جگر مراد آبادی کے خطوط - قسط 02 - تحریر : محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Mufti Mohammed Raza Anasari

Published in - Yadaun Kay Chiragh

07:43PM Sun 28 Jan, 2018

   ۷۸۶

گونڈہ

مولاۓ مخلص و مکرم زاد لطفہ

علیکم السلام ورحمتہ اللہ برکاتہ

آپکے دو مکتوبات نظر نواز ہوۓ،میری علالت کا سلسلہ جاری ہے ۔روزانہ لکھنؤ جانے کا ارادہ کرتا ہوں اور روزانہ ختم کر دینا پڑتا ہے ، کل کسی ٹرین سے غالبا ً روانہ ہو سکوں ۔

میرا یہ عالم ہے کہ جیسے اب کسی چیز میں کوئ دلکشی باقی نہیں رہ گئ ہے یہی علامت ہے کہ غالبا ً زمانہ طلبی کا قریب تر آتا جا رہا ہے ، میں نے یہ محسوس کر کے کہ صحت بھی جواب دیتی  جارہی ہے،خدا جانے کس وقت دنیاۓ اعتبار کو الفراق کہہ دینا پڑے ،عام مشاعروں کی شرکت سے یک سر گریز کر لینے کا تہیہ کر لیا ہے ، آپ کے علم میں ہے کہ قریب قریب دو یا ڈھائ سال سے گونڈہ میں ’اصغر صاحب رحمۃ اللہ علیہ‘ کی یادگار کے طور پر ایک انگریزی اسکول کی بنیاد ڈالی گئ ہے ،جسکا نام ’ اصغر رفاہ عام اسکول ‘ رکھا گیا ہے ،اب میں اپنی باقی  ماندہ عمر کا بڑا حصہ اسی ادارے کی نذر کرنا چاہتا ہوں ،میری ہر سعئ اور میرا ہر عمل اسکو ترقی دینے کے لۓ وقف ہوگا ،میری تمنا ہے کہ ایک سال کے اندر اسکی مالی حالت اتنی بہتر ہوجاۓ کہ کم از کم انٹرنس تک پہنچا دیا جاسکے ،اسکے بعد پھر اگر حیات باقی ہے تو ’کالج ‘ کی تعمیر پیش نظر ہوگی۔ انشأ اللہ تعالی۱ جلد آپ سے ملوں گا اور تب سبھی باتوں کے متعلق گفتگو ہوگی ۔

مولانا ۔۔۔ بہت کم اس طرح کے انسان ہوتے ہیں جن سے ملکر روح خوش ہوتی ہے اور جن سے ملتے رہنے  کوجی چاہتا ہے ،اسے ایک حقیقت سمجھیۓ کہ آپکے اندر میں یہ خوبی ضرور پاتا ہوں،لیکن، فطرت کی ستم ظریفی دیکھیۓ کہ ربط و اتحاد مذاق کے باوجود ہم لوگ ایک دوسرے سے کسقدر دور رہنے پر مجبور ہیں ، میں اس زمانے میں کیا کہوں ،کبھی کبھی تو خیال ہوتا ہے کہ بہتر قسم کا کاریگر شاعر ہوتا کہ فکر سخن تو جاری رہتی،بہرحال جو کچھ ہے اور جو کچھ آئندہ ہوگا ، انشأ اللہ تعالی۱ آپکے لۓ  سب سے پہلے حاضر کروں گا ۔

میں تیس کی شام کو یقینا ً لکھنؤ پہنچ جاؤں گا  ۔امید کہ مزاج گرامی بفضلہ تعالی۱ بہ عافیت ہوگا 

احقر ۔۔۔ ’جگر مرادآبادی عفی عنہ

جولائ تینتالیس سے جولائ اننیس سو چوالیس تک ماہ نامہ’منزل ‘لکھنؤ سے نکال رہا تھا ،شاید اسی سلسلے میں ’جگر ‘ صاحب سے تبادلۂ خیال کرنے گونڈہ جانے کا پروگرام بنا کر انکو اطلاع دی ،جواب یہ آیا ، جس پر حسب معمول تاریخ نہیں ڈالی گئ ہے، لیکن ، میرے قلم سے بطور یاد داشت ’چار مارچ چوالیس ‘ پوسٹ کارڈ پر درج ہے ۔

۷۸۶

محبی و مخلصی زاد لطفہ

وعلیکم السلام ۔ چشم براہ رہوں گا ، چھہ سے دس تک کی تاریخیں گونڈہ ہی میں گزارنا چاہتا ہوں ،ضرور تشریف لایۓ،انشأ اللہ تفصیلی طور پر گفتگو ہوگی اور بہت ممکن ہے اطمینانی ،اس گفتگو کا

  نتیجہ بہتر اور مفید نکلے، میں سفر سے دو کو واپس ہوا ہوں ،کسی قدر طبیعت پھر ناساز ہوگئ ہے ، لیکن، امید ہے کہ جلد صحب ہو جاۓ گی ۔

احقر ’ جگر‘عفی عنہ

یہ ’ تفصیلی گفتگو ‘ماہنامہ ’ منزل ‘ کے سلسلے ہی میں ہوبرکاتہ ہوگی ، کم از کم دو غزلیں ’ جگر صاحب‘ نے اپنے قلم سے لکھ کر ماہنامے کے لۓ دی تھیں ،[۱]’غم ہے کیا ، زینت صفات و ذات ۔۔۔۔ غم نہیں ہے تو آرزو نہ حیات ‘   

[۲]’حسین دل متبسم نگاہ پیدا کر 

پھر اک لطیف سی خاموش آہ پیدا کر ‘

دوسری غزل کے آخر میں [نا تمام ] لکھا ہے ،جسکے پانچ شعر تھے ،پہلی غزل نو شعروں کی تھی ،دونوں ماہنامہ ’منزل ‘ میں شایع ہوبرکاتہ تھیں ۔

ذیل کا خط جنوری چوالیس کے آغاز کا معلوم ہوتا ہے اور ’منزل‘ ہی سے متعلق ہے۔۔

۷۸۶

گونڈہ

محبی ومخلصی حضرت مولانا زاد لطفہ

وعلیکم السلام ورحمہ اللہ وبرکاتہ

’منزل‘ اور منزل کے ساتھ آپکا نامٔہ گرامی ملا، کاش،ایک ہفتہ پہلے مل جاتا ،اس زمانے میں فرصت عنقا ہے،میرا پروگرام حسب ذیل ہے۔

پندرہ۔علیگڑھ،۱ننس بیس ۔ناگپور ،تیئس ۔ لاہور ،ستتابرکاتہس۔ باندہ، انتیس ۔ بجنور اور تین فروری ۔پشاور 

’منزل‘ کی رفتار ترقی قابل اطمینان ہے ۔مضامین کے انتخاب کا کیا کہنا ،مجھے یقین ہے کہ مستقبل قریب میں ،آپ جیسی مخلص و سرگرم ہستی کے زیرادارت و اہتمام یہ رسالہ ہندوستان کی بزم صحافت میں صف اول میں بھی ایک خاص اور امتیازی مقام حاصل کرے گا ۔اگرچہ دقتیں اور دشواریاں قدم قدم پر حائل ہوتی رہیں گی۔

مولانا ۔۔۔۔ میں ہر طرح اور بہ ہر صورت ’منزل ‘کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتا ہوں ۔

چھ سات یا آٹھ تک محض آپسے ملنے کے لۓ اور ’ منزل ‘کے متعلق گفتگو کرنے کے لۓ حاضر ہوں گا ،یقین ہے کہ آپ سے فرصت کی ملاقاتیں کارآمد ثابت ہوں گی ۔

احقر۔۔۔۔ ’جگر ‘ مرادآبادی عفی عنہ

پھر اسی سلسلے میں جولائی چوالیس میں ،اپنے مصارف سے مجھے حیدرآباد دکن ساتھ لے گۓ ،یہاں یہ ظاہر کردینا ضروری ہے کہ ’ جگر ‘ صاحب اپنی ذات کے لۓ بھی کسی سے مدد کی کبھی درخواست نہیں کرتے تھے اور میرے لۓ بھی۔ اس لۓ کہ انکے الفاظ میں ۔۔’آپ بھی میرے عزیز کی طرح ہیں ، آپ کے لۓ کہنا ’اپنے لۓ کہنے کے مترادف ہوگا ،‘انکو سفارش کرنے میں تامل رہتا تھا ، اس لۓ حیدرآباد میں وہ صرف دو موقعوں  پر دبی زبان سے میرا اور ’منزل ‘ کا تعارف کرا سکے ۔ایک مسز سروجنی نابرکاتہڈو کے یہاں شعری نشست کے بعد ،مسز  نایئڈو نے دوسرے تیسرے دن مجھے اپنے یہاں بلایا تھا مگر اکیلے میں ان کے یہاں جانے سے کترا گیا ،دوسرے قاضی عبدالغفار صاحب سے ،جو حیدرآباد میں روزنامہ ’پیام ‘ کے مالک و مدیر تھے ۔ان سے سفارش اس بنا ٔ پر کی کہ انکے الفاظ میں ’قاضی صاحب میرے ہم وطن ہیں ،‘[قاضی صاحب مرادآباد کے رہنے والے تھے ،علی گڑھ میں ’انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے آخر میں رہ رہے تھے ،وہیں وفات پائی  وہیں مدفون ہیں ]  

بہرحال اس سفر میں ’منزل ‘کے سلسلے میں کوئ پیش رفت نہیں ہوبرکاتہ ، ہوتی بھی تو شاید شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا اس لۓ کہ ’کوٹہ سسٹم ‘ کے نفاذ نے ’ منزل ‘کو اگست سن چوالیس کو بند ہونے پر مجبور کر دیا ۔

بایئس تیئس روز حیدرآباد میں جگر صاحب کے ساتھ ہی  قیام کے دوران میں انکی اعلی سیرت کے بہت سے نۓ پہلو مشاہدے میں  آۓ ۔خاص طور پر انکی خودداری اور عزت نفس کے کئی مظاہرے ،جاگیرداری ماحول میں غرق اس شہر میں دیکھنے کو ملے ۔

تین برس کے بعد ملک کی تقسیم کا واقعہ پیش آگیا ،’جگر صاحب ‘ کا خاص مشغلہ ’شرکت مشاعرہ‘ ختم ہو گیا ،بلکہ شعرگوئ بھی ان حالات میں انکے لۓ دشوار ہو گئی ،دسمبر سن سینتالیس میں انہوں نے ایک طویل نظم کہی تھی ۔۔۔

’ فکر جمیل ،خواب پریشاں ہے آجکل 

شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آجکل

ہے زخم کائنات جو ہندو ہے ان دنوں 

ہے داغ زندگی جو مسلماں ہے آجکل ‘

پھر انکے اعزا اور احباب کا ترک وطن ،اور خود انسے بھی اصرار کہ وہ بھی سرحد پار مستقل چلے آیئں ۔جگر صاحب وطن میں قیام کے ارادے پر بہرحال اٹل رہے۔اس زمانے میں انکی ذہنی کیفیت دیکھنے والی تھی ،میں بھی ذہنی اور مالی ، دونوں طرح پریشان تھا ،طرفین میں مراسلت اسی ماحول میں ہورہی تھی ، میں نے کسی ادبی ادارے یا ادبی رسالے کے بارے میں ایک خاکہ بنایا تھا ،جگر صاحب کا ذیل کا خط اسی سلسلے میں ہے ۔

۷۸۶

گونڈہ

۱۱ فروری ۔۔۔اننیس سو چوالیس 

حبیبی و محبی زاد کرمہ 

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ، بہت دیر کے بعد مکتوب گرامی کا جواب حاضر کر رہا ہوں ، میں تا امکان جس قدر جلد ممکن ہو سکا صرف آپ سے مل کر ایک پروگرام مرتب کرنے کے لۓ پہنچوں گا ، آپ یقین کریں کہ آپ کے ہر کام کو میں  خوداپنا کام تصور کرتا ہوں ، لیکن ، میرا عالم یہ ہے کہ خود اپنے کام بہت سے کاموں سے غفلت برتنے کا مجرم عادی بن چکا ہوں ،تاہم ، اس کام کو فرض سمجھ کر حاضر ہوں گا ،میرے متعلق جو بھی  امکانی خدمت ممکن ہو سکتی ہے ،اس کے لۓ  صمیم قلب سے حاضر ہوں اور انشأ اللہ رہوں گا ۔

    ’جگر‘ مرادآبادی عفی عنہ

اگست ،اننیس سو اڑتالیس ہی میں روزنامہ ’ قومی آواز ‘لکھنؤ ‘ کے عملۂ ادارت میں سب سے چھوٹی پر میرا تقرر ہو گیا ،’جگر صاحب ‘ کو یک گونہ اطمینان ہوا ،مگر جب مشاہرے کی نوعیت معلوم ہونے پر فکرمند ہو گۓ اور اگست اکاون [۵۱]میں مجھے تار دیکر گونڈہ بلایا اور ڈھاکہ [سابق مشرقی پاکستان ] سے اردو کا ایک سرکاری ماہنامہ نکالے جانے کی مجوزہ اسکیم کے سلسلے میں ایک ’اچھے اور قابل ایڈیٹر ‘کے انتخاب کا ذمہ ’جگر صاحب ‘ نے خود لیا تھا ۔افسروں کی اس گفتگو میں شامل ایک شناسا سے مجھے معلوم ہوا کہ ’اچھے اور قابل اڈیٹر ‘کے ضمن میں انہوں نے میرا نام لیا تھا ،واپس آکر مبہم انداز میں جگر صاحب نے کہا بھی تھا ۔۔۔’ مولانا۔۔۔مجھے ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ میں آپکی کوئی خدمت نہیں کر سکا ،اب ایک اچھی صورت سامنے آئ ہے اور آپکے ذوق کے مطابق ہے ۔ ‘ 

مشرقی پاکستان جانے کے لۓ اس زمانے میں پاسپورٹ ،ویزہ کا چکر نہ تھا  ،جگر صاحب کے فرمانے پے میں نے قومی آواز سے دو ماہ کی رخصت لی اور انکے ساتھ ڈھاکا گیا ، اردو روزنامے کی اسکیم تو وہاں کھٹائی میں پڑ چکی تھی ،انجمن ترقی اردو ۔مشرقی پاکستان کے آفس  سکریٹری کی جگہ پر مجھے کہہ سن کر مقرر کرادیا ،مشاہرہ بھی قومی آواز کے مقابلے میں چوگنا طے پایا ،، جگر صاحب دو ہفتے بعد چلے آۓ، میں نے دو مہینے جوں توں گزارے پھر اپنی ملازمت پر لکھنؤ واپس آگیا ،جگر صاحب سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے ۔’ اگر آپکا جی لگ جاتا تو آگے بہت ترقیاں ہوتیں ۔خیر ، مجھے بھی اندازہ تھا کہ آپ وہاں ٹک نہیں پایئں گے ،‘۔

اب جگر صاحب کی صحت بھی گرنے لگی تھی ۔خاص خاص مشاعروں میں ہی شرکت کرتے تھے ۔اننیس سو اٹھاون کی گرمیوں میں سری نگر [کشمیر] میں مشاعرے میں شرکت کی دعوت آئ ۔میں نے انہیں خط لکھ کر انہیں آمادہ کیا کہ کشمیر ضرور جایئے اور اگر کسی ساتھی کی ضرورت محسوس کریں تو میں تیا رہوں ،یہ جواب آیا ۔۔۔۔

گونڈہ 

چھہ مئ اننیس سو اٹھاون 

عزیز گرامی قدر

سلام و رحمت ، ابھی میری حالت قابل اطمینان نہیں ہے ،دو دن قبل بھی ایک دورہ پڑا تھا جس سے کمزوری بڑھ گئ ہے ، میں نہیں کہہ سکتا کہ میں ایک طویل سفر کر سکوں گا یا نہیں ،یوں سوچتا ہوں کہ کشمیر کی آب و ہوا مجھے راس آۓ گی ،ابھی میں کوئ قطعئ فیصلہ نہیں کر سکا ہوں ،حالات اگر سازگار ہوۓ تو قصد رکھتا ہوں ۔

موجودہ صورت حال میں تو خط و کتابت سے بھی معذور ہوں ،آپکا خط بدیر ملا ، میں نے مشروط طور پر کشمیر لکھ دیا ہے کہ میں اگر آیا تو کسی کو ساتھ لیکر آؤں گا اور ایک صاحب کا نام بھی لکھ دیا ہے ، پہلے سے خیال ہوتا اور آپکا خط آجاتا تو میں آپ ہی کے لۓ لکھ دیتا ،بہرحال میں آپکو مطلع کروں گا ۔آپ سے تو عزیزانہ تعلقات ہیں ، میں آپکو ترجیح دیتا ۔

مخلص 

’جگر ‘

مگرانکی صحت نے ساتھ نہیں دیا اور وہ کشمیر نہ جا سکے ،علالت میں سنگینی پیدا ہو گئ ۔علاج کے لۓ لکھنؤ آگۓ[اننیس سو انسٹھ ] انکی علالت اور علاج کے سلسلے میں ’قو می آواز ‘ میں خبریں دینے لگا ۔لکھنؤ کے مخلصین نے اس دوران میں سوچا کہ ’جگر صاحب ‘ کی سنگین علالت اور گراں علاج کے پیش نظر کوئی ایسی صورت کی جاۓ کہ جگر صاحب زیربار نہ ہو پائیں۔ جگر صاحب کو سن گن مل گئ ۔مجھے مڈیکل کالج کے اسپیشل وارڈ سے ایک تحریر بھیجی ۔

۷۸۶

’مخلص مولانا رضا صاحب ؛ شرمندہ ہوں کہ میری وجہ سے بار بار مؤقر روزنامہ ’ قومی آواز ‘کے اہم ترین کالم سیاہ کیۓ جارہے ہیں ،لیکن ، موجودہ ’اعلان ‘ کے بغیر چارہ ٔ کار نہیں ،جتنا بھی ہوسکے مختصر کر کے دیجیۓ۔

’جگر ‘

[اعلان ]

’ بعض مخلصین کی جانب سے میرے کانوں میں یہ آوازیں پڑ رہی ہیں کہ میرے موجودہ حالات کی نزاکت اور علالت جاریہ کے ماتحت میرے لۓ مالی امداد کی پبلک سے ایک عام اپیل کی جاۓ گی ، اگرچہ میں نے زبانی معذرت پیش کر دی ہے ،لیکن چاہتا ہوں کہ تحریرا ً بھی اپنے خیالات کا اظہار کر دوں ۔ میری روح اس طرح کی کسی اپیل سے بجاۓخوش ہونے کے سخت غمناک ہوگی، اور مجھے یقین ہے کہ اس طرح کی غمناکی میری صحت پر بہت برا اثر ڈالے گی ۔‘

’جگر ‘

اس زمانے میں یو پی کے وزیراعلی۱ ڈاکٹر سمپورن آنند تھے ، ان سے حیات اللہ انصاری مدیر ’قومی آواز نے[جیسا کہ انہوں نے خود بتایا ]اور بعض دوسرے بااثر حضرات نے جگر صاحب کی سنگین علالت کا ذکر کرکے ان کے لۓ ادبی پنشن اور مڈیکل کالج میں سرکاری خرچ پر علاج کی تجویز اس وضاحت کے ساتھ رکھی کہ ’جگر ‘ صاحب کے ایسے بلند مقام شاعر ،ضابطے کے مطابق مجوزہ فارم پر درخواست دینے کے لۓ آمادہ نہ ہوں گے ، سرکار کو خود پیش کش کرنا چاہیٔے،سمپورنآنند جی نے سو فی صدی اتفاق  ظاہرکیا اور کارروائی شروع کر دی ،مگر ، جگر صاحب مڈیکل کالج میں جہاں پرہیز اور دوا کے سلسلے میں کوئی رو رعایت نہیں ہوتی تھی ،آرام سے نہ رہ سکے اور جلد ہی اپنے مخلص سید حامد حسین اسلم رضوی [مرحوم ] کے گھر منتقل ہو گۓ جہاں ڈاکٹر عبدالحمید[مرحوم ]کے زیر علاج رہے اور روبصحت ہونے لگے تو ڈاکٹر صاحب سے اجازت لیکر اپنی قیامگاہ گونڈہ چلے گۓ،چند ماہ بعد ۹ ستمبر اننیس سو ساٹھ کو وہیں انتقال ہوا ۔

’جگر صاحب کی تعزیت میں گنگا پرشاد میموریل ہال میں بڑا جلسہ ہوا ،جس کی صدارت مرحوم سید صدیق حسن آئ سی ایس [سینئر ممبر بورڈ آف ریوینو]نے کی، تعزیتی تجویز پیش کرنا میرے سپرد ہوا ۔تقریر کرنے والوں مین اس وقت کے ڈپٹی منسٹر لفٹنینٹ سلطان عالم خاں بھی تھے ،تعزیتی تجویز میں مرحوم امین سلونوی نے اتنی ترمیم چاہی کہ ’ جگر صاحب کی جو ادبی پنشن ،یو پی سرکار سے حال میں ملنے لگی تھی ، وہ جگر صاحب کی بیوہ کے نام جاری کر دی جاۓ۔

دوسرے دن صبح صبح سید صدیق حسن صاحب نے مجھے فون کیا کہ ’بھئ، سنو ، ایک ’ پٹھان ‘ نے ایسا کام کر دیا جو ’سید ‘ کے کرنے کا تھا ، ‘ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ ابھی سلطان عالم خاں نے انہیں فون کر کے بتایا کہ کل رات جب وہ تعزیتی جلسے میں گۓ ہوۓ تھے ،تو دو بار سمپورنآنند جی نے انہیں بلوایا ، یہی جواب دیا گیا کہ ’گھر پر نہیں ہیں ۔‘وہ جب جلسے سے واپس پہنچے تو سیدھے سمپورن آنند جی کے پاس گۓ ،انھوں نے پوچھا کہ ’ اس وقت کہاں گۓ تھے ؟‘خاں صاحب نے پوری تفصیل سے بتایا اور یہ بھی کہا کہ ’تعزیتی جلسے نے سرکار سے درخواست کی ہے کہ جگر صاحب کی پنشن انکی بیوہ کے نام منتقل کر دی جاۓ۔‘ سمپورن آنند جی سنتے اور تایئد میں سر ہلاتے رہے ۔خاں صاحب نے سید  صدیق حسن صاحب سے خواہش کی کہ ابھی معاملہ تازہ  تازہ ہے فوراً سمپورن آنندجی سے رابطہ قائم کر کے انکی تحریری منظوری حاصل کر لی جاۓ۔

سید صاحب نے مجھ سے کہا ،’ تم نے ہی تجویز پیش کی تھی اسکی نقل لے کر آج ہی اور ابھی سمپورن آنند جی کے پاس چلے جاؤ‘۔

تعزیتی جلسے کے کنوینر قومی آواز کے میرے ساتھی منظر سلیم تھے [جو اب معہ اہل و عیال تاشقند سویت روس میں مقیم ہیں ] انکے پاس اصل تجویز تھی ،انکو اور اصل تجویز کو لیکر سمپورن آنند جی سے ملنے چلا ،فون سے معلوم ہوا کہ آج کونسل ہاؤس نہیں آئیں گے، طبیعت کچھ سست ہے ،انکے بنگلے سے معلوم کیا کہ ملاقات ہو سکے گی ؟اثبات میں جواب ملنے پر ہم  وہاں پہنچے ،ملاقاتیوں کا مجمع بھی نہیں تھا ،فورا ً بلا لیا ، تجویز تعزیت انکو دےکر شب گزشتہ کے جلسے کی روداد میں نے دہرانا شروع کردی، سمپورن آنند جی اس طرح سر ہلا ہلا کر سنتے رہے جیسے ساری تفصیل سے باخبر ہیں ، واقعی با خبر تھے سلطان عالم خاں کے ذریعے اور ہمیں یہ ظاہر کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ ہم بھی جانتے ہیں کہ ’آپ باخبر ہیں ‘۔

تعزیتی تجویز ایک نظر دیکھ کر گردن ہلائی کہ بس ، ملاقات پوری ہو گئ ۔ اخباری نمائندے کی حیثیت سے میں نے انکا عندیہ اس سلسلے میں معلوم کرنا چاہا تو بولے ۔’فیصلے کی اطلاع آپ کو ہو جاۓ گی ‘۔

میں نے کہا ’وہ اطلاع ،محکمۂ اطلاعات سے سب ہی اخباروں کو ایک ساتھ ہو جاۓ گی،میں اخباری رپورٹر کی حیثیت سے اپنی حاصل کردہ ’ خاص خبر ‘دینا چاہوں گا ‘

سمپورن آنند جی نے کہا ۔۔۔ ’آپ اتنا لکھ ہی سکتے ہیں کہ انہوں نے [ وزیراعلی۱] کہا کہ اس میں کوئیخاص دشواری نہیں معلوم ہوتی ہے ‘۔

دوسرے دن ’ قومی آواز‘کے صفحۂ اول پر اسکے ’ اسٹاف رپورٹر‘کے حوالے سے یہ ’خاص خبر ‘ شایٔع بھی ہو گئ اور جلد ہی اس خبر کے مطابق عمل درآمد بھی شروع ہو گیا ۔