سچی باتیں۔۔۔ نزول قرآن کا مقصد۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

03:21PM Mon 31 Jan, 2022

1930-01-03

’’روشن خیال‘‘ طبقہ میں غلغلہ برپاہے، کہ قرآن ایک نہایت صاف، سادہ، وآسان کتاب ہے، مولویوں اور مُلّاؤں نے خواہ مخواہ اسے مشکل سمجھ رکھا، اور سمجھا رکھاہے۔ ’’تعلیم یافتہ‘‘ گروہ نے طے کرلیاہے، کہ قدیم مفسرین کے پیداکئے ہوئے ’’ڈھکوسلوں‘‘ سے آزاد ہوکر بغیر کسی اور کی وساطت کے براہِ راست خود ہی قرآن سمجھ لیا کریں گے، اور ہر مقرر ، ہر خطیب، ہر واعظ، ہر لکچرار، ہر مضمون نگار، ہر اڈیٹر، ہرانشاء پرداز، ہراہل قلم نے اپنی جگہ پریہ سمجھ رکھاہے، کہ قرآن کو جس طرح دل چاہے سمجھ لیا کریں گے، جس آیت کی جو تاویل ذہن میں آئے گی کرلیاکریں گے، الفاظ کے جومعنی چاہیں گے، لگالیاکریںگے، احادیثِ رسولؐ، آثار صحابہؓ، آثارتابعین، قواعد صرف ونحو،لغت وزبان، معانی وبیان، یہ سارے افسانے کہاں سے کھڑے کرلئے گئے، قرآن خود اپنی آسانی کا اعلان کرتاہے، اوربار بار کہتاہے ولقد یَسَّرنا القرآن للذِّکر فہل مِنْ مُدّکر(’’ ہم نے آسان کررکھاہے قرآن کو نصیحت کے لئے، پس ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟‘‘)اس کھلی ہوئی آسانی کے بعد قرآن کی تشریح وتفسیر میں آخر کوئی سی بھی دشواری باقی رہ جاتی ہے؟

اس سوال کا جواب خود سوال کے اندر موجودہے۔ قرآن نے بے شبہہ باربار آسان ہونے کا اعلان کیاہے۔ لیکن کیا مطلق آسان ہونے کا ہے؟کیا بلا دلیل وبلا شرط، ہر جہت سے اور ہر غرض کے لئے آسان ہونے کا؟ آیت کے معنی صاف وواضح ہیں، محض یَسَّرنا القرآن ہی تو نہیں، للذِّکرِ بھی تو واردہے۔یہ نہیں فرمایاہے، کہ قرآن مطلقًا آسان ہے، بلکہ تصریح ہے، کہ نصیحت کے لئے آسان کردیاگیاہے،اور پھر مزید تصریح وتاکید کے لئے ارشادہوتاہے، فَہَل مِنْ مُدّکر، ہے کوئی نصیحت پر کان دھرنے والا! یہ نہیں، کہ قرآن، مضمون نگاری کی مشق کے لئے آسان کردیاگیاہے۔ یہ نہیں، کہ قرآن مجید کی آیات، اس لئے ہیں، کہ ہر شخص انھیں توڑ مروڑ کر اپنی ہواوہوس کی ماتحتی میں لے آئے۔ یہ نہیں، کہ منشاء قرآنی کو ’’علوم جدیدہ‘‘ و’’ضروریات زمانہ‘‘ کا محکوم بنالیاجائے۔ قرآن نصیحت وموعظت کے لئے اُتارا گیاہے، قرآن، دنیا اور عاقبت کے سنوارنے، اور نجات کی راہ دکھانے کے لئے نازل ہواہے، اور اسی غرض کے لئے اسے آسان کیاگیاہے۔

زمین گول ہے تو، اور چَپٹھی ہے تو، دونوں صورتوں میں صنعتِ خداوندی کا ایک کامل نمونہ ہے۔ آفتاب ساکن ہے تو اور متحرک ہے تو، ہر حال میں اپنے پیدا کرنے والے کی عظمت کی گواہی دے رہاہے۔ پہلے رات پیداہوئی، یا پہلے دن وجود میں آیا، حکمت کاملہ کا ظہور ہر صورت میں ہے۔ کوئی گدائے بوریہ نشیں ہوکر رہاتو، اور کسی نے ہوائی جہاز اور زہریلی گیس ایجاد کرکے بیشمار دولت کمائی، انجامِ کار دونوں کا موت ہے ۔ کوئی مزدوری کرکے اپنا پیٹ پالتارہا، اور کوئی قارون کی طرح عظیم الشان سرمایہ دارہوگیا، دونوں صورتوں میں مرنے کے بعد اپنے عمل کی جوابدہی کرنی ہوگی۔ نیکی اور بدی کا قانون ، جو ’’ہزامپریل مجسٹی‘‘ فرعون کے لئے تھا، وہی اُس کی ادنیٰ رعایا کے لئے تھا، ……قرآن بس یہ سبق دینے آیاتھا، اور آیاہے، اوراسی سبق کے حاصل کرنے کے لئے کل بھی آسان تھا، آج بھی آسان ہے، اور کَل بھی آسان رہے گا۔ عامی وعالم، ادنیٰ واعلیٰ، مغربی ومشرقی، یہ سبق سب آسانی سے، بغیر کسی دشواری کے لے سکتے ہیں۔