث اور اس کے پس پردہ شاطرانہ سازشوں کے اشارے بھی اب واضح ہوگئے ہیں۔ جس سے اندازہ ہورہا ہے کہ ملت اسلامیہ ہند اپنے وجود کے ایک او ر سخت مرحلے سے گزرنے والی ہے۔ بس آسمانی فیصلہ آنے تک ہمیں بے جگری اور صبر و استقامت کے ساتھ درپیش دور ابتلا ء و آزمائش سے گزرنے کے لئے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار رہنا ہوگا۔کیونکہ :زمانہ چلا پھر قیامت کی چال ہوئی پھر یہ ملت پریشان حال نہ ہو لطف تیرا جو ربِّ کریم نہ ایماں بچے گا نہ جان اور مال