ویسے تو وہ عام سی لڑکیاں ہیں ۔اتنی عام کہ ہر گلی ہر محلے اور ہر متوسط گھر میں پائ جاتی تھیں اور اب بھی پائ جاتی ہیں ،میلی کچیلی ۔ننھی منی لڑکیاں جو اکثر اپنی اماں کے ساتھ َسر کھجاتی اور ناک سڑکتی ،اپنی متحیر ملگجی آنکھوں سے اطراف کا حیرانی سے جائزہ لیتی کسی گاؤں یا قصبے سے ۔ گھروں میں وارد ہوا کرتی ہیں ۔ اگر قسمت سے ’اماں ‘ کو نوکری مل گئ تو پھر اماں اس گھر کے ’ بڑے بڑے کام کرتی یعنی جھاڑو برتن یا کھانا پکاتیں اور انکی ننھی منی بچی اپنے ننھے منے ہاتھوں سے ننھا منا کام کرتی ، اماں کی مدد کرتی یا گھر کے کسی ننھے منے کو اپنی کمر پر لادے گلی محلے میں ٹہلایا کرتی ، اکثر گھر کی مالکن کے عتاب کابلاوجہ نشانہ بھی بنتی اورمجبور ’اماں ‘ کے پاس کسی کونے کھدرے میں گھس کر رویا بھی کرتی ۔ اماں بیچاری جانتی بوجھتی کہ اسکی بچی بے قصور ہے لیکن اپنی جان توڑ محنت کے صلے میں ملنے والی دال روٹی اور مہینے کے آخر میں ملنے والے چند روپیوں کی لالچ میں خاموش رہتی ۔دو نوالوں اور دو روپیوں کے عوض رہن رہنے والے ہاتھ پاؤں اتنے طاقت ور بھی کہاں ہوتے ہیں کہ جلسے جلوس کر کے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کر سکیں ،
ایسے ہی رلتے رلاتے ۔گھر کا بچا کھچا کھانا کھاتے اور گھر کی لڑکیوں کی اترن پہنتے ہوۓ یہ بچیاں بچپن کی سرحد پار کرکے ،آنکھوں میں اجلے اجلے سہانے خواب سجاۓ َزندگی کے اس خوبصورت دور میں آکھڑی ہوتیں جسے لوگ جوانی یا نوجوانی کہتے ہیں لیکن ہم جسے ایک ایساانوکھا خواب کہتے ہیں کہ جس کی تعبیر اتنی ہی سرمئ ہوتی ہے کہ جتنا وہ خواب چمکیلا ہوتا ہے ۔ روپہلا سنہرا خواب ۔ عجیب بات ہے کہ تازہ ترین کھانا ، اور دوسرے مقوی لوازمات کھا کے بھی ’ امیروں کی لڑکیوں ‘ کے بوٹی نہیں چڑھتی اور ’نازک مزاجی کے ساتھ ساتھ نازک بدنی ‘ بھی بڑھتی جاتی ہے لیکن وہی کھانا کھاکر یہ لڑکیاں ایسا روپ رنگ نکالتی ہیں کہ مرد تو مرد ’زمین و آسمان کا دل بھی دھڑدھڑ دھڑکنے لگتا ہے ۔ یہ لڑکیاں اپنے اطراف ایک ایسی دنیا دیکھتی ہیں جو کبھی بھی انکی اپنی نہیں ہو سکتی ،وہ جس گھر میں رہتی ہیں وہاں کی اپنی ہم عمر لڑکیوں اور لڑکوں کے طرز زندگی ’انجانے میں ‘ اپنا تی جاتی ہیں ، اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا ، عشق و عاشقی ِ ،ناز وانداز سب کچھ ۔ قدرت بھی ان کے ساتھ اچھا خاصا مذاق کرتی ہے کہ روکھی سوکھی کھاکر بھی ’ان پر جوانی ‘ ضرورت سے کہیں زیادہ مہربان ‘ ہوتی ہے ، پھر وہ سوکھی سہمی بچی کہیں غائب ہو جاتی ہے اور مہکتی چہکتی جوانی اس بری طرح ابل پڑتی ہے کہ جیسے کسی ٹنڈ منڈ شاخ پر اچانک بیلا چنبیلی جھومنے لگے کہ جس کی مست مہک آس پاس رہنے بسنے والے نو جوانوں اور جوانوں اور اکثر کھیلے کھاۓ ادھیڑ عمر مردوں کو ’بے اختیار ‘ کردے ،
اب وہ رقیہ ہو کہ حمیدہ ،بدرن ہو کہ وحیدن ، یا کوئ دوسری لڑکی ۔ سب کی امایئں پریشان اور چوکنا ہوجایا کرتی ہیں ، گھر کی مالکن بھی اب اس ’ بلا ‘ سے جلد از جلد نجات پانے کی فکر میں غلطاں نظر آنے لگتیں ۔ کھلکھلاتی جوانی اور ہوش اڑا دینے والی ادایئں بڑے بڑوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی نظر آتیں، انجام کار گھر کی مالکن کچھ برتن بھانڈے ، کچھ ریشمی اترنیں اور کچھ روپیہ دے دلاکر جلد از جلد انکے بیاہ کی فکر کرتیں ۔ لیکن افسوس کہ اکثر انکی بے جوڑ شادیاں برقرار نہیں رہ پاتیں کیونکہ انکے تصور میں تو ’ وہ دولہا بھائ ‘ بسے ہوتے جو فلاں باجی کو سرخ جوڑے میں ، زیورات اور پھولوں اور صندل میں چھپا کر پیار سے اپنے دیس لے گۓ تھے اور جب ’باجی دوسرے دن ،دلہا بھائ ‘ کے ساتھ واپس آئ تھیں تو نہال و نہال تھیں ، دولہا بھائ سب سے نظر بچا بچا کر اپنی دلہن کو دیکھ رہے تھے اور باجی تھیں کہ انکی مخمور نظروں سے خود کو بچاتی پھر رہی تھیں نچلا ہونٹ دانتوں میں دبارہی تھیں ، دونوں پر ایک عجیب سی ’ بے اختیاری ‘ چھائ تھی، باجی کے ہاتھوں پیروں میں مہندی لگی تھی ، ہلکے گلابی جوڑے میں جھینپی جھینپی باجی کتنی پیاری لگ رہی تھیں ،دولہا بھائ بھی آج انگریزی سوٹ پہنے تھے ، کل بھی شیروانی،گلابی صافے اور بیلا چینیلی اور گلاب سے بنے سہرے میں ان پر کیسا ’نور ‘ اترا تھا ، یہی سب سوچتی ، کوٹھری میں بیٹھی دلہن پر کیا کیانہ بیتی ہوگی جب چوڑی موہری کے لٹھے کے پاجامے پر پیلی قمیض اور لال رومال اور لال ٹوپی کے ساتھ ہاتھوں میں مہندی لگاۓ اس کے باپ کی عمر کا اسکا دلہا کوٹھری میں آیا ہوگا اور اپنی کرخت آواز کھردرے ہاتھوں کے ساتھ اس پر ’مہربان ‘ ہوا ہوگا ، رات کے اندھیرے کو اجالے میں بدلتے بدلتے جیسے صدیاں بیت گئ ہوں گی اور ایک رات کی دلہن کے سارے نازک خواب ، اس کی لال لال سہاگ کی چوڑیوں کے ساتھ چور چور ہوۓ ہوں گے ۔
اسکے جہیز کے جوڑے اسکی سنگھار کی چیزیں اس کی نندوں نے ہتھیا لیں اور ساتھ لاۓ پرانے ٹرانسسٹر پر نندوں کے بچے قابض ہو گۓ ۔ ’وودھ بھارتی ‘ پر فلمی گانے سننے کا اسکو جنون تھا سو اماں جی نے اس کو خاص طور سے پرانا ٹرانسسٹر دیا تھا ،اسکے تانبے کے برتن تو بالا ہی بالا بازار میں بک چکے تھے ،وہ ڈبڈبائ آنکھوں سے سب دیکھ اور سن رہی تھی ساتھ ہی ’اپنے بڑھؤ‘ کی نازبرداری بھی کر رہی تھی ، ساتھ ہی ڈبڈبائ آنکھوں ‘ میں ’ باجی اور دولہا بھائ ‘کی شبیہ بھی ہچکولے کھارہی تھی ،رہ رہ کر اسے ’دلہا بھائ کی کرنجی آنکھیں یاد آجاتی تھیں کہ وہ جدھر گھوم جاتیں ، قیامت برپا کر دیا کرتی تھیں ، اس نے سوچ لیا تھا کہ ’ ابکی اماں کے یہاں جاۓ گی تو واپس اس جہنم میں نہیں آۓ گی ، سچ مچ ، اماں کے پاس آئ تو گالیوں گفتاریوں اور درجنوں بار مار کھاکے بھی ’ بے مزہ ‘ نہ ہوئ اور پرانی مالکن کے گھر جھاڑو بہارو کرتی رہی ، اسی درمیان اسے اپنی عمر کا ایک لڑکا گلی کے نکڑ پر کھڑا نظر آنے لگا اور ایک دن گھر کی کسی بی بی کا ٹوپی دار برقعہ اوڑھ کر رات کے اندھیرے میں وہ ’ زندگی کے اجالوں ‘ کی تلاش میں روانہ ہو گئ۔ کئ دن تک محلے میں عجیب سا سناٹا رہا پھر ایک دن ،سفید ریشمی شلوار ، پھولدار جمپر اور لچکا لگا چنا ہوا دوپٹہ اوڑھے ہاتھوں میں مہندی لگاۓ لال چوڑیاں پہنے وہ واپس اماں سے ملاقات کرنے آگئ ، میاں بھی ساتھ تھا ، صاف ستھرا سالڑکا جو رکشہ چلاتا تھا ، اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ جیسے اب اس کو اسکی جنت مل گئ ہے ، پوری نہ سہی آدھی ادھوری ہی سہی ۔
ایسی ہی ایک تھی نازنین عرف نازو ، گول مٹول ، سانولی سلونی زرا شوخ سی نازو ، اس پر بھی ایسی بے خبری میں بہار آئ کہ اچھے خاصے ’ شریف ننھے میاں ‘ بولا گۓ ، ابھی تک تو کسی نے انہیں یوں ہولتے اور کسی پر پروانہ وار نثار ہوتے نہیں دیکھا تھا ،جس گھر میں نازنین عرف نازو کی کھلکھلاتی جوانی ’جھاڑو بہارو ‘ کیا کرتی تھی ،اس گھر سے ننھے میاں کی بڑی نازک رشتہ داری تھی پھر بھی وقت بے وقت وہ اس گھر میں دالان میں ’بالمشافہ ‘ بیٹھے نظر آتے ۔ گھر کی مالکن کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گۓ ،چہ کنم والی کیفیت تھی کہ مقامی اخبار میں کام کر رہے ایک ’شخص‘ کا رشتہ آگیا اور نازنین عرف نازو کا بیاہ کرکے اسکی مالکن اور اماں باوا آرام سے ہوگۓ، ننھی منی سی دولہن جب ’ پٹر پٹر بولنے ‘ پر آئ تو اکثر سڑک پر بج رہے ریڈیو کے گانوں کو سن کر کہتی ’ہمارے یہاں تو مجروح سلطان پوری آتے ہیں ، کبھی کہتی ،’ بہو بیگم ‘ پکچر میں مینا کماری نے ہماری’ پھوپھو بی ‘کا جھومر لگایا ہے ، لوگ حیرت سے اسکی باتیں سنتے ، پھر وہی ہوا کہ ایک روز روتی دھوتی نازنین عرف نازو واپس آگئ ساتھ ہی کھچڑی بالوں والا اسکا ’ مجازی خدا ‘ بھی آکر ’ ڈیوڑھی ‘ میں بیٹھ گیا ، کہنے لگا ۔۔۔۔۔’ ارے صاحب ، انکا گزر ہمارے گھر کیسے ہو سکتا ہے ؟ انکے یہاں تو مجروح سلطان پوری ،سردار جعفری صاحبان آتے ہیں ۔ ‘ مجازی خدا کو بہت سمجھایا گیا کہ بچی ہے ، جس گھر میں رہتی ہے اسکو اپنا سمجھتی ہے ، وہاں آنے جانے والوں کو ’ اپنے گھر آیا جایا سمجھتی ہے ، معاف کردو ، اب ایسا نہیں کرے گی ، لیکن اسکی جھکی کھوپڑی میں تو بھس بھرا تھا ، زیادہ پوچھ گچھ ہوئ تو پتہ چلا کہ پردہ ٔ زنگاری میں مجازی خدا کا اپنا حقیقی بھانجہ چھپا ہوا تھا جو کہ نازنین عرف نازو کا ہم عمر تھا اور ماموں جان کو اپنی ’ننھی منی سی دلہن ‘ سے اس کی’ہم عمر ، بے ضرر سی بے تکلفی برداشت نہیں ہو رہی تھی ، سو ، ’ ممانی جان ‘ کو بیرنگ اسکے میکے پہنچا گۓ ۔ فی الوقت نازنین عرف نازو اسی بھانجے کی زوجہ محترمہ ہیں ، اور خوش ہیں ،
ان بیچاری لڑکیوں کی درد بھری کہانیاں بہت ہیں ، ایسی ہی ایک لڑکی شادی ہوکر سسرال گئ لیکن چند دنوں بعد ہی خبر آئ کہ وہ تو اپنے مرد کو اپنے پاس ہی آنے نہیں دیتی ، اچھا خاصا ٹھیک ٹھاک لڑکا تھا ، اسکا قریبی عزیز بھی تھا ، جب اسکی اماں نے خوب دھنائ کی تو فرمایا کہ ’ اماں ، تم کو کیا خبر ،اس کے پاس سے پسینے کی بو آتی ہے ، ہم کو متلی ہوتی ہے ، ‘ ۔ اماں نے دو چار تھپپڑ اور لگاۓ اور فرمایا ۔ ’ ارے حرام زادی ۔ تو کہاں کی شہزادی ہے جو وہ تیرے پاس ’اصغر علی محمد علی کا عطر شمامۃ العنبر لگا کر آیا کرے ، کھیتوں میں کام کرے گا تو گوبر ہی کی مہک آۓ گی ، ‘ آج تک وہ بیچاری ’ بے اولادی ‘ گھوم رہی ہے ۔
ایک گھر میں ایک لڑکی کام کرتی تھی ، شکل کی اچھی تھی ، مالکن کا حکم تھا کہ صاف ستھری رہے اور چپل پہنے رہا کرے ، کوئ دروازے پر آۓ تو تمیز سے بات کرے ، وہ ایسا ہی کرتی تھی ، ایک روز گھر کے مالک نے گھر آکر مالکن سے پوچھا ۔۔ ’ کیا آج کوئ بچی اسکول نہیں گئ تھی ؟ ‘ مالکن کا جواب ’ نا ‘ میں تھا ساتھ ہی استفہامیہ نظروں سے شوہر کو دیکھا پوچھا ، کہ آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں ۔۔ دو منٹ خاموشی کے بعد انکے شوہر نے پھر پوچھا ، کوئ آیا تھا تو دروازے پر کون گیا تھا ، مالکن معاملہ فہم تھیں سمجھ گیئں اور جواب دیا ، فلاں لڑکی ، اب جواب ملا کہ ’آیئندہ کوئ دروازے پر آۓ تو کوئ عمر رسیدہ نوکرانی جاۓ ، یہ لڑکی نہیں ، لوگ سمجھتے ہیں کہ میری بیٹی دروازے پر آئ تھی ، یا اس سے کہیۓ ’ گھر کی بچیوں کی طرح بات نہ کیا کرے نہ ان جیسے کپڑے پہنے ،
اس بیچاری کا بھی وہی حشر ہوا ، اپنی بہن کے کام چور شوہر کے کام چور بھائ سے نکاح کے دن وہ کسی کے ساتھ گھر سے بھاگ گئ ۔یقین ہے کہ وہ بھی آ نکھوں میں کسی ’دلہا بھائ ‘ جیسی افسانوی شخصیت کو بساۓ ہو گی یا مالکن کے گھر آنے جانے والے کسی چہرے کو کہ وہی اس کے خوابوں کا شہزادہ ہو گا ، وہی ہوگا جو اسے بیاہنے آنے والا ہوگا ، وہی ہوگا جو بھوری یا نیلی آنکھوں والا ہوگا جو ایک دن اسے ایک ایسی دنیا میں لے جانے والا ہوگا جو خوبصورت ہوگی جہاں تمام خوشیاں تمام آسایشیں باہیں پھیلاۓ اسکا انتطار کر رہی ہوں گی ،
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ جس گھر میں وہ لڑکی رہتی ، اسی گھر کے کسی مرکھنے لڑکا کا شکار ہوجاتی ، جب وہ غریب واویلا کرتی تو آئ گئ اسی کے سر ہو جاتی اور مالکن اپنے مرکھنے بیل جیسے بیٹے کو صاف بچا لے جاتیں ، بیٹے صاحب کی شادی خانہ آبادی بھی کر دی جاتی اور یہی کہا جاتا کہ ’یہ نوکرانیاں خود خراب ہوتی ہیں ، بلاوجہ ہمارے معصوم بچے کو بدنام کردیا ،
لیکن افسوس تو اس گونگی پر ہوتا ہے کہ ، جو گونگی ضرور تھی ، شکل بھی بس واجبی سی تھی ، اتنی واجبی کہ ایک بار کے بعد شاید ہی کوئ دوبارہ دیکھے ، وہ کہیں نوکر تو نہیں تھی ، بس محلے بھر کے گھروں میں گھوما کرتی ، اماں سے مار کھاتی تو دروازے کے باہر بیٹھ کر بڑی عجیب آواز میں رویا کرتی اور آ تے جاتے بچوں کو ڈرایا کرتی ، وہ ڈر جاتے تو کھلکھلا کر ہنستی ،عجیب ڈراؤنی سی ہنسی۔ یہ بھی عجیب بات تھی کہ جوانی اس پر آئ تو جیسے اس کے انگ انگ سے شراب برسنے لگی ، ایسی ترشی ہوئ خوبصورتی جو کبھی کبھی دیکھنے کو ملتی ہے ، سہمی ہوئ اسکی اماں اسکی جوانی سے ہراساں ہوکر اس کی خوب پٹائ کرتیں جیسے اسے پیٹ پیٹ کر قدرت سے اسکی عطا پر احتجاج کر رہی ہوں ، مجبور مان باپ اس ’ دیوانی جوانی ‘ کی حفاظت کرتے کرتے شل ہو ۓ جا رہے تھے ، لیکن خود اس معصوم کو کچھ ہوش نہ تھا ،
محلے والوں نے دیکھا کہ گونگی الٹیوں پر الٹیاں کر رہی ہے ، گھر میں مار کھاتی باہر بھاگ آتی الٹیاں کرکے بدحال ہوجاتی ، پھر اسکا پیٹ پھولتا چلا گیا ،اسے دیکھ کر محلے کے دروازے بند ہونے لگے ، گلی میں پڑی رہتی ، کوئ ترس کھاکر کچھ کھانے کو دیدیتا تو کھا لیتی ،کبھی کبھی محلے کی سب سے بزرگ بی بی کے پاس جاتی ، رو رو کر کسی کی شکایت کرتی ، اشاروں اشاروں میں اپنی بپتا سناتی ، اشاروں میں کہتی کہ وہ بے قصور ہے اور اسکا یہ حال فلاں نے بنایا ہے ، لیکن ، وہ ’ فلاں ‘ کبھی کسی کے ہاتھ نہ آیا ، سنتے تھے کہ گونگی مشن اسپتال میں مر گئ اور اسکی بچی کو مشنری لے گۓ،
’ضمیرہ ‘ بھلاۓ نہیں بھولتی ، وہی جو خود کو ’ شبانہ اعظمی ‘ سمجھتی تھی ۔اپنی شلوار کمر پر کھونسے ، پیروں میں ’ پائل ‘ پہنے ،بالوں کا بے تکا جوڑا بناۓ فلم ’انکر ‘ والی ہیروین ، مٹک مٹک کر ایسے چلتی جیسے اس کے پیروں کے نیچے اس کے کسی’جز وقتی چھچھورے عاشق ‘ کا دل ہو اور ڈر ہو کہ کہیں دل کا کچومبر ‘ نہ بن جاۓ ، اس کی بھی شادی ہو گئ لیکن فلمی ویلن ’شکتی کپور‘ جیسی تمام خباثتوں والے پرانے شناسا سے’خفیہ‘ دوستی برقرار رہی ، پھر وہی ہوا ، میاں کہیں بھاگ گیا اور ’شناسا ‘ضمیرہ ‘کو دیا ہوا گھر بیچ کر اسی پیسوں سے کسی مڈل ایسٹ کی ریاست کا ویزہ خرید کر فرار ہو گیا ، سنا ہے کہ وہاں غیر قانونی طریقے سے رہنے اور غیر قانونی طریقے سے چھپ کرکوئ غلط کام کرنے کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے بند ہے ۔اپنے بچوں کو سمیٹے ضمیرہ کسی گھر میں ’ جھاڑو پونچھا‘ کر رہی ہے ۔
سنا ہے کہ ’سائینس‘نے بہت ترقی کر لی ہے ، بہت سی ’ ایجادات ‘ ہوئ ہیں ، دنیا ’ الٹ پلٹ ‘ ہو گئ ہے ۔ کاش ، کوئ ایسا ’آلہ ‘ کوئ ایسا ’ ٹیکہ ‘ بھی ایجاد ہو جو ان معصوم اور مسکین ذہنوں کو ’ایسے بے تکے اور دھندھلےخواب دیکھنے سے روک سکے جن کی تعبیر سواۓ اذیت کے کچھ بھی نہیں۔
ختم شد
farzanaejaz@hotmail.com