دلم در عاشقی آوارہ شد۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:25PM Tue 8 Sep, 2020

دلم در عاشقی آوارہ شد۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

۔(یہ تقریر لکھنؤ ریڈو اسٹیشن سے9۔  نومبر 1946ء کونشرہوئی، اس میں طوطی سخن حضرت امیرخسرو کی مشہور فارسی غزل کا تجزیہ و تنقیدی مطالعہ مولانا دریا بادیؒ نے بڑے ہی دلچسپ اور دلنشیں انداز میں پیش کیا ہے اور امیر خسرو کے عشق حقیقی اورسوز دل کا ذکر بڑے تاثر سے کیاہے۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی)۔

۔"مصرعہ جو ابھی آپ کو سنایا گار، آپ نے سن لیا؟ ایک بار پھرعرض ہے: ۔

ع:     دلم در عاشقی آوارہ شد آوارہ تر بادا

شاعرکیسی حسرت سے کہہ رہا ہے کہ میرا دل غم عشق میں مبتلا ہوچکا، اس میں حیران و پریشان پھر رہا ہے، اس پربھی جی یہی چاہتا ہے کہ یہ غم ختم ہوجائے اور اس آواز سے رہائی حاصل ہوجائے، بلکہ اس کے برعکس آرزو ہے تو یہ کہ یہ آوارگی غم اور بڑھے اور دل جتنا اب کڑھ رہاہے اس سے اور زیادہ کڑھے۔  اللہ اللہ محبت کا درد بھی کتنا لذیذ درد ہوتا ہے ۔  اور دوسرے مصرعہ میں تکملہ آرزو کرتا ہے کہ :۔

۔ع: تنم از بے دلی بیچارہ شد بیچارہ تر بادا

دل کے طفیل جسم بھی تو خستگی و ناتوانی کا شکار ہو چکا ہے، کاش یہ خستگی اور ناتوانی بھی اور بڑھے۔  اورعشق کے چرکے اٹھانے اور غم کھانے میں جسم کا قدم دل سے پیچھے نہ رہنے پائے!۔

شعرہم نے آپ نے سن رکھاہے کہ امیرخسروؒ دہلوی کاہے اور امیرخسرو کا نام آتے ہی ذہن کے سامنے تصویر ایک بزرگ درویش پیر مرد کی آجاتی ہے۔ تصویر درویشی اور بزرگی کی حد تک تو ممکن ہے صحیح ہو، لیکن کبرسنی کے پہلو سے تو قطعی غلط ہے۔  امیر کی یہ غزل ان کے پہلے دیوان میں درج ہے۔  جس کا نام تحفة الصغر یا کمسنی کا تحفہ ہے۔  اور اس کے دیباچہ میں ان کے قلم سے یہ تصریح موجود ہے کہ اس کے اندر صرف ۱۶ سال سے لے کر ۱۹ سال تک کی عمر کا کلام ہے!۔ تو گویا جس نے یہ پھڑکتا ہوا مطلع کہا اور درد عاشقی کی تصویر کھینچ دی وہ ایک نوجوان لڑکا زیادہ سے زیادہ ۱۹ سال عمر والا اور  بہت ممکن ہے اس سے بھی سال دوسال کم ہی کا!۔ْ  کمال ہے، کلام میں پختگی اور سن کل اتنا!۔

مطلع پرحیرت ختم ہوچکی ہو تو آگے بڑھیے ۔ غزل کی غزل ایک رنگ میں ہے :۔

بہ تاراج اسیران زلف تو عیاری دارد ۔(”بہ تاراج عزیز ان زلف توعیاری دارد“)۔

یہ خونریز غریباں چشم تو عیارہ تر بادا

رخت تازست بہر مردن خود تازہ تر خواہم ۔(رخت تازہ است وبہرمردن خود تازہ تر خواہم )۔

دلت خارست بہر کشتی من خارہ تر بادا ۔(دلت خارہ است وبہر کشتن من خارہ تربادا)

معنوی حیثیت سے مضمون کا تسلسل قائم ہے اورتلازمے سب وہی چلے آرہے ہیں، اور پھر اسیروں کے لیے زلف کی لفظی مناسبت اور ’رخ‘ اور’دل‘ کا تقابل غرض صنعتیں بھی استادانہ۔ لفظ ومعنیٰ دونوں کی پختگی کے اعتبار سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کلام کسی صاحب زادہ کا ہے ؟

غزل میں مسلسل مضمون شاذ و نادر ہی ہوتا ہے ۔ غزل کا جو عام دستور فارسی میں چلا ہوا ہے (اور وہیں سے اردو میں آیا)۔ وہ تو یہ ہے کہ ہرشعر ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ صاحب زادہ مستند استاد بہت بعد میں تسلیم کیے گئے لیکن استادی کی یہ جھلک شروع ہی سے رکھتے تھے کہ تسلسل مضمون پر اسی وقت سے قادر تھے ۔ چوتھا شعر، جان غزل تو یہ ہے ملاحظہ ہو:۔

گر اے زاہد دعائے خیر می گوئی مرا ایں گو

کہ ایں آوارہ کوئے بتاں آوارہ تر بادا  ۔(کہ آں آوارہ ازکوئے بتاں آوارہ تربادا)۔

معلوم ہوتا ہے کہ شاعر آشفتہ سرعشق پیشہ کو کسی زاہد بزرگ نے کہیں دیکھ پایا ہے اور اس کی آشفتہ حالی پر ترس کھا کر اس کی اصلاح و فلاح کے لیے دعا کرنا چاہتا ہے، اور دعا قدرةً یہی ہوتی کہ اس بیچارے کوعشق سے نجات نصیب ہو۔  شاعر یہ صورت حال بھانپ جاتا ہے حضرت زاہد کی عظمت زہد سے اسے بھی انکارنہیں ۔ جانتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہوکر رہے گی ۔ قبل اس کے کہ زاہد کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھیں شاعر کی زبان چل اٹھتی ہے اور یہ عرض کرنے لگتا ہے کہ حضرت خدا کے لیے کوئی اور دعا نہ کر بیٹھیے گا۔  دعا یہ فرمائیے کہ آزارعشق مجھ خستہ جگرکے لیے اور بڑھتا ہی جائے۔

پانچویں شعر میں کہتا ہے :۔

دل من پارہ گشت از غم نہ زاں گونہ کہ بہ گردد

اگر جاناں بدیں شاد است یا رب پارہ تر بادا

میرا دل تو غم سے ٹکڑے ٹکڑے پاش پاش ہوچکا، جس کے جڑنے اور درست ہونے کی کوئی صورت ہی نہیں (نہ زاں گونہ کہ بہ گردد) لیکن محبوب کی مرضی اگر یہی ہے، اگر وہ اسی میں خوش ہے، تو اے پرور دگار یہ اور زیادہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر اور اس سے زیادہ پاش ہوکر رہے۔

چھٹا شعر پھر اسی تمنا کا ترجمان ہے:۔

ہمہ گویند کز خونخواریش خلقے بجاں آمد

من ایں گویم کہ بہرجان من خونخوارہ تربادا

لوگ کہتے ہیں کہ محبوب کی سفاکی سے خلقت جان سے تنگ آگئی ہے لیکن مجھے ارمان اس کا ہے کہ میرے حق میں اس کی سفاکی کچھ اور بڑھ کر ہی رہے۔

ساتویں شعر میں پہنچ کر شاعرقلم رکھتا ہے تو اپنے حق میں یوں دعا گو ہوتا ہے:

چو با تر دامنی خو کردہ خسرو با  دو  چشم تر (چو با تر دامنی خو کرد خسرو با دو چشم تر)۔

بہ آب چشم مژگاں دامنش ہموارہ تر بادا۔ (بہ آب چشم پاکاں دامنش ہموارہ، تربادا)۔

کہ رو رو کر اس غم زدہ کا غم اور ترقی پر ہے ۔

سات شعر دیارعشق کی سات منزلیں تھیں۔  طے ہوئیں۔  گویا ایک ہفت خوان سر ہوا۔  یا یوں کہیے کہ شاعر کو ہفت اقلیم کی دولت ہاتھ آگئی ۔’سات‘ کا عددصوفیا کے ہاں بڑا مبارک مانا گیا ہے، اور اکیلے صوفیا ہی کے ہاں نہیں مشرقی مذہبوں میں عموماً ۔

امیر نے غزلوں پر غزلیں نہیں، دیوان پر دیوان لکھ ڈالے ہیں۔ غزلوں اور پھر غزل کے شعروں کا کوئی شمارہی نہیں عشق و محبت، وصل و فراق، سوز و گداز کی مصوری خدا معلوم کئی ہزار بار کامیابی اور رعنائی کے ساتھ کی، اور آخر کو استادسخن، امام فن کہلائے۔ اس شان دار انجام کی خبر سب کو ہے، قابل رشک آغاز آپ نے دیکھ لیا؟ لیکن اس حیرت انگیز ابتدا کی لم بھی خیال شریف میں آئی؟ تذکرہ نویسوں کے قلم نے یہ تصریح جوکردی ہے کہ امیر ابھی آٹھ سال کے بچے تھے کہ پدر بزرگوار نے شیخ وقت عارف باللہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے قدموں پر لا کر ڈال دیا اور خواجہ کی نظر قبول اسی وقت پڑگئی۔  ادھر خود جوہرقابل اتنے بڑے صاحب نسبت سے نسبت کہیں بیکار جا سکتی تھی؟ دن دونی رات چوگنی ترقی شروع ہوگئی۔ قمقمہ کرنٹ آنے سے جگمگا اٹھا۔  خواجہ کا یہ قول بھی منقول ہے کہ جب قیامت میں سوال ہوگا، نظام الدین کیا لایا ہے؟ تو عرض کروں گا خسرو کو! اور تذکروں کی زبان پر یہ روایت بھی تو چڑھی ہوئی ہے کہ حضرت دعا مانگتے تھے تو امیرکی طرف اشارہ کرکے کہتے تھے ”الٰہی اس ترک کے سوز دل کے طفیل میں میری مغفرت کر“ اس مرتبہ راز و نیاز اور اس درجہ اختصاص کے بعد اس میں حیرت ہی کیا رہ جاتی ہے کہ اس پایہ کا کلام ایک کم سن کی زبان سے ادا ہوا ہے؟ محض شاعر ردیف وقافیہ کے استاد و ماہران مرتبوں تک پہنچ ہی کب سکتے ہیں؟ یہ تو عشق حقیقی کی روح ہے جو اس قال کو حال بنا دیتی ہے اور الفاظ کے اندر معنویت پیدا کر دیتی ہے عارف رومیؒ نے کیا خوب کہا ہے:۔

عشق ہائے کزپئے رنگے بود

عشق نہ بود عاقبت ننگے بود

دنیا والوں اور دنیا والیوں کا عشق بھی کوئی عشق ہے! اگر نا جائز محل پر ہے جب تو سراپا فسق، لیکن اگرمحل جائز پر ہے جب بھی آب و رنگ،نقش و نگار کی بہار کب تک؟ حسن و شباب کی طلسم بندی کے دن؟

ہے یہ حقیقت مجاز، اب یہ کھلا ہے جا کے راز۔(تھی یہ حقیقت مجاز، اب یہ کھلا ہے جا کے راز)۔

سب ہے فریب آب و گل حسن و جمال کچھ نہیں

یہ قوت تو اسی اور صرف اسی حسن میں ہے جو زوال و انحطاط، تغیر و فنا کے ہرقانون سے بالا تر ہے ۔ ایک بار پھر بقول مولانائے رومیؒ :۔

عشق بر بردہ نہ باشد پائدار۔  (عشق برمردہ نباشد پائدار)۔

عشق را بر حی و بر قیوم دار۔ (عشق را برحیِّ جاں افزایِ دار)۔

بس دل کا اٹکاﺅ شرط ہے ۔ امیر کو عشق اسی محبوب حقیقی سے تھا، اور مرشد کامل کے فیض و توجہ سے کہنا چاہیے کہ بچپن ہی سے پیدا ہوگیا تھا۔  ساری طلب و تمنا اسی عشق میں زیادتی کی تھی، دل میں بھی اور زبان پر بھی۔  ان کے کوئے بتاں سے مقصود و مراد شہر کا کوئی محلہ یا بازار کا کوئی حصہ نہیں بلکہ حسن مطلق کی تجلیات گونا گوں ہیں۔  ان ہی حسین وجمیل تجلیات میں وہ گم ہیں، اور ان ہی میں ضم ہوجانے کی دعا اپنے حق میں زاہد سے بھی کرا رہے ہیں ۔

۔ع :  کہ آں آوارہ کوئے بتاں آوارہ تر بادا

رحمت ہو ان کی روح پاک پر۔ بزم سخن میں امیر بن کر رہے، اور اقلیم تصوف و معرفت میں خسرو بن کر چمکے ۔ زبان پر وہ قدرت کہ ایران کے اہل زبان ان کی فارسیت کے قائل، اور سلوک و فقر میں وہ مرتبہ کہ جوتذکرہ صوفیا و سالکین ان کے نام نامی سے خالی وہ خود ناقص و نا تمام ۔

۔(منقول: نشریات  ماجدی،  ترتیب  جدید  مع  تخریج  و  تحشیہ،  مرتبہ  زبیر  احمد  صدیقی، ۲۰۱۶ء)۔

٭٭٭