یہ تو بس ۔۔۔ اردو ہی کا رونا روتا ہے۔۔۔۔تحریر: ندیم صدیقی

Bhatkallys

Published in - Other

06:44PM Sat 1 Jul, 2017

یہی کوئی نصف صدی اُدھر کی بات ہے کہ اُردو کے ایک ادیب جو کسی مدرسے کے پڑھے ہوئے تھے انہوں نے ذاتی محنت سے اپنے اندر علم کے مزید چراغ جلائے، روس۔ ہند دوستی کا زمانہ تھا۔ روس میں اُردو کا بول بالا ہوا اور باقاعدہ روسی اور اُردو زبان ہند اور روس میں پڑھی اور پڑھائی جانے لگی۔ وہ لوگ جو ہماری عمر کے ہیں انھیں دہلی سے ’’ سوویت دیس‘‘ کے نام سے جاری ہونے والا اُردو کا میگزین ضرور یاد ہوگا، کیا شاندار ماہنامہ تھا آرٹ پیپر پر چہاررنگی یہ جریدہ، اُس وقت اُردو کا سب سے زیادہ دلکش میگزین تھا۔ یہ جو ، اب دُنیا بھر میں’’ اُردو کی نئی بستیاں‘‘ کا شور ہے، اگر اُس زمانے میں صرف روس میں اُردو کی جو خدمت ہوئی ہے، اس سے موازنہ کیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ ان نئ بستیوں کا غوغا از خود کافور ہوجائے گا۔ روسی ادب اُردو میں اور اُردو ادب روسی زبان میں منتقل کیا گیا اور ایک دو نہیں کئی ذہانتیں بھی سامنے آئیں ۔ ترجمے جس طرح اُس زمانےمیں ہوئے ویسی مثال تو اب دیکھنے میں نہیں آتی۔ بیشک ترجمے تو اب بھی ہوتے ہیں مگر۔۔۔ جمے۔۔۔ ہوئے جس میں سے ۔۔۔ تر ۔۔۔ عَنقا ہے۔ دَورِ حاضر میں تو ’ علم ‘ کا شور بہت ہے مگر علم سے وہ دلچسپی اور وہ نتائج نظر نہیں آتے جودورِ گزشتہ میں تواتر سے دیکھے گئے ہیں۔ ہم نے اس کالم کی ابتدا ایک ادیب سے کی ہے اب اُسی کی طرف لوٹتے ہیں کہ وہ حضرت مغربی یوپی سے دہلی کے راستے ممبئی پہنچے ، وہ دور کمیونسٹوں کی جدوجہد اور جستجو کا زمانہ تھا ، ممبئی سے نیا زمانہ اور پھر قومی جنگ جیسے اخبار بھی شائع ہو رہے تھے موصوف دوسرے کامریڈوں کی طرح سجاد ظہیر کی سربراہی میں اخبار سے جڑ گئے، یا ٹھکانہ مل گیا۔ فارسی، عربی اور اُردو کے اس جانکار کو اُس وقت ایک ایسا جھٹکا لگا کہ اس کرنٹ نے اس کی زندگی کے کئی طبق روشن کر دِیے۔ وہ جو کہا گیا ہے کہ ہرعُسر میں یُسرہے یعنی ہر اندھیرے میں اجالا ہوتا ہے بس شرط یہ ہے کہ آپ کے ہاں صبر و استقلال کے ساتھ تلاش کرنے کی قوت بھی ہو۔ روایت ہے کہ اُس شخص سے کسی سینئر نے کہا: میاں! یہ دَور ہی نہیں جو زمانہ آرہا ہے وہ بھی، اگر فارسی ،عربی اور اُردو کے ساتھ انگریزی نہیں ہوگی تو اِن زبانوں کا علم بے مصرف ہوکر رہ جائے گا۔ لہٰذا آنے والے کی آہٹ سنیے اور صحیح راستہ اپنائیے تاکہ منزل کھوٹی نہ ہو۔ یہ بات کچھ اس طرح سے کہی گئی یا سننے والے کے دل کو لگی کہ بس اس نےجانفشانی سے ا نگریزی ہی نہیں، روسی بھی سیکھ لی۔ جب اس ادیب کو، جسے اہل ِعلم ڈاکٹر ظ انصاری کے نام سے جانتے ہیں، روس بھیجا گیا تو روایت ہے کہ ماسکو( روس) کے بازاروں میں اگر کوئی شے خریدنی ہوتی تھی تو وہ روسی دُکانداروں کو اشارے کنائے سے اپنی مطلوبہ چیز بتاتے تھے۔ مثلاً انھیں ٹوتھ پیسٹ یا ٹوتھ برش لینا ہے تو وہ دانتوں کی طرف اُنگلیاں پھیر کر اشارہ کرتے تھے اور دُکاندار ٹوتھ پیسٹ اور ٹوتھ برش سامنے رکھ دیتا تھا۔ یہی شخص جب اپنی پَہ آیا تو اس نے روس کے ممتاز ترین شاعر پوشکن کی شاعری کو اُردو کا جامہ پہنایا اور ایسا جامہ کہ پڑھنے والا ،روسی شاعر(پوشکن) کو اپنی زبان کا شاعر سمجھنے لگتا تھا۔ پوری کتاب شاعری کی جدید تکنیک اور فن کا نمونہ بن گئی تھی اسے چھاپا بھی ایسا گیاتھا کہ آدمی دیکھتے ہی خرید لے۔ سفید آرٹ پیپر پر مضبوط جِلد والی یہ کتاب اخبار Blitz (بلٹز۔ بمبئی) کے دفتر سے متصل کتب خانے( شاید’ پیپوپلس پبلشنگ ہاؤس‘) سے ہم نے صرف پانچ روپے میں خریدی تھی۔ ڈاکٹرظ ؔانصاری نےپوشکن کی شاعری پر ایک تنقیدی کتاب بھی لکھی اور وہ بھی اردو میں شائع ہوئی تھی۔ شاعری والی کتاب کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ مترجم نے ہر نظم کے عنوان کے ساتھ اُردو کے کسی ایک شاعر کا ایک شعر بھی(ذیلی عنوان کی طرح) لکھا تھا۔ اس شعر کو پڑھنے کے بعد آپ(اُردو میں) روسی نظم پڑھیے ا ور پھر اُردو کے اس شعر کی طرف پلٹئے ، اگر آپ فہم ِ شعر کے حامل ہیں تو آپ پر منکشف ہوگا کہ روسی شاعرپوشکن نے جو بات دس مصرعوں میں کہی ہے وہ تو اُردو کے شاعر نے پانچ دس لفظوں کے دو مصرعوں میں بیان کر دی ہے۔ ہمارے نزدیک ڈاکٹر ظ انصاری کا یہ عمل بھی ایک تنقیدی رویے سے ہرگز کم نہیں تھا۔ ترجمے کی بات پر ایک ا ور مشہورِ زمانہ کتاب مہاتماگاندھی کی خود نوشت’’ تلاش حق‘‘ بھی یاد آگئی کہ اس ضخیم کتاب کا اُردو ترجمہ اب بھی بازار میں دستیاب ہے۔ اس کتاب کو مشہورِ زمانہ اہلِ علم عابد حسین نے انگریزی سے اُردو میں منتقل کیا تھا پوری کتاب پڑھ ڈالیے کہیں سے ترجمے کا احساس ہی نہیں ہوتا، لگتا ہے کہ گاندھی جی نے اُردو ہی میں یہ کتاب لکھی ہوگی، کیسے کیسے لوگ تھے۔ اب آئیے دور ِحاضر میں کہیں اورنہیں ہم اخباری تراجم اور رپورٹنگ سے مثال دیں گے کہ بہ مشکل دس بیس سطروں کی خبر میں ایک ہی بات کی تکرار عام سی بات ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی ہم نے مشہور ریڈیو جرنلسٹ رضا علی عابدی کے کالم میں ’ اُردو‘ کے بارے میں پڑھا تو ہنس کے رہ گئے کہ ہمارے ہاں تو یہ صورتِ حال ہے کہ اب اس پر افسوس کرنے والے کی طرف لوگ دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ’’ یہ تو بس ۔۔۔ اُردو ہی کا رونا۔۔۔ روتا رہتا ہے ہونہہ چشمِ نم کہیں کا۔‘‘رضا علی عابدی کے اس مضمون کا عنوان ہی یہ تھا کہ’’ اُردو کے دِیے کی دھیمی پڑتی ہوئی لَو‘‘ عابدی لکھتے ہیں کہ ’’ اُردو کی نفاست ہی اس کا حسن ہے۔ اس سے لوگ آئیے، جائیے، اٹھئے اور بیٹھئے کیوں نکال رہے ہیں۔‘‘ ہم ہندوستانی، پاکستانیوں کی اُردو کو بڑی اہمیت دیتے ہیں مگر عابدی نے اس کی قلعی کھول دی ہے وہ لکھتے ہیں: ’’یہ پاکستان اور اہالیان پاکستان کو کیا ہوا جو اپنے فقرے کو آپ سے شروع کرکے تم پر ختم کرنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ ہمارے گھر آؤ یا آپ جی لگا کر پڑھا کرو۔ایک بیمہ کمپنی کے اشتہار میں کہا گیا کہ آپ اپنے بچے کی فیس کہاں سے اداکروگے؟

یہ زبان کی بے حرمتی ہے، جس تہذیب پر ہم بجا طور پر ناز کرتے چلے آئے ہیں اس کا دیکھتے دیکھتے کیا حشر ہورہا ہے۔ بات صرف آپ اور تم کی نہیں، بات پورے رویّے کی ہورہی ہے۔پوری زبان بگڑ رہی ہے۔‘‘ ہم اپنے ہاں کی کیا کہیں کہ اُردو کے عام مدرسین اور جامعات کے جو اُردو اسکالر ہیں ان سے مل کر چودہ نہ سہی چار پانچ طبق تو روشن ہو ہی جاتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو کبھی اُردو کے عام ایم فل یا پی ایچ ڈی اسکالر سے بات کر دیکھیے۔ رہا استثنیٰ تو وہ کفر میں بھی مل جاتا ہے اور ہاں ہمارا اِشارہ کسی شخص کی طرف ہرگز نہیں کوئی کچھ سمجھ لے تو وہ خود اس کا ذمے دار ہوگاہم نہیں، سمجھے صاحب!