سچی باتیں ۔۔۔ وطن سے محبت ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم

Bhatkallys

Published in - Other

02:42PM Sun 22 Jul, 2018

عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰہ المکة ما اطیبک بلد واحبک الی ولو ان قومی اخرجونی منك ما سکنت غیرك

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ(مکہ سے ہجرت کے وقت)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تو کتنا پاکیزہ اور مجھے کتنا پیارا شہر ہے۔ اگر میری قوم نے مجھے نکلنے پر مجبور نہ کردیا ہوتا تو میں تجھے چھوڑکہیں اور جاکر (ہرگز) نہ بستا۔

        یہ روایت جامع ترمذی کی ہے زرقانی وغیرہ سیر کی کتابوں میں بھی اسی مضمون کی روایات ہیں، زبان مبارک سے مکہ کی محبت ومحبوبیت کے یہ الفاظ کسی وقت صادر ہوئے تھے؟ ہجرت کے وقت، وہ وقت کون سا تھا؟ وہ وقت تھا جب مکہ والوں کا عناد وتمرد اپنے انتہائی بلند نقطہ پر تھا، ابو جہل و ابو لہب جیسے خدا دشمنوں کا دور دورہ تھا اور ایمان کا کلمہ منہ سے نکالنا اپنے کو ہلاکت میں ڈال دینا تھا ،جو سر زمین اس خاص وقت مین اس قدر گندہ وناپاک ہورہی تھی اسے پاک ترین انسان کی زبان، اطیب و احب، بڑی ہی پاکیزہ چیز اور بڑی ہی پیاری فرمارہی ہے۔ یہ وطن کی طبعی محبت نہ تھی تو اور کیا تھی؟ جو مسلمان حب وطن کو حقیر سمجھ رہے ہیں وہ اس واقعہ پر غور کریں وطن اور سرزمین کی محبت، ماں باپ کی محبت، بھائی بہن کی محبت کی طرح طبعی وفطری ہے اور مذاق انبیاء  واولیاء  میں رچی ہوئی، وطن سے محبت یوسف علیہ السلام کو تھی، خاتم النبیین کو تھی، اصحاب رسول کو تھی، مدینہ آکر مکہ کی یاد مدتوں حضرات صحابہ کو تڑپاتی رہی۔

لیکن وطن دوستی کی اس فضیلت کے باوجود شریعت کا سبق وطن پرستی کا نہیں ، وطن لاکھ عزیز ہو محبوب ہو، جب دین و وطن میں آکر تصادم ہوجائے ایک طرف مصالح وطنی ہوں.، دوسری طرف مصالح دینی اور دونوں میں جمع کی کوئی صورت نہ رہے تورعایت صرف مصالح دینی کی کرنی چاہیے اور وطنیت کو دل پر جبر کر کے سہی ذبح کر کے رکھ دینا چاہیے وطن کے اوپر تو اس صورت میں جہاد کرنا چڑھائی کرنا وطن والوں سے قتال کرنا لوٹنا مارنا جلا دینا کب جائز اور بعض صورتوں میں واجب ہوتا ہے، دین کی خاطر کلمۃ اللہ کی سربلندی کی خاطر بے شمار صحابہ وطن چھوڑ کر  حبشہ گئے مدینہ گئے انبیاء علیہم السلام  نے  وطن کو چھوڑا وطن سے ہجرت کی وطن والوں سے قتال کیا، مارا، کاٹا، خاک و خون میں لٹایا، وطن کی عورتوں کو بیوہ بچوں کو یتیم کیا،محض اس لئے کہ دین پھیلے اور وطن والوں کی خبیث عادتیں چھوٹیں  اس بڑے مقصد کے سامنے یہ چھوٹے چھوٹے مقاصد چیزہی کیا ہیں؟

        یورپ غریب اگر وطنیت کی بت کی پوجا کر رہا ہے تم معذور ہے، اس کے پاس زرو زمین سے بلند تر چیز ہی کونسی ہے؟ ہندو اگر اپنی ہندیت پر قانع ہیں تو وہ بھی ایک حد تک معذور ہیں ان بے چاروں کے سامنے سے بلند تر وسیع تر مقصد ہی کونسا ہے؟ لیکن یہ ہماری کونسی شامت ہے کہ کہیں زیادہ بلند و برتر مقاصد رکھ رکھا کر بھی ہم انہیں پست نظر قوموں کی پیروی پر گرے جارہے ہیں ہمارا فرض تو انہیں  پستیوں سے نکال کر بلندیوں پر لانا  تھا ، نہ یہ الٹے ہم خود ہی ان کی پستیوں پر اترے آرہے ہیں، وطن کی مٹی سے محبت تو جانوروں تک کو ہوتی ہے، بلی کو ہوتی ہے، کتے کو ہوتی ہے،  یہ طبعی محبت ہے طبیعت کے موافق ہے، لیکن مقاصد کے ساتھ محبت ایک عقلی محبت ہے مخصوص بشری امتیاز کی چیز ہے اور عقلی محبت سے وہی نسبت رکھتی ہے جو آسمان کو زمین کے ساتھ ہے ہجرت کا لب لباب کیا ہے؟ رضائے الہی کے لیے ترک وطن وعلائق وطن اور ہجرت کے فضائل کس مسلمان کے کان میں نہیں پڑے ہیں ؟-