بھٹکل فسادات اور جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں دلچسپ معرکہ! (چوتھی قسط) ۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
کمیشن کے روبرو سوال وجواب کا منظر نامہ بھٹکل فسادات کے پس پردہ پوری ملت اسلامیہ کو گھیرے میں لینے اور اسلام اور مسلمانوں کو ہی جنگ و جدال اور فسادات کی اصل جڑ ثابت کرنے کی کوشش میں بدل گیا تھا۔ قارئین کو اس بات کاکچھ اندازہ اس قسط سے بھی ہوجائے گااورمزید قسطوں میں اسے کھل کر محسوس کیاجاسکے گا۔سنگھ پریوار کے ایک ہی وکیل نے پوری طرح محاذ سنبھال لیا تھا اور یکے بعد دیگرے ترکش سے اپنے تیر چھوڑتا جارہا تھا اور الحمدللہ میں بھی پوری یکسوئی کے ساتھ دفاعی محاذ پر جما ہواتھا۔یعنی معاملہ کچھ اس شعر جیسا ہوگیا تھا کہ :
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
سوالات کا یہ رنگ بھی ملاحظہ کریں:
وکیل : اللہ اکبر کے معنی کیا ہیں؟
جواب: اللہ سب سے بڑا ہے۔
وکیل : کیا تم ایشور کو مانتے ہو؟
جواب : اگر اسی ہستی کو جسے عربی میں اللہ کہتے ہیں، اسی معنے اور مفہوم کے ساتھ ہندی میں ایشور کہا جائے جیسا کہ اردو میں خدا کہتے ہیں ، تو میں مانتا ہوں۔
وکیل : پھر تم ’’ایشور ہُ اکبر ‘‘ کہو۔
جواب : کیوں؟ اس کی کیا ضرورت پیش آئی؟
وکیل : ایک بار کہو تو سہی!
جواب : بھئی، ایک لفظ عربی اور دوسرا ہندی یا سنسکرت ملا کر گرامر کے حساب سے بھی تو صحیح جملہ نہیں بنتا۔ پھرغلط فقرہ کہنے پرتم مجھے مجبور کیسے کر سکتے ہو؟
وکیل : اچھّا چھوڑو، جانے دو۔ یہ بتاؤ کہ تم مسلمان بوسنیا میں عیسائیوں کے ساتھ لڑ رہے ہو۔ چیچنیا میں روس کے ساتھ، فلسطین اور لبنان میں یہودیوں کے ساتھ لڑ رہے ہو۔ پاکستان میں ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہو۔اور افغانستان میں ایک دوسرے پر بمباری کرتے ہو، توپیں چلارہے ہو۔ ( واضح رہے کہ افغانستان میں اس وقت مجاہدین کے ہاتھوں روس کی شکست کے بعدآپسی خانہ جنگی جاری تھی)
اس کے سوال کو بھانپتے ہوئے اس کاسیدھا جواب دینے کے بجائے میں نے جج سے مخاطب ہو کر کہا : دیکھئے! ہر جگہ کے الگ الگ مسائل ہیں۔ تاریخی اور جغرافیائی حالات ہیں۔ اس موضوع پر مجھے کم از کم نصف گھنٹہ بولنے کی اجازت چاہئے، ورنہ اس سوال کو ریکارڈ پر نہیں آنا چاہئے۔
جج : (وکیل سے مخاطب ہو کر) چھوڑو بھائی، اتنی دور تک کیوں جاتے ہو؟ کیا تمہارے یہاں ایسا کچھ نہیں ہے کیا؟
جج کی اس بات سے مجھے گویا لقمہ سا مل گیا اور فوراً میں وکیل سے سوالیہ انداز میں مخا طب ہوا : ہاں! ناگا باغی، بوڈو باغی اور L.T.T.E کے بارے میں کیا خیال ہے؟
وکیل : L.T.T.E کا لیڈر پربھا کرن کرسچین ہے، ہندونہیں۔ ۔۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مسلمان دنیاکے کسی بھی گوشہ میں امن و سکون سے نہیں رہ سکتے۔ یہ انسانیت کے لئے ایک عالمی خطرہ universal menace کی علامت ہیں۔
جواب : میں اس سے انکار کرتا ہوں۔
وکیل : تم اس سر زمین کو مادر وطن مانتے ہو؟
جواب : مادر نہیں، جائے پیدائش مانتا ہوں۔ میرے پاس اس کے لئے ماں کا تصور نہیں ہے۔(قارئین اس بات کونوٹ کریں کہ ہندو اور خاص کر ہندوتووادیوں کے پاس مادرِوطن mother landمیں’ ماں‘کا مطلب ایک دیوی ہوتا ہے جس کو مقدس مان کر پوجا کی جانی چاہیے۔اور یہ وکیل اسی پس منظر میں سوال کررہا تھا ۔اس لئے اس کا انکار ضروری تھا)
وکیل : پھر تم اس سر زمین سے کیوں محبت کرتے ہو؟
جواب : کیوں کہ میں یہاں پیدا ہوا ہوں۔اس لئے اس سے محبت رکھنا میری ذمہ داری ہے۔
وکیل : یہ محبت کے سلسلے میں ذمہ داری کا احساس تمہارا اپنا ہے یا تمہارا مذہب بھی یہی سکھاتاہے؟
جواب : میرا مذہب بھی مجھے یہی سکھاتا ہے۔
وکیل : کیا اس سلسلے میں کوئی قرآنی آیت یا حدیث پیش کر سکتے ہو؟
جواب : نہیں، اس وقت مجھے کوئی آیت یا حدیث یاد نہیں آ رہی ہے۔البتہ اتنااحساس ضرور ہے کہ میرا مذہب اس ( حب الوطنی) کی نفی نہیں کرتا ۔
وکیل : فرض کرو تم یہاں سے نقل مکانیmigrationکرکے کسی خلیجی ملک میں چلے جاتے ہو۔ وہاں تمہاری اولاد پیدا ہوتی ہے تم اسے کیا سکھاؤگے؟
جواب : ظاہر ہے کہ اسے اُسی ملک سے محبت کرنا سکھاؤں گاجہاں اس کی پیدائش ہوئی ہے۔ دیکھو میں ایک بات صاف کہتا ہوں، کہ ہندو بننا یا مسلمان بننا یہ میرے اختیار کی بات ہے۔لیکن کسی ملک میں پیدا ہونا میرے اختیار میں تو نہیں ہے۔ لہٰذا چونکہ میں ہندوستان میں پیدا ہوا ہوں اس لئے ہندوستان سے محبت رکھتا ہوں۔ اگر با لفرض نیپال میں پیدا ہوتا تو نیپال سے۔۔۔ اور اگر پاکستان میں پیدا ہوتا تو پاکستان سے محبت کرتا!
جج : (مداخلت کرتے ہوئے، وکیل سے) چھوڑو بھئی۔ جب وہ کہہ رہا ہے کہ یہ صرف شہریت کا سوال question of citizenship ہے۔ تو پھر کیوں اُلجھ رہے ہو؟
وکیل : کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ اسلام قومیت Nationalism کے خلاف ہے؟
جواب : نہیں، میں نہیں مانتا۔ ( یہاں کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے ۔بس سوال کے پس منظر اور ظاہری ابہام سے فائدہ اُٹھایا گیا ہے۔)
وکیل : اسلام کے ماننے والوں کے لئے آخرت میں کیا ملے گا؟
جواب : جنتوں میں مقام حاصل ہوگا۔
وکیل : اور اسلام کو نہ ماننے والوں کے لئے؟
جواب : ان کے گناہوں کے اعتبار سے انہیں سزائیں ملیں گی۔
وکیل : کوئی مخصوص سزا بتا سکتے ہو؟
جواب : نہیں کوئی مخصوص سزا بتا نہیں سکتا۔(یہاں پر بھی کسی تفصیلی جواب سے شعوری طور پر گریز کیا گیا تھا)
وکیل : میں کہتا ہوں کہ بھٹکل کے فسادات کا سبب ’’ اسلامی بنیاد پرستی ‘‘ fundamentalismہے۔
جواب : نہیں ۔ یہ با لکل غلط ہے ۔میں اسے نہیں مانتا۔
وکیل : اور تم آر ایس ایس ، ایچ جے وی ، وی ایچ پی اور دوسری ہندو تنظیموں کے خلاف اس لئے جھوٹابیان دے رہے ہو ، کیونکہ یہ تنظیمیں ہندوستان میں ’’ مسلم بنیاد پرستی ‘‘کے خلاف لڑ رہی ہیں۔
جواب : نہیں، یہ غلط ہے۔
وکیل : کیا تم ارمار فاروق کو جانتے ہو؟
جواب : ہاں ، میں جانتا ہوں۔ وہ ایک رکشہ ڈرائیور ہے۔
وکیل : کیا تم ٹائیگر گروپ کے بارے میں جانتے ہو؟ جس کا لیڈرارمار فاروق ہے؟
جواب : نہیں، میں ٹائیگر گروپ کے بارے میں نہیں جانتا ۔
وکیل : 29 - 04 - 93 کو مسلمانوں کی دوکانوں پر حملہ کیوں ہوا؟ (خیال رہے کہ اسی دن شام میں رتھ یاترا پر مسلمانوں کی طرف سے پتھر پھینکنے کی افواہ اڑا کر فساد شروع کیا گیا تھا)
جواب : نہیں اس کا سبب مجھے نہیں معلوم۔
وکیل : کیا تم نے جاننے کی کوشش کی؟
جواب : نہیں۔
وکیل : اصل میں اس دن ارمار فاروق نے ڈھائی سو بنیاد پرست مسلمانوں کا ایک جلوس نکالا اور ہنومان مندر پر پتھراؤ کیا۔پھر شام میں گنیش مندر پر حملہ کیا۔اور بدلے میں ہندوؤں نے مسلمانوں پر حملہ کیا۔
جواب : نہیں یہ با لکل غلط ہے۔ میں اسے نہیں مانتا۔
وکیل : تم ISS یعنی اسلامک سیوک سنگھ کے عہدیدار Office Bearer ہو۔
جواب : نہیں یہ جھوٹ ہے
وکیل : شری ایس ایم یحییٰ ISS کے آرگنائزر ہیں۔ جو کرناٹک میں اسکی مختلف شاخوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔
جواب : مجھے اس کا پتہ نہیں ہے۔(مرحوم جناب ایس ایم یحییٰ صاحب اس وقت حکومت کرناٹکا میں وزیر تھے)
وکیل : اور شری ایس ایم یحییٰ نے تم کو اُتّر کنڑا شاخ کی ذمہ داری دے رکھی تھی۔
جواب : نہیں ۔ یہ با لکل غلط ہے۔
وکیل : اور فسادات کے دورا ن تم بار بار بنگلور آتے رہے تا کہ شری ایس ایم یحییٰ سے ہدایات حاصل کر سکو۔
جواب : نہیں۔ یہ با لکل جھوٹ ہے۔
وکیل : اچّھا، تم فساد کے دوران یحییٰ سے ملے تھے یا نہیں؟
جواب : صرف ایک بار ملا تھا۔
وکیل : کب ملے تھے ؟ تاریخ بتا سکتے ہو؟
جواب: نہیں۔ exact تاریخ نہیں بتا سکتا۔ البتہ بھٹکل میں پانی اور الیکٹری سٹی کے مسائل کو لے کر ہم وفد کی صورت میں بنگلور آئے تھے اور اسی سلسلے میں جناب ایس ایم یحییٰ صاحب سے ملاقات کی گئی تھی۔
وکیل : ( ایک کاغذ پر لکھی ہوئی تین تاریخیں دکھاتے ہوئے) دیکھو فساد کے دوران تم تین بار بنگلور آئے ہو اور تینوں بار تم نے ایس ایم یحییٰ سے ملاقات کی ہے۔
جواب : میں اس سے انکار کرتا ہوں۔
وکیل : دیکھو یکم مارچ 1994کوبھی تم نے بنگلور میں ایس ایم یحییٰ سے ملاقات کی ہے۔ اور یہ مخصوص ملاقات اسلامک سیوک سنگھ کی کار روائیوں کے سلسلے میں تھی۔
جواب : میں اس سے بھی انکار کرتا ہوں۔
وکیل : کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہندوستان میں بعض سیاسی پارٹیاں اور خود حکومت ہند سیکیو لر ازم کے نام پر مسلمانوں کی خوشامدappeasement کرنے میں لگی ہوئی ہیں؟
جواب : نہیں یہ با لکل غلط ہے۔
وکیل : کیا تم مانتے ہو کہ سیکیو لر ازم کا مطلب ’’ سرو دھرما سما بھوا ‘‘ یعنی تمام مذاہب کا یکساں درجہ ہوتا ہے؟
جواب : جی ہاں۔
وکیل : لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پورے ہندوستان میں سوائے بی جے پی کے ،کوئی اور سیاسی پارٹی نہ اس کو مانتی ہے نہ اس پر عمل کرتی ہے۔
جواب : نہیں ، یہ با لکل غلط ہے۔
وکیل : اور یہ حقیقت ہے کہ مرکزی حکومت یہاں کے باشندوں کو مذہب کے نام پر اکثریتی طبقہ majority اور اقلیتی طبقہminority میں تقسیم کرتی ہے؟(یہ اشارہ کانگریسی یا غیر بی جے پی حکومت کی طرف تھا)
جواب : نہیں، میں نہیں مانتا۔
وکیل : کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بھٹکل کی تنظیم نے، اور اس تنظیم کے ذمہ دار کی حیثیت سے تم نے، گزشتہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے خلاف ووٹ دینے کے لئے بھٹکلی مسلمانوں کو ہدایت جاری کی تھی۔
جواب : میں اس سے انکار کرتا ہوں۔
وکیل : میں کہتا ہوں کہ اس الیکشن میں بی جے پی کے امیدوار نے محض اپنی عوامی مقبولیت کی بنا پر جیت حاصل کی تھی۔ نہ کہ 1993 کے فسادات کا فائدہ اُٹھایا تھا۔(یہ میرے حلفیہ بیان کی طرف اشارہ تھا)
جواب: نہیں یہ جھوٹ ہے ۔ وہ اپنی شہرت اور مقبولیت کی بنیاد پر نہیں، بلکہ فسادات کی وجہ سے ہی کامیاب ہوا تھا۔(یاد رہے کہ اس اسمبلی الیکشن میں ڈاکٹر چترنجن نے تنظیم کی حمایت یافتہ خاتون کانگریسی امیدوار لکشمی بائی کو شکست دی تھی، اور پہلی مرتبہ رکن اسمبلی بننے میں کامیابی حاصل کی تھی)
وکیل : وہ کیسے؟
جواب : بی جے پی کی طرف سے بھولے بھالے عوام کو اور دوردراز کے قصبوں میں رہنے والوں کوبھٹکل کے فسادات میں ہلاک ہونے والوں کے فوٹو اور زخمیوں کے فوٹو دکھا کر ورغلایا گیا تھا۔
وکیل : اس طرح تو الیکشن کمیشن کی طرف سے دئے گئے ضابطہء اخلاقModel Code of Conduct کی خلاف ورزی کی گئی۔ اس ضمن میں کسی قسم کارروائی کی گئی ہو ، ایسی کوئی اطلاع تم کو ہے؟
جواب : نہیں۔ ذاتی طور پر مجھے اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ صرف نیوز پیپرز میں اس قسم کی خبریں میں نے پڑھی تھیں۔
وکیل : کیا تم مانتے ہو کہ انگریزوں کے زمانے میں ہمارے ملک کی تاریخ کوتوڑ مروڑ کر لکھا گیا ہے؟
جواب : جی ہاں میں مانتا ہوں۔
وکیل : تو کیا اس تاریخ Historyکو صحیح کرنا اور از سر نو ترتیب دینا ضروری نہیں؟
جواب : جی ہاں ضروری تو ہے، مگر تاریخ کی تصحیح کے نام پر اسے مزید توڑ مروڑdistortion) ) کرکے پیش کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہئے!
( یاد رہے کہ ان دنوں سنگھ پریوار کی طرف سے تاریخ کی تصحیح correction کے نام پر حقائق کو غلط اور سنگھی نظریات کے مطابق ترتیب دینے کی مہم زور و شور سے جاری تھی، جس کی مخالفت بھی سیکیولر طبقات کی طرف سے شدّت کے ساتھ ہو رہی تھی)
وکیل : کیا تم شری کے۔ ایم ۔مزمّل کو جانتے ہو؟
جواب : ہاں، میں جانتا ہوں ۔وہ ایک ایڈوکیٹ ہیں۔
وکیل : تنظیم کے ساتھ ان کا کیا تعلق ہے؟
جواب : وہ تنظیم کے انتظامیہ رکن ہیں۔
وکیل : اور کون کون انتظامیہ رکن ہیں؟
جواب : جناب سید محی الدین برماور، جناب یحییٰ دامودی، جناب عبدالرحیم ارشادؔ ، جناب سید عبدالقادر ایس ایم، جناب محتشم عبدالغنی، جناب ڈی، ایچ شبّر، جناب ڈی ایف حسن وغیرہ
وکیل : کیا فسادات کے دوران یہ تمام لوگ تنظیم کے عہدیدار یا ذمہ دار تھے؟
جواب : نہیں، تمام لوگ نہیں۔
وکیل : کیا تم فسادات کے عرصہ میں تنظیم کے ذمہ داروں کے نام بتا سکتے ہو؟
جواب : نہیں ۔ میں بتا نہیں سکتا کہ کون کون تنظیم کے ذمہ دار تھے۔
وکیل : شری قاضیا مزمّل کا انجمن کے ساتھ کیا تعلق تھا؟
جواب : وہ شاید انجمن کالج کمیٹی اور انتظامیہ کے رکن تھے۔
وکیل : تم کیسے کہتے ہو کہ شری گجا نن نائک وشو ہندو پریشد کے لیڈر ہیں؟(کمیشن میں داخل کیے گئے میرے بیان کے حوالے سے یہ سوال ہے۔یہ اس زمانے میں ہندو قائدین میں ایک جانا پہچانا نام تھا)
جواب : میں نے سنا ہے۔
وکیل : میں کہتا ہوں کہ شری گجا نن نائک وی ایچ پی کے لیڈر نہیں ہیں۔اور فسادات کے عرصہ میں بھٹکل میں وی ایچ پی کا وجود ہی نہیں تھا۔ اس کے باوجود تم کس بنیاد پر یہ بیان دے رہے ہو؟
جواب : میرے بیان کی بنیاد عوامی تاثر ہے۔ اور وہ یہ کہ شری گجا نن نائک ، وی ایچ پی کے لیڈر ہیں۔
وکیل : تم نے وسنت کھاروی اور گووند کھاروی کو ہندو جاگرن ویدیکے کا لیڈر کہا ہے۔ تم کس بنیاد پر یہ کہتے ہو؟
جواب : اس بنیاد پر کہ وسنت کھاروی اور گووند کھاروی ہندو جاگرن ویدیکےH. J. V کی طرف سے منعقدہ احتجاجی مظاہروں اور جلوسوں میں شرکت کرتے ہیں۔
وکیل : تم نے شری سی، آئی شاستری کو RSS کا لیڈر کہا ہے، یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟
جواب : میں شاستری کو آر ایس ایس کا لیڈر اس بنیاد پر کہتا ہوں کہ انہیں ہاف پینٹ Half pant (چڈّی ) اور بنیان پہن کر نوجوان لڑکوں کو علی الصبح ٹریننگ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔(شاستری اُس وقت انجمن کالج کے ایک لیکچرارتھے۔ فسادات کے دوران ان پرقاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا )
وکیل : کس قسم کی ٹریننگ؟
جواب : لاٹھی کا استعمال اور دوسری جسمانی کثرتیں۔(جو کہ آر ایس ایس کے ٹریننگ شیڈول کا حصہ ہوتا ہے)
وکیل : کیا تم وہ اخبارات پیش کرسکتے ہو جس میں بقول تمہارے یہ چھپا ہے کہ آر ایس ایس ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف ورغلاتی ہے اور نفرتیں پیدا کرتی ہے؟
جواب : نہیں میں اس وقت وہ اخبارات پیش نہیں کر سکتا ۔
(....سلسلہ جاری ہے...... اگلی قسط ملاحظہ کریں)
haneefshabab@gmail.com