ایک پیکر صبر ووفاء کی جدائی۔ ڈاکٹر حسن باپا یم ٹی...قسط ۰۱۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Bhatkallys

Published in - Other

08:27PM Sat 6 Jul, 2019

جون  ۱۷ کی  تاریخ تھی ،نماز مغرب کے بعد دبی کے القوز قبرستان میں ہمارے ایک دوست سے نماز جنازہ سے فارغ ہو کر ابھی ڈاکٹر حسن باپا یم ٹی  کی صحت کے بارے میں دریافت کرہی رہا تھا، کہ خبر آئی کہ ڈاکٹر یم ٹی صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ، ایک روز پہلے میں بھٹکل میں تھا، ان کے بعض خاص احباب وغیرہ سے ملاقات ہوئی تھی، لیکن ڈاکٹر صاحب کی علالت کی کوئی خبر اس وقت تک عام نہیں ہوئی تھی۔

خبر سنتے ہی آپ کا ہنستا مسکراتا، امید کی روشنی سے دمکتا کتابی چہرہ  نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا،جب بھی وطن جانا ہوتا، ان سے ملاقات   کبھی نہ کبھی ہوجا کرتی تھی، حالانکہ گزشتہ کئی سالوں سے وہ گوشہ نشین سے ہوگئے تھے، گھٹنے کے درد نے انہیں چلنے پھرنے سے معذور کردیا تھا ، کوئی دس ماہ قبل ان کے دیرینہ ساتھی عبد اللہ دامودی مرحوم بیمار تھے،تو میں ان کی عیادت کے لئے جارہا تھا تو انہیں بندر روڈ پر پارک سے متصل اپنے مکان دار الامن کے باہر کرسی پر بیٹھے دیکھا، قریب ہی ایک دیندارنوجوان ان سے راز ونیاز کی باتیں کررہا تھا، جیسے کوئی مرید اپنے پیرو مرشد سے کیا کرتا ہے،وہ  دامودی صاحب کی عیادت کے لئے جانے کی پوزیشن میں نہیں تھے، لیکن ان کے چہرے مہرے سے لاچاری محسوس نہیں  ہورہی تھی،اس وقت بھی ان کی میں زندہ دلی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ دل کھول کر باتیں کررہے تھے، عیادت کرکے واپس آیا تو وہ ابھی وہاں موجود تھے گویا میرا انتظار کررہے ہوں، پھرپرانی یادیں تازہ ہونے لگیں، ڈاکٹر صاحب تعلقات نبھانے والے انسان تھے، ایک بار ان  سے  جوتعلقات قائم ہوگئے تو پھر ان میں دراڑ شاذونادر ہی پڑتی تھی، وہ دوستیوں کو نبھانا جانتے تھے، عمروں کا فرق ان کے روابط وتعلقات میں آڑے نہیں آتا تھا۔انہوں نے ۱۹۴۰ میں  اس دنیا میں آنکھیں کھولی تھیں،  لیکن ۷۹ سال گزرنے کے باوجود کبھی ان کے رویوں سے محسوس نہیں ہواکہ ان پر پیرانہ سالی چھا گئی ہے، یا پھر ان کا دماغ بوڑھا ہونے لگا ہے۔

آپ کا آبائی مکان تکیہ محلہ کراس میں دامدے منا  ہاوس تھا، جو آپ کے والد سعدا محمد تقی  کوزاپو اور ان کے بھائیوں میں مشترک تھا ، آپ کا شمار بھٹکل کے کامیاب تاجروں میں ہوتا تھا، منگلور میں آپ کاروبار کیا کرتے تھے، اسی طرح آپ کے چچا سعدا محمد جفری کوچوصاحب جو کہ بانیان جامعہ میں شامل تھے،  وہ بھی تجارت پیشہ تھے، منگلور کی سعدا اینڈ کمپنی کو اس کے زوال کے دنوں میں سنبھالا دیا تھا، ابھی آپ کی عمر دیڑھ سال کی تھی کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ، اور ابھی ان کی عمر چھ سال کی ہورہی تھی کہ آبائی مکان کو تنگی کی وجہ سے چھوڑ کر فاروقی مسجد کے قریب گوائی منزل منتقل ہونا پڑا ،اسی مکان کی  پہلی منزل پر    کوئی سولہ سال بعد ایک استاد اور دو کم سن بچوں کی بسم اللہ خوانی  سے  جامعہ اسلامیہ  بھٹکل  کی بنا پڑی تھی، اب آپ اپنے بہنوئی محمد میراں گوائی مرحوم کی سرپرستی میں آگئے تھے، میراں صاحب کا قیام عموما ممبئی میں رہتا جہاںوہ کاروبار سے وابستہ تھے، اس زمانے میں شہروں اور قصبوں کے درمیان فاصلے بہت لمبے ہوا کرتے تھے ، جہاں آج ممبئی بارہ گھنٹوں میں بس یا ٹرین پر پہنچتے ہیں، وہیں یہ سفر بخاری جہاز اور بس پر تین دن اور تین راتوں میں طے ہوتا تھا، تلاش معاش اور تجارت کا راہی عموماً سال بھر گزار کرہی  وطن لوٹتا تھا، گھر والوں سے رابطہ کا واحد ذریعہ خطوط ہی ہوا کرتے تھے، جو کبھی ہفتے بعد اپنے منزل مقصود پر پہنچتے ، ایسے ماحول میں بچوں پر سرپرستوں کی نگرانی کا کیا سوال؟ ، بس اللہ کا سہارا ہوتا، نصیبے اچھے ہوتے، دعائیں اثر کرتیں  تو زندگی پار لگ جاتی ، ورنہ ناخواندگی اور جہالت کو عام ہونے سے روکنے والے اسباب  بہت  سارےتھے ، اب یتیم حسن باپا کی پردہ نشین ماں کہاں تک اپنے شریر بچے پر قابو رکھ پاتیں، انجمن میں لشتم پشتم تعلیم ہوتی رہی، لیکن   گلی کوچے کے بچوں کے ساتھ کبھی ہوناور ، کبھی شرالی اور مردیشور  میں گھومنے پھرنے اور آوارگی ہی میں  زیادہ  ان کا دل لگتا ، یہاں تک کہ نویں کلاس میں پہنچ کر لڑھک گئے، اب پڑھنے میں مزید کیسے جی لگتا ، ہمجولی اب ان کی عمر سے چھوٹے  ہوگئے تھے ، ان کے ساتھ درجے میں بیٹھنے میں شرم سی آنے لگی تھی،اس زمانے میں انہیں قاضی اکرمی ، مولانا خیال وغیرہ اساتذہ کو ستانے میں مزہ آتا تھا، لہذا شرارت کی اس جیتی جاگتی تصویر کو مولانا خیال نے یم ٹی کا  نام دے دیا تھا، جس میں جہاں والد ماجد کے نام محمد تقی کا مخفف تھا، تو وہیں انگریزی کے empty  یعنی خالی ہونے کی تلمیح بھی۔ آپ نے گوائی میراں صاحب کو لکھا کہ ان کا جی یہاں پڑھنے میں نہیں لگ رہا ہے، انہیں ممبئی  بلا لیں، جواب آیا کہ ٹھیک ہے چننا ہوٹل میں بات ہوگئی ہے، آنے پر وہاں گلاس اور برتن دھونے اور   ٹیبل صاف کرنے کا کام مل جائے گا،  خط پڑھ کرسر پر گھڑوں پانی گرگیا، اور پھر تعلیم مکمل کرنے کی ایسی ٹھانی کہ دوسال محنت کرکے گیارھویں جماعت  امتیازی درجات سے  پاس  کی ، یہ سنہ ۱۹۶۰ ء کی بات ہے۔

یم ٹی صاحب کے بدلتے رنگ ، ان میں پڑھنے کے شوق  ، اورلگن کو دیکھ کر الحاج محی الدین منیری صاحب نے جو ممبئی میں  گوائی میراں صاحب کے بڑے گہرے دوست تھےمشورہ دیا کہ انہیں  یونانی طبیہ کالج دہلی میں داخل کیا جائے، یہاں آپ نے چھ سال تعلیم طب میں گزارے، یہاں  کا ماحول آپ کے فکر وعمل میں بنیادی انقلاب کا باعث بنا ، جہاں آپ جماعت اسلامی ہند کی اس وقت کی اہم شخصیات، مولانا ابواللیث ندوی، جناب سید حامد حسین وغیرہ  سے قریب ہوئے،  وہیں مرکز نظام الدین سے بھی نزدیکی ہوئی، یہ حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ تھا ، اس زمانے میں یم ٹی صاحب قرول باغ سے مرکز نظام الدین ہر جمعرات کو اجتماع میں پابندی سے  شریک ہوتے ،  حالانکہ قرول باغ سے مرکز کافی دور تھا، اور  مواصلات کا نظام بھی اس زمانے میں کچھ زیادہ اچھا نہیں تھا۔ یہی اثر تھا کہ  جماعت اور تبلیغ  کی فکر  کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی لگن انہیں آخر تک رہی۔

اس زمانے میں منیری صاحب کے تعلقات ان سے مزید مستحکم ہوئے، کہتے تھے کہ منیری صاحب کے  بھتیجے   عبد الرشید منیر ی کاکم عمری میں  باندرہ ریلوے اسٹیشن پر اغوا ہوا، اغوا  کار ایک گول مٹول خوبصورت لڑکے کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے، وہ انہیں ہزاروں میل دور ہاپوڑ لے گئے، جہاں انہوں نے سیب اور پھلوں کے باغات میں انہیں رکھا، آٹھ مہینے تک کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس دوران آپ کے والد محمد علی منیری بھی اکلوتے فرزند کی واپسی  دیکھے بغیر اللہ کو پیارے ہوگئے، اتفاق سے ہاپوڑ کے ایک پڑوسی کو اس نووارد بچے کی حالت زار کا علم ہوا تو اس نے ایک خط کے ذریعہ منیری صاحب کو اطلاع دی، دہلی سے ہاپوڑ تک رفاقت کے لئے اس وقت آپ کی نظر ڈاکٹر   یم ٹی ہی پر پڑی، دیس اجنبی  تھا،جن سے واسطہ پڑ رہا تھا وہ خوفناک تھے،  منیری  صاحب  نے آپ کو ساتھ لے لیا  ، یم ٹی مرحوم راوی ہیں کہ  اتنے دنوں بعداس عالم غربت میں  بغیچے میں تنہا بھتیجے پر جو نگاہ  پڑی تو صبر کا دامن ہاتھوں سے ٹوٹ گیا ، منیری صاحب  ڈھاڑیں مار مار کر رونے لگے ،  آپ کو اس طرح روتے شاید ہی کسی نے  آ پ کو دیکھاہوگا۔

تعلیم مکمل کرکے آپ نے تین سال مدھیہ پردیش کے شہر برہان پور میں گزارے، جہاں کالج میں پڑھاتے بھی تھےاور دواخانہ بھی چلاتے تھے، یہاں  کا ماحول خالصتا بریلوی مکتبہ فکر کے ماننے والوں  کا تھا، لیکن  دہلی میں بڑوں کی صحبت نے زندگی کو بامقصد بنادیا تھا، مسلمانوں میں دعوتی و تعلیمی کام کی فکر لاحق ہوگئی تھی،  یہاں آپ نے مقامی نوجوانوں کو تحریک دے کر تربیت اطفال کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور بلال نرسری اسکول کی بنیاد ڈالی،  جو کہ اس شہر کو چھوڑنے کے بعد بھی  عرصہ تک جاری رہا۔

۱۹۶۹ء میں آپ  ممبئی منتقل ہوئے، اس زمانے میں  انجمن اسلام  طبیہ کالج  ایک نامی گرامی ادارہ تھا، یوں تو اس کے پرنسپل حکیم مختار احمد اصلاحی مرحوم تھے، لیکن عملا ممبئی کے ایک فعال شخص  ڈاکٹر محمد اسحاق جمخانہ  والا، اس ادارے کے کرتا دھرتا تھے، یم ٹی صاحب کا ان سے تعارف تھا، جمخانہ والا نے آپ کو طبیہ کالج کا وائس پرنسپل  مقرر کردیا ، جہاں آپ ۲۰۰۵ ء کے آس پاس  تقریبا  پچیس سال خدمات انجام دے کر سبکدوش ہوئے۔ یہی دور آپ کی زندگی کا زرین ترین دور رہا ۔

ممبئی  میں معاشی وسائل کی فراہمی کے ساتھ ہی آپ کو  بھنڈی بازار میں اپنا ایک فلیٹ لینا نصیب ہوا، اس وقت اس کی قیمت ۲۴ہزار روپئے تھی،جو اس زمانے کے لحاظ سے بڑی خطیر رقم تھی، ہمت افزائی کے لئے منیری صاحب نے بھی آپ کو ایک معقول  رقم  بطور قرض دی، یہ فلیٹ مختلف دینی ، قومی و ملی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ، یہاں ہر بدھ کو ہفتہ واری اجتماع ہونے لگا، ابتدا  میں درس قرآن اور تبلیغی نصاب کی خواندگی یہاں یکساتھ ہوتی تھی، چند دنوں بعد ۱۹۷۰ء میں بائیکلہ میں عبد اللہ دامودی مرحوم کے فلیٹ پر ایک نشست میں ادارہ  بنام آئی ٹی آئی   کی داغ بیل ڈالی گئی، نام کے سلسلے میں اس وقت کی مختلف علمی و دعوتی شخصیات سے آپ نے رابطہ قائم کیا   جن میں مولانا عامر عثمانی مدیر تجلی دیوبند اور  مولانا اسحاق جلیس ندوی مرحوم سابق مدیر تعمیر حیات لکھنو  شامل تھے، اور آخر الذکر کے مجوزہ نام کو پسند کیا گیا تھا۔ مولانا جلیس مرحوم ہی  کے توسط سے آپ کا حضرت مولاناسید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے    رابطہ ہوا۔ جاری۔۔۔۔