تری ذہنیت کا غم ہے غمِ بال و پر نہیں ہے( از : حفیظ نعمانی)

Bhatkallys

Published in - Other

04:39PM Sat 16 Jan, 2016
hafeez-noumani از حفیظ نعمانی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا مسئلہ شاید وہ ایسا اکیلا مسئلہ ہے جس کے لئے بی جے پی کے کمل مارکہ چار مسلمان تو ہوسکتا ہے وہ کہیں جس کا ان کی دیدی حکم دیں ورنہ کوئی ایک مسلمان ایسا نہیں ہے جس سینہ کھول کر سامنے آنے میں تکلف کرے۔ راقم حفیظ نعمانی سنبھل، بریلی، لکھنؤ اور دیوبند میں پڑھائی کے نام پر کتنا ہی وقت گذارا ہو لیکن علی گڑھ میں ایک دن بھی پڑھنے کی سعادت نہیں ملی لیکن جب 20 مئی 1965 ء کو یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف آرڈیننس لایا گیا تو اس وقت ملک کا سب سے زیادہ مقبول اخبار ’’ندائے ملت‘‘ ہمارے ہاتھ میں تھا تو ہم نے مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائے کنونشن کے موقع پر اس کا ایک خاص نمبر نکالنے کا فیصلہ کیا اور اس کے اعلان سے ہی لال بہادر شاستری کی حکومت کے در و دیوار ہل گئے۔ جس کے وزیر تعلیم سی ایم چھاگلا تھے اور یہ وہ وقت تھا کہ پورے ہندوستان پر کانگریس کی حکومت تھی۔ اس کے باوجود حکومت پتہ کی طرح کانپ رہی تھی۔ اور وہ اس کے علاوہ کچھ نہ کرسکی کہ اس نے ہمیں ڈی آئی آر کے تحت گرفتار کرلیا اور جتنا اخبار بھی اسے مل سکا وہ ضبط کرلیا۔ 9 مہینے کی یہ داستان رودادِ قفس نام کی کتاب میں موجود ہے جس کے ہندی ایڈیشن کی رسم اجراء کے موقع پر لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر پروفیسر روپ ریکھا ورما نے تقریر کے دوران کہا کہ ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا جو مدعا تھا وہ۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ وہ مسلمانوں کا مدعا ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کا مدعا نہیں ہے بلکہ ہم سب کا مدعا ہے۔‘‘ محترمہ نے جو تقریر کی وہ پڑھنے کے ہی قابل ہے۔ ان کے علاوہ پروفیسر رمیش دیکشت نے ایک اہم بات کہہ دی کہ ’’مسلم یونیورسٹی سے لفظ مسلم ہٹانا اور بنارس یونیورسٹی سے لفظ ہندو ہٹانے کی جو بات چل رہی تھی تو میں اس وقت آرٹ فیکلٹی کا ممبر تھا۔ شاسن میں لکھنؤ یونیورسٹی کی ایک ٹیم تھی جس کا میں نمائندہ تھا اور اشوک نگم جنرل سکریٹری۔ ہمارے ساتھ بنارس گئے تھے۔ بنارس یونیورسٹی سے لفظ ہندو ہٹانے کی بات صرف اس لئے تھی کہ حکومت کو علی گڑھ سے لفظ مسلم کو ہٹانا تھا اور مسلم یونیورسٹی کا مزاج بدلنے کے لئے ہی یہ سب قواعد کئے گئے تھے۔ رہی بنارس ہندو یونیورسٹی تو اس کا نام ہندی میں ’’کاشی وشو ودیالیہ‘‘ ہے کاشی ہندو وشو ودیالیہ نہیں ہے۔‘‘ وزیر اعظم شری مودی ملک میں اپنے خلاف چلتی ہوئی ہوا کو دیکھ رہے ہیں اور اس وقت اس کرسی پر جس پر 1965 ء میں مسٹر چھاگلا جیسے قدآور بیٹھے تھے جن کے کاندھے پر رکھ کر شاستری جی بندوق چلا رہے تھے۔ آج اس پر مسز اسمرتی ایرانی نام کی امیٹھی سے ہاری ہوئی بیٹھی ہیں۔ جن کے ہاتھ میں اردو میں لکھا ہوا کاغذ آجائے تو کرنٹ لگ جاتا ہے اور وہ اسے پھینک کر کہہ دیتی ہیں کہ میں اردو کا کاغذ چھو بھی نہیں سکتی۔ ان کے رہتے مودی صاحب وہ کردینا چاہتے ہیں جس کی حسرت لئے صرف شاستری جی ہی نہیں نہ جانے کون کون چلا گیا۔ 1965ء میں جو صف میدان میں تھی ان میں سے چھوٹوں میں سے ایک ہم بھی ہیں جو صرف قلم اور کاغذ کی جنگ میں اپنا حصہ دے پائیں گے۔ مولانا ارشد میاں ہیں جنہوں نے کہہ دیا کہ جمعیۃ علماء ہند میدان میں آجائے گی۔ محمد ادیب صاحب اور پروفیسر اختر الواسع ہیں جو اسی یونیورسٹی اور علی گڑھ کے بیٹے ہیں۔ ان کے علاوہ لاکھوں اولڈ بوائے ہیں جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان میں سے کوئی نہیں ہے جس سے ان کی مادر علمی جو مانگے گی اسے دینے میں وہ ایک دن کی تاخیر نہیں کریں گے۔ مودی صاحب کو اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے کتنا خطرناک فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لئے صرف اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے پڑھانے والے ہی نہیں مسجدوں میں نماز پڑھانے والے اور مدرسوں میں دینی کتابیں پڑھانے والے بھی ایک آواز پر جمع ہوجائیں گے۔ لکھنؤ یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے پروفیسر رمیش دیکشت نے کہا ہے کہ ’’ہمارا ماننا ہے کہ جب آپ نے اس یونیورسٹی کو بنایا نہیں تھا۔ بنانے والے کوئی اور تھے تو اس کے مزاج کو بنا رہنا چاہئے۔ اور ایک بات میں اور کہنا چاہتا ہوں کہ جو حیثیت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کردار کی مسلمانوں کے دماغ میں ہے۔ ویسی کوئی پہچان بنارس ہندو یونیورسٹی کی ہندوؤں کے دماغ میں نہیں ہے۔‘‘ اور یہ شاید اس لئے ہے کہ ملک سے ہندوؤں کے لئے تو ملک کی ہر یونیورسٹی ہندو یونیورسٹی ہے وہ کسی ایک کو کیوں گلے کا ہار بنائیں گے؟ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں شاید دنیا کے ایسے اکیلے بڑے آدمی ہیں جنہیں اس یونیورسٹی کے بنانے کی پاداش میں کافر بھی کہا گیا ان کے خلاف کفر کے فتوے بھی آئے اور اس ہندوستان کے نامور علماء نے انہیں سرسید رحمۃ اللہ علیہ بھی کہا اور لکھا اور کوئی شک نہیں ہے کہ جتنی مخالفتیں انہیں برداشت کرنا پڑیں اور انہوں نے جیسی ثابت قدمی دکھائی۔ معلوم شخصیتوں میں ایسی کوئی دوسری نہیں ملتی اور آج جیسا تعلق علیگ برادران کے درمیان ہے ایسا بھی شاید کسی دانش گاہ کے فرزندوں میں نہ ہو کہ جب کوئی کہیں ملتا ہے اور معلوم ہوتا ے کہ یہ بھی علیگ ہے تو سینہ سے سینہ ملاکر چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا۔ سپریم کورٹ میں انتہائی اہم فیصلے ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اور ہر فیصلہ پر ردّعمل بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ اس کے بارے میں مودی سرکار کا ایک انتہائی خطرناک فیصلہ ہے جس کے بعد وہ ہوسکتا ہے جس کے نہ ہونے کے لئے مسلمان پچاس برس سے لڑرہے ہیں۔ 20 مئی 1965 ء کو جو آرڈیننس آیا تھا اس کے نقصان پر غور کرنے کے لئے 8-7 اگست 1965 ء کو لکھنؤ کی بارہ دری میں مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز کنونشن بلایا تھا اور یہ فیصلہ بڑوں کا تھا۔ پچاس برس پہلے صرف بڑے بولتے تھے اور چھوٹے عمل کرتے تھے۔ یونیورسٹی کا مسئلہ الیکشن جیسا نہیں ہے کہ ہر کسی کو بولنا ضروری ہو۔ لیکن ایک دن ہی گذرا ہے کہ مودی کا پتلا پھونکنے کی بھی خبر آگئی اور مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کے مالک بھی اپنی رائے دینا ضروری سمجھنے لگے۔ جبکہ ضرورت اس کی ہے کہ صرف یونیورسٹی کے ذمہ دار بولیں اور کورٹ کے ممبران رہنمائی کریں۔ ان کے علاوہ ہر مسلمان کو دعا کرنا چاہئے اور صرف ایک اعلان کرنا چاہئے کہ مسلم یونیورسٹی کے لئے ہم سے جو قربانی مانگی جائے گی ہم دیں گے۔ کیونکہ مسئلہ سڑک پر یا رام لیلا میدان میں نہیں سپریم کورٹ میں ہے۔ حکومت کے اس فیصلہ پر رائے دینا انتہائی مشکل کام ہے۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے مودی صاحب اور امت شاہ نے بہار کے الیکشن میں ہر وہ بات کہہ دی تھی جس کے بارے میں کسی وزیر اعظم کے متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ اس طرح وہ اُترپردیش کا الیکشن جیتنے کے لئے اس سے بہت نیچے بھی گرسکتے ہیں۔ مودی کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے اور راجستھان میں بی جے پی کی حکومت ہوتے ہوئے اور معاملہ سپریم کورٹ میں ہونے کے باوجود ٹرکوں میں بھرکر پتھر لانے کی اجازت دینا۔ سبرامنیم سوامی کو رام مندر کے محاذ کی کمان سونپ دینا اور مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی حمایت سے اپنے وکیل کو قدم پیچھے ہٹانے کا حکم دینا۔ اس کا اعلان ہے کہ اُترپردیش کے ہندو ووٹ کے لئے ہر قیمت دینا ہے کیونکہ سب کا ساتھ سب کا وکاس ان سے ہو نہ سکے گا اور مسلمان انہیں ووٹ نہیں دے گا۔ لہٰذا ہندو کا ساتھ اور ہندو کا وکاس کرو اور ہندو کو ووٹ کی اتنی قیمت دو جس کا اس نے تصور بھی نہ کیا ہو۔ کیونکہ اگر مودی صاحب کو اُترپردیش نہیں ملے گا تو پھر وہ شاید 2019 ء کے بارے میں سوچنا بھی بند کردیں گے اور وہ کر گذریں گے جو آر ایس ایس کا منصوبہ ہوگا۔