ایدھی:خدا خدمت والوں کو پسند کرتا ہے

Bhatkallys

Published in - Other

04:27PM Mon 18 Jul, 2016
جاوید چوہدری یہ 1951ء کی بات ہے، نوجوان تاجر نے کپڑے کا کاروبار شروع کیا، وہ مارکیٹ سے کھدر خریدتا تھا اور معمولی منافع لے کر سارا کپڑا بیچ دیتا تھا، وہ ایک صبح کپڑا مارکیٹ گیا، مارکیٹ میں دو راہ گیروں کے درمیان لڑائی ہوئی اور ایک نے دوسرے کو چھری مار دی، زخمی سڑک پر گرا اور تڑپنے لگا، لوگ جمع ہوئے اور زخمی کو دیکھنے لگے، وہ نوجوان بھی تماشائیوں میں شامل ہو گیا، وہ کبھی زخمی کو دیکھتا تھا اور کبھی لوگوں کو، کوئی شخص مدد کے لیے تیار نہیں تھا، وہ زخمی پٹھان تھا، وہ پشتو میں دہائی دے رہا تھا، زخمی کی چیخیں، پشتو زبان میں دہائی، خون اور تماشہ دیکھتے لوگ یہ سب جمع ہوئے اور نوجوان کو اس راستے پر دھکیل دیا جس کے آخر میں محبت، عقیدت، دعائیں، سلیوٹ اور 19 توپوں کی سلامی تھی۔ وہ نوجوان عبدالستار ایدھی تھا، وہ پیار سے دوسروں کو مولانا کہتے تھے چنانچہ پوری دنیا نے انھیں بھی مولانا کہنا شروع کر دیا، میں 2002ء میں ان کے ساتھ کپڑا مارکیٹ کے اس چوک میں گیا جہاں انھوں نے زندگی کا پہلا زخمی اٹھایا تھا، وہ چوک میں کھڑے ہو کر منظر کشی کر رہے تھے، میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا لوگوں نے اپنی جیبیں خالی کرنا شروع کر دیں، خواتین نے اپنے زیور اتارے اور مولانا کی جیب میں ڈال دیے، لوگ آتے جاتے تھے اور نوٹ ان کے حوالے کرتے جاتے تھے، مولانا نے تنگ آ کر قمیض کا دامن اٹھا لیا، لوگوں نے نوٹوں اور زیوروں سے ان کی جھولی بھر دی، مولانا نے مجھے اشارہ کیا اور ہم دوڑ کر ان کی ایمبولینس میں آ گئے، مولانا نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ہم واپس ان کے دفتر آ گئے۔ لوگوں کی یہ عقیدت حیران کن تھی، میں نے تعریف کی، مولانا بولے ’’ مولانا یہ اللہ کا کرم ہے لیکن میں نے جب کام شروع کیا تو مجھے اس وقت لوگوں نے بہت تنگ کیا تھا، میں نے اپنا سب کچھ بیچ کر ایک پرانی ویگن لی، اپنی دکان کو سینٹر بنایا، ٹیلی فون لگوایا، ویگن پر فری ایمبولینس اور ٹیلی فون نمبر لکھوایا اور کام شروع کر دیا، میں مریض کے لواحقین سے کوئی معاوضہ نہیں لیتا تھا، میں نے سینٹر کے سامنے ایک گلا (منی باکس) رکھ دیا تھا، میں شکریہ کے لیے آنے والوں سے صرف اتنا کہتا تھا ’’آپ کو جو توفیق ہے وہ اس گلے میں ڈل دیں‘‘ لوگ اس میں آنہ دو آنے ڈال جاتے تھے، یہ دو آنے ایدھی ایمبولینس سروس کا کل اثاثہ ہوتے تھے، میں اس پر خوش تھا لیکن میری برادری کو یہ کام اچھا نہیں لگتا تھا، یہ مجھے سودائی کہتے تھے، میں سودائی تھا بھی، میرے اندر اچھے کپڑوں، اچھے جوتوں، اچھے کھانوں اور اچھے گھروں کی خواہش پیدا نہیں ہوتی تھی اور مجھے پیسے لتے کی تمنا بھی نہیں تھی، میری یہ عادتیں میرے کاروباری خاندان کو پسند نہیں تھیں لیکن میں ڈٹا رہا یہاں تک کہ میں اب دنیا کے کسی بھی کونے میں جھولی پھیلا کر کھڑا ہو جاتا ہوں تو لوگ آنکھیں بند کر کے اپنی جیبیں خالی کر دیتے ہیں‘‘۔ میری عبدالستار ایدھی صاحب سے پہلی ملاقات 2002ء میں ہوئی اور آخری 2011ء میں، میں نے 2002ء میں ’’سیلف میڈ‘‘ کے نام سے ڈاکومنٹری فلمیں بنانا شروع کیں، یہ ایک ناکام تجربہ تھا، یہ تجربہ میری ساری جمع پونجی بھی لے گیا اور میرا بے شمار وقت بھی لیکن یہ مجھے ایدھی صاحب جیسے انسان سے متعارف کرا گیا، میں نے ایدھی صاحب پر طویل ڈاکو منٹری فلم بنائی، میں فلم کے چکر میں ان سے دس بار ملا، یہ دس ملاقاتیں میری زندگی کا اثاثہ ہیں، میں نے ان میں ایدھی صاحب کو بہت قریب سے دیکھا، وہ حقیقتاً ایک بڑے انسان تھے، حیران کن حد تک بڑے انسان، وہ میمن خاندان سے تعلق رکھتے تھے، گجرات کاٹھیاواڑ میں جونا گڑھ کے قریب ان کا گاؤں تھا، بانٹوا، گاؤں کی آبادی 25 ہزار تھی، گاؤں کے ستر فیصد لوگ میمن تھے، گجراتی زبان میں سست لوگوں کو ایدھی کہا جاتا ہے۔ مولانا کا خاندان ایدھی کہلاتا تھا۔ ’’کیا آپ لوگ سست الوجود تھے؟‘‘ میں نے ایک بار ان سے پوچھا، وہ ہنسے اور بولے ’’بالکل نہیں، ہم کام کرنے والے لوگ تھے لیکن ہم نے دوسرے میمنوں کے مقابلے میں زیادہ ترقی نہیں کی تھی شاید لوگ ہمیں اس لیے ایدھی کہتے تھے‘‘ والد دوبار رنڈوے ہوئے، والدہ بھی طلاق یافتہ خاتون تھیں، والدہ کی پہلی شادی بری طرح ناکام ہوئی، اس شادی سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی، یہ دونوں بچے ایدھی صاحب کی خالہ نے پالے، والدہ پوری زندگی ان دونوں بچوں اور اپنی پہلی شادی کے مظالم کو نہ بھلا سکیں، بچوں کی جدائی اور پہلے خاوند کی زیادتیوں نے انھیں ڈپریشن کا مریض بنا دیا، یہ ڈپریشن ایدھی صاحب میں بھی تھا، یہ شروع سے حساس، خاموش طبع اور پھیکے تھے، یہ تینوں خصوصیات پوری زندگی ان کے ساتھ رہیں، یہ ایک بار فرمانے لگے ’’میں اپنے جاننے والوں کو مشورہ دیتا ہوں۔ آپ کسی ایسی عورت سے شادی نہ کریں جس کے پہلے بھی بچے ہوں کیونکہ ایسی عورت تقسیم ہوتی ہے، یہ پوری زندگی پچھلے بچوں کے غم سے نہیں نکل پاتی‘‘ مولانا نے زندگی بھر ملیشیا کی شلوار قمیض اور پلاسٹک کے سلیپر پہنے، میں نے پوچھا ’’کیا یہ آپ کی یونیفارم ہے‘‘ ہنس کر جواب دیا ’’نہیں، ہمارے معاشرے میں لوگ مُردوں کے کپڑے اور جوتے استعمال نہیں کرتے، یہ انھیں منحوس سمجھتے ہیں، میں نے ایک بار ایک پٹھان کو دفن کیا، اس کے گھر سے ملیشیا کے دو تھان نکلے، لواحقین نے وہ تھان مجھے دے دیے، میں سال دو سال بعد ان تھانوں سے پانچ میٹر کپڑا نکالتا ہوں اور سلوا کر پہن لیتا ہوں، یہ دو تھان میرے لیے کافی ہیں، میں جوتے بھی مُردوں کے پہنتا ہوں، اس سے اللہ بھی یاد رہتا ہے، موت بھی اور زیادہ اصراف بھی نہیں ہوتا‘‘ وہ مجھے ایک مسجد میں بھی لے گئے، یہ سفید رنگ کی چھوٹی سی مسجد تھی، بتانے لگے ’’ میں اس مسجد میں فجر کی نماز پڑھتا تھا، میں نے ایک صبح مسجد کے فرش پر نومولود بچہ دیکھا، بچہ ٹھنڈے فرش پر پاؤں پٹخ پٹخ کر چیخ رہا تھا، لوگ اس کے گرد دائرہ بنا کر کھڑے تھے۔ امام صاحب بھی وہاں موجود تھے، وہ بار بار کہہ رہے تھے ’’یہ بچہ ناجائز ہے، اسے مار دو‘‘ میں نے سنا تو مجھے غصہ آ گیا، میں نے نمازیوں سے کہا ’’آپ یہ بچہ مجھے دے دیں، میں اسے پالوں گا‘‘ امام صاحب نے انکار کر دیا مگر نمازیوں نے انھیں قائل کر کے بچہ میرے حوالے کر دیا، میں نے بچے کی ولدیت کے خانے میں اپنا نام لکھوایا اور اس کی پرورش شروع کر دی، وہ بچہ ماشاء اللہ اب بینک میں سینئر وائس پریذیڈنٹ ہے‘‘ مولانا نے بتایا ’’ میں نے اس بچے کے بعد کراچی میں جھولا مہم شروع کر دی، ہم نے مختلف جگہوں پر جھولے رکھوا دیے، لوگ بچوں کو اب کچرے کے ڈھیروں اور گندے نالوں میں پھینکنے کے بجائے ہمارے جھولوں میں ڈال جاتے ہیں‘‘ وہ مجھے اس کے بعد ڈیفنس کے ایک ایدھی ہوم میں لے گئے، وہ بچوں کا اسکول تھا، صحن میں کپڑوں کے ڈھیر لگے تھے، بتایا ’’لوگ بچوں کے نئے کپڑے خرید کر دے جاتے ہیں۔ ہم ان میں سے مختلف سائز کے کپڑے الگ کرتے ہیں اور بچوں میں تقسیم کر دیتے ہیں‘‘ اسکول کے اندر بچے ایدھی صاحب کے ساتھ لپٹ گئے، وہ سب انھیں ابو کہہ رہے تھے اور ابو پیار سے ان کے سروں پر ہاتھ پھیر رہے تھے، وہ بتانے لگے، میں ان کی شادیاں بھی کرا دیتا ہوں، انھوں نے ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی کو بلایا، وہ دونوں بھی ابو کہہ کر ان سے لپٹ گئے، بتایا’’ یہ دونوں بھی اللہ نے ہمارے پاس بھیجے تھے، یہ جوان ہو گئے تو میں نے ان کی شادی کر دی، یہ اب ماشاء اللہ بیٹی کے والدین ہیں‘‘ میں ایک بار ان کے ساتھ گندے نالے سے لاش نکالنے بھی گیا، وہ دس بارہ سال کے بچے کی لاش تھی، بچہ کھیلتے ہوئے نالے میں گر گیا، والدین تلاش کرتے رہے مگر لاش نہ ملی، یہ لاش پندرہ دن بعد تین کلو میٹر دور نالے میں پڑی ملی، پولیس، اسپتال کا عملہ اور لواحقین نالے میں اترنے اور لاش نکالنے کے لیے تیار نہیں تھے، ایدھی فاؤنڈیشن فون کیا گیا، پیغام ایدھی صاحب تک پہنچا اور وہ اٹھ کر چل پڑے، میں بھی ساتھ چلا گیا، نالے کے کنارے مجمع لگا تھا، لوگوں نے ناک پر رومال رکھے ہوئے تھے۔ ایدھی صاحب ایمبولینس سے اترے، چپل اتاری، شلوار اونچی کی اور نالے میں اتر گئے، وہ ناف تک پانی میں چلے گئے، وہ لاش تک پہنچے، لاش کو دھکیل کر کنارے تک لائے، باہر نکلے، لاش کو اٹھایا اور ایمبولینس میں ڈال دیا، ان کا آدھا جسم غلاظت سے لتھڑا ہوا تھا، وہ اسی طرح ایمبولینس میں بیٹھ گئے، میں بھی ساتھ بیٹھ گیا، آپ یقین کیجیے میں بدبو سے بے حال ہو گیا، میرا معدہ بار بار الٹ کر منہ میں آتا تھا لیکن وہ شخص اطمینان سے گاڑی چلا رہا تھا، اس کے ماتھے پر شکن تھی اور نہ ہی چہرے پر کوئی ملال، وہ لاش کو سیدھا غسل گاہ لے گئے، لاش کو چبوترے پر رکھا، مسلم شاور کے ساتھ ساری غلاظت دھوئی، کفن پہنایا، لاش کو تابوت میں رکھا، اس پر مشک بو لگائی، یہ لاش لواحقین کے حوالے کی، کپڑوں سمیت غسل کیا اور گیلے بدن اور گیلے کپڑوں میں ہمارے ساتھ بیٹھ گئے، میں نے آگے بڑھ کر اس عظیم انسان کے ہاتھ چوم لیے، ان کے ہاتھوں سے اس وقت بھی بو آ رہی تھی۔ عبدالستار ایدھی وسیع خاندان سے تعلق رکھتے تھے، کراچی کی معیشت آج بھی ان کی برادری کے ہاتھ میں ہے، یہ ارب پتی لوگ ہیں لیکن کسی شخص کو ایدھی جیسا جنازہ اور محبت نصیب نہیں ہوئی، ان میں کسی شخص کو تینوں افواج کے سربراہوں نے سلیوٹ نہیں کیا اور کسی کو 19 توپوں کی سلامی نہیں ملی، یہ رتبہ صرف عبدالستار ایدھی کو ملا، اس ایدھی کو جس نے زندگی بھر ملیشیا کے کپڑے پہنے، مُردوں کی چپلیں استعمال کیں، گندے نالوں سے لاشیں نکالیں اور انسانیت کے لیے انسانوں کے سامنے جھولی پھیلائی، ایدھی صاحب نے لفظ ایدھی کے معانی تک بدل دیے، اس لفظ کے معانی اب سست نہیں رہے، یہ فلاح و بہبود بن چکا ہے، ایدھی صاحب نے یہ بھی ثابت کر دیا خدا کبھی خدا کے نام پر نکلنے والوں کو بے نام نہیں رہنے دیتا، یہ اقتدار والوں کو، یہ اختیار والوں کو بھی اپنے دوستوں کی قبروں پر جھکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ کاش پیسے کے پیچھے بھاگنے والے تمام لوگ یہ نقطہ سمجھ جائیں، خدا خدمت والوں کو پسند کرتا ہے پیسے اور اقتدار والوں کو نہیں۔ روزنامہ ایکسپریس، کراچی ا یسی تربیت ہی کسی کو عبدالستار ایدھی بنا سکتی ہے! الیاس شاکر عبدالستارایدھی کی وفات نے کراچی میں خوف کی فضا طاری کردی ۔ غم کے بادل چھا گئے ہیں ۔پورا شہر ہکا بکا ہے کہ اس شخص کا سوگ کیسے منائیں جو اپنا نہیں تھا لیکن اپنوں سے بڑھ کر تھا ۔ اُس کی موجودگی سے ایک آسرا تھا، ایک امید بندھی ہوئی تھی۔عبدالستار ایدھی ایک شخص کا نام نہیں، کراچی میں اس کی موجودگی حکومت کی طرح تھی۔ ایک تنہا شخص اتنا بہادر بھی ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زائد لاوارث نعشوں کو وارث بن کر دفنائے ۔ کراچی میں کروڑپتی لوگ رہتے ہیں ۔یہ شہرارب پتی لوگوں کا مسکن ہے لیکن جب نیکی کی تلاش کی بات ہوتی ہے تو دولت سے لدے پھندے یہ لوگ دراصل’’غریب ‘‘نکلتے ہیں ۔یہ عذر بھی پیش کیا جاتا ہے کہ ہمیں علم ہی نہیں تھا کہ لاوارث لاش کہاں ہے؟ جواب آتا ہے کہ ایدھی کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ لاوارث لاش فلاں سڑک پر پڑی ہے؟فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ لوگوں نے دولت کمانے میں نام بنایا اور ایدھی نے نیکیاں کمانے میں نام بنایا۔ مولانا عبدالستار ایدھی اتنا بڑا آدمی نہیں تھا۔ نہ وہ دیوتا تھا ‘نہ ہرکولیس اورنہ ہی اسپائڈر مین تھا۔ وہ ہمارے جیسا ہی ایک انسان تھا ۔ایدھی بڑا اس لئے بنا کہ ہم چھوٹے تھے اور ہم نے کبھی بڑا بننے کی کوشش نہیں کی۔وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی نہیں تھا لیکن ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی تھیں۔ایدھی کروڑ پتی نہیں تھا لیکن اس کے پاس اربوں روپے تھے ۔ وہ عوام کا پیسہ عوام تک پہنچاتا تھا، لوگ اس پر بھروسہ کرتے تھے۔وہ واقعی ’’ امین‘‘ تھا۔ایدھی صحافیوں سے ملتا جلتا کام کرتا تھا۔صحافی عوام کی بات عوام تک پہنچاتے ہیں، وہ پیسہ پہنچاتا تھا۔ملک میں صحافیوں کی تعداد ہزاروں‘ لاکھوں میںہے لیکن ایدھی اپنے کام میں اکیلاتھا۔20کروڑ لوگ صبح اٹھ کر صرف ایک نیکی کرنے کاعہد کرلیںتو پورے ملک میں20کروڑ نئی نیکیاں جنم لے سکتی ہیں۔لیکن ہم میں سے کسی نے ایدھی بننے کی کوشش نہیں کی۔ایدھی بننا مشکل نہیں ہے لیکن ہم ایدھی بننا نہیں چاہتے ۔کیونکہ ہم اپنی آرام طلبی اور بخالت چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ہمیں گپ بازی اور چوپالوں میں لمبی لمبی چھوڑنے ہی سے فرصت نہیں ہے۔ایدھی نے ایسا کیا کیا کہ اسے فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا؟۔ افواج کے سربراہان نماز جنازہ میں شریک تھے۔19توپوں کی سلامی دی گئی۔گارڈ آف آنر پیش کیا گیا ۔ان کا جنازہ گن کیریئر پر سوار تھا۔یہ ریاست کے اعلیٰ ترین عہدیدار کی تدفین کے موقع پر اپنایا جانے والا برٹش رائل آرٹلری کا طریقہ ٔکارتھا جس کے تحت ملکہ وکٹوریہ کا جنازہ بھی لے جایا گیا۔آرمی چیف نے ان کے جنازے کو سلیوٹ کیا۔کراچی نے ایسا جنازہ صرف قائد اعظم کا دیکھا تھا اس کے بعد یہ اعزاز ایدھی کو ملا ۔اوریہ سب کچھ اس لئے ممکن ہواکیونکہ ایدھی غریبوں کا’’جرنیل ‘‘تھا۔ ایدھی کا نظریہ دیکھئے اس کے رضا کاروں کی ٹیم اور خود ایدھی نے مل کر کراچی میں پوسٹر لگائے کہ’’ شادیوں کی تقریبات میں جوکھانا بچے وہ مجھے دے دو میں اس سے شہر کے لاوارث ‘بے بس اور لاچار لوگوں کو پال لوں گا‘‘۔ اس نے یہ بھی کہا کہ پلیٹوں میں ادھ کھایا ہوا کھانا بھی مجھے دے دو‘ یہ ذہنی مریضوں اور پاگلوں کی خوراک بن جائے گا ۔اُس نے بیمار جانوروں کے لئے اینیمل ہائوس قائم کیا‘ وہاں بھی یہ بچا ہوا کھانا کام آیا۔ لاکھوں ‘کروڑوں لوگ پاکستان میںنیکی کا جذبہ رکھتے ہیں مگر ان کے ذہنوں میں یہ آئیڈیا نہیںآیا۔ بند دماغوں نے ہمیں ایدھی نہیں بننے دیا ہمیں نیکی کی ایسی’’ ڈرل مشین ‘‘کی ضرورت ہے جو ہمارے بند دماغوں کو کھولے اور ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم ایدھی کی طرح چوبیس گھنٹے فل ٹائم نہ سہی تبرک کے طور پر ’’پارٹ ٹائم نیکی‘‘ تو کرسکتے ہیں۔ اگر ہم ایک نیک کام بھی نہیں کرسکتے تو ہمارے اس دنیا میں آنے کا کیا فائدہ؟ ہم میں انسانیت اور دردِ دل نہیں ہے تو ہم میںاورجانوروں میںکیا فرق رہ جاتا ہے۔ نیویارک میں کتوں کیلئے200 ایمبولینسیں ہیں۔ اگر ایدھی نہ ہوتا تو کراچی میں ایمبولینسں ڈھونڈنے کیلئے کسی کولمبس کو بلانا پڑتا۔ کیا ہم صرف چند دن غم مناکر بھول جائیں گے ۔؟ہم میں سے کوئی ایدھی بننے کی کوشش نہیں کرے گااور اگر نہیں تو کیوں نہیں کرے گا؟ کیا ہمیں مرنا نہیں ہے؟ کیا ہم اللہ کو جوابدہ نہیں ؟ کیا ہم اپنے ملک کو ایک فلاحی معاشرے میں تبدیل کرنا نہیں چاہتے؟ایدھی کی خدمات،ایدھی کے کارنامے،ایدھی کے حیرت انگیز قصے‘ کہانیاں ٹی وی چینلز اور اخبارات میں بہت دیکھ لئے ‘بہت پڑھ لئے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش بھی کریں‘ ایدھی کیلئے پورا ملک سوگوار ہے تو اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ اسے سب کا دُکھ تھا اور ہمیں صرف اپنے آرام کا خیال ہے۔اب ہمیں اپنے انداز بدلنے ہوں گے اور جس دن ہم خود کو بدل لیں گے یہ ملک بدل جائے گا۔ مضمون کی روح کے مطابق ایک قول پیش خدمت ہے ۔’’ہر شخص یہ کہتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے بچوں کا کیا ہوگا ؟چلو دوچار پیسے کسی طرح کمالوں لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ میرے مرنے کے بعد قبر میں میرا کیاحشر ہوگا؟‘‘۔ کہتے ہیں ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ۔لیکن ایدھی کے پیچھے دو عورتیں تھیں ایک ان کی والدہ اور دوسری ان کی اہلیہ ۔ایدھی کی والدہ اسکول جاتے ہوئے اِس بچے کو دوپیسے دے کر نصیحت کرتی تھیں کہ ایک پیسہ خرچ کرنا اور دوسرا کسی مستحق کو دینا۔ایسی تربیت ہی عبدالستار ایدھی بنا سکتی ہے۔اورایدھی کی ایک شادی محض اس لئے منسوخ ہوئی کہ اُس نے کہا’’یہ فقیر آدمی ہے ‘میرا اس کے ساتھ گزارا ممکن نہیں‘‘۔پھر بلقیس ایدھی نے عبدالستار ایدھی کو ان کی درویشانہ طبیعت کے ساتھ قبول کیا اور خود بھی ان کے ساتھ نیکی کی راہ پر ہمسفر ہوگئیں۔یہ دوسری خاتون تھیں جنہوںنے ایدھی کو’’ایدھی ‘‘بننے میں مدد دی۔ روزنامہ دُنیا،کراچی ایدھی نے  انسانی خدمت کو کسی صلے سے آلودہ نہیں ہو نے دیا خورشید ندیم عظمت ایک انسان پر اس طرح ٹوٹ کر برسی کہ خدا کی زمین جل تھل ہوگئی۔ ایک تن ِخاکی میں ایسا کیا تھا کہ خدا نے انسانوں کے دل اس کی طرف پھیر دیے؟ یہ ان کے بے غرضی تھی۔ اجر کی پروا نہ تمنا۔ انہوں نے اولادِ آدم کی بے لوث خدمت کی۔ انسانوں کو بلا تفریقِ مذہب و نسل خدا کا کنبہ سمجھا۔ ان کے لیے خود کو وقف کیے رکھا اور بدلے میں کچھ نہیں چاہا۔ میں اپنی تاریخ میں صرف ایک آ دمی کو جانتا ہوں جو ان جیسا تھا۔ یہ سر سید احمد خان تھے۔ اپنی ذات سے بے نیاز۔ سراپا خدمت۔ قوم کی بہتری کے لیے اپنے وجود کو مٹا ڈالا۔ سر سید کوقوم کے لیے بھیک مانگنا پڑی تو کشکول اٹھا لیا۔ سفید داڑھی کے ساتھ ناچنا پڑا تو اُن کا نحیف بدن لہرا اُٹھا۔ بے غرضی کا عالم یہ تھا کہ دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے کھاتے میںاتنے پیسے نہ تھے کہ کفن خریدا جا سکتا۔ چندہ جمع ہوا اور قوم کے محسن کو کفن ملا۔ اس طرح کا آدمی ہم نے اگر پھر دیکھا تو عبدالستار ایدھی کے روپ میں۔ بے لوث کا مطلب اگر کوئی جاننا چاہے تو اسے سر سید کی تصویر دکھا دینی چاہیے یا پھر ایدھی کی۔ یہی بات ایدھی کو معاصرین میں ممتاز کرتی ہے۔ انہوں نے انسانی خدمت کو کسی صلے سے آلودہ نہیں ہو نے دیا۔ اس معاشرے میں اس طرح کی اور بہت سے کوششیں ہوئیں۔ یہ تمام کوششیں، اِلا ماشااللہ، ابتدا میں یا بعد میں، کسی پس پردہ مقصد سے جوڑ دی گئیں۔کسی نے اس سے اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہا۔ کسی نے اس کو مجاہدین کی تلاش کے لیے استعمال کیا ۔کسی نے اس کی بنیاد پر قوم سے ووٹ مانگے۔ کسی نے چاہا کہ ہسپتال کے بدلے میں اسے وزارتِ عظمیٰ کا منصب عطا کر دیا جائے۔ میں نے دیکھا کہ جب تک یہ کوششیں کسی خواہش سے آلودہ نہیں تھیں، عوام نے ان کو بھی وہی پزیرائی بخشی جو ایدھی صاحب کو ملی۔ عمران خان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ قوم نے اُن کی امانت اور دیانت پر اندھا اعتماد کیا۔ ہر کسی نے ان کی آواز پرلبیک کہا۔ مسلم لیگ کی حکومت نے لاہور میں جگہ دی۔ پشاور کا رخ کیا تو اے این پی کی حکومت نے بھی جگہ دے دی۔ ہسپتال غیر متنازع قومی منصوبہ قرار پایا۔ اس میں شبہ نہیں کہ عمران نے اس اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنے دی۔ ہسپتال کے معاملات سے خود کو ہر طرح سے الگ رکھا۔ پھر دوسرا دور آیا جب انہوں نے سیاست میں قدم رکھا۔ جب ہسپتال بن رہا تھا تو اس طرح کا کوئی خیال ان کے ہم رکاب نہیں تھا۔ دوسرے دور میں انہوں نے ہسپتال کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا۔ یوں عمران خان، سرسید اور ایدھی کے دائرے سے باہر نکل گئے۔ اب وہ متنازع ہوئے تو ہسپتال بھی اس کی زد میں آ گیا۔ ایدھی صاحب کو بھی ایک مرحلے پر سیاست کا خیال آیا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے جلد رجوع کر لیا، ورنہ ہم ایسی عظیم الشان مثال سے محروم ہو جاتے۔ انہوں نے خدمت کو کسی دوسرے اچھے یا برے مقصد سے آلودہ نہیں ہو نے دیا۔ انہوں نے خدا کے بندوں کا ذمہ اٹھایا اورپھر ان کی عزت، رزق اور دوسرے معاملات کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے اٹھا لیا۔ یہ اس کا وعدہ ہے۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمد ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا رہے گا تو خدا اس کی ضرورت پوری کرنے میں لگا رہے گا اور جو کسی مسلمان کی کسی مصیبت کو دور کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت کو اس سے دور کرے گا‘‘۔ پھر یہ بھی ارشاد ہوا: اللہ اپنے بندے کی مدد میں اس وقت تک لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔(ترمذی) ایدھی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے سماج میں موجود نیکی اور بدی کے خود ساختہ پیمانوں کو بدلا۔ ہمارے معاشرے میں ان بچوں کو برا سمجھا جاتا ہے جومرد و زن میں کسی معاہدہ نکاح کے بغیر دنیا میں آتے ہیں۔ ایک مرد اور عورت کے جرم کی سزا ایک معصوم کو دی جاتی ہے۔ ایدھی نے اپنے عمل سے سمجھایا کہ سزا کا حق دار بچہ نہیں، والدین ہیں۔ بچہ نفرت کا نہیں، ہمدردی کا مستحق ہے۔ وہ اسی طرح معصوم ہے جس طرح ہمارے گھروں میں پیدا ہونے والے بچے۔ ان کی ذمہ داری معاشرے کو اٹھانی چاہیے۔ انہوں نے لوگوں کو زباِن حال سے تلقین کی کہ ایک جرم کے بعد دوسرا جرم نہ کرو جو اس سے سنگین تر ہے۔ یہ انسانی جان کا قتل ہے۔ انہوں نے ایسے بچوں کی کفالت کا ذمہ لیا اور یوں نیکی اور بدی کے ان پیمانوں کی اصلاح کرنا چاہی جو ہم نے بنا رکھے ہیں، خدا اور رسولؐ کی کسی سند کے بغیر۔ ایدھی نے یہ بھی سکھایا کہ مدد کا تعلق مستحق ہونے سے ہے، مذہب و نسل سے نہیں۔ جب انسان کی مدد کی جاتی ہے تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کا رنگ کیسا ہے، اس کا علاقہ کون ساہے، اس کا تعلق کس مذہب سے ہے۔ جو بات قابلِ توجہ ہے وہ اس کی ضرورت ہے۔ ایدھی معروف معنوں میں ایک مذہبی آ دمی نہیں تھے مگر ان کی ذات اور کاموں سے مذہب کی روح نمایاں ہوتی ہے، جیسے دنیاوی آسائشوں کو مطمح ِنظر نہ بنانا۔ دنیاوی لذتوں سے بے نیازی۔ اسی طرح ان کے کاموں میں بھی مذہب کی روح ہے۔ مثال کے طور پر مذہب نے بھی مدد کو ضرورت سے وابستہ کیا ہے، مذہب اور نسل سے نہیں۔ قرآن مجید نے زکوٰۃ کے مستحقین کا ذکر کیا تو اسمائے صفات استعمال کیے، جیسے فقیر، مسکین، مسافر۔ اب ان کا تعلق کسی بھی نسل اور کسی بھی مذہب سے ہو سکتا ہے۔ اسی طرح پڑوسی کے حقوق بیان کیے تو مذہب یا رشتہ داری کی قید نہیں لگائی۔ ایدھی صاحب اگر چہ سادہ مزاج آ دمی تھے مگر یہ بات اچھی طرح سمجھتے تھے کہ سماجی کارکن کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ سیاست متنازع بناتی ہے۔ سماج کی خدمت کے لیے ضروری ہے کہ خود کو تنازعات سے دور رکھا جائے۔ ہمارے ہاں یہ نظریہ مقبول رہا ہے کہ جو لوگ اپنی سماجی خدمت کے باعث معاشرے میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، انہیں ملا کر سیاسی جماعت بنائی جائے تو اسے کامیابی ملے گی۔ عوام ٹوٹ پڑیں گے۔ سیاسی جماعتیں بھی یہ خیال کرتی ہیں کہ اگر ہم اس طرح کی شہرت رکھنے والوں کواپنی پارٹی میں لے آئیں اور انتخابات میں کھڑا کر دیں تو اس سے زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں۔ یہ سیاسی حرکیات سے بے خبری کی دلیل ہے۔ اس سے سیاسی فائدے کا تو کوئی امکان نہیں، البتہ اس سے معاشرے کو اس فلاحی کام سے ضرور محروم کیا جا سکتا ہے جو جاری ہے۔ ایدھی صاحب کے ایک انٹر ویو سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے انہیں بے نظیر حکومت کے خاتمے کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ انہوں نے انکار کیا اور یہ فیصلہ ان کی دانش کی دلیل ہے۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی نے حکیم محمد سعید مرحوم کو بھی اسی طرح استعمال کرنے کی کوشش کی جب 1977ء میںانہیں مجبور کیا گیا کہ وہ قومی اتحاد کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں کھڑے ہوں۔ پیپلزپارٹی کو اس سے کیا فائدہ ہونا تھا، حکیم صاحب کی شہرت کو البتہ ضرور نقصان پہنچا۔ ضیاالحق صاحب نے بھی اسی طرح بہت سے نیک لوگوں کو مجلس شوریٰ کا حصہ بنا کر خراب کیا۔ ایدھی آج اگر انسانوں کی محبت کا محور ہیں تو اس کی وجہ ان کا بے لوث ہونا اور تنازعات سے دور رہنا ہے۔ انہوں نے خدا کی شان ربوبیت سے فیض اٹھایا۔ جس طرح وہ بلا امتیاز رنگ و نسل اور علاقہ و مذہب، انسانوں کی کفالت کرتا ہے، ایدھی صاحب نے چاہا کہ وہ بھی خدا کا بندہ بن کر بلا امتیاز سب کی خدمت کریں۔ وہ خدا کے بندوں کی خدمت میں لگے رہے اور خدا نے لوگوں کے دلوں کو ان کی محبت سے بھر دِیا۔ روزنامہ دُنیا، کراچی