مركزي حكومت كا مختصر جائزه آزادي سے اب تك ..... محمد شهاب الدين ثاقب


لوك سبها إنتخاب ملك كی تصوير ، تقدير اور سمت طے كر ےگا اس لئے ملك کے عوام سمجھ بوجھ كر
هندو ، مسلم اور ذات پات سے او پر اٹهكر اپنے اپنے حلقہ کے سيكولر اور عوامی كام میں دلچسپى ركهنے والے اميدوار كو ووٹ دیں !
مسلم قوم كى اكثريت بهيڑ بكريوں كى ٹوليوں كى طرح ہر پارٹى كا دامن تهام كر دعوى كر رہى ہےكہ وه پارٹى اس كى مسيحا هوگى يہ نادانی ہے جو مسلم ليڈر ايسا دعوى كرتا ہے اس كا ذاتي اور مالي فائده ضرور هوگا مسلم قوم كا كوئى فائده نہ هوگا ، مولانا ارشد مدني ، مولانا رابع حسني ،مولانا اسرار الحق قاسمي ، مولانا عامر رشادي ، مولانا ولي رحماني،كچھ ڈاكٹرس اوركچھ پروفيسرس جيسى ہستياں مسلم قوم اورملك كا درد اورفكر ركهتى ہیں مگر ہدروستان كى مسلم آبادي كا نصف حصّہ ملكي اور علاقائى مسلم ليڈر جو كسى نہ كسى پارٹى کے وفادار هیں كى بات مان كر ووٹ ديتے ہیں اور يہ مسلم ليڈر إقتدار میں ره كرمسلم قوم كا مطالبه پارٹى يا سركار سے نهیں كرتا صرف ذاتي اور مالي فائده ديكهتا ہے قوم كى كوئي فكر نيںد ، وراثت كى سياست ناايت غلط ہے اور جمهوريت كے خلاف بهى !
سیاست و جمہوریت اسلام کی تعلیمات کا حصّہ ہے اسلام مسلمانوں کو نظم و اتّحاد کےساتھہ زندگی گذارنے کی تعلیم دیتا ہے اسلام دشمن طاقتوں نے بہکایا کہ سیاست دین سے الگ ہے اپنے رسولۖ کا اسوہ دیکہیں کہ مدینہ منوّرہ پہنچتے ہی نظم و نسق کی باگ ڈورسنبھالی پہلی ہجری میں ہی " میثاق مدینہ " ہوا ۔
اسلام وحدت و اخوّت کا داعی و پیامبر ہے اسلام کے دامن میں علاقائی عصبیت ، خاندانی و نسلی برتری ، زبان و بیان اور ذاتی و مسلکی اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں گروہ بندی اور فرقہ بندی شعار جاہلیت ہے پس جس کسی نے شعار جاہلیت کو اپنایا اور ملّت کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا اسکا ٹھکانہ جہنّم ہے ۔
كوئى پارٹى اتنى سيٹ نهيں لا سكتى كہ اكيلےحكومت بنالے تال ميل يقينى ہے ! رياستى پارٹيوں كو زياده سيٹ مليگى اور رياستى پارٹيوں ميں سے اكثر پارٹى جس كو سپوٹ كريگى عام آدمى پارٹى يا كانگريس يا بى جے پى كى حكومت بن جائيگى يا پھر تهرڈ فرنٹ !
ہندوستان كو آزاد ہوئے 65 سال ہوچكاہےجس میں تقريباً 50 سال كانگريس نےملك پرحكومت كيا ہے 1947سے1977 تك (30) سال لگاتار كانگريس كى حكومت رہى اس کے بعد جنتاپارٹى پھر كانگريس ( اندراگاندهى1980-1984، راجيوگاندهى1984-1989 ) اس کےبعدجنتادل( وى پى سنگھہ1989-1990) پھركانگريس ( نرسمهاراؤ 1991-1996) پھرجنتادل ( 1996 - 1998 ) پھربى جے پى (اٹل بہارى واجپئى 1999 -2004 ) پھر كانگريس ( منموهن سنگھہ) 2004 سےجارى ہے!
ان حكومتوں کے زمانے میں رونما ہوئے اہم حادثات و واقعات قارئين كى ياد دہاني كيلئے درج ہیں !
1949 23دسمبرآدهى رات كو بابري مسجد میں مورتى ركها گيا
1961 جبل پور میں مسلم مخالف فساد
1962 بهارت – چين جنگ
1965 بهارت – پاك جنگ
1969 احمد آباد میں مسلم مخالف فساد ايك هزار أفراد هلاك
1971 بهارت – پاك جنگ اور شملہ معاهده
1979 جمشيد پور اور على گڈهه میں مسلم مخالف فساد
1980 مرادا آباد میں مسلم مخالف فساد
1984 سكّھہ مخالف فساد 2 هزار سكّھہ هلاك
1985 شاه بانو كيس میں سپريم كورٹ كاغيراسلامى فيصلہ
1986 راجيوگاندهى کےحكم سے بابري مسجد كا تالا كهولا گيا
1987 ميرٹهه میں مسلم مخالف فساد 350 هلاك
1989 راجيوگاندهى کےحكم سے بابري مسجدكى جگہ شيلانياس
1989 بهاگلپور میں مسلم مخالف فساد ايك هزار هلاك
1992 كانگريس حكومت میں بابري مسجد كو شهيد كيا گيا
1993 بمبئى میں مسلم مخالف فسادايك هزارهلاك پھر بم بلاسٹ
يہ تمام واقعات كانگريس حكومت میں رونما ہوئے
بى جے پى ( 1999 – 2004 )
كارگل جنگ ، نيو كليئر ٹيسٹ ، پـوٹا قانون بنا ، نيشل ہائى وے پروجيكٹ ، پردهان منتري گرام سڑک يوجنا، مسلم نوجوانوں كو پـهنسانا.
2001 سروسكچهاابهيان
2002 گجرات میں مسلم مخالف فساد 2 ہزار أفراد هلاك
يہ تمام واقعات بى جے پى حكومت میں رونما ہوئے
كانگريس موجوده حكومت ( منموهن سنگھہ )
بهارت امريکہ نيو كليئر معاهده ، اسرائيل کے ساتهہ تعلقات وسيع 2008 ممبئى پر حملہ
2013 مظفر نگر فساد 60 أفراد هلاك
2000 سے 2012 تك 36 هزار مسلمانوں كو دهشت گردي کےنام پر جيل میں ڈالا گيا !
ان واقعات و حادثات كا تهوڑاساتجزيہ كياجائے توبات سمجهہ میں آتي ہےكہ:-
كانگريس كا ایجنڈا بنيادى طور پرسيكولر ہے مگر فسطائى ذہنيت کے لوگ بهى شامل ہیں جوملكي مفادکے خلاف كام كرتے ہیں اورهندوستانى عوام پرخطرے کے بادل منڈلاتے رهتے ہیں يقيناًملك ترقي كررها ہے مگر كڑوروں هندوستاني غربت كى آخري سطح پـر زندگى گزار رها ہے.
بى جے پى كا ایجنڈا بنيادى طور پر فرقہ پرست اورغيرسيكولر ہے مگران میں بهى كچھہ لوگ سيكولر ذهنيت ركهتے هیں، پارٹى تو ایجڈاےکے مطابق كام كرتى ہے پچھلے چند برسوں میں كچھ مسلمانوں نے بى جے پى كو ووٹ دياہےمسلمانوں نے سب کو اچھی طرح دیکھہ لیا اب پرکھ بهى لیں ، نام نہاد سیکولراورجمہوری طاقتوں کے دم پرزندگی گزارنا چھوڑدیں ، اپنے بل پراپنی لڑائی اپنے اصولوں کے مطابق لڑیں تب ہی کچھ نتیجہ نکلےگا کیونکہ یہ ساری طاقتیں ہندوستان کےبھولےبھالےعوام کوسینکڑوں سال سےدھوکہ دیکر ان کا استحصال کرتی آئی ہیں ،انہیں اچھوت بناکررکھا ، بھوکےننگے رکھا ، وہ کیا جانےانسانیت اور دیانت داری کو، یہ لوگ اپنے فسطائی عزائم کو بروئےکارلانےکیلئےانگریزكى تربيت کےمطابق کام کرتے ہیں ،ان کےپاس اپنی فہم ، بصیرت ، جسارت اورجرأت تک نہیں ۔ یہ مسلمانوں سےکیا انصاف کریں گے؟ ان سے انصاف کی امید مسلمان اگرکرتا ہے توان سے بڑا بے وقوف کون ہوگا۔
مشہور ہےکہ جب پریس اور میڈیا آزاد ہوتا ہے تو حقیقت پر مبنی اور عوام کےساتھہ ہوتا ہے کیونکہ صحافت مفاد اور غرض سے ہٹکر مقدس پیشہ ہےمگرھماری بھارتی اکثر میڈیا حکومت اور پولیس کے بیان کو اور سنی سنائی خبروں کو بغیر تحقیق نشر کرتا ہے جس وجہ سے عوام کا اعتبار میڈیا سے اٹھتا جا رہا ہے کئي برسوں سے ہر كيس میں مسلمانوں کی حراست پھر عدالت سے باعزت رہائی میڈیا اور حکومتی ایجنسیوں و پولیس کی مجنونانہ سازش کی مثال ہے ۔
کاش یہ پریس و میڈیا سمجھہ سکتے کہ یہ آزاد جمہوری ملک کے باشندے بھی ہیں جب تک انکا جرم ثابت نہیں ہوتا یہ معصوم اوربے گناہ ہیں ۔
محمد شهاب الدين ثاقب جلواروي
ساكن جلوراه ، ضلع دربهنگہ ، بهار ، هندوستان ( حال مقيم سعودي عرب )
email:shahab_qasmi@yahoo.com