سچی باتیں ۔ گپ شپ ۔۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ


کلامِ پاک میں بعض بدترین قسم کے منافقین کا ذکر آتا ہے کہ یہ طرح طرح کی بیہودگیوں اور اللہ کے دین کے ساتھ تمسخر میں لگے رہتے ہیں اور جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ یہ کیا حرکتیں ہیں تو جواب میں کہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہم تو یوں ہی بطورِ مشغلہ و ہدایت ،ہنسی اور تفریح کی باتیں کر رہے تھے انکار تھوڑے ہی مقصود تھا۔
وَلَئِنْ سَاَ لْتَھُمْ لَیَقُولنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَب۔
اگر تم ان سے پوچھو تو یہ کہہ دیں گے کہ ہم بس مشغلہ اور دل لگی کی باتیں کر رہے تھے۔
سبحان اللہ کیا معقول جواب دیتے ہیں، ارے بد بختو، تمھیں مذاق اور تفریح ،ہنسی اور دل لگی کے لیے وہی موضوع رہ گیا ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ اہم مسئلہ ہے ، وہی آیاتِ الٰہی وہی اللہ کے بھیجے ہوئے اور رسول کے لائے ہوئے دین کی تعلیمات ؟
قُلْ اَبِاللّٰہِ وَآیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِؤُن۔
کہہ دو کہ کیا تم اللہ کے ساتھ اور اس کی آیتوں کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ تمسخر کررہے تھے۔
لعب کے معنی کھیل تماشے کے کھلے ہوئے ہیں، خوض کا لفظ جب گفتگو کے لیے آتا ہے تو مراد ایسے کلام سے ہوتی ہے جس میں سنجیدگی اور واقعیت کے بجائے جھوٹ اور لغویت ہو اَلْخَوْضُ مِنِ الْکَلَام مَا فِیْہِ الْکَذِبُ وَالْبَاطِل (لسان العرب) آج جس نوع کلام کے لیے فرنگیوں نے لائٹ لٹریچر اور فکشن کی اصطلاحیں گڑھ رکھی ہیں یعنی افسانے اور قصے ، گپ شپ حکایتیں اور کہانیاں جنھیں واقعیت اور اصلیت سے علاقہ نہ ہو محض دل بہلاؤ اور نشاطِ خاطر مقصود ہو یہ سب اس کی تحت میں آتا ہے منافقوں کا کہنا یہی تھا کہ اب کیا ہنسنا بولنا بھی منع ہے؟ ہم تو آپس میں ہنس بول رہے تھے افسانہ خوانی و حکایت طرازی کر رہے تھے محض انبساط و نشاط مقصود تھا مذہب پر سنجیدگی سے کوئی اعتراض ہم کب کررہے تھے اس کے جواب میں ارشاد ہوا ہے کہ تمھاری عقلیں کیسی غارت ہوگئی ہیں ہنسی کے لیے انتخاب کیا تو اسی ایک چیز کا جو کسی طرح اور کسی درجہ میں بھی ہنسی کے قابل نہ تھی-
اگلے منافقوں نے جو کچھ کیا اور جو کچھ کہا اسے چھوڑیے قرآن مجید تاریخ کا رجسٹر نہیں، ہدایت و حکمت کا درس ہے یہ دیکھیے کہ آج آپ کے ارد گرد کیا ہورہاہے؟ جنت کے تخیل پر مضحکہ علانیہ ہوتاہے جہنم اور عذاب جہنم کے تصور پر ٹھٹھے لگائے جاتے ہیں، حوروں پر شہدوں کی زبان میں پھبتیاں کہی جاتی ہیں مالک و رضوان کے نام لے کر قہقہے بلند ہوتے ہیں ملائکہ پر تالیاں پٹتی ہیں، انبیاء کرام پر طرح طرح کے آوازے کیے جاتے ہیں ، نماز اور روزہ، طاعت و عبادت پر تمسخر کھلّم کھلّا جارہی ہے، خود اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ کی شان میں ہر طرح کی گستاخی اور دریدہ دہنی کھلے خزانے ہورہی ہے اور جب کوئی اللہ کا بندہ روک ٹوک شروع کرتاہے تو جواب کیا ملتا ہے وہی اِنّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبْ یہ مضامین تومحض افسانے کے رنگ میں لکھے گئے تھے محض تخیل تھے محض شاعرانہ خیال بندی تھی ان کی گرفت کرنا کیسی خشک ملائیت ہے، کیسی ناقابل برداشت دقیانوسیت ہے ،سوچیے اور غور کیجیے کہ منافق کی نفسیت ، منافق کی ذہنیت ، منافق کی سرشت وفطرت ، اس ساڑھے تیرہ سو سال کے عرصہ میں کچھ بھی بدلی ہے؟