یورپی اتحاد کے مسمار ہونے کا خطرہ ؟ : آصف جیلانی

Bhatkallys

Published in - Other

12:42PM Sat 6 Feb, 2016
آصف جیلانی یورپ آج کل اپنے اتحاد اور اپنے مستقبل کے سنگین بحران سے دوچار ہے۔ ایک طرف پورے یورپ میں داعش کا زبردست خوف طاری ہے۔ دوسری جانب شام اور شمالی افریقہ کے پناہ گزینوں کا مسلہ یورپ پر ایک ایسے بھوت کی طرح سوار ہے جس سے فوری طور پر نجات مشکل نظر آتی ہے۔ پناہ گزینوں کے مسلہ کی وجہ سے یورپ میں باہمی کشیدگی کے نتیجے میں اس کا اتحاد مسمار ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ پیرس میں گذشتہ سال داعش کے ہولناک حملہ کے بعد خوف کا عالم یہ ہے کہ سڑک پر کار کے بیک فایر کی آواز سے لوگ سراسیمہ ہو جاتے ہیں۔ پیرس کے حملہ میں جو جہادی ملوث تھے ان میں سے بیشتر کی پیرس، برسلز اور ہالینڈ کے مختلف شہروں میں تلاش کے باوجود ان کا سراغ نہیں ملا ہے۔ عام خیال ہے کہ یہ جہادی یورپ میں کہیں چھپ گئے ہیں اور کسی وقت بھی نکل کر حملہ کر سکتے ہیں۔ برطانیہ میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے گاہے گاہے خبردار کیا جاتا ہے کہ کسی وقت بھی لندن میں پیرس کی طرز پر حملے ہو سکتے ہیں۔ اس زمانہ میں جب داعش، شام اور عراق میں اپنے باج گذار علاقوں میں توسیع میں سرگرم تھی، امریکا اور اس کے یورپی اتحادی داعش کے ٹھکانوں پر محض دکھاوے کی بمباری کرتے رہے جس کی وجہ سے داعش کی پیش رفت نہ رک سکی۔ لیکن جب یورپ سے جہادیوں نے داعش کی سپاہ میں شمولیت اختیار کرنی شروع کی تو یورپی ممالک کو تشویش لاحق ہوئی اور پیرس پر حملہ کے بعد جب یہ احساس ہوا کہ داعش کے جہادی یورپ میں در آئے ہیں تو فرانس اور برطانیہ نے ہڑ بڑا کر شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کا سلسلہ شروع کیا لیکن جب روس نے شام میں داعش کے ٹھکانوں پر صدر بشار الاسد کے باغیوں کے خلاف بمباری شروع کی تو امریکا، برطانیہ اور فرانس نے خاموشی سے شام پر بمباری بند کر دی اس خطرہ کے پیش نظر کہ کہیں روس کے طیاروں سے مڈ بھیڑ نہ ہوجائے۔ اب ایک عرصہ سے شام میں داعش کے مرکز رقعہ میں پر برطانیہ کے ان ٹورنیڈو طیاروں کی بمباری کا کوئی ذکر نہیں جن کے حملوں کی منظوری کے لئے برطانوی پارلیمنٹ میں دھواں دھار بحث ہوئی تھی۔ برطانوی میڈیا بھی معنی خیز انداز سے خاموش ہے اور کوئی حکومت سے نہیں پوچھتا کہ شام پر بمباری کا کیا نتیجہ برآمد ہوا۔ یورپ کے اتحاد اور مستقبل کے لئے اس وقت سب سے بڑا مسلہ شام اور شمالی افریقہ کے پناہ گزینوں کے سیلاب کا ہے جس نے نسل پرستی اور فاشزم کی حدوں کو چھوتی ہوئی قوم پرستی کو ہوا دی ہے۔ یورپ کی آزاد خیالی اور انسانی ہمدردی کا چہرہ داغ دار ہورہا ہے اور اس کا اتحاد مسمار ہوتا نظر آتا ہے۔ پناہ گزینوں کا یہ سیلاب اس قدر شدید ہے کہ دوسری عالم گیر جنگ کے بعد اتنی بڑی تعداد میں یورپ میں پنا ہ گزینوں کا ریلا نہیں آیا۔ گذشتہ سال شام کی خانہ جنگی سے جان بچانے اور لیبیا میں ناٹو کی تباہ کاری کے بعد نراجیت اور اقتصادی ابتری سے نجات حاصل کرنے کے لئے دس لاکھ کے قریب پناہ گزیں یورپ میں داخل ہوئے ہیں۔ یورپ میں پناہ گزینوں کا مسلہ بد سے بد تر ہوتا جارہا ہے۔ پناہ گزیں بدستور، بحیرہ روم کے راستے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور سینکڑوں اس کوشش میں جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔برطانیہ میں داخلے کے لئے فرانس کی بندرگاہ کیلے میں کئی ہزار پناہ گزیں کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک جنگل ہے ان بے یار و مددگار پناہ گزینوں کا۔ برطانیہ نے ان کو روکنے کے لئے محاذ جنگ کی طرح خار دار تار کی باڑھ کھڑ کر رکھی ہے۔ برطانوی حکومت نے اگلے پانچ سال میں صرف دس ہزار پناہ گزینوں کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یورپ کے بعض ملک جو اب تک پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لئے آمادہ تھے انہوں نے بھی اب اپنی پالیسی بدل دی ہے اور پناہ گزینوں پر دروازے بھیڑ دئے ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنایزیشن فار مایگریشن کا کہنا ہے کہ اس سال صرف جنوری میں ساڑھے 55ہزار پناہ گزیں بحیرہ روم کے راستے یورپ میں داخل ہوئے۔جب کہ گذشتہ سال 3722پناہ گزیں راستہ میں ہلاک ہوگئے یا لاپتہ ہیں۔ اس وقت جب یورپ کے بیشتر ملکوں نے پناہ گزینوں پر اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں جرمنی نے نوجوان افرادی طاقت کی شدید قلت کے پیش نظر آٹھ لاکھ پناہ گزینوں کو قبول کیا تو یورپ کے ان ملکوں نے شدید ناراضگی ظاہر کی تھی جن کی معیشت قدرے کمزور ہے۔ اس تفاوت کی وجہ سے پہلی بار یورپ کے ملکوں میں کشیدگی نے سر اٹھایا۔ یہ ناراضگی اتنی شدید تھی کہ ہنگری، سلووینا، پولنڈ اور آسٹریا نے یورپی یونین کے ممبر ممالک سے صلاح مشورہ کے بغیر پناہ گزینوں پر اپنی سرحدیں بند کردیں اور ڈنمارک نے پناہ گزینوں کو روکنے کے لئے نہایت عجلت میں عجیب و غریب قانون منظور کیا جس کے تحت پولس کو ڈنمارک میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی تلاشی لے کر ان سے 1400ڈالر کی رقم یا دوسرا اثاثہ ضبط کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ جرمنی میں پناہ گزینوں کے خلاف نسل پرستوں کے مظاہروں سے گھبرا کر چانسلر مرکل نے مزید پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور پناہ گزینوں پر یہ پابندی لگادی ہے کہ وہ دو سال تک اپنے رشتہ داروں کو جرمنی نہیں بلا سکتے۔ سویڈن نے بھی جو یورپ کا نہایت آزاد خیال اور انسانیت کا علم بردار کہلاتا ہے پناہ گزینوں پر اپنے دروازے بند کر دیئے ہیں۔ غرض اس وقت یورپ کے ممالک جو اپنی اخلاقی قدروں پر فخر کرتے ہیں پناہ گزینوں پر اپنی سرحدیں بند کر کے یہ بھول گئے ہیں کہ یورپ میں آنے والے شامی پناہ گزینوں نے پانچ سال سے جاری اس خانہ جنگی سے جان بچا کر ترکی، لبنان اور اردن کے کیمپوں میں پناہ لی تھی جس کی آگ بھڑکانے میں امریکا کے اتحادی یورپی ملکوں کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے صدر اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے اس کے باغیوں کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کی تھی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پناہ گزینوں کا یہ سیلاب خود یورپ کا پیدا کردہ ہے۔ یورپ یہ بھی بھول گیاہے کہ لیبیا اور شمالی افریقہ سے پناہ گزیں جو کشتیوں میں غرق ہونے کا خطرہ مول لے کر یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں یہ بھی لیبیا پر امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے ناٹو کی تباہ کن بمباری کے نتیجے میں معیشت کی بد حالی کا شکار ہوئے ہیں۔ لیبیا افریقہ کا سب سے زیادہ خوشحال ملک تھا اور اس کے آس پاس کے افریقی ممالک کی معیشت کا دارو مدار لیبیا کی خوشحالی پر تھا۔ ناٹو کی بمباری سے لیبیا کے کھنڈر بننے اور معمر قذافی اور ان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد جو افرا تفری مچی اس سے جان بچانے اور روز گار کی تلاش میں لیبیا اور شمالی افریقہ کے پڑوسی ممالک سے مصیبت زدوں کی بڑی تعداد نے یورپ کے ساحل کا رخ کیا۔ ان پناہ گزینوں کی در بدری اور مصایب کی ذمہ داری یورپ پر عاید ہوتی ہے۔ اس جرم کو چھپانے کے لئے اب یورپ نے پناہ گزینوں کے سیلاب کی وجہ سے اپنی ثقافت اور اپنے طرز زندگی کے درہم برہم ہونے کے خطرہ کا شور مچانا شروع کردیا ہے۔اس وقت یورپ کو 9 فی صد بے روزگاری کا مسلہ درپیش ہے یہی وجہ ہے کہ پورے یورپ نے قوم پرستی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ 58 سال قبل یورپی یونین کے قیام کے وقت یورپ کے سیاست دانوں نے جنگوں سے آزاد یورپ کے ملکوں کے سیاسی اور اقتصادی اتحاد کا جو خواب دیکھا تھا وہ اب بکھرتا نظر آتا ہے۔