جنوبی ہند کے سرسید ڈاکٹر عبد الحق کرنولی ؒ کی زندگی کی ایک جھلک (۰۳)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

05:34PM Mon 23 Aug, 2021

از: مولانا سید عبد الوہاب بخاریؒ۔یم اے ، یل ٹی

سابق پرنسپل نیو کالج چنئی، وڈائرکٹر دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد

ڈاکٹر عبدالحق مرحوم کی یہ خواہش تھی کہ عثمانیہ کالج کرنول کی پرنسپلی قبول کرلوں لیکن میں نے ان کے ساتھ تاریخ اسلام کی خدمت کو ترجیح دی، چنانچہ مدت تک ہم دونوں اسی شعبہ کے استاد رہے ،جب وہ پریسیڈنسی کالج مدراس کے پرنسپل ہوئے تو انھوںنے اس شعبۂ تاریخ اسلام کو پریسیڈنسی کالج میں داخل فرمالیا،وہ اس کے پرنسپل تھے اور میں بحیثیت پروفیسر تاریخ اسلام اس کالج میں ان کا معین ومددگار تھا ،چنانچہ اس ہم آہنگی اور آپس  کی محبت ومودت میں ہمارے دن بیت گئے جب ان کاانتخاب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پرووائس چانسلری پر ہواتو ڈاکٹر صاحب کی یہ تمنا رہی کہ میں وہاں ڈین آف تھیالوجی کے عہدہ کو سنبھالوں لیکن میں نے مدراس ہی کے قیام کوترجیح دی اور ان کے ساتھ علی گڑھ نہ جاسکا ،ایک سال کے اندر اندر وہ بھی مدراس لوٹے اور انھیں پبلک سرو س کمیشن کا ممبرمنتخب کیا گیا ،اس طرح ہم دونوں پھرسے یک جگہ ہوگئے اور۔ع

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

کے مصداق ہمارے دن بہ احسن الوجوہ گزرتے رہے ،لیکن کیا پتہ تھاکہ ڈاکٹر عبدالحق اچانک ہم سے جداہوجائیں گے،ان کو قلب کا عرضہ تھا مگرپھربھی وہ اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں برابر لگے رہے ،جنب ان کی ا ہلیہ محترمہ نے ان کو آرام لینے کامشورہ دیا تو انھوں نے کہا میں ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں اور بخاری صاحب کو بھی ساتھ لے جاتاہوں ،ڈاکٹر کی جو رائے ہوگی وہ بخاری صاحب تم کو سنادینگے ،ڈاکٹر نے علامہ مرحو م کا طبّی معائنہ کیا اور فرمایا کہ کوئی ایسا خاص خطرہ لاحق نہیں ہے، البتہ ان کو تھوڑا کام کم کرنا اورزیادہ راحت لینی چاہیئے ،مکان پہنچ کر میں نے یہ رپورٹ ان کی اہلیہ محترمہ کو جو مجھ پر بہت مہربان رہیں اور مجھے بھائی سے بھی بڑھکر چاہا ،ان کی خدمت میں میں نے ڈاکٹر کی رائے کا اظہارکیا ،میں گویاایک شاہد ِعادل تھا اور میری گواہی کو میری محترمہ بہن نے قبول فرمالیا،اس کے بعد حالات کچھ جلدی سے بدلنے لگے ،اسی دوران میں جسٹس بشیر احمد سعید نے ہم دونوں کو کالج میں تقریرکے لئے بلوایا ،عیدمیلادالنبی کا جلسہ تھا ، ڈاکٹر صاحب نے ازراہ تلطف میرے بارے میں کہاکہ جہاں بخاری صاحب اپنا چراغ جلاتے ہیں ،وہاں میں اپنا دیاروشن نہیں کرتا ،ہم ونوں کی یہ عادت تھی کہ ایک پلیٹ فارم پر بیک وقت ہردوتقریر نہیں کیا کرتے تھے ،انھوں نے اس کا ذکرکیا اوریہ ارشاد فرمایا،جسٹس بشیر احمد سعید کی دعوت کو مسترد نہیں کیاجاسکتا تھا کہ وہ جج تھے ایسا نہ ہوکہ ہم دونوں کو پکڑوامنگوائیں ،چنانچہ ہم نے اپنی عادت کے خلاف ایک ہی پلیٹ فارم پر تقریریں کیں،مغرب کا وقت قریب تھا اور اس خوف سے کہ مغرب کے ساتھ مجمع منتشرنہ ہوجائے ،میں نے اپنی تقریر ختم کی اورکہاکہ اگرمیں ایسانہ کروں تولوگ ڈاکٹر صاحب کی تقریر سننے سے محروم رہ جائینگے جواپنے فن اورعلم کے اعتبار سے ملک میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، ڈاکٹر صاحب نے اس موقعہ پر یک نہایت دلسوز اورسحر انگیز تقریر فرمائی، شریعتِ حقہ کی پیری کی تلقین کی،ایسا معلوم ہوتا تھاکہ گویا وہ اپنی قوم کو اورمسلمان بہنوں کوعمل صالح اور شریعت پر عمل کرنے کی نصیحت فرمارہے ہیں کیونکہ یہ ان کی زندگی کی آخری تقریر تھی، اور اس کے بعد یہ روشن چراغ ہمیشہ کے لئے گل ہونیوالاتھا، میں نے اس وقت جو کہاتھا وہ میرے قلبی تاثرات تھے جو میں نے ڈاکٹر صاحب کے متعلق عرض کئے تھے ،یہ تھا ہم دونوں کا تعلق اپنی نجی اور پبلک زندگی میں جس کی مثال شائد کم مل سکے گی۔

ایک دن علی الصباح مولانا میرے غریب خانہ تشریف لائے میں باہر نکل چکاتھا،مولانا حافظ قاری عبدالباری صاحب نے ارردو میں قرآن مجید کی تفسیر شائع فر مائی تھی اورمجھے ان مبارک کتابوں کو لوگوں کے پاس ہدیہ کرنے لے جاچکے تھے ،مولوی صاحب مرحوم نے میری غیر موجودگی پر اظہار رنج کیا اور فرمایاکہ بخاری صاحب کا دامن باوجود کوشش نہیں ملتا ،اس کا اثر میری بیوی پر بہت ہو ا،مجھے کیامعلوم تھا کہ ڈاکٹر صاحب اسی رات داعی اجل کو لبیک کہنے والے ہیں ،میری بیوی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت کچھ اچھی نہیں معلوم ہتی ،میں ان کے گھر جانا چاہتی ہوں،میں نے کہا تم بے شک جاؤ ،میں بھی یہ کام ختم کرکے ڈاکٹرصاحب کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں گا ،دن اسی طرح گذرا رات میں حاجی محمد سعید صاحب پرنسپل جمال محمد کالج ترچناپلی جو ڈاکٹر صاحب کے بہنوئی تھے اور میرے قدیم شاگرد، مجھ سے ملنے آئے ،ا س وقت رات کے نو بج چکے تھے ،میں نے ڈاکٹر صاحب کا مزاج دریافت کیا ،انھوں نے کہا کوئی تشویش کی بات نہیں ہے،مجھے قدرے اطمینان ہوا، اور میں رات کاکھانا کھا کرسور ہا رات میں خواب دیکھتا ہوں کہ کسی نے مجھے ایک کنویں میں ڈھکیل دیا ہے اور اوپر اپنے اطراف ارواح خبیثہ کی منحوس شکلیں مجھے گھیری ہوئی ہیں، اور راہ فرار تلاش کررہاتھا،یکایک ایک آواز آئی کہ تم ایک زبردست کلمہ پڑھتے ہو،اس کو پڑھتے ہوئے باہر نکل جاؤ میں باؤلی سے باہر نکل آیا ،ا س خواب کی دہشت سے میں چونک گیا اورپھر نیند نہ آئی ، مکان میں ڈاکٹر عبدالحق کے گھر جاچکی تھیں ،میں اپنے د ل میں اس خواب کی تعبیر تلاش کرتارہایکایک ایک موٹر کا رمیرے مکان پر ٹہری اور میرے ملازم منسوامی نے یہ اطلاع دی کہ عزیز م رضا علی آئے ہوئے ہیں، میں نے نھیں اوپر آنے کہا ،انھوں نے ڈاکٹر عبدالحق صاحب کا اسم گرامی لیا ہی تھا ،میں حواس باختہ ہوگیا اورکچھ دیر کے لئے کچھ سمجھ نہ پایا رضا علی میرے عزیز شاگردتھے ،میں نے ان سے کہا تم کون ہو؟ انھوں نے دریافت کرلیا کہ میں کچھ ازخود رفتہ سا ہوگیا ہوں، مجھ میں چلنے کی طاقت بھی نہ تھی ،رضاا علی اور منسوامی نے مجھے سہارا دیکر نیچے اتارا ور ڈاکٹر  صاحب کے گھر لے چلے ،وہاں کیا دیکھتا ہوں، گھر پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑاہے اور ڈاکٹر صاحب چل بسے میں ساری رات اسی وارفتگی میں گزاراکہ ڈاکٹر صاحب نہیں گزرے ،صبح میں جب ڈاکٹر نعمت اللہ آئے اور کہا کہ بخاری صاحب اب آپ تنہا رہ گئے ،ا س وقت میں پھوٹ پڑا اور مجھے ا س امرکا شعورہواکہ واقعی ڈاکٹر صاحب گزرچکے ،کچھ نہ پوچھئے کہ اس وقت مجھ پر اور ان کی محترمہ بی بی پرا وربچوں پر جو گزری ہوگی اناللہ وانالیہ رجعون بس ایک سہارا تھا جو دل کوسنبھالے ہوئے تھا،جوراہ ڈکٹر صاحب مرحوم چلے ہیں،وہ ہم کو بھی چلنی ہے۔

کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام

اب یہ سوال پیداہواکہ آخر جو ہونا ہے وہ ہورہاہے ،اب ان کی تدفین کہاں عمل میں آئے ،ان کے بعض عزیز انھیں کرنول میں دفن کرنا چاہتے تھے یہاں ان کی زبردست یادگارعثمانیہ کالج قائم تھی،میں نے کہا میری اپنی یہ رائے ہے کہ آدمی جہاں گزرجائے اس کو اسی جگہ دفن کرنا چاہیئے ،نبی ﷺ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ آپ حجرۂ عائشہ ؓ  کہ جہاں بودوباش فرماتے تھے ،اسی میںد فن ہیں، ان کی محترمہ بی بی نے اور بچوں نے اس رائے سے اتفا ق کیا، چنانچہ میں علی حسین صاحب مالک مدینہ پریس کو جوڈاکٹر صاحب کے خاص شیدائیوں میں تھے ،لیکر نواب صاحب پریس آف آرکاٹ کی خدمت میں پہنچا اور سانحۂ عظیم کی اطلاع دیکر ان سے درخواست کی کہ مسجدِوالاجاہی میں دفن کی اجازت دیجئے ،مولانا بحرالعلومؒ کے بعد ڈاکٹر عبدالحق جیساعالم باعمل اور مسلمانوں کا ہمدرد وبہی خواہ مدراس کو نہیں ملا تھا ،جوان کا حق تھا کہ بحرالعلوم ؒ کے مزار کے قریب انھیں جگہ دیجائے ،نواب صاحب پرنس آف آرکاٹ نے باجودنجی مشکلات کے ہمار ی درخواست کو  قبول فرمایا اورہم تجہیزوتکفین کے انتظامات میں لگ گئے۔

مدراس گورنر اور دیگر روساء کیا ہندوکیا مسلم جوق درجوق ڈاکٹر صاحب کی آخری دیدارکے لئے ان کے بنگلے واقع وہاٹس روڈ جمع ہورہے تھے،ستم ظریفی دیکھئے کہ اسی عالم رنج وغم میں ایک خط گورنمنٹ آف مدراس کا آیا جس میں ڈاکٹر صاحب مرحوم کو پبلک سویس کمیشن کا چیرمیں منتخب کیا گیا تھا ۔مگراس قت تک ان کی روح اپنےجسد ِخاکی کوچھوڑ کر عالمِ ارواح تک منتقل ہوچکی تھی، کہا گیا ہے کہ موت العالم موت العالم  کا مظاہرہ ہم دیکھنے کے لئے زندہ تھے، ایسامعلوم ہوتاتھاکہ و اقعی ایک عالم کی موت ہوگئی ہے، ہزاروں کے مجمع کے  ساتھ یہ مبارک اور مقدس جنازہ اٹھا اور مسجد والاجاہی کی راہ لی، نماز جنازہ مجھے یاد نہیں کہ کس نے پڑھائی،غالباًسرقاضی مدراس حضرت علامہ قاضی حبیب اللہ صاحب نے یا میں نے، بعد نمازجناہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کوان کی مبارک لحد میں اتاراگیا اوریہ آفتاب علم ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔اناللّٰہ وانالیہ رجعون۔

گوجسمانی حیثیت ے ڈاکٹر صاحب مرحومسجدوالا جاہی میں دفن ہیں مگر ان کا اصلی مزار ان کے چاہنے والوں کے دل میں دفن ہیں مگران کا اصلی مزار ان کے چاہنے والوں کے دل میںہے،    ؎

بعد  ازوفاتِ  ترتیب مادرز  میں مجو

درسینہ ہائے مردم عارف مزارماست