جنوبی ہند کے سرسید ڈاکٹر عبد الحق کرنولی ؒ کی زندگی کی ایک جھلک(۰۱)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

06:54PM Mon 16 Aug, 2021

تحریر: مولانا سید عبد الوہاب بخاریؒ۔یم اے ، یل ٹی

سابق پرنسپل نیو کالج چنئی، وڈائرکٹر دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد

 

علامہ سید سلیمان ندویؒ ۱۹۲۵ء میں مدراس(چنئی) سیرت النبی ﷺ پر اپنے معرکہ آراء ″خطبات مدراس″ پیش کرنے آئے تو جنوبی ہند کے مسلمانوں کے تعلیمی ودینی حالات پر تبصرہ  کرتے ہوئے معارف کے اگلے شمارے میں  جنوب کے مسلمانوں کی عمومی صورت حال بیان کرتے ہوئے  لکھا  تھا کہ،″ جہاں کام ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے، وہاں روپیہ نہیں، اور جہاں روپیہ ہے وہاں کام نہیں″۔ (معارف اکتوبر ۱۹۲۵ ص ۲۴۶)۔ لیکن زمانے نے دیکھا کہ علامہ کی بتائی ہوئی یہ صورت حال ہمیشہ باقی نہیں رہی، جنوب کے مسلمانوں نے آئندہ دنوں میں تعلیمی میدانوں میں ایک عظیم انقلاب دیکھا، ٹامل ناڈو، آندھرا پردیش، کرناٹک اور ملبار کے حالات میں میں بڑی تبدیلی آئی،  اور آندھرا، ٹامل ناڈو، کرناٹکا اورکیرالا میں مسلمانوں کے ایسے تعلیمی ادارے کھڑے ہوئےجنہوں نے اپنی وسعتوں میں یونیورسٹیوں کی حیثیت  اختیار کی، مسلمانوں میں  تعلیمی بیدار ی پیدا کرنے، اور ان کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لئے جن شخصیات نے کام کیا ، ان میں  مدراس(چنئی ) میں آنے والی تین عظیم شخصیات حاجی جمال محمد( رامناڈ)، ڈاکٹر عبد الحق(کرنول)، اور مولانا سید عبد الوہاب بخاریؒ (حیدرآباد) کا  نام سرفہرست ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے اس ناچیز کو ان عظیم  شخصیات کے حالات زندگی کی تلاش تھی، اتفاق سے ابھی  چند روز قبل ان شخصیات کی زندگیوں پر روشنی ڈالنے والا مواد دستیاب ہوسکا، مناسب معلوم ہوا کہ تاریخ کے غبار میں دبے اس مواد کو دن کی روشنی میں لایا جائے۔ اس سلسلے میں    ڈاکٹر  عبد الحق کرنولیؒ پر آپ کے تیس سال  تک سفر وحضر میں رفیق کار مولانا سید عبدالوہاب بخاری کا نادر مضمون قارئین دعوت کی خدمت میں پیش کیا جارہا  ہے۔مضمون نگار کے تعارف کے لئے  میں مولانا عبد الماجد دریابادی کا ۱۹۵۸ء میں سفرمدراس کے سلسلے میں یہ اقتباس کافی ہے کہ :۔

″دل میں اس کی آرزو کرتا رہا کہ ان(بخاری صاحب)  کی جگہ تو علی گڑھ تھی، اس مرکزی ادارے میں یہ اگر زیادہ عرصہ تک نہیں دو ہی چار برس بہ طور پروائس چانسلر رہ آئیں تو ان شاء اللہ وہاں کی بگڑی ہوئی فضا بن جائے اور علمی دینی و اخلاقی علی گڑھ ہر پہلو سے ایک اصلاحی انقلاب سے روشناس ہوجائے، ڈاکٹر عبد الحق کو لوگ جنوبی ہند کا سرسید کہتے ہیں، لیکن سرسید کا ضمیمہ ایک محسن الملک بھی ہوتے ہیں، سرسید وقت کو یہ محسن الملک عصر خوب ہاتھ آگیا، ایثار ، پختہ ایمانی فہم وفراست سب میں اپنے بلند پایہ رفیق کے قدم بہ قدم″۔طوالت سے بچتے ہوئے  ملاحظہ فرمائیں مولانا سید عبد الوہاب بخاری رحمۃ اللہ کع مضمون ۔بخاری صاحب نے خلاف عادت یہ مضمون ڈاکٹر ہاجرہ بنت عبد الحق مرحوم کی خواہش پر ڈاکٹر ذاکرہ  غوث کے ڈاکٹر عبد الحق کے حالات زندگی پر ترتیب دئے ہوئے مجموعے (  حیات حق ) کے لئے  ۱۹۷۴ میں لکھا تھا۔  اور یہ بخاری صاحب کے دوتین دستیاب مضامین میں سے ایک ہے۔

(عبد المتین منیری۔ بھٹکل)

****************************************************

 

            ڈاکٹر خان بہادر افضل العلماء مولانا عبدلحق مرحوم کی عملی زندگی میں ،میں کچھ اس طرح وبستہ ہوں کہ گویا ہم جزولاینفک تھے   ،بہت سے لوگ ہم دونوں کوبھائی سمجھتے تھے حالانکہ ہم دونوں میں کوئی خاندانی ربط نہ تھا،لیکن علیٰ ارواح جنود مجندہ کے مصداق ہم دونوں میں ایک روحانی ایتلاف ارتباط قائم تھاجس کی وجہ سے ہم دونوں میں بھائی سے بڑھ کر محبت اور اتحادعمل رہا،عام طورسے یہ دیکھا جاتاہے کہ ہم پیشہ لوگوں میں آپس میں اختلاف ہواکرتا ہے لیکن ہم دونوں کی زندگی اس سے بری تھی اورتقریباًپچاس سال میں کوئی واقعہ یا موقعہ ایسانہ آیا جس میں ہم دونوں میں کسی قسم کی رنجش یااختلاف پیداہوتا۔

            مجھے یادپڑتا ہے کہ ان سے میری پہلی ملاقات خان بہادر عبدلعزیز بادشاہ صاحب جو بحیثیت سفیر ترکی مدراس میں مقیم تھے اورایک بڑے پایہ کے تاجر اورعلم دوست انسان تھے،ان کے دولت خانے پر ہوئی تھی ،صاحب معزز کے دامادمولانا عبدالسّبحان صاحب کو ڈاکٹر عبدالحق صاحب کی سرپرتی کا امتیاز حاصل تھا ،انھیں کی صاحبزادی کی شادی میمنت آبادی میں ہم دونوں کی ملاقات ہوئی تھی،مولانا عبدالسّبحان صاحب کے صاحبزادے مولانا عبدالجبّاراُس زمانے میں سابق محمڈن کالج  میں زیرتعلیم تھے اور ڈاکٹر عبدالحق صاحب کے بہت چہیتے طالب العلم اور ان کے ارشدتلامذہ میں شمارکئے جاتے تھے۔

            ڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم کی یہ جستجو تھی کہ محمڈن کالج میں اپنے ہم خیال علماء کو جمع کریں چنانچہ جب اس کالج کی ایک جائداد عربی فارسی اور اردو کی اسسٹنٹ پروفیسر کی خالی ہوئی توانھوں نے مجھے وہاں پربلوایامیرے لئے حیدرآباد چھوڑنا آسان نہ تھا ،لوگ دوردورسے خود حیدرآبادمیں تلاش ملازمت کے لئے آیا کرتے تھے ایسے وقت میں میرےلئے حیدرآباد کوترک کرکے  مدراس جاناسہل کام نہ تھا ،لیکن ڈاکٹر عبدالحق صاحب کی محبت اورجاذبیت نے میرے میں قلب پربڑااثر کیااور میں نے چندے تامل کے بعد مدراس جانے کا تہیہ کرلیا،یہی ہمہ شکل ازبرائے عقل کا مصداق تھا ،ڈاکٹر صاحب نے میرے لئے جائداد اپنے دوست مسٹر کیانڈت سے جو اس زمانے میں نائب ناظم تعلیمات مدراس تھے خالی رکھوائی تھی ،چنانچہ  ۱۹۲۷ء  کے اواخر میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر عربی فارسی اردو گورنمنٹ محمڈن کالج میں داخل ہوگیا، پہلے پہل میراقیام خودڈاکٹر صاحب مرحوم کے مکان واقع  نلنامدلی اسٹریٹ رائی پیٹ میں رہا، میرے ساتھ ان کے ایک عزیز مولوی عبدالکریم بھی رہا کرتے تھے ،کچھ دنوں بعدمیں عمدہ باغ ہاسٹل میں منتقل ہوگیااور کچھ د نوںاس ہاسٹل کانائب وارڈن بھی تقررہوا،لیکن اس کے باوجو دڈاکٹر صاحب کے ساتھ کالج میں اور ان کے مکان پر یکجائی مجھے حاصل رہی،ہمارے ان دنوں کے ساتھیوں میں پروفیسر محمد قطب ا لدین صاحب جوتاریخ اورمعاشیات کے استاد تھے وہ خاص طوپر قابلِ ذکرہیں ،ویسے کالج میں ڈاکٹر ڈی ۔یس۔ریڈی جو بعدمیں عثمانیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوئے اس کالج میں پروفیسر تھے،اور ہم چاروں میں ایک خاص قسم کا ربط اور مودت قائم ہوگئی تھی،جوساری عمر باقی رہی،۱۹۳۱؁ء میں مجھے ترک ملازمت کا خیال پیداہوا چنانچہ میں نے باوجودڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم کی مخالفت کے اپنا استعفاء پیش کردیا اور مدرسۂ جمالیہ میں بحیثیت پرنسپال منتقل ہوگیا، جس شئے نے مجھے مدرسۂ جمالیہ کی طرف راغب کیا وہ یہ تھی کہ حاجی جمال محمدصاحب نے جواس زمانہ میں مدرسۂ جمالیہ کے متولی تھے اپنے مدرسہ میں نصاب کی ترمیم کی تھی،اورعربی علوم کے ساتھ قدرے انگریزی ،تاریخ، جغرافیہ، سائنس کوداخل کیا تھا۔

            ڈاکٹرعبدالحق صاحب مرحوم اوران کے والدِ بزرگوارشمس العلماء مولانامحمد عمرصاحب مرحوم بھی اس ترمیم نصاب کی اہم نشستوں میںشرکت فرمایاکرتے تھے اور مدرسۂ جمالیہ کوان کاعلمی تعاون حاصل تھا،ڈاکٹر محمد مارماڈیوک پکتھال مترجم  قرآن نے جوحاجی جمال محمد صاحب کے بڑے دوست تھے میرانام مدرسہ کی پرنسپلی کے لئے پیش کیا تھا، میں بھی اس بات کو خوب سمجھتاتھا کہ یہ نصاب قوم کے لئے مفید ثاببت ہوگااورہمارے عربی مدارس میں پڑھنے والے اس طرح دین اوردنیادونوں سے باخبر رہیں گے،یہی چیز تھی جس نے مجھے مدرسۂ جمالیہ کی طرف راغب کیا تھا اورمیںنے ایک مستقل سرکاری ملازمت پر ا س خانگی مدرسہ کی ملازمت کو ترجیح دی تھی ،حاجی جمال محمد صاحب ایک اور نہایت مفیداسکیم اپنے ذاتی خرچ سے چلا رہے تھے اوروہ یہ تھی کہ انگریزی کالجوں میں پڑھنے والے انٹرمیڈیٹ ‘بی اے‘اورایم۔اے کے طالب العلموں کے لئے ایک ہاسٹل قائم کیا تھا جہاں ان کی رہائش اور طعام کا مفت انتظام تھا ،ان طلباء سے صرف یہ توقع کی جاتی کہ اپنے کالجوں میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ صرف ایک گھنٹہ وہ اس ہاسٹل میں عربی اور قرآن مجید کی تعلیم کے لئے دیاکریں،اس پر حاجی جمال محمد صاحب نے ایک مدت تک بیش قراررقم صرف فرمائی تھی، ان طلباء کے قیام کے لئے حاجی جمال محمد صاحب نے ایک پرفضا مکان جس کانام دلفروزباغ تھا بڑے کرایہ پر لے رکھا تھا اور طلباء کے خوردونوش وقیام کے مفت انتظام کے علاوہ،وہ ان کی دوسری ضروریات کے لئے بھی روپیہ دیا کرتے تھے،حاجی جمال محمد صاحب کی ان مساعی نے میرادل موہ لیا تھااور میں چاہتاتھا کہ ان کے اس مدرسہ کے ساتھ تعاون ِعمل کروں اور ان کے ساتھ ہورہوں ،لیکن چونکہ حاجی جمال محمد صا حب اور ان کی ان نیک مساعی میں ڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم بھی عملی طورپر شریک تھے ،میرے مدرسہ ٔ جمالیہ میں بحیثیت پرنسپل شریک ہونے سے میرے اورڈاکٹر صاحب مرحوم کے تعلقات پر کوئی برااثر نہ پڑا بلکہ وہ بھی مدرسہ ٔ جمالیہ وقتاًٖفوقتاًتوسیعی لکچرکے لئے بلائے جاتے تھے ،اور اس طرح ہماری دوستی اور مودت جیسے پہلے تھی ویسے ہی قائم رہی ،جب ڈاکٹر صاحب۱۹۳۵ء میں بغرض حصولِ ڈاکٹریٹ یوروپ آکسفورڈ تشریف لے گئے توحاجی جمال محمد صاحب نے ایک معتدبہ رقم ن کی خدمت میں پیش کی تاکہ وہ مصر ہوتے ہوئے عربی کتابیں ان کیلئے خرید کر لائیں۔ اور مجھے یاد ہے جب تک مولانا مرحوم یوروپ میں رہے حاجی جمال محمد صاحب مرحوم ان کے بچوں کو دیکھنے اور ان کی خبرگیری کرنے کے لئے بلاناغہ ہرہفتہ پلاورم تشریف لایا کرتے تھے ،ا س طرح ہم میں محبت بڑھتی ہی گئی اور میرے مدرسۂ جمالیہ چلے جانے کی وجہ سے ہمارے تعلقات میں کوئی برا اثر نہ ہوا

 

 

تحریر: مولانا سید عبد الوہاب بخاریؒ۔یم اے ، یل ٹی

سابق پرنسپل نیو کالج چنئی، وڈائرکٹر دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد

 

علامہ سید سلیمان ندویؒ ۱۹۲۵ء میں مدراس(چنئی) سیرت النبی ﷺ پر اپنے معرکہ آراء ″خطبات مدراس″ پیش کرنے آئے تو جنوبی ہند کے مسلمانوں کے تعلیمی ودینی حالات پر تبصرہ  کرتے ہوئے معارف کے اگلے شمارے میں  جنوب کے مسلمانوں کی عمومی صورت حال بیان کرتے ہوئے  لکھا  تھا کہ،″ جہاں کام ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے، وہاں روپیہ نہیں، اور جہاں روپیہ ہے وہاں کام نہیں″۔ (معارف اکتوبر ۱۹۲۵ ص ۲۴۶)۔ لیکن زمانے نے دیکھا کہ علامہ کی بتائی ہوئی یہ صورت حال ہمیشہ باقی نہیں رہی، جنوب کے مسلمانوں نے آئندہ دنوں میں تعلیمی میدانوں میں ایک عظیم انقلاب دیکھا، ٹامل ناڈو، آندھرا پردیش، کرناٹک اور ملبار کے حالات میں میں بڑی تبدیلی آئی،  اور آندھرا، ٹامل ناڈو، کرناٹکا اورکیرالا میں مسلمانوں کے ایسے تعلیمی ادارے کھڑے ہوئےجنہوں نے اپنی وسعتوں میں یونیورسٹیوں کی حیثیت  اختیار کی، مسلمانوں میں  تعلیمی بیدار ی پیدا کرنے، اور ان کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لئے جن شخصیات نے کام کیا ، ان میں  مدراس(چنئی ) میں آنے والی تین عظیم شخصیات حاجی جمال محمد( رامناڈ)، ڈاکٹر عبد الحق(کرنول)، اور مولانا سید عبد الوہاب بخاریؒ (حیدرآباد) کا  نام سرفہرست ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے اس ناچیز کو ان عظیم  شخصیات کے حالات زندگی کی تلاش تھی، اتفاق سے ابھی  چند روز قبل ان شخصیات کی زندگیوں پر روشنی ڈالنے والا مواد دستیاب ہوسکا، مناسب معلوم ہوا کہ تاریخ کے غبار میں دبے اس مواد کو دن کی روشنی میں لایا جائے۔ اس سلسلے میں    ڈاکٹر  عبد الحق کرنولیؒ پر آپ کے تیس سال  تک سفر وحضر میں رفیق کار مولانا سید عبدالوہاب بخاری کا نادر مضمون قارئین دعوت کی خدمت میں پیش کیا جارہا  ہے۔مضمون نگار کے تعارف کے لئے  میں مولانا عبد الماجد دریابادی کا ۱۹۵۸ء میں سفرمدراس کے سلسلے میں یہ اقتباس کافی ہے کہ :۔

″دل میں اس کی آرزو کرتا رہا کہ ان(بخاری صاحب)  کی جگہ تو علی گڑھ تھی، اس مرکزی ادارے میں یہ اگر زیادہ عرصہ تک نہیں دو ہی چار برس بہ طور پروائس چانسلر رہ آئیں تو ان شاء اللہ وہاں کی بگڑی ہوئی فضا بن جائے اور علمی دینی و اخلاقی علی گڑھ ہر پہلو سے ایک اصلاحی انقلاب سے روشناس ہوجائے، ڈاکٹر عبد الحق کو لوگ جنوبی ہند کا سرسید کہتے ہیں، لیکن سرسید کا ضمیمہ ایک محسن الملک بھی ہوتے ہیں، سرسید وقت کو یہ محسن الملک عصر خوب ہاتھ آگیا، ایثار ، پختہ ایمانی فہم وفراست سب میں اپنے بلند پایہ رفیق کے قدم بہ قدم″۔طوالت سے بچتے ہوئے  ملاحظہ فرمائیں مولانا سید عبد الوہاب بخاری رحمۃ اللہ کع مضمون ۔بخاری صاحب نے خلاف عادت یہ مضمون ڈاکٹر ہاجرہ بنت عبد الحق مرحوم کی خواہش پر ڈاکٹر ذاکرہ  غوث کے ڈاکٹر عبد الحق کے حالات زندگی پر ترتیب دئے ہوئے مجموعے (  حیات حق ) کے لئے  ۱۹۷۴ میں لکھا تھا۔  اور یہ بخاری صاحب کے دوتین دستیاب مضامین میں سے ایک ہے۔

(عبد المتین منیری۔ بھٹکل)

****************************************************

 

            ڈاکٹر خان بہادر افضل العلماء مولانا عبدلحق مرحوم کی عملی زندگی میں ،میں کچھ اس طرح وبستہ ہوں کہ گویا ہم جزولاینفک تھے   ،بہت سے لوگ ہم دونوں کوبھائی سمجھتے تھے حالانکہ ہم دونوں میں کوئی خاندانی ربط نہ تھا،لیکن علیٰ ارواح جنود مجندہ کے مصداق ہم دونوں میں ایک روحانی ایتلاف ارتباط قائم تھاجس کی وجہ سے ہم دونوں میں بھائی سے بڑھ کر محبت اور اتحادعمل رہا،عام طورسے یہ دیکھا جاتاہے کہ ہم پیشہ لوگوں میں آپس میں اختلاف ہواکرتا ہے لیکن ہم دونوں کی زندگی اس سے بری تھی اورتقریباًپچاس سال میں کوئی واقعہ یا موقعہ ایسانہ آیا جس میں ہم دونوں میں کسی قسم کی رنجش یااختلاف پیداہوتا۔

            مجھے یادپڑتا ہے کہ ان سے میری پہلی ملاقات خان بہادر عبدلعزیز بادشاہ صاحب جو بحیثیت سفیر ترکی مدراس میں مقیم تھے اورایک بڑے پایہ کے تاجر اورعلم دوست انسان تھے،ان کے دولت خانے پر ہوئی تھی ،صاحب معزز کے دامادمولانا عبدالسّبحان صاحب کو ڈاکٹر عبدالحق صاحب کی سرپرتی کا امتیاز حاصل تھا ،انھیں کی صاحبزادی کی شادی میمنت آبادی میں ہم دونوں کی ملاقات ہوئی تھی،مولانا عبدالسّبحان صاحب کے صاحبزادے مولانا عبدالجبّاراُس زمانے میں سابق محمڈن کالج  میں زیرتعلیم تھے اور ڈاکٹر عبدالحق صاحب کے بہت چہیتے طالب العلم اور ان کے ارشدتلامذہ میں شمارکئے جاتے تھے۔

            ڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم کی یہ جستجو تھی کہ محمڈن کالج میں اپنے ہم خیال علماء کو جمع کریں چنانچہ جب اس کالج کی ایک جائداد عربی فارسی اور اردو کی اسسٹنٹ پروفیسر کی خالی ہوئی توانھوں نے مجھے وہاں پربلوایامیرے لئے حیدرآباد چھوڑنا آسان نہ تھا ،لوگ دوردورسے خود حیدرآبادمیں تلاش ملازمت کے لئے آیا کرتے تھے ایسے وقت میں میرےلئے حیدرآباد کوترک کرکے  مدراس جاناسہل کام نہ تھا ،لیکن ڈاکٹر عبدالحق صاحب کی محبت اورجاذبیت نے میرے میں قلب پربڑااثر کیااور میں نے چندے تامل کے بعد مدراس جانے کا تہیہ کرلیا،یہی ہمہ شکل ازبرائے عقل کا مصداق تھا ،ڈاکٹر صاحب نے میرے لئے جائداد اپنے دوست مسٹر کیانڈت سے جو اس زمانے میں نائب ناظم تعلیمات مدراس تھے خالی رکھوائی تھی ،چنانچہ  ۱۹۲۷ء  کے اواخر میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر عربی فارسی اردو گورنمنٹ محمڈن کالج میں داخل ہوگیا، پہلے پہل میراقیام خودڈاکٹر صاحب مرحوم کے مکان واقع  نلنامدلی اسٹریٹ رائی پیٹ میں رہا، میرے ساتھ ان کے ایک عزیز مولوی عبدالکریم بھی رہا کرتے تھے ،کچھ دنوں بعدمیں عمدہ باغ ہاسٹل میں منتقل ہوگیااور کچھ د نوںاس ہاسٹل کانائب وارڈن بھی تقررہوا،لیکن اس کے باوجو دڈاکٹر صاحب کے ساتھ کالج میں اور ان کے مکان پر یکجائی مجھے حاصل رہی،ہمارے ان دنوں کے ساتھیوں میں پروفیسر محمد قطب ا لدین صاحب جوتاریخ اورمعاشیات کے استاد تھے وہ خاص طوپر قابلِ ذکرہیں ،ویسے کالج میں ڈاکٹر ڈی ۔یس۔ریڈی جو بعدمیں عثمانیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوئے اس کالج میں پروفیسر تھے،اور ہم چاروں میں ایک خاص قسم کا ربط اور مودت قائم ہوگئی تھی،جوساری عمر باقی رہی،۱۹۳۱؁ء میں مجھے ترک ملازمت کا خیال پیداہوا چنانچہ میں نے باوجودڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم کی مخالفت کے اپنا استعفاء پیش کردیا اور مدرسۂ جمالیہ میں بحیثیت پرنسپال منتقل ہوگیا، جس شئے نے مجھے مدرسۂ جمالیہ کی طرف راغب کیا وہ یہ تھی کہ حاجی جمال محمدصاحب نے جواس زمانہ میں مدرسۂ جمالیہ کے متولی تھے اپنے مدرسہ میں نصاب کی ترمیم کی تھی،اورعربی علوم کے ساتھ قدرے انگریزی ،تاریخ، جغرافیہ، سائنس کوداخل کیا تھا۔

            ڈاکٹرعبدالحق صاحب مرحوم اوران کے والدِ بزرگوارشمس العلماء مولانامحمد عمرصاحب مرحوم بھی اس ترمیم نصاب کی اہم نشستوں میںشرکت فرمایاکرتے تھے اور مدرسۂ جمالیہ کوان کاعلمی تعاون حاصل تھا،ڈاکٹر محمد مارماڈیوک پکتھال مترجم  قرآن نے جوحاجی جمال محمد صاحب کے بڑے دوست تھے میرانام مدرسہ کی پرنسپلی کے لئے پیش کیا تھا، میں بھی اس بات کو خوب سمجھتاتھا کہ یہ نصاب قوم کے لئے مفید ثاببت ہوگااورہمارے عربی مدارس میں پڑھنے والے اس طرح دین اوردنیادونوں سے باخبر رہیں گے،یہی چیز تھی جس نے مجھے مدرسۂ جمالیہ کی طرف راغب کیا تھا اورمیںنے ایک مستقل سرکاری ملازمت پر ا س خانگی مدرسہ کی ملازمت کو ترجیح دی تھی ،حاجی جمال محمد صاحب ایک اور نہایت مفیداسکیم اپنے ذاتی خرچ سے چلا رہے تھے اوروہ یہ تھی کہ انگریزی کالجوں میں پڑھنے والے انٹرمیڈیٹ ‘بی اے‘اورایم۔اے کے طالب العلموں کے لئے ایک ہاسٹل قائم کیا تھا جہاں ان کی رہائش اور طعام کا مفت انتظام تھا ،ان طلباء سے صرف یہ توقع کی جاتی کہ اپنے کالجوں میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ صرف ایک گھنٹہ وہ اس ہاسٹل میں عربی اور قرآن مجید کی تعلیم کے لئے دیاکریں،اس پر حاجی جمال محمد صاحب نے ایک مدت تک بیش قراررقم صرف فرمائی تھی، ان طلباء کے قیام کے لئے حاجی جمال محمد صاحب نے ایک پرفضا مکان جس کانام دلفروزباغ تھا بڑے کرایہ پر لے رکھا تھا اور طلباء کے خوردونوش وقیام کے مفت انتظام کے علاوہ،وہ ان کی دوسری ضروریات کے لئے بھی روپیہ دیا کرتے تھے،حاجی جمال محمد صاحب کی ان مساعی نے میرادل موہ لیا تھااور میں چاہتاتھا کہ ان کے اس مدرسہ کے ساتھ تعاون ِعمل کروں اور ان کے ساتھ ہورہوں ،لیکن چونکہ حاجی جمال محمد صا حب اور ان کی ان نیک مساعی میں ڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم بھی عملی طورپر شریک تھے ،میرے مدرسہ ٔ جمالیہ میں بحیثیت پرنسپل شریک ہونے سے میرے اورڈاکٹر صاحب مرحوم کے تعلقات پر کوئی برااثر نہ پڑا بلکہ وہ بھی مدرسہ ٔ جمالیہ وقتاًٖفوقتاًتوسیعی لکچرکے لئے بلائے جاتے تھے ،اور اس طرح ہماری دوستی اور مودت جیسے پہلے تھی ویسے ہی قائم رہی ،جب ڈاکٹر صاحب۱۹۳۵ء میں بغرض حصولِ ڈاکٹریٹ یوروپ آکسفورڈ تشریف لے گئے توحاجی جمال محمد صاحب نے ایک معتدبہ رقم ن کی خدمت میں پیش کی تاکہ وہ مصر ہوتے ہوئے عربی کتابیں ان کیلئے خرید کر لائیں اور مجھے یاد ہے جب تک مولانا مرحوم یوروپ میں رہے حاجی جمال محمد صاحب مرحوم ان کے بچوں کو دیکھنے اور ان کی خبرگیری کرنے کے لئے بلاناغہ ہرہفتہ پلاورم تشریف لایا کرتے تھے ،ا س طرح ہم میں محبت بڑھتی ہی گئی اور میرے مدرسۂ جمالیہ چلے جانے کی وجہ سے ہمارے تعلقات میں کوئی برا اثر نہ ہوا