جنوبی ہند کے سرسید : ڈاکٹر عبد الحق کرنولی کی زندگی کی ایک جھلک(۲)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

09:32AM Thu 19 Aug, 2021

*جنوبی ہند کے سرسید ڈاکٹر عبد الحق کرنولی ؒ کی زندگی کی ایک جھلک(۰۲)*

*از: مولانا سید عبد الوہاب بخاریؒ۔یم اے ، یل ٹی*

سابق پرنسپل نیو کالج چنئی، وڈائرکٹر دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد

 http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/

 

 

۱۹۳۸ء میں حاجی جمال محمد کی تجارت میں انقلاب آیا اور وہ اپنے نہایت نیک اسکیموں کی سربراہی جاری نہ رکھ سکے ،مجھے لا محالہ جمالیہ کالج سے مستعفی ہونا پڑا اور کچھ دن بعداسلامیہ کالج وانمباڑٰی کو بحیثیت پرنسپل منتقل ہونا پڑا ،میرے وانمباڑی چلے جانے سے ایک قسم کا بعد مکانی واقع ہوگیا،جو ڈاکٹر صاحب کو پسند نہ تھا ،وہ اس فکر میں تھے کوئی شکل مجھے شہر مدراس واپس لانے کی نکالی جائے ،ان کے ذہن رسانے بالآخر گورنمنٹ محمڈن کالج میں ایک اسلامک چیر کے قائم کئے جانے کے متعلق سوچنا شروع کیا انھوں نے اس سلسلے میں ایک اسلامک ہسٹری اور ثقافت کی نمائش کی ٹھانی ،چنانچہ یہ نمائش بڑے اعلیٰ پیمانہ پر گورنمنٹ محمڈن کالج میں منعقد ہوئی ،ڈاکٹر صاحب مرحوم نے دوردور سے اس نمائش کے لئے سامان فراہم کئے،کعبۃ اللہ شریف اور حرم نبویـؐکے ماڈل تیار کروائے،شاہان ِ مغلیہ کے قدیم لباس،زیورات، مخطوطات، اسلحہ، سکہ جات وغیرہ کو بڑی جدوجہد اوراپنی ذاتی ذمہ داری پراس نمائش کے لئے جمع کیا، خاندانِ والاجاہی مدراس سے بھی بہت سی قیمتی اور پُر ازمعلومات اشیا جمع کیں، مجھے یاد ہے میں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم نواب سالارجنگ کی خدمت میں بھی ان کی میوزیم سے بعض چیزوں کے حصول کے تعلق سے حاضر ہوئے، انھوں نے ہمارابڑا پرتپاک خیرمقدم کیا لیکن یہ فرمایاکہ یہ چیزیں ان کو ان کی جان سے زیادہ عزیزہیں اورسالارجنگ مرحوم نمائش ثقافت تاریخ اسلامی سے متفق تھے، ان کو ہم دونوں پر بھی بھروسہ تھالیکن یہ اصول اپنے میوزیم کے متعلق قائم کرلیاتھااس پر وہ قائم رہے اور  ہم کو حیدرآبادسے بے نیل ومرام واپس ہونا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ نمایش ہماری امید وں سے بھی زیادہ کامیاب ہوئی،گورنر مدراس اور دیگر زعماء نے اس میں شرکت فرمائی اور اپنے استحسان کا پُزور الفاظ میں اظہارفرمایا،نمایش کے اختتا م کے بعد ڈاکٹر صاحب نے تاریخ اسلام کی پروفیسری کے قیام کے لئے گورنمنٹ سے درخواست کی ،اس  زمانے میں ناظمِ تعلیمات مسٹر اسٹاتھم تھے ،انہوں نے بھی اس کی پُزور تائید کی ،ا س طرح ایک مستقل چیز تاریخ اسلام کی گورنمنٹ محمڈن کالج میں قائم ہوگئی ،ڈاکٹر صاحب نے تاریخ اسلام کی پروفیسری کے لئے مجھ سے خواہش ظاہرکی ،میرے لئے وانمباڑی چھوڑناایک مرحلہ بن گیا تھا، وانمباڑی اسلامیہ کالج کے ارباب حل و عقد جن میں جناب ملنگ احمد بادشاہ صاحب اور حاجی کوتوال عبدالکریم صاحب اور حاجی عبدالسبحان صاحب نے مجھے وانمباڑٰ ی چھوڑنے سے روکااور میرے چچامرحوم حافظ سیّد محمد صاحب کی خدمت میں کرنول پہنچے تاکہ مجھے وانمباڑی میں روکاجائے لیکن صورت حال یہ تھی کہ ڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم نے مسٹراسٹاتھم ناظم تعلیمات مدراس سے وعدہ کیا کرلیاتھاکہ وہ کسی طرح مجھے مدراس واپس لے آئیں گے ،مجھے ڈاکٹر صاحب کے اس وعدہ کا بڑا پا س ولحاظ رہا،ڈاکٹر صاحب مرحوم خودوانمباڑی تشریف لائے اوروانمباڑی اسلامیہ کالج میں تقریر فرماتے ہوئے یہ یقین دلایاکہ وہ ایک اہم فوری ضرورت کے تحت مجھے مدراس لے جارہے ہیں اور یہ بھی ارشاد فرمایاکہ ’’معنوی طورپرنہ صرف بخاری صاحب وانمباڑی کالج میں رہیں گے بلکہ میں بھی ان کے ساتھ رہوں گا، ‘‘اس دلجوئی سے وانمباڑی اسلامیہ کالج کے اربابِ حل وعقدایک گو نہ مطمئن ہوئے اور مجھے مدراس آنے کی اجازت ملی،اس طرح مولانا عبدالحق مرحو م مکی محبت اور ان کے بے انتہا خلوص نے دوبارہ مجھے مدراس میں کھینچ لیااور میں پھر سے گورنمنٹ محمڈن کالج میں بحیثیت ِ پروفیسر تاریخ اسلام داخل ہوگیا،مدرسۂ جمالیہ سے علٰحدگی اوروانمباڑی کے تقرر کے درمیان جو وقفہ ملااس میں میں نے تاریخ اسلام پر گورنمنٹ آف میسورکے ایماپر ایک کتاب تالیف کی جس کو میں نے ’’اے جنرل ہسٹری  آف اسلام‘‘ کا  نام دیاتھا گورنمنٹ مذکورنے اس کتاب کو چھپوایا اور یہ کتاب انٹرمیڈیٹ اور بی اے کے نصاب میں نہ صرف میسور بلکہ مدراس یونیورسٹی میں بھی نصاب داخل کرد ی گئی ،اس بناء پر مدراس گورنمنٹ نے میراتقر ر بحیثیت پروفیسر تاریخ اسلام کیا تھا، اس کتاب کی تالیف میں مجھے اپنے عزیزدوست پروفیسر قطب الدین صاحب سے بڑی مددملی تھی۔

            ۱۹۴۷ء میں جب مدراس گورنمنٹ نے یہ فیصلہ  کیا کہ گورنمنٹ محمڈن کالج کا نام گورنمنٹ آرٹس کالج رکھ دیا جائے ،مسلمانوں کا داخلہ ان کی آبادی کے لحاظ سے اس کالج میں ہو، یہ فیصلہ مسلمانوں کی آیندہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بہت مضرت رساں تھا ۔چنانچہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کو یہ خیال پیداہواکہ قوم اپنے نونہالوں کی تعلیم کے لئے کالجس بنالینا چاہیئے اسی بناپر جو سب سے پہلاکالج وجودمیں آیا وہ عثمانیہ کالج کرنول تھایہ خیالات کہ قوم کو اپنی تعلیم آپ سنبھالنا چاہیئے ایک مدت سے قوم کے ا رباب حل وعقد کے اذہان میں گشت کررہے تھے ،ایک صبح ڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم میرے مکان پرتشریف لائے اورمجھ سے خوشی خوشی یہ فرمانے لگے کہ مولوی نذیرحسین صاحب جو مدراس کے بڑے تاجران ِچرم میں سے تھے انھوں نے کرنول کالج کی بناء کے لئے پانچ ہزار روپیہ حوالہ فرمایاہے، ڈاکٹر صاحب کے الفاظ مجھے یاد ہیں کہ انھوں نے فرمایاتھا ’’ایک نعل تو مل گئی ،اب گھوڑے کی ضرورت ہے‘‘ میں نے جو اباًعرض کیا ایسے بڑے اہم کاموں میں اللہ تعالی ارادوں کو دیکھتا ہے ا ور خلوص پرنظر فرماتاہے انشاء اللہ اورتین نعل اورایک گھوڑا بھی میسرا ورکالج عنقریب وقوع میں آئے گا،چنانچہ میں نے ٹمل ناڈاور مالابار کے دورہ کا وعدہ کیااورایک درخواست حضورمیر عثمان علی خاں کے نام پربھیج دی ،سرمرزا اسمٰعیل نے جو اس وقت صدر اعظم مملکت ِحیدرآباد تھے، دولاکھ روپیہ کی بڑی رقم کاوعدہ فرمایا اورڈاکٹر صاحب اورراقم الحروف نے اپنی مساعی تحصیل امداد کے لئے مالابار اور ٹملناڈاور علاقہ جات اندھرا میں شروع کی ،ہم لوگوں سے کالج کے کمروں کی تعمیر کے لئے رقم مانگتے تھے،دس ہزار، چھ ہزار، ڈاھائی ہزار کے کمروں کا پلان بنایاگیااورہم اس پلان کو لیکر ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئے ،مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنا مرکز کوئمبتور  بنایاتھا اوربامبے ہال کے پروپرا ئٹر حاجی محمد ابراہیم مرحوم کوئمبتور میں میرے میزبان تھے ،وہاں پرمجھے ایک دعوت نیلگری سے آئی جہاں ایک شاندار جلسہ عید میلاد  النبی کے سلسلہ میں منایا جارہاتھا ،میں وہاں پہنچااور قوموں کے درمیان خیرسگالی اورباہمی برادرانہ رویہ پر زوردیا جو اسلام کا مقصد ہے جلسہ کی صدارت ایک انگریز کررہے تھے ،اس جلسہ میں اوٹی کے ایک بڑے تاجر عزیز سیٹھ نامی بھی موجودتھے،لوگوں نے مجھ سے کہاکہ میں ان کے ہاں پہنچوں اورامدا دکی درخواست کروں چنانچہ اوٹی پہنچا اور ان کے سامنے اپنے پلان کو رکھا ،انھوں نے چھ ہزارروپیہ کا عطیہ عنایت فرمایا ،اور یہ بھی کہا کہ وہ مسلمانوں کی ایک ہاسٹل کے لئے پچاس ہزاررپیہ کی بڑی رقم دے چکے ورنہ یہ رقم بھی وہ ہم کو عنایت فرماتے،قیام کوئمبتور میں جہاں میں مجوزہ عثمانیہ کالج کے لئے تبرّعات حاصل کررہاتھا ،ایک صاحب نے جن کا نام نامی خان بہادر حاجی محمود خان ہے،مجھے دعوت دی کہ میں ان کی صاحب زادی کے عقد میں شریک ہوں اورعورت کے مقام پر، جواسلام میں ہے، تقریر کروں ،وہ روپیہ جو عام طورپر فضول گانے بجانے میں خرچ ہوتاہے ، مجھے عثمانیہ کالج کرنول کے لئے عنایت کرینگے ،چنانچہ میں ستیاسنگلم پہنچا اورجلسہ میں تقریر کی صاحب معز نے مجھے سے ایک ہزار کاوعدہ کیا تھا ،اس کے علاوہ اورحضرات سے رقم وصول کی گئی ،اور مجھے سولہ سو روپے کالج کے لئے دئے گئے چنانچہ کالج میں آج تک بھی ایک چھوٹاساکمرہ ستیامنگلم کے نام سے موسوم ہے جس کا پیسہ جناب محمودخان صاحب نے عنایت کیا ،ہمارادور ہ اس طرح بڑاکامیاب رہااورایک بڑی رقم لیکرمیں مدراس پہنچا۔

            ڈاکٹر عبدالحق نے اپنے مساعی آندھرامیں جاری رکھی تھی،ان کے ایک عزیز دوست عبدالحی مرحوم نے اپنے والد بزرگوار کے نام سے بیس ہزارروپیہ کی رقم عنایت فرمائی جس کی یادگار عثمانیہ کالج میں عبدالحی آڈیٹوریم کی شکل میں آج بھی موجودہے جہاں کالج کے بڑے جلسے منعقدہوتے رہتے ہیں ،اس طرح سے ہم لوگوں کی مساعی تین نعل کے حصول میں کامیاب رہی اور نواب میرعثمان علیخاں مرحوم کی امداد دولاکھ روپے نے ایک گھوڑا فراہم کردیا۔اس طرح عثمانیہ کالج کا خواب جو ڈاکٹر عبدالحق نے دیکھا وہ کامیاب ہو ا،آج یہ کالج آندھرا کے بڑے ممتاز کالجوں میں شمارکیا جاسکتا ہے اور دو ہزار سے زیادہ طالب العلم یہاں زیرتعلیم ہیں ،اسی سلسلے کی کڑی مالابار میں فاروق کالج ہے ،جو کیرل میں بڑی امتیازی حیثیت کا مالک ہے ،ترچناپلی میں جمال محمد کالج پر پانچ ہزار طالب العلم پڑھتے ہیں اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے ،مدراس کانیوکالج جس میں میں آٹھ سال تک پرنسپل رہا ،وہ بھی اسی دور کی یادگار ہے، اسی اثناء میں جسٹس بشیر احمد سعید اور ان کی رفیقۂ حیات بیگم اختر سعید کی انتھک مساعی سے عورتوں کے لئے ایک کالج وجودمیں آیا جس کانام S.I.E.Tویمنس کالج ہے جس میں تقریباً چارہزار طالبات بلا امتیاز قوم وملت تعلیم پاتی ہیں ،یہ کالج غالباًہندوستان میں عورتوں کا سب سے بڑا کالج ہے اور یہاں پر مختلف علم و فنون یم۔اے کے درجے تک پڑھائے جاتے ہیں ،اسی اثناء میں کئی اور دوسرے کالج اور ڈاکٹر ذاکرحسین کالج الیان گوڑی(تنجاور)میں اور سی عبدالحکیم کالج میل وشارم میں اور مظہرالعلوم کالج آمبور میں قائم ہوئے چنانچہ مسلمانوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم کاانتظام آپ خود کرلیا۔

            گورنمنٹ مدراس کی ایک ناواجبی حرکت نے مسلمانوں میں یہ شعور پیدا کریا،سچ کہاہے  ع

                                                                        عدوشودسبب خیرگر خداخواہد

                                                                        مخفی مبار،ان سب کالجوں میں اولیت اسلامیہ کالج وانمباڑی کوتھی، اس کو ملا کر مسلمانوں نے دس ڈگری کالجس اپنی قوم کے لئے قائم کرلئے جن میں شرکت بلاتفریق قوم وملت سب کو حاصل ہے ،اس طرح مسلمانوں نے ایک بڑی خدمت نہ صرف اپنی قوم کے لئے بلکہ دیگر برادران وطنی کے لئے بھی کی اور حکومت کے بوجھ کو ہلکا کیا بمصداق اس فارسی شعر کے کہ

                                                            ہمت بلند دارکہ پیش خداوخلق

                                                            باشد بقد ر  ہمت تو اعتبار  تو

            قوموں کی زندگی میں ایک ایساموڑبھی آتاہے جس وقت قوم کو ایک نئی صورت حال کاصحیح جواب ضروری ہوجاتاہے ،اس بدلتی صورت حال میں مسلمان قوم نے ایک صحیح جواب پر کام کیا تھا اور اپنی اعلیٰ  ہمتی کا ثبوت دیا تھا ۔الحمدللہ علیٰ ذلک

 

 

از: مولانا سید عبد الوہاب بخاریؒ۔یم اے ، یل ٹی

سابق پرنسپل نیو کالج چنئی، وڈائرکٹر دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد

 

۔۱۹۳۸ء میں حاجی جمال محمد کی تجارت میں انقلاب آیا اور وہ اپنے نہایت نیک اسکیموں کی سربراہی جاری نہ رکھ سکے ،مجھے لا محالہ جمالیہ کالج سے۔ مستعفی ہونا پڑا اور کچھ دن بعداسلامیہ کالج وانمباڑٰی کو بحیثیت پرنسپل منتقل ہونا پڑا ،میرے وانمباڑی چلے جانے سے ایک قسم کا بعد مکانی واقع ہوگیا،جو ڈاکٹر صاحب کو پسند نہ تھا ،وہ اس فکر میں تھے کوئی شکل مجھے شہر مدراس واپس لانے کی نکالی جائے ،ان کے ذہن رسانے بالآخر گورنمنٹ محمڈن کالج میں ایک اسلامک چیر کے قائم کئے جانے کے متعلق سوچنا شروع کیا انھوں نے اس سلسلے میں ایک اسلامک ہسٹری اور ثقافت کی نمائش کی ٹھانی ،چنانچہ یہ نمائش بڑے اعلیٰ پیمانہ پر گورنمنٹ محمڈن کالج میں منعقد ہوئی ،ڈاکٹر صاحب مرحوم نے دوردور سے اس نمائش کے لئے سامان فراہم کئے،کعبۃ اللہ شریف اور حرم نبویـؐکے ماڈل تیار کروائے،شاہان ِ مغلیہ کے قدیم لباس،زیورات، مخطوطات، اسلحہ، سکہ جات وغیرہ کو بڑی جدوجہد اوراپنی ذاتی ذمہ داری پراس نمائش کے لئے جمع کیا، خاندانِ والاجاہی مدراس سے بھی بہت سی قیمتی اور پُر ازمعلومات اشیا جمع کیں، مجھے یاد ہے میں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم نواب سالارجنگ کی خدمت میں بھی ان کی میوزیم سے بعض چیزوں کے حصول کے تعلق سے حاضر ہوئے، انھوں نے ہمارابڑا پرتپاک خیرمقدم کیا لیکن یہ فرمایاکہ یہ چیزیں ان کو ان کی جان سے زیادہ عزیزہیں اورسالارجنگ مرحوم نمائش ثقافت تاریخ اسلامی سے متفق تھے، ان کو ہم دونوں پر بھی بھروسہ تھالیکن یہ اصول اپنے میوزیم کے متعلق قائم کرلیاتھااس پر وہ قائم رہے اور  ہم کو حیدرآبادسے بے نیل ومرام واپس ہونا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ نمایش ہماری امید وں سے بھی زیادہ کامیاب ہوئی،گورنر مدراس اور دیگر زعماء نے اس میں شرکت فرمائی اور اپنے استحسان کا پُزور الفاظ میں اظہارفرمایا،نمایش کے اختتا م کے بعد ڈاکٹر صاحب نے تاریخ اسلام کی پروفیسری کے قیام کے لئے گورنمنٹ سے درخواست کی ،اس  زمانے میں ناظمِ تعلیمات مسٹر اسٹاتھم تھے ،انہوں نے بھی اس کی پُزور تائید کی ،ا س طرح ایک مستقل چیز تاریخ اسلام کی گورنمنٹ محمڈن کالج میں قائم ہوگئی ،ڈاکٹر صاحب نے تاریخ اسلام کی پروفیسری کے لئے مجھ سے خواہش ظاہرکی ،میرے لئے وانمباڑی چھوڑناایک مرحلہ بن گیا تھا، وانمباڑی اسلامیہ کالج کے ارباب حل و عقد جن میں جناب ملنگ احمد بادشاہ صاحب اور حاجی کوتوال عبدالکریم صاحب اور حاجی عبدالسبحان صاحب نے مجھے وانمباڑٰ ی چھوڑنے سے روکااور میرے چچامرحوم حافظ سیّد محمد صاحب کی خدمت میں کرنول پہنچے تاکہ مجھے وانمباڑی میں روکاجائے لیکن صورت حال یہ تھی کہ ڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم نے مسٹراسٹاتھم ناظم تعلیمات مدراس سے وعدہ کیا کرلیاتھاکہ وہ کسی طرح مجھے مدراس واپس لے آئیں گے ،مجھے ڈاکٹر صاحب کے اس وعدہ کا بڑا پا س ولحاظ رہا،ڈاکٹر صاحب مرحوم خودوانمباڑی تشریف لائے اوروانمباڑی اسلامیہ کالج میں تقریر فرماتے ہوئے یہ یقین دلایاکہ وہ ایک اہم فوری ضرورت کے تحت مجھے مدراس لے جارہے ہیں اور یہ بھی ارشاد فرمایاکہ ’’معنوی طورپرنہ صرف بخاری صاحب وانمباڑی کالج میں رہیں گے بلکہ میں بھی ان کے ساتھ رہوں گا، ‘‘اس دلجوئی سے وانمباڑی اسلامیہ کالج کے اربابِ حل وعقدایک گو نہ مطمئن ہوئے اور مجھے مدراس آنے کی اجازت ملی،اس طرح مولانا عبدالحق مرحو م مکی محبت اور ان کے بے انتہا خلوص نے دوبارہ مجھے مدراس میں کھینچ لیااور میں پھر سے گورنمنٹ محمڈن کالج میں بحیثیت ِ پروفیسر تاریخ اسلام داخل ہوگیا،مدرسۂ جمالیہ سے علٰحدگی اوروانمباڑی کے تقرر کے درمیان جو وقفہ ملااس میں میں نے تاریخ اسلام پر گورنمنٹ آف میسورکے ایماپر ایک کتاب تالیف کی جس کو میں نے ’’اے جنرل ہسٹری  آف اسلام‘‘ کا  نام دیاتھا گورنمنٹ مذکورنے اس کتاب کو چھپوایا اور یہ کتاب انٹرمیڈیٹ اور بی اے کے نصاب میں نہ صرف میسور بلکہ مدراس یونیورسٹی میں بھی نصاب داخل کرد ی گئی ،اس بناء پر مدراس گورنمنٹ نے میراتقر ر بحیثیت پروفیسر تاریخ اسلام کیا تھا، اس کتاب کی تالیف میں مجھے اپنے عزیزدوست پروفیسر قطب الدین صاحب سے بڑی مددملی تھی۔

            ۔۱۹۴۷ء میں جب مدراس گورنمنٹ نے یہ فیصلہ  کیا کہ گورنمنٹ محمڈن کالج کا نام گورنمنٹ آرٹس کالج رکھ دیا جائے ،مسلمانوں کا داخلہ ان کی آبادی کے لحاظ سے اس کالج میں ہو، یہ فیصلہ مسلمانوں کی آیندہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بہت مضرت رساں تھا ۔چنانچہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کو یہ خیال پیداہواکہ قوم اپنے نونہالوں کی تعلیم کے لئے کالجس بنالینا چاہیئے اسی بناپر جو سب سے پہلاکالج وجودمیں آیا وہ عثمانیہ کالج کرنول تھایہ خیالات کہ قوم کو اپنی تعلیم آپ سنبھالنا چاہیئے ایک مدت سے قوم کے ا رباب حل وعقد کے اذہان میں گشت کررہے تھے ،ایک صبح ڈاکٹر عبدالحق صاحب مرحوم میرے مکان پرتشریف لائے اورمجھ سے خوشی خوشی یہ فرمانے لگے کہ مولوی نذیرحسین صاحب جو مدراس کے بڑے تاجران ِچرم میں سے تھے انھوں نے کرنول کالج کی بناء کے لئے پانچ ہزار روپیہ حوالہ فرمایاہے، ڈاکٹر صاحب کے الفاظ مجھے یاد ہیں کہ انھوں نے فرمایاتھا ’’ایک نعل تو مل گئی ،اب گھوڑے کی ضرورت ہے‘‘ میں نے جو اباًعرض کیا ایسے بڑے اہم کاموں میں اللہ تعالی ارادوں کو دیکھتا ہے ا ور خلوص پرنظر فرماتاہے انشاء اللہ اورتین نعل اورایک گھوڑا بھی میسرا ورکالج عنقریب وقوع میں آئے گا،چنانچہ میں نے ٹمل ناڈاور مالابار کے دورہ کا وعدہ کیااورایک درخواست حضورمیر عثمان علی خاں کے نام پربھیج دی ،سرمرزا اسمٰعیل نے جو اس وقت صدر اعظم مملکت ِحیدرآباد تھے، دولاکھ روپیہ کی بڑی رقم کاوعدہ فرمایا اورڈاکٹر صاحب اورراقم الحروف نے اپنی مساعی تحصیل امداد کے لئے مالابار اور ٹملناڈاور علاقہ جات اندھرا میں شروع کی ،ہم لوگوں سے کالج کے کمروں کی تعمیر کے لئے رقم مانگتے تھے،دس ہزار، چھ ہزار، ڈاھائی ہزار کے کمروں کا پلان بنایاگیااورہم اس پلان کو لیکر ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئے ،مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنا مرکز کوئمبتور  بنایاتھا اوربامبے ہال کے پروپرا ئٹر حاجی محمد ابراہیم مرحوم کوئمبتور میں میرے میزبان تھے ،وہاں پرمجھے ایک دعوت نیلگری سے آئی جہاں ایک شاندار جلسہ عید میلاد  النبی کے سلسلہ میں منایا جارہاتھا ،میں وہاں پہنچااور قوموں کے درمیان خیرسگالی اورباہمی برادرانہ رویہ پر زوردیا جو اسلام کا مقصد ہے جلسہ کی صدارت ایک انگریز کررہے تھے ،اس جلسہ میں اوٹی کے ایک بڑے تاجر عزیز سیٹھ نامی بھی موجودتھے،لوگوں نے مجھ سے کہاکہ میں ان کے ہاں پہنچوں اورامدا دکی درخواست کروں چنانچہ اوٹی پہنچا اور ان کے سامنے اپنے پلان کو رکھا ،انھوں نے چھ ہزارروپیہ کا عطیہ عنایت فرمایا ،اور یہ بھی کہا کہ وہ مسلمانوں کی ایک ہاسٹل کے لئے پچاس ہزاررپیہ کی بڑی رقم دے چکے ورنہ یہ رقم بھی وہ ہم کو عنایت فرماتے،قیام کوئمبتور میں جہاں میں مجوزہ عثمانیہ کالج کے لئے تبرّعات حاصل کررہاتھا ،ایک صاحب نے جن کا نام نامی خان بہادر حاجی محمود خان ہے،مجھے دعوت دی کہ میں ان کی صاحب زادی کے عقد میں شریک ہوں اورعورت کے مقام پر، جواسلام میں ہے، تقریر کروں ،وہ روپیہ جو عام طورپر فضول گانے بجانے میں خرچ ہوتاہے ، مجھے عثمانیہ کالج کرنول کے لئے عنایت کرینگے ،چنانچہ میں ستیاسنگلم پہنچا اورجلسہ میں تقریر کی صاحب معز نے مجھے سے ایک ہزار کاوعدہ کیا تھا ،اس کے علاوہ اورحضرات سے رقم وصول کی گئی ،اور مجھے سولہ سو روپے کالج کے لئے دئے گئے چنانچہ کالج میں آج تک بھی ایک چھوٹاساکمرہ ستیامنگلم کے نام سے موسوم ہے جس کا پیسہ جناب محمودخان صاحب نے عنایت کیا ،ہمارادور ہ اس طرح بڑاکامیاب رہااورایک بڑی رقم لیکرمیں مدراس پہنچا۔

            ڈاکٹر عبدالحق نے اپنے مساعی آندھرامیں جاری رکھی تھی،ان کے ایک عزیز دوست عبدالحی مرحوم نے اپنے والد بزرگوار کے نام سے بیس ہزارروپیہ کی رقم عنایت فرمائی جس کی یادگار عثمانیہ کالج میں عبدالحی آڈیٹوریم کی شکل میں آج بھی موجودہے جہاں کالج کے بڑے جلسے منعقدہوتے رہتے ہیں ،اس طرح سے ہم لوگوں کی مساعی تین نعل کے حصول میں کامیاب رہی اور نواب میرعثمان علیخاں مرحوم کی امداد دولاکھ روپے نے ایک گھوڑا فراہم کردیا۔اس طرح عثمانیہ کالج کا خواب جو ڈاکٹر عبدالحق نے دیکھا وہ کامیاب ہو ا،آج یہ کالج آندھرا کے بڑے ممتاز کالجوں میں شمارکیا جاسکتا ہے اور دو ہزار سے زیادہ طالب العلم یہاں زیرتعلیم ہیں ،اسی سلسلے کی کڑی مالابار میں فاروق کالج ہے ،جو کیرل میں بڑی امتیازی حیثیت کا مالک ہے ،ترچناپلی میں جمال محمد کالج پر پانچ ہزار طالب العلم پڑھتے ہیں اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے ،مدراس کانیوکالج جس میں میں آٹھ سال تک پرنسپل رہا ،وہ بھی اسی دور کی یادگار ہے، اسی اثناء میں جسٹس بشیر احمد سعید اور ان کی رفیقۂ حیات بیگم اختر سعید کی انتھک مساعی سے عورتوں کے لئے ایک کالج وجودمیں آیا جس کانام S.I.E.Tویمنس کالج ہے جس میں تقریباً چارہزار طالبات بلا امتیاز قوم وملت تعلیم پاتی ہیں ،یہ کالج غالباًہندوستان میں عورتوں کا سب سے بڑا کالج ہے اور یہاں پر مختلف علم و فنون یم۔اے کے درجے تک پڑھائے جاتے ہیں ،اسی اثناء میں کئی اور دوسرے کالج اور ڈاکٹر ذاکرحسین کالج الیان گوڑی(تنجاور)میں اور سی عبدالحکیم کالج میل وشارم میں اور مظہرالعلوم کالج آمبور میں قائم ہوئے چنانچہ مسلمانوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم کاانتظام آپ خود کرلیا۔

            گورنمنٹ مدراس کی ایک ناواجبی حرکت نے مسلمانوں میں یہ شعور پیدا کریا،سچ کہاہے  ع

                                                                        عدوشودسبب خیرگر خداخواہد

                                                                        مخفی مبار،ان سب کالجوں میں اولیت اسلامیہ کالج وانمباڑی کوتھی، اس کو ملا کر مسلمانوں نے دس ڈگری کالجس اپنی قوم کے لئے قائم کرلئے جن میں شرکت بلاتفریق قوم وملت سب کو حاصل ہے ،اس طرح مسلمانوں نے ایک بڑی خدمت نہ صرف اپنی قوم کے لئے بلکہ دیگر برادران وطنی کے لئے بھی کی اور حکومت کے بوجھ کو ہلکا کیا بمصداق اس فارسی شعر کے کہ

                                                            ہمت بلند دارکہ پیش خداوخلق

                                                            باشد بقد ر  ہمت تو اعتبار  تو

            قوموں کی زندگی میں ایک ایساموڑبھی آتاہے جس وقت قوم کو ایک نئی صورت حال کاصحیح جواب ضروری ہوجاتاہے ،اس بدلتی صورت حال میں مسلمان قوم نے ایک صحیح جواب پر کام کیا تھا اور اپنی اعلیٰ  ہمتی کا ثبوت دیا تھا ۔الحمدللہ علیٰ ذلک