وہ آئینہ کیا جو سچ نہ بولے وہ روشنی کیا جو گھر جلا دے

از:حفیظ نعمانی
مخصوص لوگوں کی ایک میٹنگ میں وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے وہ سب کہہ دیا جو ان کے دل میں تھا ۔ ایک معروف صحافی سے عوامی گفتگو کرتے وقت انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کی پرشانت کشور سے گفتگو ہوئی تھی، لیکن یہ بھی وضاحت کردی کہ میری گفتگو شری ملائم سنگھ کے بعد ہوئی تھی اور وہ بھی اس حق میں ہیں کہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے الیکشن لڑیں تو ۳۰۰ سیٹیں جیت کر حکومت بنا سکتے ہیں لیکن یہ کہنا بھی نہیں بھولے کہ ہم اگر اکیلے بھی لڑیں گے تب بھی حکومت ہماری ہی بنے گی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کانگریس کے ساتھ اگر ضرورت پڑی تو بعد میں اتحاد کرلیں گے۔
مسٹر اکھلیش یادو نے یہ بھی اشارہ کردیا کہ کسی کے ساتھ بھی اتحاد ہوتو ہر فریق کو قربانی دینا پڑتی ہے۔ وہ بند الفاظ میں یہ کہنا چاہتے تھے کہ کانگریس جتنی سیٹیں مانگ رہی ہے اس میں اسے کم کردینا چاہئیں۔ جس کی آسان سی بات تو یہ ہے کانگریس کی جو جیتی ہوئی سیٹیں ہیں ان کے علاوہ وہ بی ایس پی اور بی جے پی کے مقابلہ میں جہاں دوسرے نمبرپر رہی ہو وہ لے لے۔ اور اگر ایسی کوئی سیٹ نہ ہو تب بھی جہاں معقول تعداد میں ووٹ ملے ہوں وہ لے لے۔
۲۰۱۲ء کے الیکشن میں سب کو یاد ہوگا کہ راہل گاندھی کے جلسہ میں اکھلیش یادو کے جلسہ سے زیادہ آدمی ہوتے تھے۔ اس کی ایک وجہ ہیلی کاپٹر بھی ہوتا تھا۔ ۲۰۱۷ء کے الیکشن میں کتنے ہیلی کاپٹر ہوں گے یہ تو وقت بتائے گا۔ لیکن یہ کام دونوں کے لیے دشوار ہوگا کہ کرایہ کے آدمی لائے جائیں۔ اکھلیش یادو اپنی حکومت سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں لیکن انھیں بھی سوچ سمجھ کر خرچ کرنا پڑے گا۔
کانگریس کے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اکھلیش یادو دوبارہ حکومت بناتے ہیں تو ۲۰۲۲ء میں انہیں ہٹانا آسان بھی ہوسکتا ہے لیکن اگر ۲۰۱۷ء میں اترپردیش بی جے پی کے پاس آگیا تو پھر دونوں کے لیے اس کا ہٹانا مشکل ہوجائے گا۔ یہی بات تجربہ کار لیڈر ملائم سنگھ نے اپنے بیٹے سے کہی تھی کہ پوری تیاری کے ساتھ الیکشن میں اترو اگر بی جے پی ایک مرتبہ صوبہ پر قابض ہوگئی تو پھر اسے ہٹانا تمہارے لیے بہت مشکل ہوگا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب افضال انصاری کی پارٹی کو شیوپال یادو نے اپنی پارٹی میں ضم کیا تھا۔ کانگریس کے لیے ۲۰۱۲ء میں راہل گاندھی نے جان لڑا دی تھی اور ہر جگہ کہا تھا کہ ۵ برس میں وہ اترپردیش کی صورت بدل دیں گے اور دس برس میں اسے پہچاننا مشکل ہوگا۔ لیکن یہ بات اگر کوئی ایسا لیڈر کہتا جس کی پارٹی نے اترپردیش میں حکومت نہ کی ہوتی تو لوگ غور بھی کرتے ۔ کانگریس تو وہ پارٹی تھی جس نے ۱۹۵۲ء سے ۱۹۶۷ء تک حکومت کی۔ 1967ء میں چودھری چرن سنگھ نے کانگریس سے نکل کر سنیکت ودھائک دل کی حکومت بنائی اور پھر 1969میں بی کے ڈی کی حکومت بنائی۔
اگر کانگریس نے پہلی حکومت کے بعد عوام کے خوابوں کی حکومت بنائی ہوتی اور راجہ مہاراجہ اور لارڈ بننے کے بجائے عوام کے خادم بنے ہوتے تو آج وہی حکومت کررہے ہوتے لیکن انہیں جن کی وراثت میں حکومت ملی وہ عوام سے دور بہت دور رہتے تھے۔ ہر شہر میں سول لائن نام کے شاندار مکان اور کوٹھیاں انہی سفید کتوں کی تھیں جو ہم غلاموں سے اتنی دور رہنا چاہتے تھے کہ ہماری ہوا بھی نہ لگے۔ ہر صوبہ میں گورنر ہاؤس اور دہلی میں صدر جمہوریہ کے لیے سو کروڑ سے زیادہ کا محل جو وائس رائے کے لیے انگریزوں نے بنایا تھا اور صدر کا وہی مصرف کہ حکومت جو حکم دے وہ اسے کرنا ہے اور اس کی اپنی کوئی رائے نہیں۔لیکن خرچ سب سے زیادہ اس کا۔ جن انگریزوں کو ملک کے عوام نے نکالنے کے لیے قربانیاں دیں ان کا ہی طریقہ اپنالیا اور عوام سے دور بہت دور جا کر بس گئے۔
آج جس عذاب میں ملک کا ہر آدمی مبتلا ہے بے شک وہ شری مودی کا لایا ہوا ہے لیکن یہ سبق مودی نے سیکھا کانگریس سے ہی ہے کہ اندرا گاندھی جب وزیر اعظم بنیں تو انھوں نے وہ تمام معاہدے ختم کردئے جو ریاستوں اور انگریزوں کے درمیان ہوئے تھے۔ ان بینکوں کو قومیالیا جو ملک میں خود مختار تھے۔بجلی کا نظام پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھ میں تھا اسے سرکار کے ہاتھ میں لے لیا۔ اور جب 1972کے الیکشن کے بعد سوشلسٹ لیڈر راج نرائن نے پٹیشن دائر کردیا جس کے فیصلہ میں اندراگاندھی کو ہائی کورٹ نے ہارا ہوا بتایا تو اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کردی اور ہر مخالف کو جیل میں بند کردیا۔ یہی مودی جی نے کیا کہ جب ان کی ناکامیوں کی وجہ سے ملک میں مودی مودی کی آوازیں آنا بند ہوگئیں تو انھوں نے اعلان کردیا کہ ۱۰۰۰ اور ۵۰۰ کے تمام نوٹ بند اورآج ۲۵ دن ہوگئے کہ ہر بینک کے سامنے اپنے روپے لینے کے لیے ہر آدمی ایسے کھڑا ہے جیسے بھکاری، جن میں وہ بزرگ بھی ہیں جو بوڑھے ہونے کی وجہ سے رٹائر ہوچکے ہیں اور جن میں کھڑے کھڑے دو مر بھی گئے اور ہمیشہ کے لیے ان کی پینشن مودی سرکار کی ہوگئی۔
بی جے پی کے ایک لیڈر سبرامنیم سوامی ہیں۔ انھوں نے الزام لگایا ہے کہ عوام کی پریشانیوں کے لیے جیٹلی ذمہ دار ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ نوٹ بندی کے لیے جو ضروری تیاریاں ہونا چاہئیں تھیں وہ وزارت خزانہ کی جانب سے نہیں کی گئیں۔ سوامی نے کہا کہ میں نے نوٹ بندی کے ساتھ انکم ٹیکس ہٹانے کا مشورہ بھی دیا تھا جسے جیٹلی نے نہیں مانا۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نوٹ بندی سے عوام کو تکلیف پہنچی ہے۔۔
وزیر اعظم نے معزز عوام سے ان کی بے عزتی اور تکلیف کے لیے معافی مانگنے کے بجائے ایک مضبوط ہندوستان کی بنیاد رکھنے کے لیے کالے دھن اور کرپشن کے خلاف انقلاب کی قیادت کرنے کی اپیل کی ہے۔ اور اپنے فیصلہ کو تاریخی قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ لوگ قوم کو ہونے والے طویل مدتی فوائد کے لیے کچھ وقت کی تکلیف برداشت کررہے ہیں۔ انھوں نے پھر وہی راگ الاپا کہ زیادہ تعداد میں نقد رقم بدعنوانی اور کالے دھن کا بڑا ذریعہ ہے اس لیے وہ غیر نقد لین دین کے فروغ کی اپیل ہر جگہ کررہے ہیں اور ان کے چھورے جیٹلی کہہ رہے ہیں کہ نقد رقم کا مسئلہ ۳۰ دسمبر تک حل ہوجائے گا۔ یعنی جنوری میں اچھے دن آجائیں گے۔ اب اس کا کون جواب دے گا کہ وزیر اعظم نقد رقم مٹانے پر تلے ہیں وہ سمجھ رہے ہیں کہ بینک کی لائنیں ختم نہیں ہوں گی اس لیے Cash lessسماج بنایا جائے۔ وزیر خزانہ کہہ رہا ہے کہ ۳۰ دسمبر تک ضرورت بھر نوٹ آجائیں گے۔ اب فیصلہ یکم جنوری 2017کو ہوگا کہ کون جھوٹ بول رہا تھا۔ اس لیے دسمبر کا مہینہ دفتراسکول اور کالجوں کے بجائے بینک کے سامنے گذارنے کے لیے سب تیار ہوجائیں۔
موبائل نمبر:9984247500