ایک اورایک گیارہ

Bhatkallys

Published in - Other

02:16PM Wed 1 Feb, 2017
از: حفیظ نعمانی لکھنؤ نے کل جودیکھا اس کے بارے میں اندازہ تھا کہ کچھ ایساہی ہوگا لیکن خطرہ کے بادل بھی اس لیے ڈرا رہے تھے کہ جو اتحاد نعروں اور بینڈ باجوں کے شور میں ہونا چاہیے تھا وہ ایسے ہوا تھا جیسے کسی کی ۱۳ویں یامسلمان کا تیجہ ہورہا ہے اور ہر کوئی اندازہ کررہا تھا کہ مارے باندھے کا سودا ہے۔ لیکن کل جو ہوا اور جس انداز میں ہوا اس کے بعد اس کا خطرہ نہیں رہا کہ انجام کیا ہوگا؟ جس کھلے دل سے راہل اور اکھلیش ایک دوسرے کے ساتھ تھے اور جس اپنائیت کا مظاہرہ کررہے تھے وہ مصنوعی نہیں ہوسکتا۔ اکھلیش یادو ابتداسے کہہ رہے تھے کہ ہم نے کام کیا ہے اور ہم نے اپنے بل بوتے پر اپنی حکومت بنائیں گے۔ لیکن وہ کانگریس کو اس لیے ساتھ لینا چاہتے تھے کہ مسلمان ووٹوں کا شیرازہ نہ بکھرے۔ اس بات کی فکر اس لیے تھی کہ مس مایاوتی نے پہلی بار مسلمانوں پر نام لے کر بھروسہ کیا ہے اور وہ برہمن سماج کی کمی مسلمانوں سے پوری کرنا چاہ رہی ہیں۔ اس کے پیش نظر اکھلیش نے یہ سوچا تھا کہ مسلمانوں کے سامنے تین نہیں دو نشانے ہونا چاہئیں۔ ایک بات اکھلیش کے سامنے یہ بھی تھی کہ راہل نے کسانوں میں بہت محنت کی ہے اور ان میں یہ جذبہ پیدا کیا ہے کہ وہ اٹھ کر سا منے آئیں۔ ا ترپردیش ۷۰ فیصدی دیہات میں ہے۔ اکھلیش اس کا فائدہ بھی اٹھانا چاہتے تھے۔ راہل گاندھی نے ہزاروں کلو میٹر کی خاک چھان کر یہ دیکھ لیا تھا کہ وہ ۲۰۱۲ء کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں اور شاید ان کے مشیر پرشانت کشور نے بھی ان کے ساتھ گھوم کر اندازہ کرلیا تھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ اور زیادہ اچھا یہ ہے کہ اکھلیش کو گلے لگا لیا جائے۔ ملائم سنگھ نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اس اتحاد کے خلاف تھے اور سماج وادی پارٹی اپنے بل پر جیت سکتی تھی یا یہ کہ وہ الیکشن میں پارٹی کے لیے ووٹ مانگنے کے لیے نہیں نکلیں گے۔ ہم نہیں جانتے کہ اکھلیش کا کیا رد عمل ہوگا۔ لیکن اب ملائم سنگھ پارٹی میں وزیر اعلیٰ کے باپ کے علاوہ اور کیا ہیں؟ پانچ مہینہ میں ہر دن جو ہوا ہے اس نے ملائم سنگھ کو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ ان کی ہی پارٹی کے ان کے ہی بنائے ہوئے ۲۰۵ ایم ایل اے نے انھیں پارٹی سے بے دخل کرنے پر اپنی مہر لگا دی۔ اب ان کے پاس امرسنگھ یا ان کے چھوٹے بھائی شیو پال یا ہزار دو ہزار وہ رہ گئے ہیں جو کسی وجہ سے اکھلیش سے ناراض ہیں یا ملائم سنگھ کے احسان مند۔ کل جس مسلمان سے رپورٹر معلوم کررہے تھے کہ کون؟ اس کے منہ سے اکھلیش نکل رہا تھا۔ دادری سے ایک رپورٹر نے کہا کہ ایک طبقہ جو بی جے پی کا ہے لیکن وہ وزیر اعلیٰ اکھلیش کو دیکھنا چاہتا ہے اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بی جے پی کا وزیر اعلیٰ کیا خبر کون ہو؟ وہ گجرات سے بھی منگوایا جاسکتا ہے اور جو بینکوں کی لائن کے زخم خوردہ ہیں وہ کیسے بی جے پی کو معاف کردیں گے؟ ملائم سنگھ ہوا کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ وہ ساتھ آتے نہ آتے مگر چپ رہتے تب بھی ان کے لیے اچھا تھا۔ یوں بھی کل بس کی چھت پر جو منظر نظر آرہا تھا اس میں نہ سونیا کی جگہ تھی نہ ملائم کی۔ اگر پرینکا اور ڈمپل بھی ہوتیں تو وہ فٹ ہوجاتیں۔ صاف معلوم ہورہا تھا کہ نئی نسل نے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ ملائم سنگھ خیمے کی طرف سے کہا گیا کہ وہ کانگریس سے ہمیشہ دور رہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ وہ اس وقت تک کانگریس کے ہمدرد تھے جب تک اس کی حکومت تھی۔ انھوں نے تو ۲۰۰۹ء میں اس وقت کانگریس کو نئی زندگی دے دی جب کمیونسٹ پارٹی نے ان سے رشتہ توڑ لیا تھا۔ اور راہل نے کہا تھا کہ جاتی ہے تو جائے۔وہ اس امریکہ کے ذلیل صدر جارج بش سے کوئی ڈیل کررہے تھے جو ہار جانے کے بعد اپنے آخری دن گذاررہا تھا۔ ملائم سنگھ اور امر سنگھ نے اپنی پارٹی کی حمایت دے کر حکومت کو بچا یا اور اس کی اتنی قیمت وصول کی کہ ہر ایم پی کے دن پھر گئے جس کا ایک گواہ ہمارے پاس بھی ہے۔ ملائم سنگھ اگر اترپردیش میں لڑ رہے ہوتے تو نتیش کمار اور لا لو کی پارٹیاں بھی ان کا کام بگاڑنے اور حساب چکانے کے لیے ان کے ووٹ کاٹتیں۔ وہ صرف اس لیے نہیں آئے کہ اکھلیش ہی سماج وادی کے سب کچھ ہیں اور ہوسکتا ہے دونوں سیکولر محاذ کو سہارا دینے کے لیے لکھنؤ کا سفر کریں۔ دہلی کی پارلیمنٹ ہو یا لکھنؤ کی اسمبلی اس کے چاروں طرف سیاسی چوپال ہے۔ جہاں دوست دشمن سب آتے ہیں اور رونق بڑھاتے ہیں۔ لیکن مس مایاوتی کسی چوپال نہیں جاتیں۔ ۲۰۰۷ء میں مسلمانوں نے بغیر مانگے مایاوتی کو ووٹ دئے تھے تو اس وجہ سے کہ وہ ملائم سنگھ کو ہرا دینا چاہتے تھے جنھیں ا مرسنگھ نے راجہ اِندر بناکر اندر بٹھا دیا تھا اور ملنے کے لیے آنے والے ہزاروں کی رشوت دے کر مل پاتے تھے۔( میں اس کا خود گواہ ہوں) مسلمانوں نے کہہ دیا کہ ووٹ امرسنگھ سے ہی لے لو۔ مایاوتی کو ۵ سال کا راج ملا تو نہ جانے ان پر کون سا بھوت سوار ہوا کہ ا نھوں نے ہاتھی سے بڑے پتھروں کے سیکڑوں ہاتھی بنوا کر ہزاروں کروڑ روپیہ پھونک دیا۔ اور مورتیاں بنوانے پرآئیں تو ہر پوروج کی مورتی کے ساتھ اپنی بھی مورتیاں کروڑوں روپے خرچ کرکے بنوا ڈالیں۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ سب کیا تھا؟ ہوسکتا ہے کہ وہ بھی مغل بادشاہوں کی طرح ملک کو تاریخی عمارتیں دے رہی ہوں۔ یا یہ کہ دماغ کی رگ دب گئی ہو؟ انہیں تو معلوم ہے کہ مسلمان مورتی پوجا نہ کرنے کی وجہ سے ہی مسلمان ہوتا ہے۔ ۲۰۱۲ء کے الیکشن میں وہ مایاوتی سے اس لیے بہت دور چلا گیا کہ پوجا کی مورتیاں بنوانے کی سزا اسے بھی مل سکتی ہے۔ کیوں کہ اگر مسلمان ووٹ نہ دیتے تو مایاوتی کامیاب نہ ہوتیں اور سیکڑوں مورتیاں اور ہاتھی نہ بنتے۔ مس مایاوتی نے مجبور ہو کر مسلمانوں کو ٹکٹ دئے ہیں جن لوگوں کو ٹکٹ دئے ہیں انہیں کہنا چاہیے تھا کہ پہلے مورتیاں جو آپ نے بنوائی ہیں وہ تڑوائیے اور ہاتھیوں کی یہ فوج ملک بھر کے پارکوں میں بچوں کے کھیلنے کے لیے لگوادیجئے۔ مسلمان بت سازی کا گناہ گار کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ تو بت شکن ہے۔ مایاوتی کی ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ یا تو وزیر اعلیٰ رہیں گی یا دشمن۔ اس وقت اگر وہ راہل کی طرح اکھلیش سے سو سیٹیں لے کر شریک ہو کر لڑتیں تو نوٹ بندی کی مودی کو ایسی سزا ملتی کہ وہ صرف۷۷۳ ووٹ پا کر فخر کے ساتھ کہتے کہ میں نے چھوٹے عدد کی عزت بڑھا دی جیسے چھوٹے نوٹوں کی بڑھائی تھی۔ موبائل نمبر:9984247500