ترک مردِ آہن:ایردوان …یارِمن ترکی…ڈاکٹر فرقان حمید

جدید جمہوریہ ترکی میں دو رہنما ایسے ہیں جنہوں نے ترکی کی تاریخ تبدیل کرکے رکھ دی ہے۔ان میں سے ایک بلاشبہ غازی مصطفیٰ کمال اتاترک ہیں اور دوسرے موجودہ صدر رجب طیب ایردوان۔ اگرچہ اتاترک کے بعد عصمت انونو نے ملک کے اقتدار پر طویل عرصے قبضہ رکھا لیکن وہ عوام کے دلوں پر راج کرنے کے فن سے نا آشنا تھے اس لئے ترک عوام کے دل فتح نہ کرسکے۔اتاترک کے بعد ترکی میں جس شخصیت کو عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی وہ بلاشبہ موجودہ صدر اور سابق وزیراعظم رجب طیب ایردوان ہیں۔ جب آپ ترکی کی تاریخ پرنگاہ ڈالتے ہیں تو آپ کو ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی جو غربت کے باوجود کندن بن کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچی ہو۔ ان کے اس بلندی تک پہنچنے کے باوجود ان کی مقبولیت میں ذرہ بھر بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا ہے۔رجب طیب ایردوان 1954ء میں بحر اسود کے چھوٹے اور پسماندہ شہر (اس شہر کی ترقی گزشتہ چند سالوں کے دوران ہی ممکن ہوئی ہے) ریضے کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے اوراسی غربت کی وجہ سے ان کا خاندان اس شہر کو ترک کرتے ہوئے اس وقت ’’سونا اگلنے اور غریب پرور شہر‘‘ کے نام سے مشہور استنبول کا رخ اختیار کرنے پر مجبور ہوا۔ یہاں ایردوان نے اپنی اسکول کی تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے گلیوں اور سڑکوں پر پانی کی بوتلوں کے علاوہ سیمیت (گول رِنگ کی طرز کا کلچہ یا نان) بیچنا شروع کردیا اور یوں انہوں نے اپنے والد پر مالی بوجھ ڈالے بغیر اپنی ہائی اسکول کی تعلیم کو جاری رکھا۔ یہ اسکول ترکی کے عام اسکولوں سے مختلف مذہبی طرز کا ایک مدرسہ تھا جسے ترکی زبان میں امام خطیب (جہاں پر مساجد کے اماموں کو تعلیم و تربیت فراہم کی جاتی ہے) کے نام سے یاد کیا جاتا ہےمیں داخلہ لے لیا اس اسکول یا مدرسے کی خصوصیت مذہبی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم سے بھی بہرہ مند کیا جانا ہے۔ ایردوان نے ستر کی دہائی میں جب ملک شدید ترین سیاسی بحران سے گزر رہا تھا سیاست میں قدم رکھا اور اس وقت کی ملی سلامت پارٹی کے رہنما نجم الدین ایربکان کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کی اور ایربکان ہی کو اپنی سیاست محور سمجھا۔ مرحوم نجم الدین ایربکان نے انہیں 1994ء میں استنبول کے میئر کے لئے امیدوار کھڑا کردیا اور اس شخص نے ناممکن کو ممکن بنا دیا اور پہلی بار مرحوم نجم الدین ایربکان کی جماعت رفاہ پارٹی نے استنبول کی میئر شپ حاصل کرلی۔ ایردوان نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر استنبول شہر کا نقشہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ انہوں نے بہت ہی کم وقت میں استنبول شہر کو پانی کی فراہمی، نکاسی آب اور ٹریفک نظام میں دور رس تبدیلیاں کرتے ہوئے شہر کومغربی شہر کا روپ عطا کردیا۔ استنبول شہر میں بلدیہ کے میئر کی حیثیت سے انہیں جو شہرت حاصل ہوئی اس شہرت نے انہیں مقامی سیاست سے نکال کر ملکی سیاست کی دہلیز پر لاکھڑا کیا جہاں اِن کی سیاست کے چرچے ہونے لگے۔ اس دوران ان کے مرحوم نجم الدین ایربکان سے اختلافات پیدا ہوگئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک نئی سیاسی جماعت ’’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘‘ (آق پارٹی) کی داغ بیل ڈال دی اور اسی دوران انہیں ایک جلسے میں مذہبی اشعار پڑھنے پر آٹھ ماہ کی قید کی سزا دے دی گئی۔ ترک میڈیا اور مغربی میڈیا ان پر اب پریس کی آزادی سلب کرنے کا الزام تو لگا تا ہے لیکن ان کےصرف اشعار پڑھنے کی وجہ سے جیل بھیجنے پر تو کسی میڈیا نے آواز تک بلند نہ کی تھی۔ یہ تو رجب طیب ایردوان ہی تھے جنہوں نے بعد میں اقتدار میں آکر ملک میں پارلیمنٹ کے ذریعے سیاسی اصلاحات کو متعارف کرواتے ہوئے پریس کو مزید آزادی دلوائی تھی۔ آق پارٹی نے اپنے قیام کے آٹھ ماہ بعد ہی ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں کلی اکثریت حاصل کرلی اور 2002ء میںملک کا اقتدار حاصل کرلیا اور اس وقت سے آق پارٹی اپنے اقتدار کے سفر کو کامیابیوں کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔
مردِ آہن ایردوان کا اقتدار حاصل کرنے کا سفر کوئی آسان سفر نہ تھا ۔ ان کے راستے میں فوج اور بیورو کریسی نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ تین بار ان کی حکومت کا تختہ بھی الٹنے کی کوشش کی گئی لیکن مردِ آہن نے کبھی بھی ہمت نہ ہاری اور کامیابی سے ا پنا سفر جاری رکھا۔ ایردوان نےاپنے تین ادوار میں نہ صرف ترکی کا نقشہ تبدیل کرکے رکھدیا بلکہ ترکی جو کہ تیسرے درجے کا ایک ملک سمجھا جاتا تھا کو دنیا کی سولہویں اقتصادی قوت بنانے کے ساتھ ساتھ فی کس اٹھارہ سو ڈالرآمدنی والے ملک کو گیارہ ہزار ڈالرآمدنی والا ملک بنا دیا۔ ایردوان ترکی اور دنیا میں واحد شخصیت ہیں جن کی مقبولیت میں اقتدار میں رہنے کے باوجود مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ اگرچہ جون 2015ء میں ہونے والے عام انتخابات میں عوام نے ان کی جماعت کو تنہا حکومت تشکیل دینے کے اختیارات نہیں د یئے تھے لیکن رجب طیب ایردوان نے اپنی جماعت کے اندر سے مخالفت کے باوجود اپنی ذہانت اور عوامی قوت پر بھروسہ کرتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کا خطرہ مول لیتےہوئے اپنے مخالفین کو ایسا دھچکا لگایا کہ تمام مخالف جماعتیں ان کے سامنے ڈھیر ہو گئیں اور عوام نے ایک بار پھر آق پارٹی کو پہلے سےبھی زیادہ مینڈٹ دے کر کامیابی سے ہمکنار کرایا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایردوان ہی آق پارٹی کا ایک ایسا ستون ہیں جن کے بغیر پارٹی چل ہی نہیں سکتی اور نہ ہی اپنے پاؤں پر کھڑا رہ سکتی ہے۔ ایردوان صدر منتخب ہونے کے بعد سے ملک میں صدارتی نظام کو متعارف کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ انتظامیہ پر ان کی گرفت مضبوط رہے۔ مخالفین اور مغربی میڈیا ان پر پریس کی آزادی سلب کرنے کا الزام لگا ر ہے ہیں لیکن کیا میڈیا نے کبھی خود بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کی؟
کیا میڈیا نے کبھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ایردوان دور سے قبل ملک میں کسی بھی اخبار یا ٹی چینل کو مذہبی پروگرام پیش کرنے کی اجازت تھی؟ ہر گز نہیں۔ اُس دور میں خاموشی اختیار کرنے والا میڈیا اب کیوں واویلا مچاتا ہے؟ کیا مغرب میں عدلیہ بغیر کسی ثبوت کے الزام لگانے والے اخبار یا ٹی وی چینل پر بھاری جرمانہ عائد نہیں کرتی؟ موجودہ حکومت پر آزادی سلب کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ایردوان دور سے قبل صرف ہیڈ اسکارف پہننے کی وجہ سے طالبات سے تعلیم حاصل کرنے کا حق ہی چھین لیا گیا تھا۔ آج ترک کابینہ میں ہیڈ اسکارف والی خاتون کو جگہ دی گئی ہے تو ایک دور وہ بھی تھا جب ہیڈ اسکارف کی وجہ سے’’مروہ کاواک چی‘‘ کو پارلیمنٹ میں نہ صرف حلف لینے کی اجازت نہ دی گئی بلکہ ا نہیں پارلیمنٹ ہی سے نکال باہر کیا گیا۔
صدر ایردوان آج اگر ملک میں سول آئین تیار کرنے پر زور دیتے ہیں تو مخالف جماعتیں سول آئین تیار کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے سے کیوں راہ فرار اختیار کر رہی ہیں؟ کیا یہ وہی ایردوان نہیں ہیں جنہوں نے اسرائیل کو ترکی کے سامنے جھکنے اور معافی مانگنے پر مجبور کردیا تھا۔ کیا آج تک کوئی بھی اسلامی ملک کا سربراہ مغربی ممالک کے سربراہان سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراپنی بات منوانے میں کامیاب ہوا ہے؟ یہ وہی ایردوان ہیں جنہوں نے جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور فرانس کے صدر اولینڈ کو ترکی سے متعلق اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ ترکی نے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر دنیا کی سپر طاقت روس کے طیارے کو مار گرا کر دنیا پر بھی اپنی دھاک بیٹھا دی تھی یہ ایردوان ہی ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں ترکی کےوقار کو بلند کیا اور اب کوئی بھی طاقت ترکی سے ٹکر لیتے ہوئے گھبراتی ہے۔