اسکول تو سب ہی اچھے ہوتے ہیں،اس لۓ کہ علم کی روشنی پھیلاتے ہیں، کچھ اسکول ،ملگجی ۔اور کچھ اسکول اجلی اجلی روشنی۔ہر اسکول اور ہر استاد کا بس ایک ہی مقصد ہوتا ہے حتی الامکان طلبا اور طالبات کو علم کی جگر مگر کرتی روشنی سے ’منور‘ کرنا ۔۔
ننھی سی عمر میں آنکھیں ملتے ملتے جب ہم پہلی بار اسکول گۓ تو تصور میں دادی کے گھر کےتخت کا وہ چوکہ تھا جس پر بیٹھ کر ہم ۔،پارہ۔ پڑھا کرتے تھے،اسکول کی ڈسک اور لمبی لمبی بنچیں ہمارے لۓ نئ بھی تھیں اور حیران کن بھی،جن پر بچے اپنا ،بستہ، بھی رکھتے اور کچھ دیر کے لۓ؛سر اوندھا کر، سلاۓ بھی جاتے تھے،اسکول جانے سے پہلے ، مدرسہ ء نظامیہ فرنگی محل کے ایک کمرے میں تخت کے چوکے پر بچھی دری پر بیٹھ کر ہم نے لکڑی کی تختی جو گیلی چکنی مٹی سے پتی ہوتی تھی سیٹھے کے قلم اور نیلی روشنائ سے الف ،ب، ت، لکھنا سیکھا تھا ،یہ لکڑی کی تختی طالب علم کےلٔے کاپی کا درجہ رکھتی تھی ، ہر بچہ روزآنہ گھر سےتختی ،پوت۔ کر لایا کرتا تھا ، مولوی ثنا اللہ صاحب یا کبھی کبھی دوسرے ماسٹر صاحب بچوں کو پڑھاتے تھے ، بچے زور زور سے سبق دہراتے تھے ، چھٹی کے وقت ہماری صاف ستھری فراک کلاس کی لال رنگ سے پتی دیوار سے لال اور نیلی روشنائ سے نیلی ہوجایا کرتی تھی ، یہی حالات تقریبًا ہر بچے کے ساتھ ہوتے تھے ، مزہ تو جب آتا تھا جب برسات میں تختی پتنے کے بعد سوکھتی نہیں تھی اور جھما جھم برستے پانی میں دھل کر اور بھی ۔نکھر۔ اٹھتی تھی، ایک طرح سے ؛زندگی کا سبق یہیں سے شروع ہوجاتا تھا یعنی انسان کے آڑے ترچھے اعمال اس کے : اشک ندامت:سے دھل بھی سکتے ہیں اور وہ ’ نکھر‘ بھی سکتا ہے۔
خوشی خوشی اسکول آۓ تو دنیا ہی دوسری ملی ،نہ ،چرر مرر؛ کرتا تخت کا چوکا تھا جو ٹیہڑی میہڑی لکھوریوں پر رکھا رہتا تھا اور زرا سی ؛ہلچل۔ سے لکھوری کے کھسک جانے سے تخت ٹیہڑا ہو جاتا تھا ، بہ الفاظ دیگر ؛پایہ ء تخت ہل جاتا تھا ؛۔یہاں نہ ہاتھ نیلے ہوۓ نہ فراک نیلی،سب بچے قد کے حساب سے بٹھاۓ جاتے تھے۔
اس وقت تعلیم گاہ نسواں کا عروج کا زمانہ تھا ، چست درست انتظامیہ،اصول و ضوابط پر عمل درآمد اور بہت اچھی استانیاں تعلیم کے ساتھ ہی مختلف پروگرام بھی ہوا کرتے تھے ،ہر سال لگاتار تین دن تک اسکول کے اندر کھیلوں کے مقابلے ،سالانہ میلاد شریف اور سالانہ ڈرامہ ،کے جی کلاس سے ہم کو جو پی ٹی ، ڈراموں میں اسکول کی نمائندگی کرنے کا موقع ملا تو لگاتار تیرہ سال تک برقرار رہا ،زرا بڑے کلاس میں آۓ تو میلاد شریف اور تقریروں میں بھی شامل کۓ جانے لگے۔
ویسے تو اسکول کا یونی فارم سفید سوٹ پر ہرا دوپٹہ اور سر میں ہرا ربن تھا لیکن یونی فارم محض خاص خاص موقعوں پر لازم تھا باقی دن بچیاں جو چاہے پہن کر آسکتی تھیں ، اسکول میں ایک انجمن بھی تھی جس کے تحت طالبات اور استانیاں مختلف گروپوں میں تقسیم کی گئ تھیں ،گروپ مختلف ناموں کے تھے ،سفید سوٹ پر لال ، گلابی ، زرد یا نیلے دوپٹےاور اسی رنگ کے بیج الگ الگ گروپ کی نشان دہی کرتے تھے، بڑی لڑکیاں کیپٹن ،وائس کیپٹن تھیں ، اپنےاپنے گروپ کی بھی اور کھیلوں کی ٹیموں کی بھی، کھیلوں میں حصہ لینے والی اکثر لڑکیاں چوڑیدار پائجامہ پہنتی تھیں ،والی بال، باسکٹ بال، بیڈمینٹن سے لیکر لانگ جمپ ، ہائ جمپ اور مختلف دوڑوں کے مقابلے ہوتے تھے ، جن میں مینڈک ریس، جلیبی ریس ، بیلنس ریس اور جیبلن تھرو اور ڈسکس تھرو وغیرہ بہت مقبول تھے ،سر پر کتاب رکھ کر دوڑنے والی بیلنیس ریس میں ہم بھی دوڑے اور فرسٹ آۓ تھے۔شاید یہی وجہ ہے کہ آجتک ،سر پر کتابیں مضبوطی سے جمی ہوئ ہیں ۔
کھلاڑی لڑکیاں اس دھیان سے بانٹی جاتی تھیں کہ ہر ہر گروپ میں برا بر کا مقابلہ رہے،کچھ لڑکیاں ہر مقابلے میں حصہ لیتی اور جیت جاتی تھیں ،کسی بھی گروپ میں انکی موجودگی اس گروپ کی شاندار کامیابی کی ضمانت مانی ِجاتی اور سب سے زیادہ انعامات حاصل کرنے کی وجہ سے ،ٹرافی، بھی اسی گروپ کو سال بھر کے لےء مل جاتی تھی، انعامات بانٹنے کے لۓ اکثر ۔ بڑی بیگم حبیب اللہ آجاتی تھیں اور تب کھلاڑی لڑکیاں بہت جوش میں ہوتی تھیں ۔ہم ’ بھالا ‘ پھینکنے اور ’بیلینس ریس‘ یعنی سر پر کتاب رکھ کردوڑنے میں جیتتے تھے۔ ان تمام کھیلوں کی پرکٹیس پورے سال اسکول میں ہوا کرتی تھی ۔ اور دوسرے اسکولوں کو بھی ٹیمیں بھیجی جاتی تھیں۔ ایک بار ’مہیلا کالج کے گراؤنڈ پر مہیلا کالج کی ٹیم کو ہمارے اسکول کی ٹیم نے ’والی بال‘میں شکست دی تھی اور ہمارا اسکول تعلیم گاہ نسواں ۔اترپردیش کا ’والی بال کا چیمپین‘ ہوگیا تھا ،
ہر کلاس میں روزآنہ کھیل کا ایک گھنٹہ ضرور ہوتا تھا جس میں ہر بچے کو کھیلنا ضروری ہوتا تھا ، یا سب کو ’پی۔ ٹی‘ کرائ جاتی تھی ۔کھیل کود اور مقابلوں کو برابر کی اہمیت دی جاتی تھی اور ہر بچے کا کسی نہ کسی کھیل میں شامل ہونا ضروری تھا ، ’کےَ۔ جی‘ کلاس ہی سے ہم نے پی۔ٹی اور ڈراموں میں جو حصہ لینا شروع کیا تو بارہویں کلاس تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اسکول میں ’گیمز روم’ تھا جس میں پی ٹی کا سامان اور کھیلنے کا سامان بھرا رہتا تھا ۔محترمہ بلقیس آپا ’ گیمز ٹیچر‘ تھیں اور باسکٹ بال، والی بال، بیڈمنٹن کے مقابلوں کی ٌ ایمپائر‘ بھی وہی ہوتی تھیں ۔ پورے وقت دوپٹہ ساییڈ میں باندھے اور ’سیٹی‘ گلے میں ٹانگے رہتی تھیں ۔ لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ٹیچرز بھی بنٹی رہتی تھیں وہی لال،گلابی،زرد اور نیلے دوپٹے اوڑھے اور بیج لگاےء۔ جس وقت کوئ مقابلہ ہو رہا ہوتا تھا تو کھلاڑیوں کو جوش دلانے کے لۓ باقی لوگ تالیاں بجاتے اور فتح کے گانے بنا بنا کر زور زور سے گایا کرتے تھے۔فلمی دھن پر بنا گانا ہم کو آج تک یاد ہے۔۔۔جیت کے تو دیکھو ،،، جیت کے تو دیکھو۔۔۔۔ ہارنے والوں زرا جیتنا سیکھو جی‘،،،،بڑے کلاسز کی کچھ کھلاڑی لڑکیوں کے نام آج بھی ذہن میں محفوظ ہیں، آمنہ باجی،عائشہ باجی،ثریا عسکری باجی[جو بعد میں لکھنؤ اسٹیڈیم سے وابستہ رہیں ]،بدرن باجی،قمر جمال باجی، قمر جہاں باجی[ڈاکٹر قمر جہاں] عمر جہاں باجی وغیرہ۔ ہمارے کلاس کی کچھ لڑکیاں جس میں زیب النسا ،جس نے والی بال کی ٹیم میں مہیلا کالج کی ٹیم کو ہرایا تھا اور ’سروس‘ کرتے کرتے اسکی کلائ کی کھال بری طرح زخمی ہو گئ تھی،یہی زیبن بعد میں ڈاکٹر رفیق صاحب کی بہو بنیں ، چھوٹے کلاس کی کھیل کی ٹیچر الگ ہوا کرتی تھیں ۔ٹیچرز چاہے الگ الگ ہوں مگر یہ بات طے تھی کہ پڑھائ کے ساتھ ساتھ بچوں کی صحت اور فزیکل ٹرینینگ بھی ضروری ہے اسی وجہ سے ہر سال جاڑوں میں لگاتار تین دن مختلف کھیلوں کے مقابلےمنعقد کے ء جاتے اور بہت جوش و خروش پایا جاتا تھا ۔
طالبات کی انجمن کے تحت محض کھیلوں کا انعقاد نہیں ہوتا تھا بلکہ سالانہ ڈرامے کے علاوہ ہر ماہ کسی ایک کلاس کی طالبات کو ذمہ داری سونپی جاتی تھی یعنی ڈرامہ چننا ،اداکاروں کا انتخاب اور ڈائریکشن اور اسٹیج بنانا تمام کا تمام کام کلاس کی لڑکیوں کی ذمہ داری ہوا کر تی تھی ۔لڑکیاں اپنے گھروں یا اسکول کی لایئبریری سے اچھی اچھی نظمیں اور ڈرامے یا کہانیاں چن کر اسکو ڈرامائ شکل میں لا کر پریکٹس شروع کر دیتی تھیں ،مقبول ترین ڈراموں میں ’شبلی نعمانی‘ کی مشہور نظم ’عدل جہانگیری‘علامہ اقبال کی نظم ’بچے کی دعا‘اور ’ماں کا خواب‘،شوکت تھانوی کا ڈرامہ ’قاضی صاحب‘ اور ایسی ہی کئ نظمیں اور ڈرامے ہوا کرتے تھے۔ ایک ڈرامہ ’اندھیر نگری چوپٹ راج‘ بھی تھا ۔اسکول بحیثیت طالبہ کے جوائن کرنے سے پہلے ہم نے اپنی پھوپھو کے ساتھ عدل جہانگیری دیکھا تھا تو دل و دماغ پر ایسا چھایا کہ پوری کی پوری نظم ہم نے زبانی یاد کرلی تھی ،فارسی کے الفاظ اور شاعری کی باریک باریک نکات سمیت یاد ہوگےء۔ ہمارے ابو اکثر ہم سے سنا کرتے اور لوگوں کو سنوایا کرتے اور خوش ہوتے تھے۔ڈرامے میں نور جہاں کا رول کرنے والی ’خوبصورت طاہرہ باجی‘ ’مہر النساء ‘یعنی ملکہ نور جہاں کے رول میں دماغ میں ایسی ’بس‘ گیئں کہ ملکہ نور جہاں کا تصور کرتے ہی طا ہرہ باجی ہی دھیان میں آجاتی تھیں ۔ایسے ہی اقبال کی نظم ’ماں کا خواب‘ میں ماں کا رول ادا کرنے والی مصطفی۱ باجی ،اندھیر نگری چوپٹ راج میں سادھو کا رول کرنے والی ہماری عزیزہ گھونگھر والے بالوں والی شمیم باجی مرحومہ اور ’جھانسی کی رانی ‘ کا رول کرنے والی ہماری سگی پھوپھی۔جن پراصلی ’رانی صاحبہ ‘ کا تمام جمال ، جاہ و جلال جیسے چھا گیا تھا ۔رانی صاحبہ کے لۓ زیورات اور کپڑُے وغیرہ توآ سانی سے مل گۓ مگر ’تلواراور ڈھال‘ ایک مسئلہ بنی ہوئ تھی۔دفتی کی تلوار جس پر روپہلی پنی چپکی ہو ، بھلا اس بہادر رانی پر کیسے سوٹ کر سکتی تھی جس کے بارے میں کہا گیا ہو۔۔۔۔۔’خوب لڑی مردانی ، وہ تو جھانسی والی رانی تھی ۔‘
سالانہ ڈرامہ بہت اہتمام سے ہوتا تھا ۔جس میں لڑکیوں کی ’والدایئں‘اور معزز مہمان بیبیاں بھی اور اسکول کی بانی ’بڑی بیگم صاحبہ‘ بھی آتی تھیں، ایک لیڈی’چیف گیسٹ‘ بھی ہوتی تھیں ، ۔نیم کے پیڑ کے نیچے،باسکٹ بال کی بڑی فیلڈ میں ایک طرف اسٹیج بنایا جاتا تھا اور باقی تمام میدان میں کرسیاں لگائ جاتی تھیں ،مائکروفون بھی فٹ کیا جاتا اور بار بار ’ہیلوأ ہیلو‘ کرکے ٹسٹ بھی کیا جاتا تھا ،ہم کے جی کلاس میں تھے کہ ’سلیکٹ‘ کۓ گۓ اور دریاۓجمنا بنے ۔ہم نے سر سے پیر تک پانی کے رنگ کا ہلکا نیلا ڈریس پہنا اور جو لڑکی گنگا بنی تھی اس نے سفید ڈریس پہنا ۔ہم دونوں کےپشت سے لمبی سی سفید اور ہلکی نیلی ساریاں بھی تھیں اور ہم دونوں کے مخالف سمت سے آکر درمیان میں مل جانے سے’سنگم‘ جیسا منظر نظر آتا تھا ،یہ ڈرامہ ۔ہندوستان سے متعلق تھا ،جس کے بول تھے۔۔۔۔ یہ وہی دیش میرا پیارا ،، جس کے اتر میں ہمگری ہے،،، جس سے نکلی گنگا جمنا ۔۔۔ اس ڈرامے میں بھارت ماتا کا رول محترم ڈاکٹر عبد الاحد خاں خلیل کی بیٹی طیبہ خلیل صاحبہ نے کیا تھا ، آج بھی بھارت ماتا کا تصور کرتے ہیں تو خوبصورت طیبہ باجی معہ اپنے جمال سامنے آجاتی ہیں۔ اسی ڈرامے میں تیسرے کلاس کی ایک دبلی پتلی لڑکی’گاندھی جی‘ بنی تھی،اسکی گردن بھی زرا سی ایک طرف ڈھلکی رہتی تھی ۔اصل ڈرامے والے دن جب اس نے گاندھی جی کی جیسی دھوتی ۔چادر ۔ویسی ہی چپل پہنی اور عین مین گاندھی جی جیسی عینک لگائ تو وہ سچ مچ کی گاندھی جی لگ رہی تھی ، مزے کی بات یہ تھی کہ پورے اسکول میں ایک بھی استانی یا طالبہ نہیں تھی جس کو دھوتی باندھنا آتی ہو،محض ’گولی‘ چپراسی دھوتی پہنتا تھا ، سو اسکول میں پڑھنے والے ایک چھوٹے لڑکے کے گولی نے دھوتی باندھ کر دکھائ تب جا کر کام بنا ۔ عین ڈرامے کے وقت جب سب اداکار بچے ایک ایک کر کے سیڑھیاں چڑھا کر اسٹیج پر بھیجے جا رہے تھے،نقلی گاندھی جی ‘اپنے ڈنڈے کے دھوتی میں الجھ جانے سے گر پڑے ۔وہ تو اچھا ہوا کہ یہ ’حادثہ‘ اسٹیج کے پیچھے ہوا ۔بہت بعد میں وہ لڑکی ہمارے ساتھ آگئ ۔ہماری دوستی برقرار رہی مگر ہم انہیں ’باپو‘ ہی کہتے رہے۔
سچ ہی تو ہے کہ زندگی خود ایک بہت بڑا ڈرامہ ہے جس کا اسٹیج تو وہی رہتا ہے مگر کہانیاں اور اداکار بدلتے رہتے ہیں۔
ڈراموں میں کبھی کبھی’ تمثیلی مشاعرے‘ بھی ہوا کرتے تھے۔ لڑکیاں مجاز۔ جذبی، جگراور شکیل بدایونی اور دوسرے شعرأ کا روپ دھارتیں اور ان شعرا کی مشہور غزلیں ترنم سے پڑھا کرتی تھیں ۔
ایک بار کے تمثیلی مشاعرے میں جگر مرادٓبادی بنی لڑکی نے جگر صاحب کی نظم ’سراپا‘ خوب جھوم جھوم کر سنائ تھی ،
ایسے ہی ایک مرتبہ جب ہمارے کلاس کی ڈرامے کی باری آئ تواپنی چند دوستوں کے ساتھ ہم نے بھی ڈرامے کے انتخاب ،اور ہدایت کاری سے لیکر اداکاری تک تمام معاملات میں حصہ لیا ،ڈرامہ بھی کیا گیا اور’ٹیبلو ‘ بھی،جس میں پردے کے پیچھے سے نظم گائ جاتی اور خاموش اداکار، اداکاری کرتے تھے،کھیل کود اور ڈرامے کروانے کے پیچھے در اصل بچوں کی تربیت بھی ہوتی تھی کہ مل جل کر کیسے کوئ کام کیا جاتا ہے۔ ڈراموں میں حصہ لینے کی خواہش تو ہر بچی کی ہوتی تھی خصوصاً’ہیرو یا ہیروئین ‘ بننے کی مگر جس کو جو رول دیا جاتا تھا اسے وہی رول نبھانا پڑتا تھا ۔
کبھی کبھی کسی تعلیمی سال میں انجمن ’ قوس قزح‘کے تحت ’ادبی شام ‘ بھی منائ جاتی تھی ،ایسی ہی ایک شام میں محترمہ رضیہ سجاد ظہیر صاحبہ مہمان خصوصی تھین ۔مشہور ترقی پسند ادیب جناب سجاد ظہیر صاحب کی اہلیہ تھیں ،بڑی ادیبہ بھی تھیں اور کرامت حسین گرلس ڈگری کالج میں پڑھاتی تھیں ، بہت با ہمت خاتون تھیں ، سجاد ظہیر صاحب ۔جب پاکستان میں گرفتار کر لےء گےء تھے تب رضیہ آپا نے بڑی ہمت اور حوصلے سے تمام ذمہ داریاں سنبھالی تھیں ، اس شام رضیہ آپا نے اپنا جو افسانہ سنایا تھا ۔وہ دو فوجی دوستوں سے متعلق تھا ۔جس میں ایک ساتھی فوجی بہت کھلندڑا تھا اور کسی گانے کی ایک لائن گنگنایا کرتا تھا ، ’میں تو چندا سے گوری نار۔۔۔۔ نجر موہے لاگے نا‘۔۔۔اپنے دوست کی بہن کو وہ پسند کرتا تھا ، یہ بات ’بہن‘ کو تو معلوم تھی مگر’بھائ‘ کو نہیں ، محاز جنگ سے بھائ اپنی بہن کو خط لکھتا ہے کہ آج وہ بہت رنجیدہ ہے کیوں کہ آج اس کا ایک عزیز دوست شہید ہو گیا ، آخری وقت میں بہت دھیمی آواز میں وہ کچھ کہہ رہا تھا ، کان قریب لے جانے پر بھائ نے سنا ،وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔ میں تو چندا سے گوری نار۔۔۔ نجر موہے لاگے نا‘،
اسکول کے آخری دن ۔سالانہ میلاد شریف ہوتا تھا اور دسویں اور بارہوں کلاسز کو چھوڑ کر تمام کلاسوں کا رزلٹ ،سب کے سامنے بانٹا جاتا تھا ۔اس روز ’رشید منزل‘کے بہت بڑے ہال میں کہ جسکو لکڑی کے پارٹیشن لگا کرکئ کلاسوں میں بانٹا گیا تھا ،پارٹیشن ہٹا کر ایک کر دیا جاتا تھا اور ایک طرف بڑا سا اسٹیج بنایا جاتا تھا ، اور زمین پر دریاں ، سفید چاندنی پر، آگے کے حصے میں قالین بچھاۓ جاتے تھے ، پہلے بڑے کلاس کی لڑکیاں میلاد شریف پڑھتی تھیں اور پھر مہمان خصوصی ، بچوں کو رزلٹ بانٹتی تھیں ، کئ سال تک میلادشریف پڑھنے والی لڑکیوں میں ، نور جہاں باجی ،ملکہ باجی۔صبیحہ سراج اور آصفہ زمانی صاحبہ نعتیں پڑھتی رہیں ، آصفہ باجی تو روز ہی اسکول شروع ہونے کے وقت ’دعا‘ میں ’سورہء فاتحہ‘ کی قراءت کرتی تھیں ،انکی آواز کی نغمگی کانوں میں رس گھولتی تھی اور نعت شریف کا سرور دوبالا ہو جاتا تھا ، عربی زبان کا ایک مشہور ’سلام‘۔۔۔ الصلو۱ۃ علٰیٰ النبیؑ۔۔۔ پڑھا کرتی تھیں ۔
سال بھر اچھی کارکردگی پر انعامات بھی تقسیم ہوتے تھے اور رزلٹ بھی بانٹا جاتا تھا، ’ُپاس اور فیل‘ کا سسپنس آخیر تک برقرار رہتا تھا ، جو لڑکی ’پاس‘ ہوتی وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ چہکتی پھرتی تھی اور فیل ہوجانے والی بیچاری لڑکی روتی اور چھپتی پھرتی تھی،اکثر لڑکیاں ’انگریزی‘ زبان میں ہی فیل ہوتی تھیں لیکن انکو’پرموشن‘ مل جاتا تھا مگر اگر کسی ایک اور سبجیکٹ میں بھی فیل ہو جاتیں تو ’فیل’ قرار دی جاتی تھیں اور انہیں وہی کلاس پھر سے دوہرانا پڑتا تھا ، انگریزی میں فیل ہونے کی ایک یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ’پڑھائ‘ پر ٹیچرز اتنا دھیان نہیں دیتی تھیں جتنا دینا چاہئے،دوسرے تمام سبجیکٹس میں لڑکیاں کم ہی فیل ہوتی تھیں ،ایک تو یہ کہ ہمارے زمانے میں انگریزی ’ پانچویں کلاس ‘ سے اچانک شروع کی جاتی تھی ، استانی صاحبہ کلاس میں زرا بھی انگریزی نہیں بولتی تھیں ، انگریزی زبان کو ’دشمن کی زبان ‘ سمجھا جاتا تھا ، انگریزوں کی غلامی بری تھی مگر انگریزی زبان نہیں ،بہرحال ’انگریزی زبان‘ کا ’ٹرر‘ طالبات کو الجھاۓ رکھتا تھا ، ایک عام متوسط طبقے کے مسلم گھرانے میں ویسے بھی انگریزی بولنے والے والدین بہت کم ہی نظرآتے تھے۔لے دے کے اسکول کی انگریزی کی ٹیچر ہی بچتی تھیں کہ جن سے بچے کچھ انگریزی سیکھ سکیں ۔
کھیل کود، ڈراموں اور میلاد شریف کے علاوہ ،دسویں اور بارہوں کلاسز کا بورڈ کا امتحان دیکر اسکول سے وداع ہونے والی لڑکیوں کو ان سے جونیئر کلاس نویں اور گیارہوں کلاسز کی طالبات ’الوداعی پارٹی‘ الگ الگ دیتی تھیں ، میزبان کلاس کی طالبات اپنے آپس میں ’چندہ‘ جمع کر کے ’چاۓپارٹی‘ کا انتظام کرتی تھیں ،کرسیاں میز تو اسکول سے مل جاتی تھیں ، مگر ’برتن اور ناشتہ۔‘ وغیرہ گھروں سے لایا جاتا تھا ، پرنسپل صاحبہ اور تمام اسٹاف مدعو ہوتا تھا ، جتنے پیسے جمع ہو سکیں اسی حساب کا ناشتہ اور تحفے دۓ جاتے تھے ،میزبان لڑکیاں ڈرامے بھی کرتی تھیں اور مہمان طالبات اور کوئ کوئ ٹیچر ’فینسی ڈریس‘ میں بھی آتی تھیں ، آج بھی ہمارے پاس ہماری الوداعی پارٹی کی تصویر موجود ہے ،مہمان طالبات اور ٹیچرز کو ’ٹایئٹل‘ بھی دۓ جاتے تھے ، گیارہوں کلاس میں ہمارے کلاس نے جو پارٹی دی ، اس میں علامہ اقبال کی نظم ’ابلیس اور جبرئیل ‘کا مکالہ تھا ،جس میں ابلیس ،جبرئیل سے کہتا ہے۔
’گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصہء آدم کو رنگیں کر گیا کسکا لہو
’میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ھو ،اللہ ھو ،اللہ ھو ‘
ابلیس کے کردار کے لۓ ’ گھن گرج والی آواز ‘ کی ضرورت تھی ،لڑکیوں کا خیال تھا کہ ہماری آواز ’ گھن گرج‘ والی ہے سو ہم شیطان بن گۓ۔۔۔کیا کریں ’کلاس کی عزت کا سوال تھا ‘۔ ہم لوگوں کو ایک قوالی کی بھی تلاش تھی ،ہماری ایک ٹیچر محترمہ عزیز بانو داراب ’وفا‘ صاحبہ سے گزارش کی گئ ،بانو آپا نے فی البدیہ قوالی لکھ دی۔
’وفا کی شمع جلتی ہے، جنوں کا ساز بجتا ہے
تیری محفل کا ، اے ساقی ، ہر اک انداز سجتا ہے
یقینا ً چور پھر کوئ تمنا کا صنم ہو گا ‘
’ٹایئٹل‘ دینا بڑا مشکل کام ہوتا ہے ، کبھی کبھی کوئ ناراض بھی ہوجاتا تھا ، ٹایئٹل ڈھونڈھتے وقت جس کو دینا ہے اسکی پرسنیلٹی کو بھی دھیان مین رکھنا پڑتا
تھا، ہمارے ابو کی لایئبریری کی شاعری کی کتابیں اس وقت بھی ہمارے بہت کام آیئں ، اور ہماری جمع کی ہوئ غزلیں بھی ۔ ایک لڑکی جو بہت لمبی تھی اسکو ٹایئٹل دیا ۔
’ اور کبھی پاس سے دیکھے جو ہمالہ تجھکو
تیرے اس قد کی قسم اور بھی اونچا ہوجاےء‘
اپنی پرنسپل صاحبہ کو ٹایٹل دیا ۔
’یہ مہر تابوں سے جاکے کہہ دو کہ اپنی کرنوں کو گن کے رکھ لے
میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں ‘
اس کے علاوہ کچھ تحفے بھی دۓ گۓ تھے، ننھی منی سی کاپیاں جو خاص طور سے بنوائ گئ تھیں ،عنابی رنگ کے پلاسٹک کے کور کی کاپیاں جیسی پتے وغیرہ لکھنے کے لۓ ہوتی ہیں ، یہ خیال بھی ہماری ایک سہیلی کو آیا تھا ،کہ تحفے میں ایسی چیز دی جاۓ جو برسوں ساتھ رہے ، کچھ کاپیاں بچ گئ تھیں تو ہم سب نے آپس میں بانٹ لی تھیں ، ایسی ہی ایک کاپی سن بیاسی تیراسی تک ہمارے پاس رہی۔جس میں ہماری سہیلیوں کے پتے لکھے تھے،
اکثر ’ وداع‘ ہونے والی لڑکیاں ’ چہکوں پہکوں ‘ روتی تھیں ،یہ ’رونے کا راز‘ ہماری آج تک سمجھ میں نہیں آیا ، ہم نے اپنے اسکول میں اپنی زندگی کے تیرہ قیمتی سال گزارے ۔کے جی کلاس سے لیکر بارہویں کلاس تک، انہیں تیرہ قیمتی سالوں میں ہر لمحہ آنے والی زندگی کی تیرہ ہزار یا تیرہ لاکھ یا تیرہ کروڑ گھڑیوں کے لۓ تربیت حاصل کی ۔
سنہری یادیں ادھوری رہ جایئں گی اگر ہم ان لوگوں کا ذکر نہ کریں کہ جنکی مدد کے بغیر اسکول کے اتنے بڑے نظام کو احسن طریقے سے چلانا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہوتا ، ہماری وہ’ بوایئں ‘ جو اسکول شروع ہونے سے پہلے اور اسکول ختم ہونے کے بعد تک اسکول کی صفائ ستھرائ اور دیکھ بھال میں مشغول رہتی تھیں اور وہ چپراسی اور ’ٹھیلا چلانے والے کہار ‘ جو ایک ایک لڑکی اور ہر ایک ٹیچر کا گھر جانتے اور وقت ضرورت والدین اور اسکول کے درمیان ’رابطے‘ کا کام کرتے تھے۔
بتولن بوا ، بشیرن بوا،دونوں تمام وقت اسکول کے ایک کونے سے دوسرے سرے تک اور پرنسپل کے کمرے سے ٹیچرز روم تک،باہر کے آفس یعنی مردانے آفس تک پیغام لاتی لیجاتی تھیں ،ان ہی کے ذمے اسکول کی صفائ ستھرائ بھی تھی،کلاسز کی جھاڑ پونچھ بھی ،لڑکیوں سے اکثر ’دعا ‘ کے وقت کہا جاتا تھا کہ جاتے وقت اپنی کرسی ،اپنے ڈسک پر اوندھا کر جایئں تاکہ جھاڑو دینے میں مشکل نہ ہو،ویسے اسکول میں مہترانی بھی آتی تھی، بشیرن بوا کبھی کبھی ہمارے گھر بھی آتی تھیں ،کسی تیوہار پر یا تقریب میں ،در اصل وہ ’باغ مولانا انوار صاحب کے پاس رہتی تھیں ،بہت شائستہ سی ’نمازی بی بی ‘ جو ’دھوپ‘ کا رخ دیکھ کر عصر اور ظہر کے اوقات کا اندازہ کرتی تھیں ،سوتی غرارہ جمپر اور اس پر بڑا سا دوپٹہ سر سے اوڑھے ،ناک میں سنہری کیل اور ہاتھوں میں شیشے کی چوڑیاں پہنے ،بشیرن بوا ، ایک بار ہمارے کلاس میں آیئں ،ٹیچر سے کہا ، فرزانہ رضا انصاری کو ’بڑی استانی اپنے آفس میں بلا رہی ہیں‘۔۔۔ ’ہم ‘ انکے ساتھ چلے تو فکر مندی سے کہنے لگیں ،،، ’بٹیا۔۔۔ تم کیا ’شرارت ‘ کئے ہو، جو تم کو بلاۓ رہی ہیں ؟‘ ہمیں خود بھی نہیں معلوم تھا کہ ’ہم نے کیا شرارت کی ہے۔‘پرنسپل کے آفس پہنچے تو دیکھا ’بڑی بیگم حبیب اللہ صاحبہ‘ بھی موجود تھیں اور بہت سی ٹیچرز بھی ، در اصل دو ایک روز قبل کسی صاحب نے ہمارے اسکول پر تنقید کی تھی کیونکہ اسکول میں دوسرے اسکولوں کی طرح ’یونی فارم‘پہن کر آنا ضروری کیا گیا تھا تاکہ پہچان رہے کہ کس اسکول کی طالبہ ہے ،اب یونی فارم ’گہرا ہرا جمپر سفید شلوار اور سفید دوپٹہ کر دیا گیا تھا ،وہ بھی طالبات ہی کی فرمائش پر ، تاکہ ’امیر غریب ‘ کا فرق مٹ سکے ، یونی فارم ‘لاگو کرنے کی مہم میں ہم بھی بہت آگے آگے تھے ، ان صاحب کا مراسلہ ’قومی آواز ‘ اخبار میں چھپا تھا ، ہم نے اسکا جواب دیا تھا اور اپنے اسکول کا دفاع کیا تھا ،اسی کی ’شاباشی‘ دینے کو بلایا گیا تھا پرنسپل صاحبہ نے ہم کو پاس بلاکر شاباشی دی اور ہم’ نہال ‘ ہو گۓ۔
جو لڑکی کسی وجہ سے اسکول کا ناغہ کرتی تھی اسکو ایک درخواست پرنسپل کے آفس بھیجنا پڑتی تھی ،درمیانی وقفے کے بعد وہ تمام درخواستیں ، پرنسپل صاحبہ کے دستخط کے ساتھ ’کلاس ٹیچر‘ کے پاس یہی بوایئں لیکر آتی تھیں ، بوا کے پاس رجسٹر میں دستخط کر کے کلاس ٹیچر اپنے کلاس کی درخواستیں لے لیتی تھیں اور حاضری کے رجسٹر میں لڑکی کے نام کے آگے ’انگریزی کا ’ایل‘ یعنی چھٹی پر لکھ دیتی تھیں
ورنہ وہ لڑکی ’غیر حاضر‘مانی جاتی تھی ساتھ ہی اسپر ایک آنہ جرمانہ بھی لگتا تھا اور ایسی ہی دس غیر حاضریوں کے بعد لڑکی کا نام بھی اسکول سے کٹ سکتا تھا ، ہر لڑکی کو ’درخواست‘ لکھنے کا موؤدب طریقہ بھی سکھایا جاتا تھا جو ’ اسکول کے نام کے بعد ’ جنابہ پرنسپل صاحبہ ۔۔۔۔۔ آداب ‘ سے شروع ہوتا تھا ، یہ تمام انتظام طالبات کو آنے والی زندگی میں ڈسپلن‘ سکھانے کے لۓ تھا ،
دوسری بوا ’ بتولن بوا ‘ تھیں ،بہت موٹی تھیں ساتھ ہی بہت خوش مزاج بھی ،دن بھر کوئ گانا گایا کرتی تھیں اور ہمت والی ایسی کہ موجودہ گادریج‘ جیسی الماری اکیلی اپنی پیٹھ پر لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی تھیں ،اس الماری میں کلاس کی چیزیں رکھی جاتی تھیں اور اسکی چابی ’ کلاس مانیٹر‘ کے پاس رہتی تھی، بتولن بوا اگر کہیں ناراض ہوجاتی تھیں تو ’بے قابو ہاتھی ‘ کی طرح اسکول میں پھرا کرتی اور انکی ’دہاڑ‘ اسکول میں گونجا کرتی تھی ، غریب اپنے موٹاپے کی وجہ سے ’انٹرول‘ میں میدان میں پھیلے کاغذ کے ٹکڑے اور کیک کے ’ریپر‘ اٹھاتے اٹھاتے تھک جاتی تھیں اور چیخنے چلانے لگتی تھیں ،
پہلے جب اسکول میں لڑکیوں اور استانیوں کو لانے لے جانے کے’ٹھیلے‘ چلا کرتے تھے تو ہر ٹھیلے کے ساتھ کم از کم چار ’ کہار‘ ضرور ہوتے تھے ،لیکن بعد میں ٹھیلوں کا چلن ختم ہو گیا اور رکشے، تانگے چلنے لگے ، ایک ہی ٹھیلا بچا تھا جو ٹوٹی پھوٹی حالت میں اسکول کے اندر کھڑا رہتا تھا اور لڑکیاں اس میں کودا پھاندا کرتی تھیں ، ایک ’کہار‘ یعقوب رہ گیا تھا جو ’ چپراسی ‘ کا کام کرتا تھا ،اسکی ایک آنکھ خراب تھی مگر اپنی ایک آنکھ کے سہارے وہ چار پانچ سو لڑکیوں کو پہچانتا اور لڑکیوں اور استانیوں کے پتے اور گھروں کے راستے یاد رکھتا تھا ،
اسکول کے اندر کی تمام کاروائ تو عورتوں کے ذمے تھی لیکن اسکول بند ہوجانے کے بعد،سنسان ، ویران بلڈنگ کی حفاظت کا ذمہ جس اکیلے شخص کا تھا ،وہ اسکول کا چپراسی اور چوکی دار ’ گولی‘ تھا جو اسکول کے اندر ہی ایک کوٹھری میں رہتا تھا ، گولی سے اسکول کا ہر بچہ ڈرتا تھا ، خاص طور سے شریر لڑکے جو اکثر کسی بھی استانی کے قابو میں نہیں آتے تھے ۔کلاس سے باہر بھی کۓ جاتے تھے اگر پھر بھی نہ ’سدھریں‘ تو ’گولی‘ کے حوالے کۓ جاتے تھے اور سزا کے طور پر ’ مردانے آفس‘ کے دروازے پر کھڑے نظر آتے تھے، شرارتی بچوں میں سب سے آگے ’چودھری زبیر الرحمان‘ تھے جو بہت چنچل فطرت کے تھے ،اور اپنی ساتھ کی لڑکیوں کے کھیل میں ’ بھمبھٹ مچانے ‘ میں ماہر تھے اس لۓ اکثر باہر کے آفس کے دروازے پر نظر آتے تھے،
سفید دھوتی پر آدھی آستین کا کرتہ یا قمیص ، کاندھے پر دھاری دار انگوچھا ،ہاتھ میں ڈنڈا ،پاؤں میں جوتا ، حلق میں بہت بہت کرخت آواز ،جس کو سن کر اسکول کی منڈیروں پر بیٹھے بے ضرر کوے اور معصوم چڈے چڑیاں تک ڈر کے مارے اڑ جایئں ،ویسے تو گولی کا کام بڑے میدان میں لگے نیم کے درخت کے مضبوط تنے پر ٹنگے ’سورج ‘ کی طرح چمچماتے پیتل کے گھنٹے پر ہتھوڑے سے ہر پینتیس یا پینتالیس منٹ بعد زور دار چوٹ مار کر گھنٹہ ختم اور نیا گھنٹہ شروع ہونے کا اعلان کرنا تھا لیکن اسکول کے باہر کے کاموں کی تمام تر ذمہ داری بھی گولی ہی کی تھی ، انسپیکٹر آف اسکولز کے آفس جانا، بینک جانا ،آنا اور ایسے ہی سیکڑوں کام ۔
ایک مرتبہ جب گرمی کی چھٹیوں کے بعد اسکول کھلا تو پتہ چلا کہ گولی کی شادی ہو گئ ہے اور گولی کی کوٹھری میں ایک دیہاتی عورت ساری لپیٹے ،لمبا سا گھونگھٹ کاڑھے موجود تھی ،اس کے ہاتھوں پر ’ گدنا ‘ گدا تھا ،کوٹھری کے باہر تمام استانیاں جمع تھیں اور اسکو شادی کی مبارک باد دے رہی تھیں اور رواج کے مطابق کچھ’ منھ دکھائ‘ بھی، جب تک سب لوگ اسکول میں رہتے ، وہ عورت یا تو کوٹھری مین ہی رہتی یا گھونگھٹ کاڑھے چوکھٹ پر بیٹھی رہتی ،کبھی کبھی نل پر اپنے پیتل کے برتن دھو رہی ہوتی، کئ مہینوں بعد گولی کی بی بی کے اسی اسکول کی اسی کوٹھری میں ایک بچہ بھی ہوا ۔اس وقت کوٹھری کے آس پاس کے تمام کلاسز خالی کرا لۓ گۓ تھے اور بچیاں بڑے میدان میں جمع کر لی گئ تھیں ،تمام شادی شدہ استانیاں اور بوایئں گولی کی کوٹھری کے آس پاس جمع تھیں ،بوایئں ،گولی کی بی بی کی مدد بھی کر رہی تھیں ،اس وقت کوئ ہندو تھا نہ مسلمان ، بس ، دردذہ سے ترپتی ہوئ ایک عورت تھی اور اسکی ہمت بڑھاتی اور مدد کرتی دوسری عورتیں تھیں۔