سچی باتیں ۔۔۔دین کے دشمن : تحریر ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

08:00PM Thu 27 Jul, 2017

دین کے دشمن وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا (انعام ۔ ع ۸) اوران لوگوں کو چھوڑ دیجیے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور دنیا کی زندگی نے جنھیں دھوکے میں ڈال رکھاہے۔ مذہب کی سنجیدہ اہمیت آج کن کے دلوں سے جاتی رہی ہے؟ احکام مذہب کے ساتھ ہنسی اور تمسخر آج کن کا شعار ہوگیا ہے؟ فٹ بال اور کرکٹ ،ہاکی اور ٹینیس ،گھوڑ دوڑ اور پو لو ،تھیٹر اور سینما،تاش اور شطرنج سے بھی کم اہمیت ووقعت نمازو روزہ کی کن کی نظرو ں میں رہ گئی ہے ؟حیات دنیوی نے آج کہیں دھوکے میں ڈال کرکھا ہے ؟دنیوی ترقیوں پر آج کون مٹا ہوا ہے؟مادی ترقیوں پر آج کس کی جان جارہی ہے؟موٹروں اور ہوائی جہازوں نے آج کن کے دلوں سے موت وآخرت کی یاد بھلا رکھی ہے؟کالجوں اور یونیورسیٹیوں نے آج کسے عالمِ غیب سے بے نیاز کررکھا ہے؟آہن پوش (ڈریڈناٹ)جہازوں اور ایک منٹ میں صد ہا فیر کر ڈالنے والی توپوں نے آج کن قوموں کو اللہ اور اسکے فرشتوں کی طرف سے غافل وبے ہوش بنا رکھا ہے؟ اگر ان سوالات کا جوب صاف اور واضح ہے،اگر ایسی قوموں کی نشانیاں کھلی ہوئی ہیں تو ارشاد ہوکہ آپ کا عمل ان قوموں اور جماعتوں کے ساتھ آپ کے مذہب کے احکام کے کہاں تک مطابق ہے؟آپ کو حکم تو یہ ملا تھا کہ ایسے لوگوں کو چھوڑ دو حکم بالکل صاف لفظوں میں ہے،حکم کی تشریح بھی بہترین شارحین نے یہی کی ہے کہ ’’کنارہ کشی اختیار کرلو‘‘ہم نشینی ترک کردو‘‘ تعلقات قطع کرلو‘‘آپ کا اس حکم پر کہاں تک عمل ہے کہ اپنے لڑکوں کو بڑی سی بڑی تعداد میں لاولاد کر تعلیم وتربیت کے لیے فرنگستان روانہ کرتے رہیے؟کیا اس حکم پر یہی عمل ہے کہ اپنے دیس میں اپنے بچوں اور بچیوں کے لیے فرنگیوں اور فرنگوں کے نمونہ پر زیادہ سے زیادہ اسکول اور کالج کھولتے رہتے؟کیا اس حکم پر یہی عمل ہے کہ زبان اپنی معاشرت ،اپنے علوم سب کچھ بھلا کر ،انھی کی زبانیں ، انھی کی معاشرت اور زبان ،اپنی معاشرت،اپنے علوم سب کچھ بھلا کر ،انھی کی زبانیں ،انھی کی معاشرت اور انھی کے علوم وفنون سیکھتے جائیے؟کیا اس حکم پر یہی عمل ہے کہ اپنے رزق کی کنجی سرکاری ملازمتوں اور سرکاری امتحا نات کے اندرمحدود و مخصوص سمجھ کر اندھا دھند سرکاری دفتروں اور سرکاری محکموں میں گھسنا شروع کردیجیے؟ کیا اس حکم پر یہی عمل ہے کہ حا کموں کی عقل کو عقلوں کا حاکم سمجھیے آپ سے ابھی کوئی یہ تونہیں کہتا کہ اپنی جان دے دیجیے یاکسی کی جان لے لیجیے سوال نہ تو پھانسی پر چڑھنے کاہے،نہ گولی کھانے کا،یہاں تو سوال صرف اعراض و کنارہ کشی، بے تعلقی وترک جماعت کاہے اپنی جگہ پر سوچیے اور غور کیجیے کہ دین سے ہنسی اور کھیل کرنے والوں اور مادی ترقیوں پر مفتون اورمغرور ہونے والوں سے آپ اپنی زندگی کے کس شعبہ میں اور کس حد تک دور اور الگ بے تعلق اورکنارہ کش رہ سکتے ہیں؟