حج کا سفر ۔۔۔۔ جہاز کا نظم کار (۳)۔۔۔   مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

06:29PM Mon 26 Sep, 2022

یہ انکشاف اس حج کے سفر میں پوری قوت کے ساتھ ہوا اور اگر برا نہ مانیے تو یہ کہنے کی جرات کی جائے کہ ان لوگوں سے جو حج کے معاملے میں ہم عقیدہ ہیں اور جن سے عازمین حج کو زیادہ سے زیادہ توقعات بجا طور پر ہوسکتی تھیں ہمیں اکثر خلاف توقع باتیں دیکھنے میں آئیں اور جو ہم عقیدہ نہیں تھے انھوں نے قدم قدم پر خوش عقیدگی کا ثبوت پیش کیا۔

دیکھ مسجد میں شکست رشتۂ تسبیح شیخ

بتکدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

خیر بات یہاں تک پہنچی تھی کہ ہم لوگوں کا مظفری جہاز پر دوسرا دن ہوا، طبیعتیں جو سمندری سفر کے آغاز میں بے چین ہو گئی تھیں رات کے آرام  کے بعد مائل بہ سکون تھیں۔

اب آٹھ دن جہاز پر گزارنا ہیں، نہ کہیں آنا نہ کہیں جانا اور تقریبا دو ہزار کی آبادی کی چہل پہل کے درمیان بسر کرنا ہے، یہاں کوئی گوشہ تنہائی نہیں جہاں الگ تھلگ بیٹھ رہنا ممکن ہو اور نہ اس اہم اجتماعی فریضۂ دینی کو خلوت نشینی کے بے موقع استعمال سے بے سود بنانا ہی مناسب ہے۔

خلوت نشینی فرد کی اصلاح کے لئے کتنی ہی مفید اور کتنی ضروری کیوں نہ ہو لیکن معاشرے کا تقاضا قدم قدم پر مل بیٹھنے کی دعوت دیتا ہے، معاشرے ہی کا نہیں مذہب کا بھی تقاضا یہی ہے۔

ہم نے پڑھا ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ نماز اصلاح نفس کا ایک اہم ذریعہ ہے "ان الصلوة تنهى عن الفحشاء والمنکر” نماز بے ہودگیوں اور غلط باتوں کا سد باب کرتی ہے

اور یہ بھی تجربہ بتاتا ہے کہ جتنی صحیح نما ز تنہائی میں ادا ہوسکتی ہے مجمع میں نہیں ہوتی، لیکن یہ کیا بات ہے کہ جماعت اور مجمع کے ساتھ نماز ادا کرنے کا حکم اس قدر اصرار کے ساتھ دیا جا رہا ہے؟ اس لئے کہ صحیح نماز میں جو فائدہ ہے وہ صرف ایک کو پہونچتا ہے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں پورے معاشرے کے لئے فائدے مضمر ہوتے ہیں، یہ دوسری بات ہے کہ ہم اپنی دینی پستی کی وجہ سے ان اجتماعی فائدوں کو حاصل کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔

حج باجماعت نماز سے کہیں بڑا اجتماعی فریضہ ہے، اس فرض کو ادا کرنے والا ہی اگر اجتماع سے گریزاں ہونے لگے تو پھر تو اللہ ہی مالک ہے؛خلوت نشینی کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن حج کے عازم کے لئے خلق سے گریزاں رہنے کی فضیلت تسلیم کرنے سے ہمیں انکار ہے؂

عشق و مزدوری عشرت گہ خسرو کیا خوب!

ہم کو تسلیم نیکو نامی فرہاد نہیں!

جہاز پر دو ہی ہزار انسانوں سے سابقہ ہے، آگے عین حج کے دنوں میں تو لاکھوں کی ریل پیل ہوگی، دھکم پیل ہوگی، ارکان حج کی ادائیگی میں مسابقت ہوگی، تھوڑی سی خود غرضی بھی کارفرما نظر آئے گی، چھوٹا بڑے کو، غریب امیر کو، شاگرد استاد کو پیچھے کر دینے کے جذبے میں مست و سرشار ملے گا، اے عافیت کوش بندۂ خدا! کیا شاہوں کی طرح یا چوروں کی طرح چھپ کر بیٹھے رہنے سے تیرا حج ادا ہوجائے گا؟ حج ہے ہی دنیا بھر سے آئے ہوؤں کے درمیان رہنے، ان کو دیکھ کر اپنے کو سنوارنے، انہیں سمجھ کر اپنے کو سبق دینے کے لئے، نہ کہ چوروں کی طرح چھپے چھپے پھرنے کے لئے؂

وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر!

نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لئے

جہاز پر امیرالحج ،حاجیوں اور جہاز کے کپتان کے درمیان ایک وسیلا اور رشتے کا کام دیتا ہے، حاجیوں کی زحمتیں، شکایتیں اور ضرورتیں امیرالحج تک آتی ہیں وہ انہیں جہاز کے کپتان تک پہونچاتا ہے، کپتان کو اگر حاجیوں کی بے ضابطگیوں سے کوئی شکایت ہوتی ہے تو باوجود اس کے کہ وہ جہاز کا مطلق العنان حکمراں ہوتا ہے امیرالحج کو توجہ دلاتا ہے۔

ایک امیرالحج تقریباً دو ہزار حاجیوں کے سارے معاملوں سے آگاہ کیسے ہو اس کے لئے ایک باقاعدہ نظام بنا دیا گیا ہے، امیر اپنے نائب مقرر کرتا ہے تعداد کا فیصلہ امیر پر ہے، عموما جہاز کے ہر درجے کے ہر حصے سے ایک آدمی نائب کی حیثیت سے چن لیا جاتا ہے کم و بیش ۱۴- ۱۵ نائب ہو جاتے ہیں جو اپنے اپنے علاقوں کی ضرورتوں سے آگاہ رہتے ہیں اور روزانہ ۱۱ بجے دن سے ایک بجے دن تک جب امیرالحج اپنے آفس میں بیٹھتا ہے توان کے سامنے معاملات پیش کر دیتے ہیں۔

ہمارے امیرالحج مولانا سید شاہد فاخری (ایم ایل سی) ممبر حج کمیٹی ہو تو گئے تھے امیر، لیکن اس پورے سفر میں ان پر بجائے لیڈری کے "قلندری” ہی سوار رہی، جنھوں نے ان کو لیڈری کرتے اور آستینیں اور مونچھیں چڑھائے دھواں دھار تقریریں کرتے دیکھا ہے وہ ان کو جہاز پر دیکھ کر صورت سے پہچان لیں تو پہچان لیں، ان شاہد فاخری کو پہچان نہیں سکتے جن سے ملنے کے وہ عادی رہے ہیں۔

انھوں نے کئی عدد اپنے نائب مقرر کر لئے بلکہ ایک نوجوان نائب مسٹر عبد الستار زری والا (ممبر حج کمیٹی) کو اپنے سارے اختیارات بھی سونپ دیئے، کپتان کے ساتھ روزانہ پورے جہاز کا دورہ کرنے اور کپتان اور ڈاکٹر کے ساتھ روزانہ کھانا چکھنے کی ذمہ داریاں بھی مسٹر زری والا نیابت میں انجام دیتے تھے۔

پانچوں وقت باجماعت نماز کا انتظام بھی جہاز کی کسی کھلی جگہ پر کیا جاتا ہے، اگر نہ کیا گیا تو امیرالحج کپتان سے تقاضا کر کے یہ بندوبست کراتا ہے، جماعت کے لئے امام اور اذان کے لئے مؤذن کا بندوبست بھی امیرالحج کرتا ہے، زری والا اگر حج سے پہلے بھی داڑھی رکھے ہوتے تو شاید مولانا شاہد فاخری انہی کو امامت بھی تفویض کر دیتے، مگر لاچار تھے خودہی یہ منصب سنبھالنا پڑا، پھر بھی کبھی کبھی دوسروں کو نماز پڑھانے پر مجبور کر دیتے تھے، مؤذن بھی ایک خوش الحان نوجوان مل گیا لکھنو میں مولوی گنج کے رہنے والے حاجی عبدالحلیم جو شاید کلکتے میں تجارت کرتے ہیں۔

ایسی کوئی جگہ جہاز میں نہیں تھی جہاں تمام حاجی ایک ساتھ نماز پڑھ سکیں۔لا محالہ دو جماعتیں باضابطہ ہوتی تھیں، ہوسکتا ہے کہ اور بھی جماعتیں ہوتی ہوں، ایک کی امامت اکثر و بیشتر امیرالحج مولانا فاخری کرتے تھے، یہ جماعت کیبن کلاسوں کے برآمدے میں ہوتی تھی، دوسری جماعت درجہ اول کے کامن روم میں ہوتی تھی جس کی امامت قاری محمد ثابق (مدرس مدرسہ فرقانیہ) کرتے تھے، تیسری جماعت کیبن کلاسوں کے پبلک روم میں بوہرہ فرقے کی ہوتی تھی، بوہرہ فرقے کے بیشتر حاجی کیین کلاس یا درجہ اول میں تھے۔ کچھ تیسرے درجہ میں ہوں گے، ان میں نوجوان کافی تھے اور عورتیں بھی، سب جماعت سے نمازیں پڑھتے تھے۔

ہماری دو جماعتوں سے یہ ہوا کہ اگر کسی کو نماز ایک جماعت میں نہ ملی تو دوسری جماعت میں شرکت کا اسے موقع مل جاتا تھا، جاتے وقت یہ اندازہ ہوا کہ سب ہی ایک خیال میں مستغرق ہیں اور دینی امور میں غیر معمولی انہماک ہے، بڑی بڑی جماعتیں ہوتی تھیں، واپسی میں اس خوشگوار منظر کے دیکھنے کے لئے آنکھیں ترسا کرتی تھیں۔

تقریروں کا بھی انتظام تھا، عموماً عصر مغرب کے درمیان کوئی نہ کوئی تقریر کرتا تھا، زیادہ تر مسائل حج کا بیان ہوتا، ان لوگوں کے لیے جو پہلی دفعہ حج کو جا رہے تھے آسان نہ تھا کہ وہ پورے عبور کے ساتھ مسائل حج بیان کر سکیں؛ اس سلسلے میں ہمیں اپنے مربی اور استاد الحاج مفتی محمد عبدالقادر رحمتہ اللہ علیہ (فرنگی محلی) خاص طور پر یاد آئے، جب ان سے شرح وقایہ کی کتاب الحج پڑھتے تھے تو کئی بار انھوں نے فرما یا تھا کہ مسائل حج کا پوری طرح سمجھنا اور انھیں یاد رکھنا مشکل ہے، ایک بار حج کر لینے کے بعد ہی کتاب الحج پوری طرح سمجھ میں آپائے گی۔

ہمارا واسطہ کچھ دنوں سے مسئلے مسائل سے ہے ان میں حج کے مسائل کے بارے میں بھی استفسارات آتے ہیں مگر وہ عموما حج بدل یا عورتوں کے شرائط حج سے متعلق ہوتے ہیں، ارکان حج کے بارے میں یہاں کسی کو پوچھنے کی ضرورت بہت کم پڑتی ہے اس لئے ان مسائل پر بار بار نظر پڑنے کا موقعہ بہت کم ملتا ہے، یہی تجربہ شاید دوسرے فتوی دینے والے اداروں کا بھی ہوگا۔

حج کا فلسفہ، سفر کے آداب اور خشوع و خضوع کی اہمیت پر آپ جتنی لمبی تقریر کرنا چاہیں کر سکتے ہیں مگر مسائل حج پر کچھ کہنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، کم از کم اپنے بس سے تو باہر تھا اسی لئے جہاز پر تقریر کا شوق کبھی نہیں چرایا، ہمیں کیا کسی کو نہیں چرایا، عافیت اسی میں نظر آئی کہ حج سے متعلق کوئی کتاب کوئی صاحب سنا دیا کریں۔

*ماہنامہ "البلاغ” کے ایڈیٹر مولوی محی الدین منیری (ممبئی) بھی اس جہاز پر تھے جن سے بالکل اچانک جہاز پر تعارف ہوا، ایک تعارفی خط جو ہمارے دوست حکیم عبدالقوی دریابادی نے ان کے نام بمبئی میں کام آنے کے لئے دیا تھا، وہ تعارف کے بعد ان کو جہاز پر حوالے کیا، منیری صاحب ہی ایک ایک کو تقریر کے لئے اکسایا کرتے تھے، جب ان کو یہ نسخہ بتادیا کہ کسی کتاب سے مسائل حج سنا دیا جایا کرے تو وہ ہی بچارے یہ خدمت روزانہ انجام دیتے رہے*۔

ہمارے ساتھی متین میاں نائب امیرالحج تھے ان کا خاص کام جہاز کے مریضوں کو ڈاکٹر کے پاس پہونچانا یا اسپتال میں داخل کرانا تھا، آخر وہ دواخانے میں (ڈاکٹر فریدی کے دواخانے میں) ہی میں تو کام کرتے ہیں سینکڑوں دوائیں خود ان کو معلوم تھیں، ابتدائی طبی امداد وہ خود ہی پہونچا دیتے تھے، لیکن جب وہ کسی مریض کے داخلے کی ضرورت محسوس کرتے تو وہ واقعی داخلہ کے لائق ہی قرا پاتا تھا۔

اسی جہاز پر ہمارے ننہیال اور متین میاں کی سسرال کاکوری کے ایک سن رسیده بزرگ حکیم شکور بیگ صاحب بھی اپنی اہلیہ اور بھائی کے ساتھ تھے غالباً وہ بیمار ہی سوار ہوئے تھے، متین میاں نے ان کو دیکھ کر ان کی مرضی کے خلاف اسپتال میں داخل کرایا، ڈاکٹر دعا کرتا تھا کہ خیریت سے جدے میں اتر جائیں اور وہ جدے میں خیریت سے اترے اور وہیں ہسپتال میں دوسرے دن انتقال کر گئے۔

ہمارے جہاز کے وہ تمام مسافر جو پہلی دفعہ حج و زیارت کو جار ہے ہیں ۔۔۔ اور انھیں کی تعداد غالب ہے ۔۔۔ صحیح معنوں میں بیم و رجاء کے درمیان ڈولتے معلوم ہوتے ہیں، ایک انجانی منزل کی طرف قدم بڑھتے جارہے تھے لیکن پہونچنے کا انجام دھندلکے میں لپٹا محسوس ہو رہا تھا۔

یہ نہیں کہ منزل مقصود پر کیسے پہنچیں گے بلکہ یہ کہ منزل پر پہنچ کرکیا بیتے  گی؟ عدالت کے کمرے میں مدعی یا مدعا علیہ کے داخلے کا تصور کیجئے کہ دونوں ثبوت و صفائی کے تمام امکانات حاکم عدالت کے سامنے پیش کر چکنے کے بعد بھی دھڑکتے دل کے ساتھ ہی وہاں حاضر ہوتے ہیں خداجانے فیصلہ کیا ہونے والا ہے، ایسی عدالت میں حاضری کا تصور کیا کچھ ہو گا جہاں سوگند اور گواہ کی بھی کوئی حاجت نہیں ہوتی۔

شاید ہی کوئی ایک متنفس جہاز پر ایسا ہو جسے اپنی پاک دامنی اورمعصومیت کا یقین تو رہا ایک طرف گمان غالب ہی ہو! ایسے اللہ کے بندے ضرور ہوں گے جن کی لغزشیں اور غلطیاں گناہوں میں پنہاں ذائقہ کے شوق کا نیتجہ ہوں گی، وہ پھر سستے چھوٹیں گے، لیکن وہ جن کی معصیتیں سرکشی اور استکبار کی مرہون منت رہ چکی ہیں دوہرے مجرم ہوئے نا؟

مشہور عابد و زاہد حضرت سفیان بن عیینہؒ نے جو تبع تابعین میں درجہ اول کے صوفی مزاج عالم تھے (متوفی ١٩٣ھ) فرمایا تھا:من كان معصيته في الشهوة فارج له التوبة فاذا كانت معصيته في كبر فاخش على صاحبه اللعنۃ۔(جوگناہ گار خواہش نفس کے تحت مبتلائے معصیت ہوا اس کی مغفرت کی امید رکھناچاہیئے، لیکن اگر کسی نے سرکشی کے جذبے سے گناہ کیا ہے تو اس کے حق میں تو ملعونیت ہی کا اندیشہ رکھنا ہوگا)

پیش کنندہ: شکیل احمد مئوی