تبصرہ کتب ۔۔۔ مقالات عبد الستار صدیقی +تذکار رفیع ۔۔۔۔ تحریر : ملک نواز احمد اعوان

نام کتاب:مقالات عبدالستار صدیقی .جلد اوّل مرتب:مسلم صدیقی صفحات: 316 قیمت 400 روپے ناشر:ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناظم مجلس ترقی ادب لاہور فون نمبر:042-99200856 042-99200857 ای میل:majlista2014@gmail.com مجلس ترقی ادب سے کچھ عرصہ پہلے مقالاتِ عبدالستار صدیقی جلد دوم کی اشاعت ہوئی تھی جس کا تعارف ہم نے فرائیڈے اسپیشل میں کرایا تھا۔ اب جلد اول بھی مجلس نے طبع ۔کرادی ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب فرماتے ہیں ’’اردو کے ممتاز اور نامور ماہرِ لسانیات عبدالستار صدیقی (1885۔1972ء) اپنے کثیراللسانی پس منظر اور وسعتِ نگاہ کے باعث اردو تحقیق اور تاریخی و تقابلی لسانیات کے میدان میں انگشت شمار حضرات میں محسوب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کم لکھا مگر جتنا لکھا اُس پر قدرِ اوّل کی ترکیب کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے تاریخ کو تحقیق سے مربوط کیا۔ ان کا تحقیقی اسلوب جذبات اور جذباتیت سے عاری خالصتہً علمی اور تعقلاتی تھا۔ عربی، فارسی، پہلوی، ہندی، سنسکرت ، جرمن اور انگریزی زبان و ادب پر ان کی نظر عمیق تھی۔ انہوں نے عبرانی، سریانی اور ترکی سے بھی کسی قدر واقفیت بہم پہنچائی۔ وہ لفظوں کی عہد بہ عہد موجودگی اور ان کے اوضاع و تغیرات، فرہنگوں کی صحت و سقم، ہر دور کے لفظی و لسانی نظائر اور وضع اصطلاحات کے باب میں گہری نظر کے حامل تھے۔ تاریخی و تقابلی لسانیات سے صدیقی صاحب کی اطمینان بخش بلکہ حیران کن آگاہی کے شواہد ان کے مقالات اور متعدد دیگر تحریروں میں قدم بہ قدم نظر آتے ہیں ۔ دخیل الفاظ کے موضوع سے انہیں خصوصی دلچسپی تھی۔ انہوں نے اس موضوع پر تحقیق کے ضمن میں کم و بیش سات برس یورپ میں گزارے تھے اور ’’کلاسیکی عربی میں فارسی کے مستعار (دخیل) الفاظ‘‘ کے زیر عنوان جرمن زبان میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا تھا۔ کم و بیش دو برس پہلے مقالاتِ عبدالستار صدیقی کے غیر مدون مقالات کی دوسری جلد مجلس ترقی ادب کے زیر اہتمام شائع ہوکر اربابِ نظر سے خراجِ توصیف وصول کرچکی ہے۔ 1983ء میں ان کے مقالات کی پہلی جلد ان کے صاحبزادے مسلم صدیقی نے (صدیقی صاحب کی نظرثانی کے بعد) شائع کردی تھی۔ اس جلد میں صدیقی صاحب کی 1910ء سے 1961ء تک کی تحریروں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ جلد زیادہ تر لسانی مباحث پر مشتمل ہے مگر اس میں ایسے ایسے چشم کشا موضوعات کو زیر بحث لایاگیا ہے کہ ان کی داد دیے بغیر چارہ نہیں۔ ’’ہندستان بغیر واؤ کے‘‘،’’لفظ سُغد کی تحقیق‘‘،’’بغداد کی وجہ تسمیہ‘‘،’’ذالِ معجمہ فارسی میں‘‘، ’’بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق‘‘، ’’معرب لفظوں میں حرفِ قاف کی حیثیت‘‘ اور ’’معائبِ سخن کلامِ حافظ کے آئینے میں‘‘ وغیرہ میں انہوں نے خوب دادِ تحقیق دی ہے۔ یہ مقالات جہاں فکر و نظر کے لیے نئے دریچے وا کرتے ہیں وہیں مزید تفتیش، تحقیق اور تفحص پر بھی مائل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چند ایک نتائجِ تحقیق سے اختلاف کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے جس کے بعض شواہد مقالاتِ عبدالستار صدیقی جلد دوم میں شامل میرے تفصیلی مقدمے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ زیرنظر مقالات میں ایک جگہ انہوں نے لفظ ’’چیدن‘‘ کے معادل ’’چنیدن‘‘ کو لغو قرار دیا ہے۔ میرے نزدیک ’’چیدن‘‘ کا مترادف ’’چنیدن‘‘ بھی درست ہے۔ دراصل پہلوی میں یہ لفظ چِنیدن اور چِنیتن (چ بالکسرہ) کے طور پر موجود رہا ہے۔ ’’مقالاتِ عبدالستار صدیقی‘‘ کی جلد دوم شائع کرنے کے بعد یہ خیال دامن گیر رہا کہ قارئینِاردو ادب کو عبدالستار صدیقی کے مقالات کی پہلی جلد کے حاصلات و افادات سے کیوں محروم رکھا جائے۔ اسی احساس کے تحت اترپردیش اکادمی کے شکریے کے ساتھ یہ پہلی جلد مقالاتِ عبدالستار صدیقی (جلد اوّل) کے نام سے پاکستان میں پہلی بار شائع کی جارہی ہے۔ امید ہے قارئین کرام اب ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کے مقالات سے کلیۃً نہ سہی بہت حد تک استفادہ کرسکیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ مرحوم کے چند مقالات اب بھی موجود ہیں جو تدوین کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ ایسے مقالات کا حصول آسان نہیں۔ کوشش جاری ہے۔ ہمدست ہونے پر ان پر مشتمل تیسری جلد بھی اشاعت کی روشنی دیکھ لے گی۔ ان شاء اللہ۔‘‘ مرتب کتاب مسلم صدیقی ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کے صاحبزادے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’’ایسی وادی میں قدم رکھتے جی ڈرتا ہے جس کی اونچ نیچ سے میں یکسر ناواقف ہوں، مگر والد مرحوم کے جو اہم مقالے برعظیم کے مؤقر جریدوں میں بکھرے پڑے ہیں ان کی تدوین اور اشاعت ایک فریضہ ہے، اخلاقی اعتبار سے اور ادبی نقطۂ نظر سے بھی، اور اب کہ مرحوم اس دنیا میں نہیں رہے، یہ خدمت چاروناچار مجھی کو انجام دینی ہوگی۔ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی ہندوستان کے اُن چند گوشہ نشین اہلِ علم میں سے تھے جو ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر خاموشی سے اپنے کام میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ ساری عمر شہرت پسندی اور خودنمائی سے کوسوں دور اَوروں کی رہنمائی ہی میں مسرور رہے۔ اسی وجہ سے ان کی کوئی مستقل تصنیف کتابی شکل میں موجود نہیں، چنانچہ مولانا سلیمان ندوی مرحوم نے فرمایا کہ وہ ’’علم میں خیام کی طرح بخیل ہیں اور قلم کو بہت کم حرکت دیتے ہیں‘‘۔ اس کے باوجود اُن کے گراں بہا مقالوں کو دو تین جلدوں میں شائع کرنا ممکن ہے۔ مدتوں سے خیال تھا کہ مرحوم کے منتشر مقالوں کو جو 1905ء (’’صحیح اور غلط اردو‘‘ اردوے معلیٰ، علی گڑھ، اکتوبر 1905ئ) سے لے کر 1961 عیسوی تک چھپتے رہے، یکجا کرکے شائع کرادوں، چنانچہ مقالے اکٹھا بھی کرلیے اوران کی فہرست بناکر میں نے صدیقی صاحب کو دکھادی جسے انہوں نے پسند کیا اور بعض ایسے مقالوں کی نشاندہی کی جن کا مجھے علم نہ تھا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کچھ مفید مشورے بھی دیے۔ اس طرح کم و بیش ایک مکمل خاکہ ان کی تحریروں کا میرے قبضے میں آگیا، لیکن بیشتر مقالوں میں اس قدر ترمیم و اضافہ اور حک و اصلاح ہوئی تھی کہ ان کی صورت ہی کچھ اور ہوگئی، اس لیے ان کی تہذیب و تدوین کا کام آہستہ آہستہ ہوا، کیونکہ مختلف نسخوں سے مقابلہ کرکے صحیح متن قائم کرنے میں خاصا وقت لگتا رہا۔ یہاں تک کہ 1972ء میں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کا انتقال ہوگیا۔ 1980ء میں میری مراسلت رشید حسن خاں صاحب سے ہوئی اور انہوں نے فرمایا کہ یہ مقالے اب نہ شائع ہوئے تو کبھی نہ چھپ سکیں گے، چنانچہ کتابت شروع ہوگئی اورموصوف سے صلاح مشورہ جاری رہا۔ نتیجہ یہ کہ پیش نظر جلد جس کے بیشتر مقالے لسانیاتی تنقید اور تحقیق کے حامل ہیں، آج پڑھنے والوں کے سامنے ہے اور دوسری جلد کا ڈول بھی ڈالا جاچکا ہے جس کے دو حصے ہوں گے۔ پہلے میں غالبیات اور دوسرے میں عام مضامین۔ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کی ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں ہوئی جہاں انہوں نے فارسی زبان اور خطّاطی کے نکات اپنے ماموں منشی عالم علی شوخی (’’بوستانِ اودھ‘‘ از کنور درگا پرشاد (1892ء، ص 360) اور ’’مشاہیر کاکوری‘‘ (1927ء، ص 232) میں عالم علی شوخی کا ذکر ملتا ہے) سے سیکھے۔ جب علی گڑھ پہنچے تو مولوی خلیل احمد اور پروفیسر جوزف ہورووتس کی شاگردی سے فیض حاصل کیا۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی پروفیسر صدیقی صاحب کو تحقیقِ الفاظ، صَرف نحو، صحتِ املا اور علم لسانیات کے اصول سے گہری دلچسپی پیدا ہوگئی تھی، چنانچہ اس جلد میں سب سے پرانا مضمون ’’اُردو صَرف۔ نحو کی ضرورت‘‘ 1910ء کا ہے جس کو خود مصنف ’’نادانی کے دور کا لکھا ہوا مضمون‘‘ بتاتے ہیں۔ 1912ء میں وہ حکومتِ ہند کے وظیفے پر عربی کی اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے اور پہلی جنگِ عظیم کے بعد 1919 عیسوی میں وطن واپس آئے۔ یورپ کے اس طولِ قیام نے ان کو مختلف قدیم زبانوں جیسے عبرانی، سُریانی، لاطینی، یونانی، سنسکرت اور پہلوی وغیرہ کی وسیع معلومات حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا اور ’’تقابلی لسانیات‘‘ کے اصول سے کماحقہٗ روشناس کرایا۔ وہاں پروفیسر نوئلدیکے، اندریاس اور لتمان جیسے مشہور اساتذۂ فن کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا، جس نے ان کے ذوقِ تحقیق پر صیقل کا کام کیا۔ پروفیسر صدیقی کو اردو زبان سے ہمیشہ بڑا شغف رہا اور وہ سہل اور سادہ زبان لکھنے کے حق میں تھے۔ اپنی تحریروں میں عربی فارسی کے بوجھل الفاظ کے بجائے سیدھے سادے اردو، ہندی لفظوں کو ترجیح دیتے تھے۔ صَرف نحو اور املا کے قواعد مرتب کرنے اور جزیوں سے کلیے قائم کرنے میں مہارت حاصل تھی اور الفاظ کی اصل کا کھوج لگا کر غلط نظریوں اور مفروضوں کی اصلاح کرتے رہتے تھے۔ یہ بھی التزام تھا کہ ہر تحریر حتیٰ کہ نجی خطوں میں بھی اعراب پابندی سے لگایا جائے۔ عبدالستار صدیقی لغت پَرداز بھی تھے، تنقید نگار بھی، مگر وہ اوّل سے آخر تک ایک معلم تھے اور بڑے سوچ بچار کے بعد رائے قائم کرتے تھے۔ اس لیے ان کا ہر مشورہ غور اور عمل کرنے کے لائق ہوتا تھا۔‘‘ مصنف کتاب جناب ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کے مختصر سوانح بھی ہم یہاں درج کرتے ہیں نام :عبدالستار صدیقی پیدائش:سندیلہ۔ ضلع ہردوئی۔ 26 دسمبر 1885 ء، 29 ربیع الاوّل 1303 ھ والد:مولوی عبدالغفار (متوفی 1918ء) ریاست حیدرآباد میں بہ حیثیت سررشتہ دار مال تعینات تھے۔ عبدالستار صدیقی نے ابتدائی تعلیم مدرسۂ فوقانیہ گلبرگہ، سٹی ہائی اسکول حیدرآباد اور چادر گھاٹ اسکول میں حاصل کی۔ 1907 ء:میٹری کلیشن کے بعد علی گڑھ چلے آئے۔ وہاں سے پڑھ کر 1907 ء میں بی۔ اے کیا اور ایم۔اے کے پہلے سال میں داخل ہوگئے۔ پھر صوبہ متوسط میں ملازمت کرلی۔ 1909-10ء:گورنمنٹ ہائی اسکول کامٹی میں فرسٹ اسسٹنٹ ماسٹر رہے۔ 1910-11 ء :پٹوردھن گورنمنٹ ہائی اسکول ناگ پور میں فرسٹ اسسٹنٹ ماسٹر رہے۔ 1912 ء : ملازمت سے استعفا دے کر علی گڑھ واپس آگئے تھے اور 1912 ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اُسی سال سرکارِ ہند نے جرمنی میں عربی کی اعلیٰ تعلیم کے لیے وظیفہ دیا۔ ستمبر 1912ء میں لندن پہنچے اور اکتوبر میں اشتراس بورگ یونیورسٹی میں داخل ہوگئے۔ 1912-13 ء : پروفیسر لتمان سے عربی اور سُریانی، پروفیسر نوئلدیکے سے فارسی اور پروفیسر تھمب سے قدیم فارسی پڑھی۔ 1913-19 ء : گوئے ٹنگن یونیورسٹی میں پروفیسر لتمان سے عربی، سُریانی اور ترکی پڑھی۔ پروفیسر رالف سے عبرانی اور سُریانی، پروفیسر اندریاس سے اَوِستا، پہلوی اور جدید فارسی، پروفیسر مورس باخ سے انگریز صوتیات، پروفیسر اولڈن برگ سے سنسکرت صرف نحو اور ڈاکٹر ہاگین سے فنونِ لطیفہ کی تاریخ کا درس لیا۔ 1916 ء : لاطینی زبان کا امتحان پاس کیا۔ 1917ء : پی ایچ۔ ڈی کے امتحان میں ’’اعلیٰ اعزاز‘‘ کے ساتھ کامیاب ہوئے۔ مقالے کا عنوان تھا: ’’قدیم عربی میں دخیل فارسی الفاظ‘‘۔ 1919 ء:مقالہ شائع ہونے پر پی ایچ۔ ڈی کی باضابطہ سند عطا ہوئی۔ 1920 ء:احادیث میں مستعمل الفاظ کا انڈیکس بنانے میں یورپی مستشرقین کے ساتھ شریک رہے۔ فروری 1920ء سے ستمبر تک ایم اے او کالج علی گڑھ میں عربی کے پروفیسر رہے۔ 1920-24ء:عثمانیہ یونیورسٹی کالج حیدرآباد کے پرنسپل رہے۔ 1924-28ء:ڈھاکا یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے شعبے کی صدارت کی۔1925ء اور 1927 ء کے دوران انسائیکلو پیڈیا آف اسلام (لائڈن) کے لیے چند مضمون لکھے۔1926 ء میں اورینٹل کانفرنس الٰہ آباد کے عربی فارسی کے صدر ہوئے۔ 1927ء میں بمبئی یونیورسٹی کی دعوت پر ’’ولسن فلولاجکل‘‘ خطبے دیے۔ 1928-46 ء:الٰہ آباد یونیورسٹی میں عربی فارسی شعبے کے پروفیسر اور صدر رہے اور ریٹائر ہونے پر ای میری ٹس پروفیسر مقرر ہوئے۔ لنگوئسٹک سوسائٹی آف انڈیا کے اساسی ممبر اور اورینٹل کانفرنس اور انجمن ترقی اردو کے لائف ممبر تھے۔ 1961 ء:صدرِ جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد نے اعزاز اور خلعت سے نوازا۔ 1972ء:28جولائی 1972 ء (م16جمادی الثانی1392ھ) کو الٰہ آباد میں وفات ہوئی۔ مجلس ترقی ادب اور ڈاکٹر تحسین فراقی شکریے کے مستحق ہیں جو اس قسم کی علمی کتب شائع کررہے ہیں۔ یہ تمام کتب محکمہ اطلاعات و ثقافت حکومتِپنجاب کے تعاون سے شائع ہوتی ہیں، اس علم پروری پر محکمہ اطلاعات اور ثقافت حکومتِ پنجاب بھی توصیف و تحسین کا حقدار ہے۔ مسلمان حکومتوں نے ہمیشہ علم اور علماء کی سرپرستی کی ہے۔ اس زندہ روایت کی پیروی کرنے پر حکومتِ پنجاب بھی شکریے کی مستحق ہے۔ کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نام کتاب:تذکارِ رفیع ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: حیات و خدمات ترتیب و تہذیب:ڈاکٹر ظفر حسین ظفر ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اردو علامہ اقبال یونیورسٹی۔ اسلام آباد صفحات:304 قیمت 500 روپے فون:+92 322 5177413 ای میل:alfathpuslicatious@gmail.com تقسیم کندہ :وی پرنٹ بک پروڈکشنز +92-345-1138927 +92-300-5192543 ای میل :vprint.vp@gmail.com ویب گاہ :www.vprint.com.pk وی پرنٹ392-A گلی نمبر 5-A ، لین نمبر 5 گلریز ہاؤسنگ اسکیم 2- راولپنڈی تذکارِ رفیع بہت ہی عمدہ کتاب ہے جو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی حیات و خدمات پر بہت خوبصورتی سے ترتیب دی گئی ہے ہم اپنا یہ تعارف ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کی تحریر سے شروع کرتے ہیں جو خود ایک حسین نثر ہے۔ ’’اس عہد کم توفیق میں عظمت کا معیار یہ رہ گیاہے کہ کوئی بھی شخصیت اپنے علمی اور ادبی کروفر کا قدم قدم پر یقین دلائے، چاہے اس اظہار ذات کے عمل میں شخصیت کا جمال ہی متاثر کیوں نہ ہو لیکن ہمارے ہاشمی صاحب اس گروہ سے متعلق ہیں، جنہیں خلوص اور محبت کی دولت سے وافر حصہ ملا ہے۔ یہ لوگ تعداد میں کم سہی، قدرو منزلت میں کم نہیں ہوتے۔ یہ علمیگ ہر ہائے آب دارو رولتے نہیں ان کی نمائش نہیں لگاتے بلکہ اپنے شاگردوں اور عزیزوں میں تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ اس گروہ کے افراد سادگی اور خلوص کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ نمود و نمائش کے سکے ان کے ہاں بار نہیں پاتے۔ افسوس ان سے میر کو صحبت نہیں رہی۔ ہاشمی صاحب متحمل مزاج، متواضع اور بے انتہا محبت اور شفقت کرنے والے آدمی ہیں۔ سادگی ان کا شعار بھی ہے اور وقار بھی ان کی زندگی اور زندگی کے تمام تر معاملات سادگی میں ڈھل گئے ہیں۔ بناوٹ اور تصنع کا ان کی زندگی میں کہیں گزر نہیں او ریہ وہ خوبی ہے، جو انہیں اپنے معاصرین میں ممتاز کرتی ہے۔ وہ مشرقی تہذیب کے پروردہ ہیں۔ ان کی شخصیت اس تہذیب اور روایت کی علامت بن گئی ہے۔ سچے اور سچے جذبوں کے امین سراپا خیر۔ بے مثال و بے نظیر۔ ہاشمی صاحب زندہ دل بھی ہیں اور شگفتہ مزاج بھی۔ ان کی سنجیدگی شگفتگی اور زندہ دلی سے ضیا بار ہے وہ باغ و بہار آدمی ہیں ان کے رویوں میں تازگی بھی ہے اور شادابی بھی بہت کم دوست جانتے ہیں کہ ان کی آواز بہت اچھی ہے۔ ان کا ترنم اپنے اندر سوز اور گذار کی مہکار رکھتا ہے۔،، ڈاکٹر ظفر حسین ظفر تحریر فرماتے ہیں۔ رفیع الدین ہاشمی صاحب نے 1960 ء کی دہائی میں جس علمی سفر کا آغاز کیا تھا وہ آج بھی پوری مداومت کے ساتھ اس پر عازم سفر ہیں۔ استقامت عمل کی ایسی مثالیں ہمارے معاشرے میں نایاب تو نہیں لیکن کم یاب ضرور ہیں۔ علمی ریاض کے اس طویل سفر میں ہاشمی صاحب نے علم و ادب کی تقریباً ساری ہی جہتوں میں کم یا زیادہ حصہ ڈالا ہے مثلاً: طالب علموں کی نصابی ضرورت کے مطابق تفھیم اردو اور اقبال کی طویل نظمیں، سرور اور فسانۂ عجائب، اصناف ادب، اقبال بحیثیت شاعر جیسی کتب انہوں نے تالیف کیں جن سے گزشتہ پچاس برسوں میں ہزاروں طالب علم مستفید ہوئے۔ تخلیقی ادب میں بھی انہوں نے جاپان اور اندلس کے سفر نامے تحریر کیے جن میں ایم فل کا ایک سندی مقالہ بھی مکمل ہوچکا ہے۔ انشآئیہ نگاری بھی ان کا موضوع رہا۔ اس طرح فکر مودودی کے شارحین میں بھی ان کا نام بہت معتبر تصور کیا جاتا ہے۔ مولانا مودودی کے خطوط کے دو مجموعے، سیرت سرور عالم (مدنی دور) اور کتابیات موددی کی ترتیب جیسے وقیع کام وہ مکمل کرچکے ہیں لیکن ان سارے کاموں کے باوجود اقبالیات ان کے فکر و فن کی پہچان ٹھہرا ہے۔ اقبالیات میں ان کا کہا او رلکھا اب ایک سند کا درجہ رکھتا ہے۔ سید حسن البنا سے کسی نے استفسار کیا تھا کہ آپ کتابیں تصنیف نہیں کرتے تو انہوں نے جواب میں فرمایا تھا : انا اصنف الرجال (میں انسان تصنیف کرتا ہوں۔)ہاشمی صاحب نے بھی تحقیق و تنقید کے مختلف موضوعات پر اعلیٰ درجے کی کتابیں تصنیف کرنے کے ساتھ ساتھ تنقیدی و تہقیقی شعور اور علم نافع بانٹنے والے شاگردوں کی ایک ٹیم تصنیف کی ہے۔ ڈاکٹر ہاشمی کی سوانح اور کتابیات کی ترتیب کا اولین کام ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر نے 2005 ء میں مکمل کیا تھا، ازاں بعد ڈاکٹر ظحور احمد مخدومی (سری نگر) نے 2013 ء میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: حیات و خدمات اور ڈاکٹر خالد ندیم نے ارمغان رفیع الدین ہاشمی (2013 ئ) پیش کرکے اپنی اس علمی و تہذیبی روایت کے احیا کی کوشش کی، جہاں استاد کا فیضان نظر ہی شاگرد کی متاع کل سمجھی جاتی تھی۔ زیر نظر مجموعہ بھی دراصل اسی تہذیبی روایت کا تسلسل ہے۔ اس کتاب کی ترتیب کا خیال جونہی سامنے آیا تو دل سے دعا نکلی: ’یہ، اک خیال کہ کاش لفظوں میں ڈھل سکے احباب کا کرم ہے کہ انہوں نے نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ ہاشمی صاحب کے ساتھ بیتے دنوں کی یادوں کو مرتب کرکے راقم کے خوابوں کی تعبیر کی روشنی عطا کی اور استاد گرامی کی شخصیت پر محیط یادوں کا ایک گلدستہ جمع ہوگیا۔ زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر ہاشمی کے معاصرین کے ساتھ ساتھ ان کے شاگردوں اور عزیزوں کی تحریر میں بھی شامل ہیں۔ ہر تحریر سے ڈاکٹر ہاشمی کی شخصیت کا کوئی نہ کوئی پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اردو علامہ اقبال یونیورسٹی اسلام آباد نے کتاب پر مقدمہ عرض ناتمام کے عنوان سے لکھا ہے۔ ’’ڈاکٹر رفیع الدین (پ:1942 ئ) کا شمار ہمارے عہد کے ان برگزیدہ اور چنیدہ اہل علم میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کو علم و ادب کے فروغ کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ نصف صدی سے زیادہ عرصے پر پھیلا ہوا ان کا شان دار علمی و ادبی سفر علم و ادب کے ساتھ ان کی سچی اٹوٹ وابستگی کا مظہر اور ان کی بے پناہ تصنیفی ، تخلیقی اور ادبی صلاحیتوں کا اظہار یہ ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صحیح معنوں میں ہشت پہلو شخصیت ہیں۔ مختصصینِ اقبال میں انہیں سند اور اعتبار کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی تحقیقات، تدوینات، مرتبات اور انتخابات نے بلاشبہ اقبالیات کے شعبے کی ثروت مندی میں اپنا حضہ ڈالا ہے۔ انہوں نے اپنے بعض اسفار کے احوال کو نہایت عمدگی کے ساتھ سفرنامے کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ان کے سفر نامے مندرجہ جات کی ندرت اور اندازِ تحریر کی دل کشی کے باعث عوام و خواص میں بے حد مقبول ہوئے۔ ایک ماہر تلعیم کی حیثیت سے انہوں نے نہایت فعال اور موثر کردار ادا کیا۔ اولاً وہ پنجاب کے مختلف کالجوں سے بہ طور استاد وابستہ رہے ، ازاں بعد اورینٹل کالج، جامعۂ پنجاب کے ساتھ وابستہ ہوئے اور صدر شعبہ کے منصب تک پہنچے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بہ طور ایمی نینٹ پروفیسر اور اب شعبۂ اقبالیات کے جزوقتی پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ متذکرہ بالا شعبوں میں فعال اور مثالی کار گزاری کے باوصف وہ عجز اور انکسار کا مجسمہ ہیں۔ شہرت اور نام وری کے باوجود شخصی اوصاف و کمالات کا نمونہ۔ فطری درویشی اور مسکینی نے ان کی شخصیت کو ایسی کشش اور دل پذیری عطا کی ہے جو ہر کسی کا مقسوم نہیں ہوتی۔ قدرت نے انہیں بڑی فیاضی کے ساتھ اعلا انسانی اوصاف و خصائل سے متصف کیا ہے۔ وہ ہمارے عہد کی آبرو اور وقار ہیں۔ وہ بلاشبہ اسلاف کی نشانی اور بزرگان گزشتہ کی یادگار ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی کا یہ شعر ان کی شخصیت پر پورا پورا صادق آتا ہے: بہت جی خوش ہوا، حالی سے مل کر ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی عمل کے خوگر اور تحرک کے داعی ہیں۔ اگر انہیں علامہ اقبالؒ کے فلسفۂ جدوجہد تحرک کی علمی مثال قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ وہ وقت کو متاع گراں ارزش خیال کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے آپ کو مصروف کار رکھتے ہیں۔سفر ہو یا حضر، ان کے اس معمول میں فرق نہیں پڑتا، وہ ہر طرح کے حالات میں اس پر سختی سے خاربند رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا ہر کام وقت پر اور بسااوقات وقت سے بھی پہلے انجام دے کر سرخرو ٹھہرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اپنے عزیزوں، رشتہ داروں، شاگردوں اور دوستوں کو بھی وقت کی قدر و قیمت کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ ان کے اندر کا استاد جاگتا رہتا ہے، وہ درد مندی، دل سوزی اور محبت کے ساتھ اپنے وابستگان کی خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا فرض ادا کیے جاتے ہیں۔ ان کی اس بے غرض اور بے لوث خبر گیری کے باعث ان کے کئی نیاز مندوں نے بروقت اپنا تحقیقی اور تصنیفی کام کرکے عزت حاصل کی ہے۔ عہد رواں میں جب ہر کوئی اپنی ذات کے حصار سے باہر جھانکنا گناہ سمجھتا ہے، ہاشمی صاحب یہ گناہ تسلسل اور تواتر کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ہاشمی کی شخصیت کا دوسرا بڑا وصف ان کی سادگی اور بے تکلفی ہے۔ بناوٹ اور ظہار داری سے انہیں لگاء نہیں۔ ان کی باتیں، ان کا رہن سہن، ان کا کھانا پینا او ران کا لباس ہمیشہ سادگی کا مظاہر رہا ہے۔ تعیش اور فضول خرچی سے وہ ہمیشہ مجتنب رہے ہیں مگر جہاں خرچ کرنے کی ضرورت ہو، بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ منصورہ ، لاہور میں چار مرلے کا ایک چھوٹا سا گھر ان کی شخصی درویشی کا واضح ثبوت ہے۔ وہ لاہور میں اس سے کہیں بڑا اور کشادہ گھر بناسکتے تھے مگر انہوں نے ’’دنیا،، کو کم کم اپنے قریب آنے دیا ہے۔ وہ اس چھوٹے گھر پر شاکر اور قانع ہیں۔ اولاد کی تربیت بھی انہوں نے صبر و شکر، توکل اور قناعت کے رنگوں سے کی ہے، وہ بھی اس چھوٹے سے گھر میں ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔ عزیز، رشتے دار، طالب علم ، دوست اور دوسرے مہمانوں کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں پاتا، یہ چھوٹا سا گھر مہمان نوازی اور خاطر تواضع کو ہر وقت اور ہر کسی کے لیے حاضر ہے۔ ریاکاری اور دکھلاوے کا یہاں گزر نہیں، سادگی اور محبت کا یہاں رواج عام ہے۔ وہ خود جب کسی کے مہمان بنتے ہیں، یہی سادگی ہم رکاب ہوتی ہے۔ میزبان متمول ہو یا غریب، گھر شاندار اور پُرآسائش ہو یا معمولی اور واجبی، ہاشمی صاحب کا معمول نہیں بدلتا۔ رات کو جلدی سونا اور سویرے جلدی بیدار ہونا ان کی عادت ہے۔ اپنا گھر ہو یا دوسرے کا، اس عادت میں تعطل نہیں آتا۔ اپنے معمولات اور عادات پر اس قدر مداومت بے حد مشکل کام ہے۔ ہاشمی صاحب معاملات کے کھرے اور سچے ہیں۔ جس سے جو بھی معاملہ ہو، خوش اسلوبی سے انجام پاتا ہے۔ دوستوں حتیٰ کہ شاگردوں کی فرمائش پر مختلف کتب خانوں اور طباعتی اداروں سے کتابیں خریدنا اور بھجوانا ان کا روز کا معمول ہے۔ اپنے پلے سے رقم خرچ کرکے (چاہے وہ بعد میں مل بھی جائے)، لاہور کے بے ہنگم رش اور شور شرابے کو برداشت کرکے کتابوں کی جمع آوری اور ان کی ترسیل تک کے مراحل کو طے کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہاشمی صاحب ایسے ایثار پیشہ اور درد مند انسان ہر دور میں کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں۔عام لوگ ان کے سنجیدہ اور ثقہ علمی کاموں کو دیکھتے ہوئے انہیں زاہد خشک خیال کرتے ہیں تاہم ایسا نہیں ہے۔ نجی محفلوں اور دوستوں کے حلقوں میں ان کی شگفتہ گفتاری دیدنی ہوتی ہے۔ وہ حسب موقع ظرافت اور مزاح سے بھی کام لیتے ہیں اور طنز سے بھی۔ ان کے کاٹ دار جملوں میں نے کئی اصحاب کو تلملاتے اور مرغ بسمل کی طرح لوٹتے دیکھا ہے۔ دل آزاری ان کا مسلک نہیں مگر حق گوئی اور بے باکی اُن کا شعار ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے فکر و فن پر کئی جامعات میں ایم اے اور ایم فل کی سطح کے کئی تحقیقی اور تنقیدی مقالات لکھے جاچکے ہیں۔ معاصر علمی و ادبی شخصیات نے ہمیشہ ان کے تصنیفی و تحقیقی کارناموں کو بہ نگاہ تحسین دیکھا ہے اور دل کھول کر داد دی ہے۔ ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر نے ان کے سوانح اور کتابیات مرتب کرکے اور ڈاکٹر خالد ندیم نے ارمغان علمی پیش کرکے اپنے استاد گرامی کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ان سب کے باوجود ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زندگی کے بہت سے رنگ مخٹلف افراد کے ساتھ ان کے شخصی روابط اور عزیز واقارب کے ساتھ ان کے مثالی برتاؤ کے متعدد نمونے جمع ہوں۔ خوشی کی بات ہے کہ ڈاکٹر ہاشمی کے ڈاکٹر اور نیاز مند ڈاکٹر ظٰر حسین ظفر نے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے زیر نظر کتاب مرتب کی ہے۔ یہ کتاب رنگا رنگ اور خوش نما تحریروں کا گل دستہ ہے۔ ’’ہر گلے رارنگ و بوئے دیگر است،، کے مصداق ہر تحریر کا اپنا رنگ ، رس اور ذائقہ ہے۔ یہ ہاشمی صاحب کے دوستوں ، عزیزوں ، قدر دانوں، شاگردوں اور نیاز مندوں کے تجربات و مشاہدات اور ڈاکٹر ہاشمی کے ساتھ ان کے روابط اور تعلقات کے تذکار جمیل پر مشتمل ہے۔ ان تحریروں کے آئینے میں ایک ایسے جامع کمالات اور متنوع صفات بزرگ شخصیت کی تصویر ابھر کر سامنے آٹی ہے، جسے بلاشبہ ہمارے عہد کی آبرو قرار دیا جاکستا ہے۔ ڈاکٹر ظفر تحسین و تبریک کے سزا وار اور داد کے مستحق ہیں جنہوں نے ان مضامین کی جمع آوری، ترتیب و تہذیب اور اشاعت کے مراحل خوش اسلوبی سے سر کیے ہیں۔ اللہ کریم ان کی اس بے لوث خدمت کو قبول کرے او ران کے جذبوں و شوق کی دنیا کو ہمیشہ شاداب رکھے۔ آمین بجا سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ کتاب سات حصوں میں منقسم ہے جس کی تفصل درج ذیل ہے۔ (1) ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: سوانحی جھلکیاں۔ ڈاکٹر خالد ندیم، بھائی جان ۔ڈاکٹر عبداللہ شاہ ہاشمی (2) فکر اقبال کا امین۔ پروفیسر خورشید احمد،شاہراہ اقبال کے سنگ نشاں: رفیع الدین ہاشمی ۔ پروفیسر عبدالحق، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: علمی لگن کی نادر مثال ۔ ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: ہم سفری کے چند تاثر۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل، ہاشمی صاحب۔ عبدالعزیز ساحر، لاہوری تاج محل۔ رؤف پاریکھ، اک اجنبی سا آشنا یا آشنا سا اجنبی ۔ غلام قادر آزاد، ہمارے ہاشمی صاحب۔ ملک حق نواز خاں، ہاشمی صاحب: میری نظر میں،م۔ب کیف عرفانی، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور جے جے تھامسن۔ یعقوب نظامی، استاد محترم: تحرک اور جدوجہد کی علامت۔ جاوید اصغر، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: میرے مرشد، میرے استاد۔ ڈاکٹر راشد حمید، بھلا مانس پروفیسر۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، آگے اندھیرا ہے۔ ڈاکٹر شفیق انجم، شجر سایہ دار: پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ سکندر حیات میکن، اچھا تو ٹھیک ہے۔ محمد ایوب للہ، دادا استاد۔ ڈاکٹر سلمان علی، نام تو برلوحِ سینہ صد جانوشتہ ایم۔ قاسم محمود احمد، آئینۂ قبلہ نما۔ محمد عمران طاہر، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: میرے استاد میرے مربی۔ ذوالفقار احمد ساحر، ہاشمی صاحب: میرے پیر، میرے مرشد۔ مظہر دانش، میرے استاد گرامی۔ حمید اللہ خٹک، ہاشمی صاحب۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر۔ (3) دنیائے تحقیق کا قطب ۔ ڈاکٹر طالب حسین سیال، ہاشمی صاحب اور ان کی علمی رہنمائی۔ محمدراشد شیخ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی تحقیقی شخصیت کے چند پہلو۔ ڈاکٹر رفاقت علی شاہد، غیر روایتی قسم کے حقیقی سفر نامہ نگار: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ڈاکٹر محمد افتخار شفیع، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بطور انسائیہ ۔ڈاکٹر سکندر حیات میکن، تصانیف اور تالیفاتِ ہاشمی کا تعارف۔ فیاض نقی (4)ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے مسافرت نامے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر، مکاتیبِ رفیع الدین ہاشمی بہ نام ملک حق نواز خاں۔ سید نصرت بخاری، درویش منش استاد۔ زیب النساء۔ (5)مکتوب بنام استاد محترم۔ محمد اکرم، استاد گرامی کے نام خط ۔ نسیم سرفراز، (6) ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے ایک مصاحبہ۔ ظفر حسین ظفر، کوائف نامہ: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ سلیم منصور خالد۔ (7)اسلامی تہذیب اور روایت میں گندھا ہوا آدمی۔ عبدالعزیز سارحر، ہاشمی صاحب کے لیے ایک نظم۔ ارشد محمود ناشاد، حضرت ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی نذر۔ محمد افتخار شفیع۔ غرض یہ کتاب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے شایان شا ن اور مرتب ڈاکٹر ظفر حسین ظفر کے لیے باعث عزت اور توقیر ہے۔ جناب ارشد محمود ناشاد نے نظم میں بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا وہ ہم یہاں درج کرتے ہیں۔ کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوئی ہے مجلد ہے۔ ہاشمی صاحب کے لیے ایک نظم پیکرِ صدق و صفا منبعِ الطاف و کرم چشمۂ فیض و عطا، وارثِ قرطاس و قلم تجھ سے قائم ہے مرے عہد میں دانش کا وجود تجھ سے باقی ہے مرے عہد میں حکمت کا بھرم بے امانوں کے لیے تو ہے حصارِ شفقت خستہ حالوں کے لیے تو ہے نویدِ مرہم تجھ سے درماندہ مسافر کو ملا ذوقِ سفر تو نے بھٹکے ہوئے آہو کو دکھایا ہے حرم تو کڑی دھوپ میں چھتنار شجر کی صورت جس کے سائے میں ہوا میرا زمانہ خوش دم عجز ملبوس ترا، صدق ہے دستار تری تیرا کردار ترا طرزِ عمل ہے ریشم فکرِ اقبال کی توضیح وظیفہ ہے ترا موجۂ آبِ رواں ہے ترا رہوارِ قلم