ایڈوکیٹ شاہد اعظمی اور نوشاد قاسمجی کی شہادت رنگ لارہی ہے ! (دوسری قسط)۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

02:45PM Thu 22 Feb, 2018
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ haneefshabab@gmail.com میں نے سابقہ قسط میں اشارہ کیا تھاکہ مسلم نوجوانوں کے حق میں قانون کے بے جا استعمال کے خلاف شاہد اعظمی نے ایک مہم چھیڑ رکھی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں زیادہ ترمقدماتpro bono بغیر مالی منفعت کے لڑے جار ہے تھے۔ان مقدمات میں اسے ایک طرف بڑی کامیابی مل رہی تھی تو دوسری طرف وہ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی آنکھوں میں کانٹابن کر کھٹکنے لگاتھا ۔اس کی تیز رفتار کامیابیوں کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اپنے پیشۂ وکالت کے محض 7برس کے بہت مختصر سے عرصے میں اس نے بم بلاسٹ کے 17ملزمین کو عدالت سے بری کروالیا تھا۔ پھر شاہد کی شہادت کے بعد اس کے مقدمات کو آگے بڑھانے والے دیگر ساتھی وکیلوں نے جو کامیابیاں حاصل کیں وہ الگ ہیں۔ممبئی پر حملے میں پاکستانی دہشت گردوں کاتعاون کرنے کے ملزم فہیم انصاری کا کیس بھی شاہد لڑرہا تھا جس کے دوران شاہد کو قتل کردیا گیا۔ مگر اس کے کچھ ہی دنوں بعد خصوصی عدالت designated trial courtنے فہیم انصاری اور صباح الدین احمد کو ممبئی حملے میں شامل ہونے کے الزامات سے بری کردیاجس کے خلاف پولیس نے ممبئی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک میں اپیل دائر کی مگر ان دونوں ملزمین کو پھنسانے میں ناکا م رہی۔ عدالت کے سامنے استغاثہ کی فضیحت: پراسیکیوشن کا استدلال یہ تھا فہیم انصاری اور صباح الدین احمد دونوں لشکر طیبہ کے جہادی کارکن ہیں اور 2008میں اتر پردیش کے سی آر پی ایف کیمپ پر حملے میں ملوث ہیں۔ اس کے علاوہ فہیم نے ممبئی کے حساس علاقوں کے نقشے اوراسکیچ اپنے ہاتھ سے بنائے تھے ۔پھر صباح الدین کے ساتھ نیپال جاکر وہاں پر موجود لشکر طیبہ کے ایجنٹ کے حوالے کیے تھے ۔اور اسی کی بنیاد پر پاکستانی دہشت گردوں نے ممبئی پر چار دنوں تک چلنے والا سب سے بڑاحملہ کیاتھا۔ لیکن اس کیس کی سماعت کررہے خصوصی ٹرائل کورٹ کے جج ML Tahaliyaniنے دونوں ملزمین کو الزامات سے بری کرتے ہوئے تبصرہ کیاتھا کہ جب انٹرنیٹ پر بہترین ٹیکنالوجی دستیاب ہے تو بندوق برداروں کو ہاتھ سے بنائے نقشوں پر بھروسہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہو سکتی تھی۔جج نے استغاثہ کی تھیوری کی دھجیّاں اڑاتے ہوئے لکھاتھا:’’ جبکہ ’گوگل ارتھ‘اور ’ویکی میپیا‘جیسے بہت سارے ویب سائٹس سے بہترین رنگین نقشے ڈاؤن لوڈ اور پرنٹ کیے جاسکتے ہیں تو پھریہ (ہاتھ سے نقشے بنوانا)کوئی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہوسکتی ۔‘‘ بعد میں استغاثہ کی اپیل پر سماعتوں کے دوران ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر مہر توثیق ثبت کردی ۔ اس طرح شاہد کے ذریعے لڑاجانے والا یہ کیس بھی استغاثہ کے لئے عدالتی جنگ میں فضیحت کا سبب بن گیا۔اس کے علاوہ شاہد اعظمی نے مہاراشٹرا حکومت کے مخالف دہشت گردی قانونی ’مکوکا‘ کے خلاف بھی عدالت میں اپیل کی تھی، جس میں اس نے الزام لگایا تھا کہ جیلوں میں بند ملزموں کو ٹارچر کیا جاتا ہے۔ عدالت کے ذریعے اس الزام کی تحقیق کروائی گئی تو یہ بات بھی سچ ثابت ہوئی تھی۔اس پس منظر میں دیکھا جائے توقانون کے نام پر فرقہ وارانہ عصبیت کا مظاہرہ کرنے والوں کا بوکھلا جانا فطری عمل تھا، اس لئے کہ:

تاریکی کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والوں کا سورج کی بس ایک کرن سے گھُٹ جاتا ہے دَم

شاہد سے میری ملاقات: غالباً یہ سن 2007 کی بات ہے کہ شاہد اعظمی سے میری پہلی اورآخری ملاقات کرلا میں اس کے دفتر میں ہوئی تھی۔ بھٹکل میں ہوئے ایک فرقہ وارانہ قتل میں میرے بھائی کوپولیس نے کلیدی ملزم نمبر ۱ بنایا تھا اور دیگر 6بے قصور مسلم نوجوانوں کو اس کیس میں ایساپھنسایاگیا تھا کہ نہ گرفتار ملزموں کی ضمانت ہورہی تھی اور نہ پولیس کے ہاتھ نہیں لگنے والے ملزموں کو پیشگی ضمانت مل رہی تھی۔ سیشنس کورٹ اور ہائی کورٹ میں ناکامی کے بعد میں نے شاہد سے مشورہ کے لئے ممبئی کا سفر کیا اور اس کیس پراس کے ساتھ تفصیلی گفتگو کی۔ چارج شیٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نے اس کیس کی پیچیدگیاں سمجھائیں اور سپریم کورٹ میں معاملہ لے جانے کے تعلق سے رہنمائی کی ۔اس گفتگو کے دوران ممبئی ٹرین بلاسٹ کیس میں ملزم بنائے گئے مفرور ملزم’ ریاض بھٹکل‘ کے تعلق سے میں نے اس سے استفسار کیا کیونکہ اس مقدمے میں شاہد ہی دفاعی وکیل تھا۔(اس وقت تک ریاض بھٹکل کے ساتھ’ انڈین مجاہدین‘ کانام یا دوسرے بلاسٹ کے الزامات ٹیگ نہیں کیے گئے تھے) اس پر اس نے بڑے دکھ سے کہا تھا ریاض کا مفرور رہنا ہی بہتر ہے۔ اگر وہ پولیس کے ہتھے چڑھتا ہے تو پھر اس کا اینکاؤنٹر ہونا یقینی ہے۔پھر جب میں رخصت ہونے لگااور اس سے قانونی مشورے کی فیس کے تعلق سے پوچھا تو اس نے کھڑے ہوکر میرے دونوں شانوں پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:’’ اپنے نوجوانوں کی حفاظت کیجیے۔انہیں پولیس کے ہتھے چڑھنے نہ دیجیے۔اور میرے لئے بس دعا کیجیے !‘‘

وہ چہرہ ہٹ چکا ہے کب کا لیکن دریچے میں ابھی تک روشنی ہے

اور وہ قتل کردیا گیا: شاہداعظمی کے آخری جملے میں جو درد اور خدشہ تھا میں نے اس کے لہجے سے صاف محسوس کرلیاتھا۔اس کا وہ لہجہ اور چہرہ آج تک میں اپنے ذہن ودل سے محوکرنے میں ناکام رہا ہوں۔اس کے ہاتھوں کا وہ لمس مجھے اب بھی اپنے کندھوں پرمحسوس ہوتا ہے جیسے ایک جواں سال بیٹے کا لمس کوئی باپ محسوس کرتا ہے۔11فروری 2010کووہ خدشہ حقیقت بن کر دنیا کے سامنے آگیاجسے شاہداعظمی کا ہر خیر خواہ محسوس کرتاتھا۔ چار بندوق بردار قاتل شاہد کے دفتر میں گھس کر بالکل قریب سے اس پر گولیاں داغنے اور اس کا کام تمام کرکے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ بعد میں پولیس نے بھرت نیپالی گینگ کے چار گُرگوں کو اس قتل کے الزام میں گرفتار کرلیااوران پر ’مکوکا ‘ کے تحت مقدمہ درج کیاگیا۔لیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ پولیس نے قتل میں استعمال ہونے والے ہتھیار کی کوئی فارنسک جانچ نہیں کروائی اور کیس’حل‘ہوجانے کا اعلان کردیا۔اس قتل کے سلسلے میں ایک تنہا چشم دید گواہ جوتھا وہ شاہد اعظمی کا پیون اندر سنگھ تھا جس نے قتل کے دو مہینے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی کہ اس کو فون پر دھمکایاجارہا ہے۔ اس الزام کی تحقیق ہوئی تومبینہ طورپر اس فون کال کا رابطہ گجرات سے نکلنے کی بات بھی سامنے آئی تھی۔اس معاملے کو اور مشتبہ بنانے والی بات جنوری 2011میں ہوئی جب ’مکوکا‘(MCOCA)عدالت نے ملزموں پر سے مکوکا قانون ہٹادیا کیونکہ استغاثہ نے چارج شیٹ میں اس کے لئے ضروری بنیاد فراہم نہیں کی تھی۔یعنی اس قتل سے مالی منفعت کا پہلو ثابت نہیں کیاتھا جو کہ ’مکوکا ‘ لاگو کرنے کے ضروری شرائط میں سے ایک ہے۔   پولیس مخالف وکیل کا پہلاقتل نہیں تھا!: پولیس کے خلاف لڑنے والے ایڈوکیٹ شاہد اعظمی کا قتل کوئی پہلا منصوبہ بندمرڈر نہیں تھا جس میں پولیس او رتحقیقاتی ایجنسی پر شک وشبہہ کا اظہار کیا گیاہو۔ اس سے ایک سال قبل سن 2009میں 9 ا پریل کومنگلورو کے مشہور ایڈوکیٹ پرشوتم پجاری کے دست راست اور کریمنل مقدمات میں تیزی سے اپنی ساکھ قائم کرنے والے بھٹکل کے نوجوان ایڈوکیٹ نوشاد قاسمجی کو بھی اسی طرح راستے سے ہٹایا گیا تھا۔ جس کے تعلق سے نوشاد کے گھر والوں نے پولیس کے بعض اعلیٰ افسران پر براہ راست قتل میں ملوث ہونے الزام لگایاتھا۔لیکن یہاں بھی پولیس نے’ روی پجاری گینگ‘ کے چند گُرگوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا اوربعد میں ان میں سے تین کو عمر قید بامشقت اور دو کو سات سال قید بامشقت اورجرمانے کی سزا بھی ہوگئی۔ مگر ایڈوکیٹ نوشاد کے چاہنے والے اس بات پر یقین کرنے کے لئے اب بھی تیار نہیں ہیں کہ یہ قتل صرف انڈرورلڈ مافیا کی دشمنی کا نتیجہ تھااور اس میں پولیس یا خفیہ ایجنسی کا کوئی رول نہیں تھا۔ شاہد اور نوشاد کے معاملے میں یکسانیت: حالانکہ نوشاد قاسمجی کے پاس دہشت گردی کے ایسے بہت بڑے اور ہائی پروفائل معاملات تو نہیں تھے جیسے کہ شاہد کے پاس تھے، لیکن پولیس کے مظالم اور قانون کے بے جا استعمال کے خلاف دونوں کا مشن ایک ساتھا۔نوشاد اور شاہددونوں ایسے ماحول میں مسلم نوجوانوں کے حساس sensitive معاملات سنبھال رہے تھے جبکہ ملک کی مختلف ریاستوں میں وکالت کا پیشہ خود متعصبانہ تفریق کا شکار ہوگیا تھا۔ اتر پردیش، مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش، کرناٹکا،دہلی وغیرہ میں دہشت گردی یا فرقہ وارانہ قتل کے معاملات میں وکیلوں کی طرف سے مسلمان ملزموں کی پیروی نہ کرنے اور انہیں قانونی امداد فراہم نہ کرنے کے فیصلے کیے جا رہے تھے اور پیروی کرنے والے وکیلوں پر عدالتی احاطے میں ہی حملے کیے جارہے تھے۔ شاہد اعظمی تو پولیس کے علاوہ خفیہ ایجنسی (آئی بی) کے رول پر سوال اٹھایا کرتا تھا اور دہشت گردانہ حملوں اور بم دھماکوں میں اس کے کردار پرکھلے عام سوالیہ نشان لگارہاتھا۔ انتہائی ذہانت اور چابکدستی سے اپنے مقدمات لڑنے اور اپنے مؤکل کو انصاف دلانے کا جو commitmentتھا اس پہلو سے بھی دونوں کے اندر یکسانیت پائی جاتی تھی۔شاہد اعظمی کی زندگی اور عملی جد وجہد کو راج کمار راؤ نے ’شاہد‘ کے نام سے فلم بناکر سلور اسکرین پربھی پیش کیا ہے۔

پتّے پتّے پہ ہے تحریر فسانہ گُل کا ایک اِک شاخ نے دیکھا ہے زمانہ گُل کا

نوشاد کو پولیس کے ارادوں کا علم تھا!: نوشاد قاسمجی اتوار کو ہفتہ واری چھٹی کے دن بھٹکل آیاکرتا تھا اور اکثر اوقات اپنے گھر کے قریب واقع میرے کلینک میں مجھ سے کچھ دیر کے لئے ملنے آجاتا تھا۔ بھٹکل میں ہوئے جس قتل کے سلسلے میں مجھے شاہد اعظمی سے ملنا پڑا تھا اس میں پہلے نوشاد نے کافی تعاون کیا تھا او ر محض میرے ساتھ قریبی تعلقات کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے سینئر باس پرشوتم پجاری کو ضمانت کے سلسلے میں بھٹکل کی عدالت میں ایک مرتبہ حاضر ہونے پر آمادہ کیاتھا۔ بہرحال وہ معاملہ تو پیچیدہ ہوگیا اور پھر اسے جس انداز سے حل ہونا تھااسی طرح الحمدللہ حل کرلیا گیا۔ لیکن نوشاد اپنے مقدمات اور پولیس کے ساتھ عدالت میں اپنی جھڑپ کے تعلق سے کئی بار مجھ سے تذکرہ کرچکاتھا۔ اور شاید ہلاکت سے ایک یا دو مہینے قبل ایسی ہی ایک ملاقات میں جب ہم بے قصوروں کو دہشت گردی کے الزامات سے بچانے اور عدالتوں سے انصاف دلانے کے ایک لائحۂ عمل کے امکانات پرگفتگو کررہے تھے تو اس نے پوری سنجیدگی سے کہاتھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ پولیس مجھے اینکاونٹر میں مارڈالے گی۔‘ نام انڈر ولڈ کا اور کام......!: نوشاد قاسمجی کے پس منظر میں دیکھیں تواس کے قتل کے وقت صورتحال کچھ ایسی تھی کہ ایک طرف ساحلی علاقے میں مبینہ دہشت گردی اور پولیس کے مظالم کا سلسلہ ابھی یہاں اپنے پاؤں پسارناشروع کیا ہی تھا۔’انڈین مجاہدین ‘نامی مبینہ دہشت گرد تنظیم کوبس ابھی جنم دیاگیا تھااور سازشی تانے بانے اپنا رنگ دکھانے لگے تھے۔ اوردوسری طرف نوشاد قاسمجی جیسا وکیل ایسے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے اور بے جگری سے عدالت میں پولیس کا سامنا کرنے کے لئے ذہنی اورعملی طورپر تیار ہورہاتھا۔اس نے ساحلی کرناٹکا میں مبینہ دہشت گرد تنظیم’ انڈین مجاہدین‘ کا پہلا کیس اپنے ہاتھ میں لیاتھا جس میں منگلورو کے فقیر احمد عرف احمدباوااور سید نوشاد کو کلیدی ملزم بنایا گیا تھا۔ان پر الزام تھاکہ انہوں نے انڈین مجاہدین کے ’سلیپنگ سیل‘کوکرایے پر ٹھکانہ فراہم کیا تھا۔ آئی ایم کے ملزمین میں بھٹکل برادرس(ریاض اور اقبال) ،یاسین بھٹکل ،مولانا شبیر گنگاولی اور دیگر افراد شامل تھے۔ نوشاد احمد باوا اور سید نوشادکا وکیل تھا اور دیگر ملزمین کے لئے کچھ دوسرے وکیلوں نے پیروی کی تھی۔بس اسی موڑ پر پردے کے پیچھے ایسی سازش رچی گئی کہ نوشاد کے پاس موجود انڈر ورلڈ ڈان چھوٹا شکیل کے ساتھی رشید ملباری کے کیس کو بہانہ بناکرمنگلورومیں اسی کے اپارٹمنٹ کے پارکنگ لاٹ میں اسے بھی بھری جوانی میں گولی مارکر ہلاک کردیا گیا ۔اور سمجھ لیاگیا کہ پولیس مظالم کے خلاف اٹھنے والی آوازکو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا گیا ہے۔جو کہ سراسر غلط ثابت ہورہا ہے۔کسی نے سچ ہی کہا ہے: ؂

چٹانوں کی شکست آساں نہیں ہے بالآخر ٹوٹنا شیشے کو ہوگا

ایڈوکیٹ شاہد اور نوشاد دونوں کے قتل میں’بھرت نیپالی ‘اور ’روی پجاری‘جیسے انڈرورلڈ ڈان اور گینگ کا ملوث ہونا محض ایک اتفاق ہونے سے زیادہ کچھ اور زاویوں کا اشاریہ لگتا ہے، جس پر سنسنی اور اسرار کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔اس ڈرامے کے کچھ کردار ایسے ہوسکتے ہیں جن کے چہروں پر نقابیں پڑی ہوں اورہاتھوں پر دستانے چڑھے ہوں۔مگر سچائی یہ بھی ہے کہ شکوک اور اسرار کی اس دبیز چادرکوہٹانے کی کوشش کرنے والے کو دیش کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دئے جانے کا امکان اپنی جگہ موجودہے۔ (عدل و انصاف کی لڑائی کا نیا موڑ....شاہد اور نوشاد کی تحریک کیسے آگے بڑھ رہی ہے......اگلی قسط ملاحظہ کریں)   (نوٹ: اس مضمون میں درج تحریر مضمون نگار کی ذاتی رائے اور خیالات پر مشتمل ہے۔ ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ادارہ)