خوش فہمیاں مع غلط فہمیاں

از: محمد الیاس ندوی بھٹکلی
بہت پرانا نہیں بلکہ قریب کا واقعہ ہے ،شہر کے کھلے میدان میں ایک بڑا عوامی جلسہ تھا،سامعین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی،میں بھی مدعوتھا،لیکن میں اس وقت پہنچاجب جلسہ شروع ہوکرکارروائیاں عین شباب پر تھیں، میں اپنی عادت کے عین مطابق پیچھے سے آکر وہاں موجود ایک خالی کرسی پر بیٹھنے لگا،جلسہ کے داعیوں میں سے ایک صاحب کی مجھ پر نظر پڑی ، وہ دوڑے دوڑے آئے اور ناظم اجلاس سے کہہ کر مائیک سے ہی مجھے دعوتِ اسٹیج دے کر اوپر لے گئے پہلی صف میں موجود ۷/۶ کرسیاں شہر کے نامور علماء وقائدین سے بھر گئی تھیں، نہ کوئی کرسی خالی تھی اور نہ اگلی صف کے دائیں بائیں کسی اور کرسی کو رکھنے کی مزید گنجائش تھی البتہ پچھلی صف میں رکھی کرسیوں میں ایک آدھ خالی تھی،داعی اجلاس میرا ہاتھ پکڑکر اسٹیج پر لے جارہے تھے کہ پہلی صف میں موجود میرے ایک مخلص اور قوم کے معروف مقرر کی مجھ پر نظر پڑی ، مجھے اوپر چڑھتا دیکھ کر وہ کھڑے ہوگئے ، بڑے تپاک سے مجھ سے ہاتھ ملایا اور میرے ہزار انکار کے باوجود خود پچھلی صف میں جاکر بیٹھ گئے اور حاضرین کی نگاہوں میں مجھے اعزاز دیتے ہوئے اپنی جگہ مجھے بٹھادیا، اب میرا نفس پھول گیا، میں خوش فہمی میں مبتلاہوگیا کہ یہ صاحب اتنے بڑے منصب پر ہونے کے باوجود کتنے متواضع ، خاکسار ، ملنسار اور میرے مخلص ہیں کہ میرے خاطر خود پیچھے جاکر بیٹھنا گواراکیا اور عوام کی نظروں میں میرا اکرام کرکے مجھے عزت افزائی کی ،جلسہ چل رہاتھا،میں اپنی فطری عادت وکمزوری کی وجہ سے کسی جگہ پردیر تک ایک ہی ہیئت پر بیٹھ نہیں سکتاتھا، پہلو بدلنے لگا، پیردرد کرنے لگے، اسے پھیلانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ سامنے ٹیبل اور کرسی کے درمیان اتناکم فاصلہ ہے کہ پیر سمیٹ کر سلامت بیٹھنا بھی دشوارہے، تھوڑی دیر میں طرفہ تماشہ گرمی نے بھی پریشان کرناشر وع کردیا ،پیاس سے حال بے حال ہورہاتھا، پانی طلب کرنے کے لیے اسٹیج پر والنٹیربھی نظر نہیں آرہے تھے، دائیں بائیں دیکھتے ہوئے پیچھے بیٹھے میرے لیے ایثارکرنے والے اس مخلص پراچانک میری نظر پڑی تو میں بہت دیر تک قابل رشک نگاہوں سے انھیں دیکھتاہی رہ گیالیکن اسی کے ساتھ میری تھوڑی دیر پہلے والی اپنے متعلق ذہن ودماغ میں جنم لینے والی خوش فہمی بھی کافور ہوگئی ، وہ صاحب بڑے آرام سے پیر پھیلاکر اسٹینڈ فین کے بغل میں بیٹھ کر جس کی ہوا صرف دوسری صف والوں بالخصوص ان کو آرہی تھی میری خوش فہمی اور اپنی چالاکی پر زیر لب تبسم فرمارہے تھے، مجھے فوری اس نکتہ پر پہنچنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ تھوڑی دیر یعنی میرے آنے سے پہلے میری طرح گرمی سے بے حال ہوکر دوسری صف کے پنکھے کی ہوا سے لطف اندوز ہونے اور آرام سے پیر پھیلا کر بیٹھنے اور پیچھے جانے کے لیے کسی بکرے کی تلاش میں تھے ،لیکن اپنی شرافت کی وجہ سے خود سے پیچھے جاکر بیٹھنا ان کے لیے مروت کے خلاف تھا، میرے دیر سے آتے ہی ان کا مسئلہ حل ہوگیااور میرے لیے اپنے نمائشی ایثار کی آڑ میں ان کو پہلی صف میں بیٹھنے کی اذیت سے راحت بھی مل گئی،وہ دن ہے اور آج کا دن،اس دن کے بعدسے جب بھی کسی اسٹیج پر اس طرح میرے لیے قربانی دے کرکوئی مخلص میرے لیے اٹھ کھڑا ہوتاہے تو میری نظر فوراً پچھلی صف میں موجود خالی نشستوں پر جاتی ہے کہ کہیں اس دن کی طرح مجھے خوش فہمی میں مبتلاکرکے عوام کی نظروں میں میرے لیے مخلص بننے والے اپنا کام نکالنے کے چکر میں تو نہیں ہیں۔
ایک ادارہ میں نئی مجلس انتظامیہ کا پہلا اجلاس تھا اور نئے عہدیداروں کا انتخاب، ایک صاحب اپنی قابلیت و خصوصیت کی وجہ سے مسلسل کئی سالوں سے اس میں ایک کلیدی عہدہ پر فائز تھے ، ممبران کی ایک بڑی تعداد ان کو دوبارہ آنے سے روکنا چاہتی تھی اور ان کے مقابل ایک اور صاحب کو آمادہ کرنے کی کوشش کررہی تھی ،لیکن عہدہ کے لالچ سے دور وہ صاحب اس منصب پر جلوہ افروز ہونے کے لیے تیار نہیں تھے، جب جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی تو خلاف توقع میرا نام اس عہدہ کے لیے پیش ہوا ، میں تکلفانہ انکار کے بعد خاموش رہا اور بالاتفاق میرا انتخاب عمل میں آگیا، گھر پہنچا بھی نہیں تھاکہ ہرجگہ سے مبارکبادی کے پیغامات موصول ہونے لگے،رات بھر میں اسی خوش فہمی میں رہ کر آسودگی کی نیند سوتارہاکہ دیکھئے:۔ میرے مخالف بھی میٹنگ میں میری انتظامی صلاحیتوں کے قائل ہوگئے ، کسی نے بھی میری مخالفت نہیں کی،لیکن3/2 دن میں ہی بھانڈا پھوٹ گیاکہ میرا نام پیش کرنے والوں کو اس عہدہ پر مجھے بٹھانا نہیں تھا بلکہ پہلے سے چلے آرہے قوم کے ایک معزز خادم قوم کو ہٹاناتھا،کئی لوگوں کو اس کے لیے انھوں نے آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ سب معذرت کرگئے ، ایک میں ہی سادگی میں اس کے لیے آمادہ ہوگیا، میری اس خوش فہمی کو تقویت اس وقت ملی جب کچھ ہی ماہ بعد میرانام پیش کرکے اس منصب پر فائز کرنے والوں نے میری مخالفت شروع کردی ، جب انھوں نے یہ دیکھا کہ میں ربر اسٹامپ بن کر ان کے نظریات کو روبعمل لانے سے قاصر ہوں اور اس ادارہ کو پہلے سے زیادہ مستحکم کرنے میں کامیاب ہورہاہوں ، خیر وہ ٹرم تو گذرگیا،میں اگلی میعاد میں منھ دیکھتے رہ گیاکہ متوقع عہدیداروں میں میرا نام دور دور تک نہیں تھا، اب مجھے یقین ہوگیا کہ گذشتہ مرتبہ میرا انتخاب میری قابلیت کی وجہ سے نہیں بلکہ مدّ مقابل کی مخالفت کی وجہ سے ہوا تھا۔
چندسالوں پہلے کی با ت ہے ، اسکوٹر پرگھر آتے ہوئے نیچے پرانے شہر میں پرانے بس اسٹینڈ کے پاس ایک صاحب جو میرے شناسا بھی تھے راستہ میں کھڑے ملے ، ان کے دونوں ہاتھوں میں پھل،پھول اور ترکاریوں وغیرہ سے بھری دوباسکٹ تھی ،R.T.Oآفیسرکی طرح پہلے تو انھوں نے ہاتھ دکھا کر مجھے روکا اور مجھ سے یہ معلوم کئے بغیر کہ مجھے کہاں جاناہے میرے سامنے ایک باسکٹ رکھ کر اور ایک کو اپنے ہاتھ میں تھام کرپچھلی سیٹ پر خود اپنے نوے کلوکے وزن اور دوباسکٹ کے کم از کم دس کلو وزن یعنی کل سو کلو کا بوجھ صرف آٹھ سال پرانی میری ناتواں گاڑی پر رکھ کر بیٹھ گئے ،نصف راستہ بھی طئے نہیں کیاتھا کہ ان کے ہاتھ سے بیچ راستہ میں باسکٹ گرگئی ، پھل وغیرہ راستہ میں بکھر گئے ، مجھے پتہ نہیں چلا،اچانک انھوں نے ایک چیخ ماری ، میں سمجھا شاید بڑے میاں کو ہارٹ اٹیک ہوگیا ، اس سے پہلے کہ میں معلوم کرتا کہ ماجرا کیاہے پیچھے میری پیٹھ پروہ زور زور سے مارنے لگے اورمجھے فوراً گاڑی کنارے لگانے کا حکم دیا، مجھے قصہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی ، اس کے بعد ان سے جو حرکتیں سرزد ہوئیں تو مجھے شبہ ہواکہ اس پورے منظر کو دیکھ کر ان کی B.Pہائی ہوکر ان کو نہیں کہیں مجھے ہارٹ اٹیک نہ ہوجائے ،مجھے پہلے ہی سے غصہ تھا کہ مجھ سے اجازت لیے بغیراور یہ معلوم کئے بغیر کہ میں ان کی مفت خدمت کے لیے تیارہوں یانہیں میرے پیچھے بیٹھ گئے، پھر اپنی ایک باسکٹ میرے سامنے رکھ دی ، تیسرے یہ کہ باسکٹ گرنے پرکسی کمپنی میں مالک کی گاڑی کے ڈرائیور کی طرح حکم دے کر مجھے بیچ راستہ میں روک دیا ، بات اتنی ہی رہتی تب بھی میرا پارہ چڑھانے کے لیے کافی تھی ،طرفہ تماشہ یہ کیا کہ مجھ سے ہی کہنے لگے :۔ بیٹا:۔ گاڑی کنارے لگا کر راستہ میں ادھرادھر بکھرے پھل پھول چن کر تم خود ہی لے آؤ، مجھے اس بڑھاپے میں بیچ راستے میں جانے سے ڈرلگتاہے ، میں شرم سے پانی پانی ہوتے ہوئے غصہ سے بے قابو ہونے کے باوجود بوڑھوں کی خدمت کی فضیلت کو یاد کرتے ہوئے پھل ،پھول چن کر واپس آیا اور وہ باسکٹ ان کے حوالہ کردی ، میرا غصہ پھر کس وقت برداشت سے باہرہوا،سنئے:۔ جب میں اپنے گھر جانے کے لیے بائیں مڑرہاتھا تو انھوں نے زور سے کہا:۔ بیٹا:۔ میرا گھر یہاں نہیں آگے فلاں کراس کے بعد بائیں طرف فلاں مسجد کی گلی میں ہے ، مجھے وہاں چھوڑو ، خیر ،میں اپنے گناہوں کے کفارہ کی نیت سے جب ان کے گھر پہنچاتو جو ماجرا ہوااس پر میرا غصہ آخری حد کو چھوکر ختم ہوچکاتھا،وہ صاحب گھر کے پاس پہنچ کر اتر کرسیدھے گھرمیں داخل ہوتے ہوئے ایک باسکٹ خود مجھے دے دی، میں سمجھا کہ شاید میری خدمت کا صلہ ہے اور یہ باسکٹ مجھے گھر لے جانے کے لیے دے رہے ہیں ، لیکن میری غصہ آمیز خوشی اس وقت کافور ہوئی جب وہ پیچھے مڑمڑکر مجھے دیکھنے لگے ، تب مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ مجھے دروازے تک اس باسکٹ کوپہنچانے کا خاموش پیغام بھی دے رہے ہیں ، جب میں ان کے دروازے پر وہ باسکٹ رکھ کر واپس ہورہا تھاتو مجھے اندر بلاکر شربت پلانا تو دورکی بات جزاک اللہ اور شکریہ کے مفت کلمات کی سوغات بھی دینے سے کتراگئے۔
وہ وقت تھا اور آج کادن ،اس ناگہانی حادثہ کے بعد سے میرا معمول یہ ہوگیا ہے کہ کہیں آتے جاتے راستہ میں کنارے کھڑے گاڑی کے انتظار والے کسی اجنبی شخص کی تلاش میں رہتا ہوں اورپھراس طرح کی نعمتِ غیر مترقبہ کو پاکر پھولے نہیں سماتا، خود قریب جاکر بڑی لجاجت سے اس سے میرے ساتھ گاڑی پر چلنے کی استدعا کرتا ہوں یہ سوچ کر کہ مبادا اس مذکور شخص یا اس طرح کے کسی اور فرد سے مجھے دوبارہ پھرپالانہ پڑے ، ایک صاحب کچھ دن پہلے ملے مجھ سے مخاصمت رکھنے والے، کہنے لگے :۔ مولانا:۔ آپ سے مجھے ہزار اختلاف ، لیکن ایک بات مجھے آپ کی بڑی اچھی لگی ،کل میں نے دیکھا ایک معذور شخص راستہ کے کنارے کھڑے ہوکر آنے جانے والوں سے لفٹ مانگ رہاتھا ، کوئی اس کو اپنے اسکوٹر پر سوارکر نے کے لیے تیار نہیں ہوا تو وہ بے چارہ پیدل ہی چل پڑا، آپ اس کے پیچھے سے آکر اس کے قریب رک کر اس کو اپنی موٹر سائیکل پر سوار کرکے لے گئے ، آپ کی انسانی ہمدردی ،غریب نوازی اورغریب پروری کا میں قائل ہوگیا ، وہ خوش فہمی میں یہ کہہ رہے تھے ، ان کو پتہ نہیں تھا کہ اوپر واقعہ کے مرکزی کردارباسکٹ والے شخص کے پھر ملنے کے ڈر سے میں اجنبی شخص کولفٹ دے کر اپنے وقت اور پٹرول کی بچت کررہاتھا۔
کچھ ہی مہینوں پہلے کی بات ہے ،ایک جنازہ میں شرکت کے لیے گیا ، گھر کے باہر برآمدہ میں بچھی کرسیوں پر بیٹھے لوگ مجھے دیکھتے ہی یکے بعد دیگرے کھڑے ہوگئے ، میں حکومت وقت کے کسی وزیر کی طرح سب سے مصافحہ کرتے ہوئے میت کے دیدار کے لیے اندر گھر میں داخل ہوا اور دل ہی دل میں یہ سوچنے لگا کہ میرے مخالفین بھی عوام کی نگاہوں میں رسماً اور تکلفاً ہی سہی مجھے اعزاز واکرام سے نوازتے ہیں ،تیسرے دن پھر تعزیت کے لیے میں اسی گھر میں گیا تو اتفاق سے اکثروہی لوگ کرسیوں پر بیٹھے تھے لیکن مجھے دیکھ کراب کھڑا ہونا تو درکنار بیٹھے بیٹھے ہاتھ بڑھاکر مصافحہ کرنا بھی گوارانہیں کررہے تھے میں نے سوچا ،یااللہ ! کیا ماجراہے ، اچانک مجھ میں کیا خرابی پیداہوگئی کہ پرسوں تک میرے احترام میں اٹھ کھڑے ہونے والے آج مصافحہ کرنا بھی گوارا نہیں کررہے ہیں،رات کو جب بستر پر گیا تو مسئلہ حل ہوگیا، مجھے یاد آیا کہ پہلے دن میں جب وہاں گیاتھا تو شہر کے ایک نامور وبزرگ عالم دین میرے پیچھے تھے ، کھڑے ہوکر مصافحہ کا اکرام ان کے لیے تھا،میرے لیے نہیں ، میں غلط فہمی اور خوش قسمتی سے اپنے لیے وہ اعزاز سمجھ رہاتھا، تیسرے دن وہ حضرت میرے ساتھ نہیں تھے اس لیے وہ اکرام ضمناً ہی سہی میرے لیے نہیں ہوا۔
قارئین :۔ مضمون کا عنوان تھا ’’ خو ش فہمیاں مع غلط فہمیاں‘‘ لیکن اپنی خوشی فہمیوں کے واقعات ہی اتنے زیادہ یادآرہے ہیں کہ اگر اس کو سپردِ قرطاس کروں تو مضمون دگناہوجائے گا، آپ کو توسننے میں مزہ آئے گالیکن مجھے اپنی خوش فہمیوں پرروناآئے گا، اسی لیے فی الحال اس پر اکتفاکرتاہوں اور غلط فہمیوں کے واقعات کو اگلی مجلس کے لیے محفوظ رکھتاہوں:۔ ’’ یار زندہ صحبت باقی ‘‘ کی شرط کے ساتھ
دراصل ہماری زندگی میں پیش آنے والے اکثرمفاسد ،بگاڑ ،جھگڑوں اور آپسی رنجشوں کی سب سے بنیادی وجہ انسان کی اپنی ذات سے متعلق پیدا ہونے والی خوش فہمیاں ہی ہیں ، اللہ تعالی کی طرف سے محض اس کے فضل سے وجود میں آنے والے انعامات کو وہ اپنا استحقاق اور کمال سمجھتاہے ، دوسرے سے ملنے والے اعزاز اور ضمناً اس کے حصہ میں آنے والے کچھ مختصر، وقتی اور عارضی فوائد کو وہ اپنی خوبیوں کا نتیجہ قرار دیتاہے جس کے نتیجہ میں خو د اس کے دل میں عجب وتکبر اور غرور ونخوت کا ناگہانی بوجھ جنم لیتاہے اور مدّ مقابل اور حریف کے دلوں میں حسد،کینہ اوربغض جیسے مفاسد پیداہوتے ہیں ، صرف خوش فہمیوں سے اپنے کو بچاکرکوئی بھی انسان اپنے اوپر آنے والے دسیوں مصائب ومسائل سے اپنے کو بچاسکتاہے ، مذکورہ واقعات کو آئینہ بناکرہم میں سے ہرایک خود اپنی زندگی کا بآسانی جائزہ لے سکتاہے۔