جی چاہتا ہے  ؟ کس نے کہا ’ مت خریدیے‘!۔۔۔۔از: ندیم صدیقی

Bhatkallys

Published in - Other

06:17AM Sat 6 May, 2017
(  روزنامہ ’’ ممبئی اردو نیوز‘’ کا تازہ کالم۔ شب و روز) آج اس کالم کو لکھنے  سے پہلے ہم نے اسی اخبار میں(عالِم نقوی کے) ایک مضمون میں مولانا علی میاںؒ ندوی کے تعلق سے  جوکچھ پڑھا وہی  اس کالم کو لکھنے کا سبب بنا۔  اکثر کہا جاتا ہے کہ’ اب  ہمارے ہاں حق گو نہیں  رہے۔‘  لوگوں کا یہ بھی خیا ل ہے کہ حق گو تو ہمارے ہاں گاجر مولی کی طرح موجود ہیں یہ اور بات کہ  جب آزمائش کا وقت  آتا ہے تو یہی ’ حق گو‘ لوگ صرف Go ہی گو  ہو جاتے ہیں۔     ۔۔۔دراصل  زندگی کا ہر شعبہ آج بازار بن گیا  ہے اوربازار کے اپنے آداب ، اپنے اصول ہوتے ہیں البتہ کچھ لوگ بازار سے صرف گزرتے ہیں وہ خریدار نہیں ہوتے مگر ایسے خال خال ہی ملیں گے۔  ہم سب نے یہ مصرع سُن رکھا ہے: بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں لوگوں کی زبان پر یہ بھی ہوتا ہے کہ زندگی بازار بنا دی گئی ہے اور جب آپ کوئلے کی کان میں ہیں تو آپ کے لباسِ وجود پرکسی طَورکالک تو  لگے گی ہی۔ ایک بزرگ  نے ہمیں ٹوکا کہ میاں ! دیکھیے ہر بات کا کوئی نہ کوئی جواب تو ہوتا ہی ہے اور اگر آپ حُجت پر اُتر آئیں تو بس ’’کیوں ‘‘ کہتے چلے جائیں۔ بات کبھی نتیجے پر پہنچے گی  ہی نہیں۔ اچھے لوگ  یا اچھائی ہر زمانے میں ہوتی ہے البتہ اس کی کمیت یا کثرت پر کلام کیا جاسکتا ہے۔  اسلاف یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ نیکی چاہے جتنی کم ہو مگر اس کا وزن بہر حال بدی پر حاوی ہوتا ہے۔ مگر اس کی بنیاد آپ کے اخلاص پر ہوگی۔ اب یہ آپ دیکھیں کہ آپ  کے ہاں اخلاص کی قوت ہے بھی یا آپ ہَوا میں اُڑ رہے ہیں ۔ علی میاں کے جس واقعے کو ہم نے پڑھا ہے  اس کی بنیاد میں یہی اخلاص کار فرما ہے جس نے انھیں حق گو ثابت کر دیا ۔  ورنہ  وہی ہوتا ہے جو دورِ حاضرکے ہمارے اکثر۔۔۔ ’’ حق گو‘‘۔۔۔کر رہے ہیں ۔ کشمیر کا مسئلہ کل بھی اتنا ہی حساس تھا  جتنا آج ہے البتہ اس کا  رنگ اب ذرا گہرا کر دیا گیا ہے۔ آج ہی کے اخبار میں افتخار گیلانی کا بھی ایک مضمون’’ کشمیر کی صورت ِحال ایسی ہے!‘‘ شائع ہوا ہے  اس میں بھی جو حالات بیان ہوئے ہیں وہ بھی رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں ۔ ہم  جدید ابلاغ و ترسیل کے عروج کے زمانے میں جی رہے ہیں  ۔ حیرت ہےکہ اس کے باوجود کشمیر کے ان بد ترین حالات سے ہم بےخبر کیوں کر رہے۔؟ اس کا  ایک  آسان  سا جواب تو یہی ہے کہ ۔۔۔ ’’ میاں! ہمیں بے خبر رکھا گیا ہے۔‘‘۔۔۔۔ مگر ہمارے ہاں تو ایک سے ایک ’’خبر دار‘‘ قسم کے لوگ بھی موجود ہیں وہ بیچارے کیا کر رہے تھے۔!! بات  یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک رویہ یہ بھی  عام ہوچکا ہے کہ۔۔۔ ’’  اماں جب ہم پر گزرے گی تو دیکھا جائے گا۔۔۔ اور ہم یہ بھول گئے ہیں کہ۔۔۔ جب ۔۔۔ کو آتےبہت وقت نہیں لگتا۔ کسی   کے گمان میں نہیں تھا کہ اتر پردیش میں بی جے پی اتنی اکثریت سے  بر سر ِاقتدار ہوگی۔ حزبِ اختلاف ہے تو مگر اس کی آواز تک نہیں سنائی دے ر ہی ہے یا اسکی آواز نکل ہی نہیں رہی ہے اور ہمارا دُشمن  یہ جان گیا ہے کہ ہم کتنے اثر انداز ہو سکتے ہیں !! یا کہ ہم اثر رکھتے بھی تھے یا  ہمارے ہاں صرف’ اثر کی ہوا‘‘ تھی جو اس بارنکل گئی۔ چلیے جو ہُوا  سوہُوا مگر  آئندہ کیلئے ہمارے پاس کوئی لائحہِ عمل بھی ہے یا نہیں ؟ ایک نظر میں یہ سوال بھی مشکل ہے مگر سوال تو ہے۔ ۔۔ اس سوال کا جواب دینے  والے علی میاں جیسے کتنے ہیں اور وہ کہاں ہیں؟۔۔۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں عموماً اس  کے بر عکس لوگ ملیں گے۔ اب آپ ذرا سوچیے کہ علی میاں  سے پی ایم  آفس میں( دفتر ِ وزیر اعظم) میں کہا گیا کہ ’مولانا اس بیان پر دستخط  تو آپ کو کرنا ہی ہوں گے ۔یہاں آپ کو بلایا ہی اسی لیے گیا ہے!‘۔۔۔ اب سنیے وہ جواب  جو تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔۔۔مولانا ( علی میاں)نے کسی بھی سختی یا غصے  کے بغیر کہا کہ ’مَیں بیان دینے کو تیار ہوں لیکن مَیں وہی کہوں گا جو حقیقت ہے ‘اسی افسر نے حیرت سے پوچھا کہ آپ کیا بیان دینا چاہیں گے ؟‘ اس افسر کو وہ جواب ملا جو ہم جیسے اکثر لوگ سوچ بھی نہیں سکتےکیونکہ اعمالِ بد  کے سبب ہم سے جرأت ِانکار کی توفیق چھین لی گئی ہے۔۔۔۔  علی  میاں ؒ کا  یہی جواب اصل میں’’ حق گوئی‘‘ کے ذیل میں آتا ہے کہ اُنہوں نے فرمایا تھا: ’ہماری حکومت وعدہ خلافی کر رہی ہے ۔ہم خود ہی اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گئے تھے اور وہاں ہم نے   وعدہ کیا تھا کہ ہم کشمیر میں استصواب رائے کرائیں گے ‘!۔۔۔ بیشک ہم باتیں تو کرنا خوب جانتے ہیں، ہر  دلیل کی رد کا ہنر بھی ہمیں خوب آتا ہے مگر ۔۔حق۔۔ پر ثابت قدمی جب ہم سے چھین لی گئی ہو تو کیسے ممکن ہے کہ ہم حق گو رہیں۔ البتہ یہ  ہوسکتا ہے کہ ۔۔۔ ہماری دُکانِ حق گوئی کی تشہیر خوب ہوتی رہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حق گوئی کی دُکان سے  قدرت نے  ۔۔۔حق۔۔۔ اٹھا لیا ہے اب کیا  بچا؟ یہ ہم سوچتے  رہیں۔ اُردو کے ایک بہت پڑھےلکھے شاعر محبوب خزاں گزرے ہیں مرحوم کا ایک مطلع ہمارے ذہن میں اکثر گونجتا رہتا ہے ۔ ذرا سے تصرف کے ساتھ  قارئین کی نذر  ہے: جی چاہتا ہے  ؟ ۔۔۔ کس نے کہا’ مت خریدیے‘ ÷ دولت سے دین، دین سے دولت خریدیے بھائی ! حقیقت تو یہی ہے کہ ہم میں سے اکثر  یہی کچھ بیچ اور خرید رہے ہیں۔ ایسے میں اصول وصول کی باتیں کیا معنی رکھتی ہیں۔!! عجب نہیں کہ کوئی یہ کہہ  دےکہ’’ میاں ! اگر علی میاں آج ہوتے تو وہ بھی  اسی کاروبار  میں ہوتے! ‘‘۔۔۔۔ہے کسی کے پاس اس کج حجتی کا جواب!!۔۔۔ اور ہاں کشمیر جیسے  معاملات عجب نہیں کہ یوپی کے  دیہاتوں میں عنقریب یا کچھ  دیر سے دُہرائے جائیں۔!