غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ناطقہ سر بہ گریباں ہے...احمد حاطب صدیقی 

Bhatkallys

Published in - Other

07:24AM Fri 3 Mar, 2023

حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن حفظہٗ اللہ پچھلے کالم پر کلام فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:۔

’’آپ نے گزشتہ شمارے میں لکھا: ’’منہ میں زبان تو دیگر جان داروں کے بھی ہوتی ہے۔ مگر ’حیوانِ ناطق‘انسان ہی کہلاتا ہے۔ انسان نے اپنے نطق سے نکلی ہوئی آواز کو الفاظ کی صورت دی‘‘۔گزارش یہ ہے کہ یہ بات بالکل درست ہے۔ ناطق کے معنی ہیں: گویائی والا، گفتار والایا بولنے والا۔ یعنی اپنے مافی الضمیر کو بامعنی کلمات میں ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا۔ لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے ’حیوانِ ناطق‘ کی تعریف علمائے منطق نے یہ کی ہے: ’’جِسْمٌ نَامٍ مُتَحَرِّ کٌ بِالْاِرَادَۃِ حَیْوَانٌ نَاطِقٌ‘‘ یعنی موجودات میں تدریج ہے۔ ایک جسمِ مطلق (لکڑی، پتھر وغیرہ)، دوسرا جسمِ نامی (نباتات و اشجار وغیرہ)، تیسرا جو اِن صفات کے علاوہ متحرک بالارادہ بھی ہو (یعنی حیوانات)، اور چوتھا اعلیٰ درجہ ’حیوانِ ناطق‘ کا ہے۔ یعنی مناطقہ کے نزدیک ناطق کے معنی ہیں ’دریا بندۂ معقولات‘۔ مطلب حیوانِ ناطق اُسے کہتے ہیں جو معقولات (عقل میں آنے والی اشیا) کا ادراک کر سکے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حیوانِ ناطق کے معنی حیوانِ عاقل کے ہیں اور اسی معنی میں انگریزی فلسفے میں انسان کو  Rational Animalکہتے ہیں۔ چناں چہ اگر انسان گویائی پرقادر نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے ہاتھ، منہ اور چند اعضا کی حرکات کے ذریعے سے اسے کافی حد تک اظہارِ مافی الضمیرکی صلاحیت عطا کی ہے۔ اگر وہ لکھنا پڑھنا سیکھ لے تو تحریر بھی اس کا ذریعۂ اظہار بن جاتی ہے اور وہ ہمارے مساسی ہو جاتا ہے‘‘۔( مفتی منیب الرحمٰن ۔۲۰ فروری ۲۰۲۳ء)

ہم تہِ دل سے شکر گزار ہیں کہ محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے ایک بار پھر ہمیں اور ہمارے قارئین کو علم کے موتیوں سے مالامال کیا۔مگر ہمارے کالموں کے قارئین میں محترم مفتی صاحب جیسے صاحبانِ علم و تفقہ ہی نہیں، کثیر تعداد میں طالبانِ علم بھی پائے جاتے ہیں۔ انھیں آپ ’حیوانانِ علم‘ کہہ لیجے۔ یہ بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں لہٰذا مفتی صاحب کا مکتوب پڑھ کر اپنے نطق سے ہمارا ناطقہ بند کر سکتے ہیں۔پس ایسے طلبہ و طالبات کی تسلی کے لیے مفتی صاحب کے گراں قدر ارشادات کا ترجمہ و تشریح ہم پیشگی پیش کیے دیتے ہیں۔

ہمارے اِردگرد پائے جانے والے اجسام کی تین بڑی اقسام ہیں: جمادات، نباتات اور حیوانات۔ جمادات جمع ہے جماد کی۔ ’جماد‘ ٹھوس، جامد اور بے حس و حرکت شے کو کہتے ہیں۔ وہ شے جس پر جمود طاری ہو۔ لکڑی، پتھر، دھاتیں اور شیشہ وغیرہ۔ ان اشیا میں حس ہوتی ہے نہ حرکت۔ یعنی ازخود حرکت نہیں کرسکتیں۔ ان کو غذا کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان میں بڑھوتری یا نشوونما کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ دوسری قسم نباتات کی ہے۔ نباتات جمع ہے نبات کی۔ اُگنے والی اشیا مثلاً سبزہ، جڑی بوٹی اور پیڑ پودوں کا شمار نباتات میں ہوتا ہے۔ نباتات میں حس بھی پائی جاتی ہے اور حرکت بھی۔ پودے شدید سردی اور شدید گرمی محسوس کرتے اور ان سے اثر پزیر ہوتے ہیں۔ بیمار ہوتے ہیں، صحت یاب ہوتے ہیں، زندگی پاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ ان میں خوب نشوونما ہوتی ہے۔ نشوونما کے لیے غذا کی ضرورت پڑتی ہے۔ فاطرالسمٰوٰت و الارض نے ان کی غذا ان کی ارض ہی میں رکھ دی ہے۔ یہ جھومتے ہیں، لہلہاتے ہیں مگر اپنے ارادے سے کہیں آجا نہیں پاتے۔ اپنی مٹی سے بندھے رہتے ہیں۔ تیسری قسم حیوانات کی ہے جو حیوان کی جمع ہے۔ ان کی نشوونما بھی ہوتی ہے، زندگی بھی رکھتے ہیں اور موت کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ ان میں حس بھی پائی جاتی ہے اور حرکت بھی۔ ان کو بھی نشوونما کے لیے غذا کی ضرورت پڑتی ہے، سو غذا کی تلاش میں اپنی مرضی اور اپنے ارادے سے اِدھر اُدھر مارے مارے پھرتے ہیں۔ بعض حیوانات کو ’حیوانِ ناطق‘ سدھا لیتا ہے، پھر وہ اسی کی مرضی اور ارادے سے چلتے یا رُکتے ہیں۔ حیوانات میں، جیسا کہ مفتی صاحب نے فرمایا، اعلیٰ درجہ ’حیوانِ ناطق‘ کا ہے۔ اہلِ منطق کے نزدیک حیوانِ ناطق ہونے کے لیے صرف بولنا کافی نہیں۔ بلکہ بولنا ضروری بھی نہیں۔ ضروری یہ ہے کہ بولنے والا عقل سے کام لیتا ہو۔ ورنہ جولوگ قوتِ گویائی سے محروم ہوتے ہیں وہ بھی اپنے ہاتھ، منہ اور دیگراعضا کی مدد سے اپنا مافی الضمیر ادا کرلیتے ہیں۔ اشاروں اشاروں میں خوب پٹر پٹربول لیتے ہیں۔ آخر یہ عقل ہی تو ہے جو قوتِ گویائی سے محروم لوگوں کو بھی ’گویا‘ کردیتی ہے۔ گویا گونگے بھی ’حیوانِ ناطق‘ ہیں اور گونگے کا گڑ کھانے والے بھی۔ مگر صاحبو! لفظ ’حیوان‘ کو حقیر نہ جانو۔ ہر ذی حیات ’حیوان‘ ہے۔ حتیٰ کہ ہمیشہ کی حیات یعنی اُخروی زندگی بھی ’حیوان‘ ہے۔ غالبؔ کے لائق و فائق شاگرد مولانا الطاف حسین حالیؔ نے اپنے استادِ محترم و مکرم کو ’’حیوانِ ظریف‘‘ کا خطاب دے ڈالا تھا۔ہم نے پہلی بار یہ بات سنی تو سنتے ہی سوال کیا: ’’حالیؔ خود انسان تھے یاحیوان؟‘‘

نُطق کے لفظی معنی ہیں بولنے کی صلاحیت یا بات کرنے کی قدرت۔ عربی کا ایک فقرہ ہے: ’’نَطَقَ نَطْقَۃً وَاحِدَۃً‘‘ وہ ایک ہی بول بولا(اور سب بَولا گئے)۔ ایک قطعے میں تجمل حسین خاں کا نامِ نامی زبان پر آیا تو غالبؔ بھی خوشی سے بول پڑے:

زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے

مگر غالبؔ سے پوچھیے کہ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ نطق سے تو جو بات بھی نکلے گی زبان کا بوسہ ہی لیتی ہوئی باہر آئے گی۔بلکہ بقول شبنمؔ رومانی، لگے ہاتھوں وہ ہونٹوں کا بوسہ بھی لیتی آئے گی:

اُس کے لب چوم کے آئی آواز

وہی جھرنوں میں نہائی آواز

نُطق سے مراد نہ صرف گفتگو ہوتی ہے بلکہ فہم و ادراک بھی۔بول، بات اور بامعنی کلام کو نطق کہتے ہیں۔ بولنے والا ’ناطق‘ کہلاتا ہے۔ بولتی ہوئی یا اصرار کرتی ہوئی چیز بھی ناطق ہوتی ہے۔ مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلویؒ نے عربی، ہندی اور فارسی تراکیب پر مشتمل جو نعت کہی، اس کے متعلق فرمایا:

بس خامۂ خامِ نوائے رضاؔ، نہ یہ طرز مری، نہ یہ رنگ مرا

ارشادِ احبا ناطق تھا، ناچار اس راہ پڑا جانا

بات کرنے والاتو ناطق ہوتا ہی ہے، خاموش کرادینے والا بھی ناطق کہلاتا ہے، جیسے دلیلِ ناطق، مصحفِ ناطق یا فیصلۂ ناطق۔ اِنھیں معنوں میں اُردو میں ایک محاورہ بھی ہے: ’ناطقہ بند کر دینا‘۔ عوامی ترجمہ کرتے ہوئے ’ناطقہ‘ کو ’بولتی‘ سے بدل دیا گیا ہے۔ بحرؔ کہتے ہیں:۔

ناطقہ بند ہے بحرؔ اُس کی سخن چینی سے

شعر کیا؟ بات بھی کہنا ہمیں مشکل ٹھہرا

قوتِ گویائی کو ’ناطقہ‘ کہا جاتاہے۔مگر اب عوام کا ناطقہ اکثر و بیشتر حیرت یا شرم سے اپنا سر گریبان میں ڈال لیتا ہے سیاسی جماعتوں کے کسی نفسِ ناطقہ کا نُطق سن کراور یہ کہہ کر کہ…’ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے؟…‘ صاحب!عجیب منطق چھانٹی ہے۔

’منطق‘ اصلاًبولی کو کہتے ہیں۔ ’منطق الطیر‘ پرندوں کی بولی ہوئی۔ شیخ فرید الدین عطارؒ کی ایک مشہور مثنوی کا نام بھی ’منطق الطیر‘ ہے۔ اس مثنوی کا موضوع بہت دلچسپ ہے۔ ایک مقام پر پرندے جمع ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنے بادشاہ کا انتخاب کریں۔ ان پرندوں کا رہنما وہ ہُدہُد ہے جو سیدنا سلیمان علیہ السلام کے دربار میں رہ چکا ہے۔ منطق کے اصطلاحی معنی عقلی دلائل سے بات ثابت کرنے کے ہیں۔ یہ باقاعدہ علم ہے اور دینی مدارس میں اب بھی پڑھایا جاتا ہے۔ علمِ منطق میں دلیل اور حجت کے ساتھ ساتھ فصاحت اور خوش کلامی بھی سکھائی جاتی ہے۔ جو لوگ باتیں بناتے ہیں، بحث کرتے ہیں اور حیل و حجت میں پڑ جاتے ہیں ان کے لیے ’منطق بگھارنے‘ یا ’منطق چھانٹنے‘ کا محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔ القصہ مختصر، انسان ہی ایسا حیوانِ ناطق ہے جس نے اپنے نطق سے اپنے اہلِ منطق کا بھی ناطقہ بندکررکھا ہے۔

بہ شکریہ *فرائیڈے اسپیشل*