جنوبی ہند کے سرسید ڈاکٹر عبد الحق کرنولیؒ کی زندگی کی ایک جھلک(۰۴)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

07:14PM Wed 25 Aug, 2021

             کچھ نہ پوچھئے اس سانحۂ عظیم کا اثر ،ان کی اہلیہ اور ان کے بچوں اور مجھ پرکیا ہواہوگا،لوگ کہتے ہیں تھے کہ بخاری اب اکیلا ہوگیا، ۴۵سال کی رفاقت اور مثالی مودت اور دوستی جس میں کبھی رنجش و ملال نہ گزراہو ،ایسے دست کا گزر جانا خود اپنی موت کے برابر تھا،مگر کوئی شخص اپنے وقت سے پہلے گزرنہیں سکتا  ع

                                                شادباید زیستن ناشادبایدزیستن

کا ہمارے ان کے عزیز اورمیں اس کے مصداق تھے، ان کی جدائی کادکھ اورغم ہم اپنی زندگی بھرلیتے پھرینگے اور خدائے رب العزت سے اپنے لئے صبر ورضا وتسلیم کی دعاکرتے رہیں گے۔

            مولانا عبدالحق صاحب مرحوم کاارادہ حکومت کے کاموں سے مستعفی ہونے کے بعداپنے والد بزرگوار شمس العلماء الحاج محمد عمرصاحبؒ کے قائم کردہ اسلامیہ عربی کالج کرنول میں بیٹھ کردرس حدیث دینے کاتھا ،ان کی بڑی خواہش تھی بلکہ دلی تمناتھی جو وہ قدیم طرزپرحدیث نبوی علیہ الصلوۃ والسلام پڑھایاکریں ،لیکن بمصداق ع

                                                                        اے بسا آرزوکہ خاک شدہ

اسی تمنا میں انھوں نے حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی کودرس دینے کے لئے تین روزہ اجلاس مقررکئے تھے، مولانا حسین احمدمدنی جو شیخ الحدیث مدرسۂ دیوبند تھے ،ان کی دعوت پرکرنول تشریف لائے اورتین د ن مدرسۂ اسلامیہ کرنول میں بیٹھ کردرس حدیث دیا، وہ پُرانوار ساعتیں مرتے دم تک یادرہیں گی،مولانا عبدالحق مرحوم بھی یہی چاہتے تھے کہ اس مدرسہ کوحدیث کا مرکز بنائیں اوراس میں اس مبارک علم کے استاد بنیں ،مگر مرضیٔ مولیٰ برہمہ اولیٰ اپنے قیام شہرمدراس میں وقتاًفوقتاًوہ مسجد فضیلت النساء میں حدیث کادرس دیاکرتے تھے ، اور اس چیز کو اپنے مدرسۂ کرنول میں مستقلاًجاری کرنا چاہتے تھے ۔ہوگیا۔الاعمال بالنیات کے مصداق ن کا خاتمہ بالخیر اسی تمنا پرہو ا،اور یقیناًوہ اللہ اوررسولؐکے پاس اس نیک ارادہ کی جزا  پائیں گے، مدرسۂ اسلامیہ کرنول کی ایک اراضی ہندوی ندی کے دوسرے کنارے پرتھی،ڈاکٹر صاحب مرحوم کاارادہ تھاکہ اس ندی پرآمدورفت کے لئے ایک پُل باندھیں اوردوسری جانب بھی مدرسہ کا دوسراحصہ تعمیر کریں ، ان کی ساری زندگی اسی دھن میں بسرہوئی کہ اس مدرسہ کو جنوبی ہند کادیوبند بنائیں اور اس کے ذریعہ اعلاء کلمۃ الحق آج بھی ان کی دعاؤں کی برکت سے مدرسۂ اسلامیہ کرنول علوم کا ایک مینار ہے،جہاں نہ صرف حدیث وتفسیر کی چوٹی کی کتابوں کا درس دیاجاتاہے بلکہ سرکاری امتحانات مثلاًافضل العلماء ادیب فاصل اور طبیب کامل وغیر ہ کے لئے  طلباء تیارکئے جاتے ہیں ،یہ سب کچھ ڈاکٹر صاحب مرحوم کی نیک تمناؤں اور ان کے والدبزرگوار شمس العلماء مولانا محمد عمر صاحب کی مساعی کا نتیجہ ہے ،بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ عربی کالج کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب مرحوم کی مساعی سے عثمانیہ کالج کرنول بھی قائم  ہو چکا ہے ،جس کاذکر پہلے آچکا ۔

            ڈاکٹرعبدالحق صاحب مرحوم کے اورمیرے درمیان جو بے مثال مودت اومحبت قائم رہی اس کو میرادل ہی جانتا ہے ،انھیں یادوں پرمیری زندگی کے باقی ایام گزررہے ہیں۔          ؎

                                                             آں تمنا کہ بدیدار تو دارددلِ من

                                                            دل من داندومن دانم ودانددل من

            ڈاکٹرعبدالحق صاحب مرحو م اخلا ص اورمحبت کا ایک بے نظیرنمونہ تھے ،جس کسی سے ایک وقت ملاقات ہوجاتی اس ملاقات ودوستی کو وہ ساری عمر نباہتے ،ان کے عزیز شاگرد وں میں مولانا عبدالجبار بادشاہ ایم۔ایے مرحوم ایک خاص خصوصیت کے حامل تھے،ڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم کو ان کے ساتھ بڑی گہری محبت اوردوستی تھی،جب وہ اپنی جوان عمری میں اللہ کو پیارے ہوئے ،مولانامرحوم سدھ بُدھ سب کھو چکے تھے ،ایک عرصہ درازتک روزانہ ان کا عمل درآمدیہ تھا کہ وہ مولانا عبدالجبار مرحوم کی قبرپر تشریف لیجاتے اور میں نے انھیں مدتوں سے ہنستے نہیں دیکھا ،ا ن کو  پان کھانے کی عادت تھی ،یہ بھی چھوٹ گئی اور ہم کو ڈر ہونے لگا تھا کہ کہیں اپنے عزیز دوست کی جدائی میں خداپنے آپ کوہلاکت میں نہ ڈال لیں ،ایک عرصہ ٔ کے بعد اس غم سے ان کو ایک گونہ صبرملا اور بفحوائے  آیۃ مبارکہ وماصبرک اللہ باللہ فاصبر   ان کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے صبرعطاہو ا۔

            مولانا عبدالحق صاحب مرحوم بہت رکھ رکھاؤ کے آدمی تھے ،وہ ملتے سب سے تھے مگراپنی ملاقات اوردوستی وہ  چند احباب تک مختص کررکھاتھا ،یہی وجہ تھی کہ ان کی دوستی اور محبّت کا جذبہ جس کو رب العزت نے انھیں ودیعت کیا تھا وہ بہت زیادہ پھیل نہیں گیاتھا۔وہ چند احباب کو چاہتے تھے اوراس دائرہ کو وسیع کرنا انھیں پسند نہ تھا ،ان خاص دوستوں میں رئیس اعظم بنگلور  مودی عبدالغفورصاحب بھی قابلِ ذکرہیں ،جن کے علاوہ پروفیسر محمد قطب الدین صاحب ۔ڈی ۔یس ۔ریڈی صاحب سابق وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی،جناب باجی صاحب اورحیدرآبادمیںپروفیسر علاء الدین صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں، پروفیسرخلیقِ احمدنظامی پرووائس چانسلرمسلم یونیورسٹی علی گڑھ ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کے زمرہ احباب میں شامل تھے۔ ،ان کا بیان ہے کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم اگرتھوڑے وقفۂ کے لئے بھی علی گڑھ تشریف لے جاتے توان سے بغیر ملاقات کئے نہ آتے ،یہ وضعداری ڈاکٹر صاحب کے کردار کی ایک خاص شان تھی جو عام طورپر نہیں پائی جاتی ،اوران کا یہی طریقہ عمربھررہا ،ڈاکٹر صاحب کو میری بیوی کی اصابت رائے پربڑااعتماد تھا، خاندان کی چھوٹی بڑی چیز ایسی نہ تھی جس میں انھوں نے میری بیوی سے خاص طور سے رائے نہ لی ہو ،یہ ہمارے لئے بھی بڑے فخر کی بات تھی کہ باوجود خودکے اپنی دنیوی مراتب کی بلندی کے انھوں نے خاص طور سے میری بیوی کو اپنی زندگی میں یہ مقام دے رکھاتھا یہی رویہ ا ن کا عمربھرباقی رہا، چنانچہ اپنی رحلت سے چند گھنٹے قبل انھوںنے اپنے بچوں سے دریافت فرمایاکہ بخاری صاحب کی بیوی یہاں آگئی ہیں یا نہیں ،میری ا ہلیہ خودصبح سے وہاں موجودتھیں ،اس سے ان کو بڑااطمینان ہوا، رحلت سے دوتین روزقبل انھوں نے اپنی بیوی بچوں کوجمع کیا،راقم الحروف بھی اس مجلس میں شریک تھا،انھوں نے دوران گفتگو میں اپنے بچوں سے ان کی والدہ ٔ محترمہ خوداپنی رفیقۂ حیات کے متعلق بہت کچھ تعریفی ا لفاظ کہے اورفرمایا کہ میں نے تمھاری ماں جیسی نیک نفیس عورت نہیںدیکھی ،مجھے کیا معلوم تھا کہ ن کے ا لفاظ ان کی وصیت تھے جو اپنے بچوں کو ان کی والدہ کے متعلق فرمارہے تھے ،رحلت سے کچھ دودن قبل انھوں نے اپنے فرزنددلبند جواب ڈاکٹرانوارالحق ہیں، ان کی مدراس یونیورسٹی سے یم لٹ کی کامیابی پرایک عشائیہ ترتیب دیاتھا جس میں عثمانیہ یونیورسٹی کے ڈاکٹر سعید خان صاحب مہمانِ خصوصی تھے، میں نے ڈاکٹر سعید خان صاحب سے میرے غریب خانہ پر ان کو تکلیف کرنے کی درخواست کی،سعید خان صاحب نے فرمایاکہ آپ عثمانیہ یونیورسٹی آتے ہیں،میرے گھرپرسے گزرتے ہیں ، میرے ہاں تشریف نہیں لاتے ،میں آپ کے پاس کیسے حاضر ہوسکتا ہوں، ڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم نے سعید خان صاحب سے فرمایاکہ بھائی ہم لوگ بخاری صاحب کے پاس نوافل کا درجہ رکھتے ہیں ،ان کے فرائض اور سنت مختلف ہیں،ان کو ان کے مکان پر یاغریب طالب العلموں اوردیگر محتاجوں کا جہاں ہجوم رہتاہے ،تلاش کرنا چاہیئے ،ہم لوگ توبخاری صاحب کے پاس نوافل کا درجہ میں ہیں،یہ ڈاکٹر صاحب کی فراخ دلی اورنیک نفسی تھی جوان ارشادات کو فرمایا اس سے ڈاکٹر سعید خان صاحب بہت مطمئن ہوگئے،ڈاکٹر صاحب کا یہ کرم ہمیشہ میرے ساتھ رہا، ان کے جیسادلنوازاوروسیع القلب دوست اب کہاں مل سکتا ہے۔

            میں نے اپنے سارے کاغذات انشورنس پالیسی وغیرہ ڈاکٹر صاحب کے پاس رکھ چھوڑے تھے ،میرے ایک چھوٹے بھائی میرے سامنے گزرچکے تھے،اس لئے میں نے اپنے معاملات ڈاکٹر صاحب پر چھوڑ رکھے تھے،یہ مجھ سے بھائی سے زیادہ محبت کرتے تھے اورمیں اس خیال میں تھاکہ میرے بعد میرے لئے ہرطرح کام آئیں گے مگرقدرت کو کچھ اورہی منظورتھا،انتقال سے دو دن پہلے ڈاکٹرصاحب مرحو م نے اپنے حساب کتاب میرے سامنے رکھ دئے ،میں حیران تھا کہ ان کے اس عمل کے کیا معنی ہیں انھوں نے اپنے اہل خاندان کو جمع کرلیاتھا جس میں میں بھی شریک تھا، گویاوہ ہم کو اپنے بارے میں وصیت فرماسکیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھیں آنے والے وقت کی ،جوسب پر آنیوالاہے ،کچھ پہلے ہی سے خبرلگ گئی تھی اور وہ ایک مردمومن کی طرح اس و قت کی تیاری کررہے تھے ہم کو کچھ معلوم نہ تھاکہ دو دن کے بعدوہ گزرنیوالے ہیں، انتقال سے ایک دن پہلے مولاناحافظ قاری عبدالباری خطیب جامع مسجد ِسکندرآباد اوران کے ایک طالب العلم قاری محمد غوث میرے ساتھ ان کی خدمت میں تشریف لائے اور دوکاپیاں قرآن مجید کے اردوترجمہ کی جوقاری صاحب نے لکھاتھااور طبع فرمایاتھا ،ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیش کیا ،اس موقع پر مولانامرحوم نے قاری محمد غوث سے تلاوت قرآن کی خواہش ظاہرفرمائی، عجیب بات ہے اور قرآن کا اعجاز ہے کہ جو آیتیں قاری صاحب نے پڑھیں وہ آزمائش ِجان ومال سے متعلق تھیں اور آیت قالوااناللہ واناالیہ راجعون  پرپہنچی تھی گویا قاری صاحب نے آنے والے وقت کی قرآنی الفاظ میں پیشگوئی فرمائی اور یہ خوش خبری دی کہ آزمائش پر پرے اترنے والوں پر ا ولٰئک علیھم صلوات ٌ من ربھم ورحمۃ واولٰئک ھم المھتدون سنادی،ڈاکٹرصاحب مرحوم قلب کے عارضہ سے بیماربھی تھے، ہم سب پران آیتون کا بہت اثرپڑا،دوسرے دن جو وقت آنے والا تھا وہ آہی گیا۔اناللہ واناالیہ راجعون۔

            ڈاکٹر صاحب کے کوئی بھائی نہ تھے، صر ف دوبہنیں تھیں،چارصاحبزادے اورایک صاحبزادی ،ان کی دوربیں آنکھوں نے مجھے حیدرآباد سے مدتوں پہلے بلالیاتھا ،میرے آنے پر اصرار فرمایاتھا ،انھوں نے مجھے بھائی سے زیاد ہ چاہا تھا، میں بھی ان کے خاندان کیساتھ بھائی بن کررہوںگا،آپ کے والد مرحوم شمس العلماء مولانا محمدعمر صاحب مجھ پر بہت شفقت رکھتے تھے ،انھوں نے مجھے کبھی نام سے نہیں پکارا بلکہ سیادت کے تعلق سے مجھے ہر وقت صاحب ہی فرماتے تھے ،ان کے پاس میں نے کچھ حدیثیں بھی پڑھی تھیں ،مجھے ان سے شرفِ تلمذ بھی رہا اورڈاکٹر صاحب مرحوم ان کے ارشدتلامذہ میں سے تھے ،اس طرح شاگرد ی میں ہم دونوں شمس العلماء مرحوم سے وابستہ رہے ،اتفاق کی بات ہے کہ اپنے بڑے لڑکے کو جواب ڈاکٹرا نوارالحق ہیںاورامریکہ میں کام کرتے ہیں(بحیثیت پروفیسر)انھوں نے سائنس کے مضامین جووہ انٹرمیڈیٹ میں پڑھتے تھے چھڑا کرتاریخ اسلام کے آنرزمیں داخل کیا جس کا میں پریسیڈنسی کالج میں استادتھا اور خودمرحوم بھی اس مضمون کے بعض اہم درس دیا کرتے تھے ،اس طرح سے عزیزم انوارالحق سلمہ ‘نے بی۔اے۔آنرز تک تاریخ اسلام میرے پاس پڑھی ,ان کے دوسرے صاحبزادے محفوظ الحق سلمہ‘ نے بھی بی۔اے۔آنرز تک تاریخ اسلام سے کیا ،ان کی صاحبزادی ہاجرہ بیگم بھی اسی مضمون کولینا چاہتی تھیں لیکن اس سال اسی ایک لڑکی نے درخواست دی،باقی سب لڑکے تھے ،چنانچہ بادل ناخواستہ پریسیڈنسی کالج ہی میں معاشیات کے آنرز میں شریک ہوگئیں ،ان کی صاحبزادی کوبھی تاریخ اسلام میرے پاس پڑھنے کی بڑی آرزورہی ،بہرحال میں تقریباًاپنا اکثروقت ڈاکٹر صاحب ہی کے گھرمیں گزاراکرتاتھااور وقتاًفوقتاًتاریخ اسلام کے خاص خاص مقاما ت وہ مجھ سے سنتی تھیں بہت دنوں بعد جب ہم حج کے لئے نکلے اورساتھ ساتھ بغداد ودمشق کا سفردرپیش تھا،بی بی ہاجرہ نے اپنے بچوں کو چھوڑ کرمیرے ساتھ سفراختیار کیا اور تین مہینے میرے اورمیری بیوی کے ساتھ ہم سفررہیں اوران کا شوق تاریخ اسلام مجھ سے پڑھنے کا تھاوہ اس طرح پورا ہوا۔

            تاریخ اسلام کے اہم مقامات ہم نے مل کر دیکھے،یہ عجیب روح پرور اور نیک سفرتھاجس کو اللہ نے میسر فرمایا،اس طرح میں اس گھرانے سے تین پشتوں سے منسلک رہاہوں ،یہ میری عین خوش نصیبی ہے،میرے حقیقی بھائی تو گذرچکے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بردار عزیز ڈاکٹر عبدالحق صاحب کو عنایت فرمایا تھا جو میرے اپنے سگے بھائی سے زیادہ مجھے عزیزتھے اور میں بھی ان کے پاس اسی قد ر عزیز تھا ،ڈاکٹر صاحب کی دوررس نگاہوں اور توفیق ایزدی نے اس طرف مائل کیاتھا کہ وہ مجھے مدراس میں بلالیں کہ ان کے بعد میں ان کے کاموں کی جہاں تک ہوسکے دیکھ بھال کرسکوں چنانچہ جسٹس بشیراحمد جو مدتوں عثمانیہ کالج (کرنول)کمیٹی کے صدر رہے ان کے بعد یہ کام میرے ذمہ آیا اورمیں عثمانیہ کالج کے ساتھ سلامیہ عربی وطبّی کالج،عمر عربی ہائی اسکول وغیرہ اداروں کی وقتاًفوقتاًخبرگیری کرتاہوں،مدراس جب جاتاہوں توعزیزی محفوظ الحق صاحب ہی کے مکان پرمیرا قیام رہتا ہے اور وہ میری ہرطرح خدمت کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۲۷ء سے جب میرا پہلا آنا مدراس میں ہوا اور آج۱۹۷۴ء ہے میں اس گھرانے کا ہوں،اور وہ گھرانا میرااپنا گھرانا ہے۔

            دعاہے کہ اللہ رب العزّت ڈاکٹر صاحب مرحوم کو اعلیٰ علیّین میں جگہ عنایت فرمائے،اللھم وسع نزلہ ا جزل ثوابہ اوران کے صاحبزادوں اورصاحبزادی اور انکے بچوں کو خوش رکھے اور ان کے چمن کو آباد رکھے ع ایںدعاکہ زمن وازجملہ جہاں آمیں باد۔