فرزانہ اعجاز سے گفگتو۔۔۔از : ڈاکٹر شاہنواز جہاں

’غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں سمجھو وہیں ہمیں بھی ۔ دل ہو جہاں ہمارا ‘ اقبال کا یہ شعر ہمیں ان لوگوں کی یاد دلاتا ہے ،جو وطن سے ہزاروں میل دور ہوتے ہوۓ بھی ، وطن کی یادوں کو دل میں بساۓہوۓ ہیں ،ممالک غیر میں رہتے ہوۓ بھی اپنے شہر اور وہاں کے لوگوں کے لۓ اور اپنی مادری زبان کے لۓ انکے دل میں محبت کو، الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے ، ایسی ایک شخصیت ہیں ، محترمہ فرزانہ اعجاز صاحبہ،لگ بھگ چالیس سالوں سے اپنے وطن دور ہونے کے باوجود انکا دل اپنے وطن ہی میں لگا ہے ، جب میں نے انکی کتابوں کو پڑھا تو مجھے احساس ہوا کہ اپنی مادری زبان اور اپنے ملک خاص طور سے لکھنؤ سے انکا لگاؤ تعجب خیز ہے ، آجکل وہ لکھنؤ آئ ہوئ ہیں۔ میں نے موقع غنیمت دیکھ کر ان سے بات کرنے کی سبیل کی، اور دنیا کی تبدیلی اور اپنے شہر کی سماجی ۔ادبی صورت حال اور ادب میں ہورہی تبدیلیوں پر ان سے گفتگو کی ، وہی گفتگو آپ کے پیش خدمت ہے ، سوال۔۔۔ ۱۔۔۔ اپنے خاندانی پس منظر اور اپنے بارے میں ہمیں کچھ بتائے؟ جواب ۔۔۔ ۱۔۔۔ آپ کیا پوچھ رہی ہیں ؟ ہم تو کچھ بھی نہیں ہیں ، ہاں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم بہت اعلا ، علمی اور مشہور خاندان ’فرنگی محل ‘ کی بیٹی ہیں ،کچھ لوگ لفظ ’فرنگی محل ‘ سے یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید ہم لوگ کسی ’فرنگی ‘کے خاندان سے ہیں ، حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے ،بات صرف اتنی ہے کہ ’ حویلی فرنگی ‘ جو ایک فرنچ تاجر کی متروک قیام گاہ تھی ، اسی میں آج تک آباد ہیں ، خاندان فرنگی محل کا سلسلہ ٔ نسب مدینے شریف کے اس معزز خاندان سے ہے ، جہاں ہمارے نبی حضرت محمد مصطفا صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرے تھے ، جب انکے دشمنوں نے ’ مکہ شریف ‘ سے نکل جانے پر مجبور کیا تھا ، مدینے شریف میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر حضور نے قیام فرمایا تھا ،ان ہی بزرگ کی اولاد میں ایک بزرگ جو ’امام اعظم ‘ بھی کہلاتے ہیں کی اولاد میں سے ایک بزرگ ، ہرات ۔ افغانستان سے ہندوستان آۓ تھے ، جن کی اولاد میں بڑے بڑے عالم گزرے ہیں ، بس ، اسی معزز خاندان سے ہمارا رشتہ ہے، لکھنؤ کے پرانے علاقے میں ایک فرانسیسی تاجر کی خالی پڑی حویلی میں ان ہی بزرگوں کا خاندان آباد ہوا تھا ، جو اب تک آباد ہے، اس خاندان میں بہت بڑے بڑے عالم لوگ گزرے ہیں اور ہندوستان کی جنگ آزادی میں بھی شریک رہے ہیں ، بہت سے بزرگوں نے موتی لال نہرو، جواہرلال نہرو ، کے ساتھ جیل کاٹی ہے ،آجکل کے ’مولاناؤں ‘ کی طرح ہمارا خاندان ’امیر ‘ نہیں تھا ،لوگ پر خلوص تھے اور علمی اور سیاسی بصیرت رکھتے تھے ،اگرچہ عبادت گزار تھے ساتھ ہی دوسرے تمام مذاہب کا بہت احترام کرتے تھے ، ہر مذہب کے لوگوں سے دوستی تھی ِ آج بھی ہے ، انکا فلسفہ ہے ’ سب اللہ کے بندے ہیں ، سب اچھے ہیں ،پہلے ہم خود اچھے ہوں ، ‘ ہمارے دادا اوورسیئر تھے ،لیکن ، انہوں نے اپنی سرکاری ملازمت چھوڑ دی، اور جیل کاٹی، ہمارے نانا مولانا برکت اللہ ’رضا ‘ فرنگی محلی ،جو اردو فارسی کے بہت بڑےاستاد شاعر تھے لیکن ، انگریزی حکومت کے خلاف اپنے ’ ہینڈ پریس ‘ سے پیمفلیٹ چھاپنے کے جرم میں بہرائچ میں معہ خاندان کے قید ہوۓ ، وہیں ہماری امی کی پیدأیش ہوئ ، ہمارے والد مولانا مفتی محمد رضا انصاری صاحب بھی سیاست میں تھے اور ’ نیشنلسٹ کانگریسی ‘ تھے ،ایک بار حج کرنے گۓ تو وہاں معزز حاجیوں کی سعودی بادشاہ کی طرف سے دعوت کے موقع پر پاکستانی لیڈر شریف الدین پیر زادہ نے ہندوستان کی مخالفت میں بات کی تو ہمارے ابو نے سعودی بادشاہ کو مخاطب کرکےاحتجاج کیا اور اٹھ کر واپس چلے آۓ ، اس بات کو ہندوستان میں بہت سراہا گیا ، خود ہم لوگوں کو یہ بات آل انڈیا ریڈیو کی خبروں اور پھر ابو پر ’ریڈیو کے تبصرےسے معلوم ہوئ تھی۔ ‘وہ بہت کھلے ذہن کے تھے ، مشہور اردو اخبار ’ قومی آواز ‘ میں ’رپورٹر‘ کی حیثیت سے کام کرتے تھے، بعد میں علیگڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سنی دینیات کے شعبے سے ریٹائر ہوۓ۔وہ بہت اچھے مقرر ، بہت اچھے مصنف تھے ، انکی کئ کتابیں ہیں ، امی بھی ’ذ کیہ روحی ‘کے نام سے لکھتی تھیں۔والدین سے ہم کو وراثت میں ’لکھنے لکھانے ‘ کا شوق ملا ہے ، اور ہماری بھی کئ کتابیں شائع ہوچکی اور دو کتابیں انعام بھی حاصل کر چکی ہیں ، بس ، ہم کو دکھ اس بات کا ہے کہ ہماری امی ہماری کتابیں شائع ہونے سے پہلےہی انتقال کر چکی تھیں ،اور ابو بھی جلد ہی چلے گۓ تھے ، افسوس ،اگرچہ ابو امی کے پاس پیسہ نہیں تھا لیکن ، اپنی محبت اور پیار سے دونوں نے دولت کی کمی پوری کیخود کتنی ہی تکلیفیں اٹھایئں لیکن بچوں کو کبھی محرومی کا احساس تک نہ ہونے دیا ، ہم پانچ بھائ بہن ہیں اور سب سیاسی شعور بھی رکھتے ہیں اور خوب پڑھا بھی ہے ،ہم بہنوں نے اس زمانے میں لکھنؤ یونی ورسٹی میں ابو کی خواہش کے مطابق پڑھا جب لڑکیاں بہت کم یونی ورسٹی جاتی تھیں ، اب اس خاندان کی نئ نسل پڑھ لکھ کر ساری دنیا میں پھیل گئ ہے ، وہ جگہ جو فرنگی محل کہلاتی ہے ، اب خالی خالی لگتی ہے اور کچھ مکانوں کے مالکوں نے اپنے بڑے بڑے گھر غیروں کے ہاتھ بیچ دۓ ہیں ، کاش، خاندان کے لوگوں کے ہاتھ بیچے ہوتے تو کم از کم ایک رابظہ تو رہتا ،خوشی کی بات ہے کہ خاندان کے بچے ہر میدان میں آگے بھی جا رہے ہیں ، سوال۔۔۔۲۔۔۔ آپ کب سے لکھ رہی ہیں ؟ جواب ۔۔۔۲۔۔۔ یاد نہیں پڑتا کہ کب سے لکھ رہے ہیں ، اسکول میں تھے تو ٹیچرز ہمارے مضامین کی اکثر تعریف کرتی تھیں ، پندرہ اگست، چھببیس جنوری اور میلاد شریف میں تقریریں کرتے تھے ، کھیلوں اور ڈراموں میں ہر سال حصہ لیتے تھے ،تعلیم گاہ نسواں انٹر کالج میں تعلیم حاصل کی ،آج تک اس اسکول سے ایک عجب سا لگاؤ ہے ،جیسے بچوں کو اپنی ’ ماں ‘ سے ہوتا ہے ،اپنے کالج سے لکھنؤ یونی ورسٹی گۓ اور وہیں سے بی اے ، ایم اے کیا ۔ سوال ۔۔۔ ۳ ۔۔۔ اپنی کتابوں کے بارے میں کچھ بتائۓ؟
جواب ۔۔۔ ۳ ۔۔۔ ہماری آٹھ کتابیں موجود ہیں اور چار ابھی چھپ رہی ہیں ، کتابوں میں خاکے، افسانے ، مضامین اور حج کا سفر شامل ہے ،دنیا کے مختلف ممالک کے اسفار اور بہت کچھ ہے، ہمیں اپنی ہر کتاب پسند ہے ۔اپنی کتابوں کے علاوہ دوسرے لکھنے والوں کی کتابیں ہم بہت دلچسپی سے اور غور سے پڑھتے ہیں ، اور کسی کسی کتاب سے متا ٔثرہوکر کچھ ’ تجزیہ‘ بھی کرتے ہیں ، جب اسکول کالج میں پڑھتے تھے تو اردو کے ساتھ ساتھ ہندی کے کئ لکھنے والوں کا انداز بہت پسند آتا تھا ، ابھی چند روز پہلے ’ترقی پسند اردو رائٹر ڈاکٹر رشید جہاں کے افسانے ہندی میں پڑھے ،بہت لطف آیا ، رشید جہاں اور انکے شوہر سے ہمارے ابو سے بہت تعلقات تھے ، ہمارے بچپن میں رشیدہ آپا ، ہماری امی کا علاج کرتی تھیں ۔ قراۃالعین حیدر، عصمت چغتائ ، رشید جہاں اور مسرور جہاں ،اور بہت سے افسانہ نگاروں سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے ، ان سب کو پسند کرنے کی ’ وجہ‘ انکا دلکش انداز تحریر ہے ،جو قاری کو اپنے ساتھ ساتھ ہر منظر دکھاتا ہے ، قاری کہیں ’اجنبییت ‘ محسوس نہیں کرتا ہے ، یہ تمام لکھنے والے ہماری پیدائش سے پہلے سے لکھ رہے ہیں ، لیکن انکو برسوں بعد جب ہم نے پڑھا تو لگا ۔۔ارے، جیسے یہ ابھی سامنے کی بات ہو ، ـ ساتھ ہی دوسرے شعرأ اور اپنی بھی چند غزلوں کا مجموعہ ’ کہکشاں ‘ کے نام سے شائع کروایا ہے ، لکھنؤ اور دلی ریڈیو اسٹیشن اور وائس آف امریکہ کے ریڈیو پروگراموں میں ہم نے حصہ لیا ہے ، کئ افسانے اور ایک ایک گھنٹے کا طویل انٹر ویو اس میں شامل ہے ،وائس آف امریکہ کے اردو پروگرام بھی بہت اچھے ہوتے ہیں ، افسوس کہ لکھنؤ میں سنائ نہیں دیتے ،ویسے بچپن میں ہم لوگ ابو کے ساتھ اکثر لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن جایا کرتے تھے ،زندگی کا زیادہ حصہ مڈل ایسٹ کے ملک سلطنت آف عمان و مسقط میں گزرا ، جہاں ریڈیو اور ٹی وی کی زبان عربی ہے ، ان سرکاری اداروں تک صرف مقامی لوگوں کی پہنچ ہے ،یا پھر انگریزوں کی ،اس میں کوئ شک نہیں کہ مڈل ایسٹ کی ریاستوں میں سلطنت آف عمان کا الگ اور منفرد مقام ہے ، وہاں کا بادشاہ اپنے ملک کے لۓ ہر وقت ترقی کے منصوبے بناتا اور اس پر عمل پیرا رہتا ہے ، دوسری عرب ریاستوں کے رہنماؤں کی طرح عیش و عشرت میں وقت ضایع نہیں کرتا ہے ،ملک کا خزانہ عوام کی فلاح و بہبود اور اسکولوں ، اسپتالوں اور تعلیم پر یا غربت مٹانے پر ہی صرف ہوتا ہے ، فلک بوس عمارتوں اور فضول شاہ خرچیوں پر برباد نہیں کیا جاتا ہے ، بہرحال وہاں کے ریڈیو تک عربی اور انگریزی کے علاوہ کسی زبان کی کوئ رسائ نہیں تھی ۔ سوال۔۔۔ ۴ ۔۔۔ جو کچھ لکھا جارہا ہے ، کیا وہ اپنے ماحول کا آئینہ بھی ہے ؟ دینا کا ہر ادب اپنے ماحول کا آئینہ ہوتا ہے ، یعنی جیسا سماج ہوگا ویسا ہی ادب تخلیق ہوگا ، ہم جب کوئ سو سال پرانی کتاب پڑھتے ہیں تو ہم کو وہ کتاب ، اس زمانے کی صحیح تصویر دکھاتی ہے ، امن کا زمانہ ہو تو امن چین نظر آتا ہے اور جنگ کا زمانہ ہو تو اس کی تباہی بربادی ،ادب کے ہر منظر میں دکھائ دیتی ہے ، در اصل ادب ، اپنے زمانے کی جیتی جاگتی تصویر ہوا کرتی ہے ، ادب کے ہر ہر فقرے اور لفظ پر اس زمانے کی سخت گرفت ہوتی ہے ، گزرے زمانے کے ادب آداب ، بول چال ،رسم ورواج سب کچھ ہم گزرے زمانے کے ادب میں دیکھ پاتے ہیں،پرانے زمانے کے ادب اور آج کے ادب میں جو واضح فرق ہے وہ قدم قدم پر نظر آتا ہے ، پریم چند کی کہانیوں میں اور آج کی کہانیوں میں وہی فرق ہے جو انکے اور آج کے زمانے میں ہے ، پرانے زمانے کا انسان بھولا بھالااور قناعت پسند تھا اور اس کے تصور کی حد اسکے شہر کی حد سے بس زرا ہی آگے تک تھی ، لیکن ، آج کے انسان کے سامنے دنیا پھیلی پڑی ہے ، سو اس کے تصورات کی بھی کوئ لیمٹ نہیں ہے ، ساتھ ہی انسانوں میں ’ بے اطمینانی‘ حد درجہ پھیل گئ ہے اور ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ایک عالمی دوڑ لگی ہوئ ہے ، دنیا کے بڑے بڑے لیڈر تک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں ، ریڈیو اور ٹی وی پر آنے والے اشتہارات تک میں مقابلے بازی نظر آتی ہے ، تو بس ، یہی سب کچھ ادب میں بھی چھایا ہوا ہے ، مسلسل باہر رہنے کی وجہ سے اپنے ملک کی ہندی ،اردو تخلیقات سے کم واسطہ رہا پھر بھی جب جب اور جہاں جہاں اردو ، ہندی کا ادب پڑھنے کو ملا ، اس سے استفادہ کیا اور لکھنے والوں کی نئ کھیپ سے متعارف بھی رہے ، ، ویسےامریکہ ، لندن اور یورپ کے ممالک میں رہنے والے انڈین اور پاکستانی لوگوں کی تصانیف سے زیادہ واسطہ رہا ، ابھی یہاں کے کچھ منتخب افسانے پڑھے، آج کے انسان کی پرواز چاند تک ہے اور اس کے تخیل کی پرواز اس سے بھی آگے جا رہی ہے ، بہتر ہو کہ ’ یہ تخیلات اپنی زمین سے جڑے رہیں ، ہماری فلموں سے ’ادب ۔ آداب ‘ تو اڑ ہی گۓ ہیں ،’ تو تکار ‘ کی زبان اور بات بات پر ’ عزت اتارنا ، بندوق ، پستول نکالنا ، ہیرو کو ’غنڈے ‘جیسا دکھانا ،’اینگری ینگ مین‘ کو ہیرو بنانا ،افسوس ہوتا ہے کہ یہ کہانیاں ہمارے مشہور ادیب کیسے تخلیق کر رہے ہیں ، کوئ ہندی یا اردو فلم یا ڈرامہ دیکھ لیجیے ٔ ، آپ کو خود بخود معلوم ہو جاۓ گا کہ ’ ہمارا ادب کس طرف جا رہا ہے ؟‘ سوال۔۔۔ ۵ ۔۔۔۔ آجکل آپ کیا کیا لکھ رہی ہیں ؟ جواب۔۔۔ ۵۔۔۔آجکل ہم اپنی چار کتابوں پر کام کر رہے ہیں ، دو کتابیں ہمارے والد صاحب سے متعلق ہیں اور دو ہماری ہیں ، ایک کتاب ’روشن چہرے ‘ ابھی چھپ کر آبھی گئ ہے ، جس میں مختلف اکابرین کے انٹر ویو ہیں ، سوال۔۔۔ ۶۔۔۔۔ آپکی زندگی کا بہترین وقت آپکو کون سا محسوس ہوتا ہے ؟ جواب ۔۔۔ ۶۔۔۔اگر سچ کہیں تو ہر انسان کا بہترین وقت اسکا وہ زمانہ ہوتا ہے جو وہ ماں باپ کے ساۓ میں گزارتا ہے ، جب نہ دنیا کی فکر ہوتی ہے نہ خود کا کوئ غم ، جب ہمیں اپنی امی کے انتقال کی خبر ملی تو بے اختیار ایسا لگا جیسے کسی نے ہمارے سر پر سے چھت کھینچ لی ہو،والدین کے انتقال کے بعد بھی ہم کو تمام رشتوں سے محبت اور خلوص ملتا رہا ہے لیکن پھر بھی خود کو ہم ’پر کٹا پرندہ ‘ محسوس کرتے ہیں ، ویسے سب سے زیادہ اور بہترین وقت اننیس سو اٹھتتر سے دو ہزار تیرہ تک ہم نے سلطنت آف عمان و مسقط میں گزارا ، بہت سے ملکوں میں آنا جانا رہا اور اب کئ برس سے امریکہ میں ہیں ، برسوں بعد آج کل لکھنؤ میں ہیں۔ ’حالات حاضرہ ‘یہ ہیں کہ ہم اپنی منی منی پوتیوں کے ساتھ سب سے زیادہ ’خوش‘ رہتے اور اپنا آپ ’ایک پھلدار درخت ‘ جیسا محسوس کرتے ہیں ، اور سمجھتے ہیں کہ ’اس بڑی کوئ دولت نہیں کہ جب آپ اس دنیا سے جایئں تو کوئ آپکو یاد کرنے والا بھی ہو ۔‘ سوال۔۔۔۷۔۔۔ کیا دنیا کو دیکھنے کے بعد بھی آپکو اپنے شہر سے اب بھی لگاؤ ہے ؟ جواب ۔۔۔ ۷۔۔۔آپ نے بہت جذباتی سوال کیا ہے ، قدرت کا عجب نظام ہے کہ انسان جہاں پیدا ہوتا ہے ، جہاں پہلی سانس لیتا اور جہاں آنکھ کھول کر اس خوبصورت دنیا کو پہلی بار دیکھتا ہے ،اس جگہ سے اسکو ایک روحانی لگاؤ ہوجاتا ہے ، ہم بچپن سے ہی لکھنؤ کے آس پاس خوب گھومے ہیں ،لیکن ، ہر جگہ جب تنہائ ملی تو تصور میں لکھنؤ آکھڑا ہوا ، تاج محل کے شہر، قطب مینار کے شہر ، اجمیر شریف اور گنگا جمنا کے سنگم ۔خوبصورت برف پوش پہاڑوں پر بھی اور کئ چھوٹے بڑے شہروں میں آتے جاتے رہے ، لیکن، ہمارا لکھنؤ ، ہمارے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور ہم ہر ہر جگہ کا موازنہ اپنے لکھنؤ سے کرتے رہے ، عمان جیسے سجے سجاۓ صاف ستھرے ملک میں رہے ، مکہ شریف اور مدینہ شریف گۓ ، لیکن لکھنؤ اور لکھنؤ والے ہر جگہ یاد آتے رہے ، ملک کے باہرضرور رہے لیکن برابرا لکھنؤ آتے جاتے رہے ، جب یہاں سے گۓ تھے تو لکھنؤ صاف ستھرا اور پرسکون شہر تھا ، لوگوں کے پاس خلوص اور مروت کے خزانے ڈھیروں ڈھیر تھے ، کسی کے غم اور خوشی میں شرکت کا اہتمام تھا ،گھروں میں ٹی وی کا عذاب نازل نہیں ہوا تھا ، مذہبی منافرت اتنی نہیں تھی ، سب اپنے اپنے مذاہب کی پابندی کرتے اور دوسرے مذاہب کا احترام کرتے تھے ،لکھنؤ کا خاص الخاص علاقہ ’ پرانا لکھنؤ ‘جگر مگر کرتا تھا ، کوڑے کے ڈھیر نہیں تھے ، چوڑے چوڑے فٹ پاتھ تھے ، صبح شام لوگ ’ چہل قدمی ‘ کرتے تھے ، اب تو شہر غلاظت کا ڈھیر اور بدبوؤں کا انبار بن کر رہ گیا ہے ، غیرقانونی دوکانوں نے راستہ چلنا دوبھر کر دیا ہے ، پولیس اور کارپوریشن کے دلال ’ چندہ ‘ وصول کرتے ہیں اور سرکاری مشینری ’رشوت خوری ‘ کے اڈے ہیں ، افسوس کہ لفظ ’اوپری آمدنی ‘ ہم نے اپنے شہر میں نہیں سنا تھا بلکہ پڑوسی ملک سے آنے والے ایک عزیز سے سنا اور اسکا مطلب ابو سے پوچھا اور حیران ہوۓ تھے ، جہاں تک زبان کا اور تہذیب کا سوال ہے تو دونوں کی ابتر حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے ، بڑے بڑے ادبی اور مذہبی پروگراموں میں اکثر مقررین گھٹیا زبان بے تکلف بولتے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سعئ کرتے ہیں ، پرانے زمانے میں بڑے سے بڑا ادبی معرکہ بھی تہذیب کے دائرے میں رہتا تھا ، مخالف کے گھر کی عورتوں کا اور کسی کی کمزوریوں کا سر منبر یا عام محفلوں میں ذکر تک نہیں کیا جاتا تھا ، ’انیس و دبیر کا معرکہ ، آتش و ناسخ کا معرکہ ، سب اسی شہر میں ہوۓ ، بحث و مباحثہ کبھی ذاتیات تک نہیں آتا تھا ، لیکن اب ؟دل بہت دکھتا ہے جب لکھنؤ کی یہ حالت دیکھتے ہیں ۔ سوال۔۔۔ ۸۔۔۔۔ پہلے کے مصنفین اور اب کے لکھنے والوں میں آپکو کیا فرق محسوس ہوتا ہے ؟
جواب ۔۔۔ ۸۔۔۔پہلے کے مصنف ’ پہلے سوچتے پھر لکھتے تھے ‘،انکی تحریروں میں اصلاح کا پہلو ضرور ہوتا تھا ، ہر تحریر پڑھ کر انسان کچھ نہ کچھ سوچتا اور سبق حاصل کرتا تھا ، اب کتابیں تو ڈھیروں شائع ہو رہی ہیں ، لیکن ، مشکل سے ایک آدھ کتاب ہی پوری پڑھی جاتی ہے ، انسان عجلت میں ہے ،اس کے پاس وقت کی کمی ہے ،اکاڈ میاں اور ادبی پروگرام تھوک کے حساب سے ہوتے ہیں ، اپنے اپنے لوگوں کو گراں قدر انعامات بھی دۓ جاتے ہیں ،لیکن کتابوں کی خریداری مفقود ہے ، وہ جو شہر میں ادیبوں کے بڑے بڑے ٹھکانے تھے ، سب اجڑ گۓ ہیں ، اچھے کاتب ندارد ہیں ،لکھنؤ کچھ بجھا بجھا سا لگتا ہے ، مصنف وہی زبان لکھ رہا ہے جو عوام بول رہے ہیں ، گھٹیا الفاظ اور گھٹیا محاورے اب صفحۂ قرطاس کی زینت ہیں ، افسوس صد افسوس ۔ کمپیوٹر نے آکر اور بربادی لگا دی ہے ، ’پروف ریڈر ‘ ہیں نہیں ، اور خبروں کی ہیڈینگ اور اڈیٹوریل تک میں املے کی غلطیاں بھری ہوتی ہیں ، سوال۔۔۔۹۔۔۔۔ آپکی پسندیدہ کتابیں کون کون سی ہیں ۔جن سے آج بھی آپکو لگاؤ ہے ؟ جواب ۔۔۔ ۹۔۔۔ پسندیدہ تو بہت سی کتابیں ہیں ، قرآۃ العین حیدر کی کتاب کار جہاں دراز ہے ، عصمت چغتائ کی کتاب ’ وہ اک قطرۂ خوں ‘رام لعل کی ’ ذرد پتوں کی بہار اور دلیپ کمار کی آٹوبائ گرافی ،جارڈن کی سابقہ ملکہ کوئین نور کی سوانح عمری ، انڈرسن کوپر کی کتاب ’ڈسپیچیز فرام دا ایج‘اور ندیم صدیقی کی کتاب ’ پرسہ ‘اور مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کی ’تزک بابری ‘۔ قدرت اللہ شہاب کی ’شہاب نامہ ‘ ہمیں بہت پسند ہیں ،ابھی ابھی راہی معصوم رضا کی ’آدھا گاؤں ‘ ہندی میں ختم کی ہے۔ سوال۔۔۔۱۰۔۔۔ اپنی پسند کے کچھ اشعار سنایۓ؟ جواب ۔۔۔ ۱۰۔۔۔ موج دریا سے یہ کہتا ہے سمندر کا سکوت جسکا جتنا ظرف ہے ، اتنا ہی وہ خاموش ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دینے والے ، تجھے دینا ہے تو اتنا دے دے کہ مجھے شکوۂ کوتاہی ٔداماں ہو جاۓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں پڑتا دکھائ ، پھر بھی دھندھلی آنکھ سے دیکھتے رہتے ہیں وہ نور نظر کا راستہ ۔۔۔۔۔۔۔ ماں کے قدموں کے نشاں ہیں کہ دیۓ روشن ہیں غور سے دیکھ ، یہیں پر کہیں جنت ہوگی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کے کچھ یوں ہے کہ مرجانے کو جی چاہتا ہے کشتی ٔ جاں سے اتر جانے کو جی چاہتا ہے ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال۔۔۔ ۱۱۔۔۔۔ آخری سوال ۔ آپکی نظر میں عورت کا مقام کیا ہے ؟اور اسکو اپنا آپ کیسے محفوظ رکھنا چایئۓ؟ جواب ۔۔۔ ۱۱۔۔۔ ’ناری سشکتی کرن‘ کی کیا بات کریں ؟ ننھی منی بچی محفوظ نہیں ، بوڑھی عورت محفوظ نہیں اور ہمارے پیارے دیس میں عورت ایک طرف دیوی کا اعلا مقام رکھتی ہے اور دوسری طرف کہیں بھی محفوظ نہیں ، عورت ہونا کوئ جرم نہیں ہے ، اپنے کو ’ تر نوالہ‘ نہ بننے دو ، اپنے مقام کو پہچانو ، تم ننگے اشتہاروں کے لۓ نہیں بنی ہو ، نسل انسانی تم ہی سے آجتک قائم ہے ، خود ’ اپنا احترام کرو ‘’دیوی ہو ، دیوی بنو ،دل بہلانے کا کھلونا نہیں ‘۔ ختم شد farzanaejaz@hotmail.com