ٹک ٹک دیدیم ۔۔۔ تحریر : فرزانہ اعجاز

Bhatkallys

Published in - Other

09:23PM Thu 7 Sep, 2017

انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اسکا ذہن مکمل طور پر ایک سادہ سلیٹ یا ایک سادہ ورق کے مانند ہوتا ہے ۔پھر گزرتا ہوا وقت اس سادہ کاغذ یا سادہ سلیٹ پر حالات اور واقعات کی آڑی ترچھی لکیریں کبھی گہری اور کبھی ہلکی لکیریں اور نقش و نگارکی بہت واضح تصاویر بناتا چلا جاتا ہے ، اکثر یہ لکیریں یا تصویریں دھندھلا جاتی ہیں اور کچھ تا زندگی ایسی واضح اور نمایاں رہتی ہیں کہ ’آج ہی کی بات ‘ محسوس ہوتی ہیں ۔ دوسرے کسی بھی انسان کی طرح ہم بھی سادہ سلیٹ کی طرح اس دنیا میں آۓ ۔ فرق صرف یہی ہے کہ ایک مختلف ماحول میں ہوش سنبھالا ، تب سے اب تک دنیا کے مختلف حصوں کے مختلف لوگوں سے ملنا جلنا ہوتا رہا ، اور یہ احساس ہوتا رہا کہ کچھ باتیں اور مسائل بہ نسبت دوسرے لوگوں کے ہمارے ذہن میں زیادہ واضح محسوس ہوتے ہیں ، آنکھ کھولی تو ہمارے اطراف سادہ سا ایک ماحول تھا ۔آپس میں محبت اور خلوص اور رواداری کا راج تھا ،سچ بولنے اور حق بات کی حمایت کرنے کی تربیت دی جاتی تھی ، فرنگی محل کے ’مفتی ‘صاحبان ’استفتأ نویسی ‘میں مشغول تھے اور ہمارے بچپن ہی میں ہمارے ابو نے یہ ذمہ داری سنبھالی جس کا ہم کو بھی بڑا فایدہ ہوا ، بہت سی باتیں جو عام طور پر لڑکیوں کے علم میں نہیں ہوتیں ، ہم کو اکثر بیشتر معلوم ہوتی رہیں ، کچھ واقعات آج بھی یاد آجاتے ہیں ، ابو کے مفتی کا عہدہ سنبھالنے کے فورا ً بعد ایک دن ایک سرکاری بڑے افسر ایک برقع پوش خاتون کے ساتھ ’باہر کے کمرے ‘ میں آۓ اور ابو سے کہا کہ وہ ان صاحبہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں ، ابو نے انکا نکاح پڑھ دیا ، کئ سال بعد ایک صاحبہ اپنی والدہ کے ساتھ آیئں اور بتایا کہ ’وہ صاحب ‘ نکاح سے مکر گۓ ہیں اور دھوکے سے بیوی سے نکاح نامہ بھی لے لیا ہے ، ‘بیوی کے پاس اب اپنی صفائ کا کوئ ثبوت نہیں ہے، سو ، اگر ابو کو کچھ یاد ہو تو مدد کی جاۓ، وہ ماں بیٹی بہت حراساں تھیں ، وہ صاحب ’ بڑے افسر ‘ تھے اور صاحبہ بھی بہت ذمہدار افسر تھیں ، پھر مقدمے میں گواہی دینے سے ابو کو روکنے کی درجنوں دھمکیاں دی گیئں ، قتل تک کر دینے کی ، مگر ابو نے سچ کا ساتھ دیا اور اپنی بات پر ڈٹےرہے،ایسے ہی ایک واقعہ یاد آتا ہے ،ایک صاحبہ اکثر فون کرتی تھیں کہ ’انکے شوہر نے انکو طلاق دے دی ہے لیکن ، وہ انکاری ہیں ، سو، اب وہ کیا کریں ؟‘ بہت سنجیدہ صاحبہ تھیں ، پھر وہ اسی مسئلے کے ساتھ اکثر آنے لگیں ، انکے شوہر بھی بہت سمجھدار اور بڑے پڑھے لکھے سرکاری افسر تھے ، جن سے ابو کی ملاقات اکثر ’یو پی اسمبلی‘ میں بھی ہوا کرتی تھی ، انکا کہنا تھا کہ ایک روز وہ اپنے کمرے میں ایک کاغذ پر کچھ لکھ رہے تھے ، اسی وقت انکی بیوی کمرے میں داخل ہویئں ، اتفاق سے اسی لمحے ان صاحب نے وہ کاغذ پھاڑ کر پھینک دیا ، ‘ جس سے انکی بیبی کو یہ خیال ہوگیا ہے کہ ’ انہوں نے کاغذ پر اپنی بیبی کو طلاق لکھی تھی اور اچانک انکے آجانے سے وہ کاغذ پھاڑ دیا ۔‘اب بیبی صاحبہ نے ان سے ہر تعلق ختم کر لیا ہے اور اپنے کو ’طلاق شدہ ‘ ماننے لگی ہیں ، وہ صاحب بہت پریشان تھے ۔ ابو نے امی کے سامنے ان صاحبہ کو بہت سمجھایا کہ ’ انکے شوہر نے نہ تو ان صاحبہ کو زبانی طلاق دی ہے نہ کسی اور طریقے سے بی بی کو بتایا تو کیسے طلاق ہوگئ؟ ایسے ہی ایک بار ایک پورا خاندان ابو کے پاس آیا ، سب بہت پریشان تھے ۔بات یہ تھی کہ ایک پسند کی شادی کے نۓ شادی شدہ جوڑے میں شوہر نے بیبی سے کہا کہ ’اگر تم اپنے ماموں کے یہاں گیئں تو سمجھ لینا کہ میں نے تم کو طلاق دی ، ‘بیبی ماموں کے یہاں چلی گیئں ، ماموں کو جب یہ واقعہ پتہ چلا تو سارا خاندان پریشان تھا کہ اب کیا ہوگا ، یہ رشتہ رہے گا یا ختم کر دیا جاۓ گا ؟ دونوں میاں بیبی زاروقطار رو رہے تھے اور پریشان تھے ۔ ایسے ہی ایک بار الیکشن کے زمانے میں ایک قصہ ہوا اور ابو کے پاس لایا گیا کہ شوہر نے بیبی سے کہا کہ ’ اگر تم نے کانگریس کو ووٹ دیا تو میں تم کو طلاق دے دوں گا اور بیبی نے کانگریس ہی کو ووٹ دیا ،اب شرع کیا کہتی ہے ؟ ‘ایک بار ایک پورا خاندان بہت فکر مند آیا ، ایک لڑکی کی شادی ہو رہی تھی ، وہ ’مانجھے ‘ بیٹھی تھی کہ اسکے گھر کی بہت پرانی نوکرانی شادی کی خبر سن کر آئ ، جس نے اس لڑکی کو اپنے کسی بچے کے ساتھ ’ دودھ پلایا ‘تھا ، ’دولہا‘ کا نام سن کر اس نے کہا کہ ’ اس نے اس بچے [دولہا] کو بھی دودھ پلایا ہے ، اس خبر کے ساتھ ہی افراتفری مچ گئ، اس طرح تو دلہن دولہا ۔’دودھ شریکے بھائ بہن ‘ ہو گۓ، جن کے درمیان شادی حرام ہے ، ابو نے نوکرانی سے بہت بحث کی تو معلوم ہوا کہ ’دولہا کے ساتھ کا اسکا اپنا کوئ بچہ تھا ہی نہیں کہ جسکے ساتھ اس عورت نے ’ہونے والے دولہا کو دودھ پلایا ہو ۔ ایک بار ہمارے گھر کی ایک ملازمہ کی اسکے شوہر سے سخت لڑائ ہوگئ ، وہ روتی پیٹتی ہمارے گھر آئ اور ’ مفتی صاحب ‘ سے کہنے لگی ۔ ‘میاں ۔، اب آپ ہمکا طلاق دئ دیں ‘ وہ بار بار یہی کہہ کے رو رہی تھی ۔ مفتی صاحب نے اسکو سمجھایا کہ ’ وہ ایسا نہ کہے ، طلاق تو اسکا شوہر ہی دے سکتا ہے ، کوئ مفتی یا دوسرا انسان نہیں ‘۔ محلے میں ایک مشہور گاؤں کا خاندان کوٹھریوں میں آباد تھا اور محرم ’منانے ‘ ہرسال بڑی ’ تیاریوں ‘ کے ساتھ اپنے آبائ گاؤں جاتا تھا ، ’تیاریوں میں ‘ نۓ لباس اور بھر بھر ہاتھ رنگ برنگی چوڑیاں ، چاۓ کی پتی اور بیڑیوں کے بنڈل ہوا کرتے تھے ،یہ مغل لوگ تھے اور جن میں اکثر افیم کا استعمال کرتے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ ان معصوم لوگوں کو مذہب کا زیادہ ادراک نہیں ہے ، ایک بارگاؤں سے واپسی پر معلوم ہوا کہ ’گاؤں میں ایک ’زبردست افیمچی‘مر گیا ، تو لوگوں نے اس کے جنازے کو سزا کے طور پر ’ بغیر غسل اور نمازجنازہ ‘ کے دفن کروا دیا ، کیونکہ ’ گاؤں میں آۓ ایک نۓ ’مولبی صاحب ‘ کا یہی حکم تھا ، ‘ ہمارے ایک بزرگ نے سنا تو کہا ۔ ‘جو ختم ہوگیا ، وہ اپنے اعمال کا جواب خود اللہ کو دیگا ، ہم کسی کا ’ فیصلہ ‘ کرنے والے کون ہیں ، ایک ایسے انسان کو جو اپنی صفائ میں اب کچھ نہیں کہہ سکتا ،بغیر نماز جنازہ کے دفن کر دینے کا گناہ ’اب تمام دنیا کے مسلمانوں پر ہوگا ۔ ‘پھر ان بزرگ نے خود اس کی ’ غائبانہ نماز جنازہ ‘ پڑھی ۔

شام کی چاۓ پر جب ہم سب ابو امی کے ساتھ موجود ہوتے تھے ، امی نے ابو سے پوچھا کہ ’اگر کوئ عورت نماز پڑھنے کی حالت میں نہ ہو اور وہ دیکھے کہ قرآن شریف کہیں سے گر رہا ہے تو وہ کیا کرے؟ کیا وہ اسے گرنے دے یا ہاتھ سے روک لے ۔ کیوں کہ ناپاکی کی حالت میں قرآن شریف کو چھونا منع ہے یعنی ’ لا یمسسہ الا مطہرون ۔ مت چھوؤاسکو جبتک پاک نہ ہو ؟ ابو نے کہا ’ کوئ صاف کپڑا دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اس میں قرآن شریف کو گرنے سے روکا جا سکتا ہے ۔ ‘عورتوں کی طہارت بہت اہم مسٔلہ ہے ،لیکن افسوس کہ عام طور پر بچیوں سے ایسی باتیں چھپائ جاتی ہیں اور اکثر طہارت کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی ہے ، مسقط میں ہماری جاننےوالی ’بڑی نمازی ‘ صاحبہ ، اپنے ساس سسر شوہر کے ساتھ حج کو گیئں ، واپس آیئں تو انکے حج کے احترام میں لگاتار دعوتیں شروع کی گیئں ، ایسی ہی ایک دعوت میں فرمانے لگیں کہ ’ مخصوص دنوں ‘ میں چلکر باربار’نماز کے لۓ‘ مسجد جانے میں بڑی دقت ہوتی رہی ، ہم نے پوچھا ۔۔۔ ’ایسی حالت میں تو مسجد جانے اورنماز پڑھنے کو ’ منع ‘ ہے ؟ بڑے اعتماد سے بولیں ۔۔۔’ہم کو سب معلوم ہے ، مگر احرام اور حج کے زمانے میں ایسی حالت میں نماز کی اجازت ہے ، ـ ہم نے حیرت سے انکو ازدواج مطاہرات سے اسی بات سے متعلق حدیث سنائ مگر وہ اپنی بات پہ اڑی رہیں ۔ ابو سے ہم حج کو جانے کی اپنی خواہش بیان کر رہے تھے تو ہم نے کہا ۔۔۔۔۔’ہم اپنے دیور کے ساتھ جایئں گے ،اعجاز صاحب کو اس زمانے میں چھٹی نہیں ملے گی ، ۔۔۔ ‘ابو نے کہا ۔۔ ’آپ ان کے ساتھ نہیں جاسکتیں ، اس لۓ کہ وہ ’آپ کے نامحرم ہیں۔ ‘ہم کو اپنی کم علمی پر بہت دکھ ہوا ، ہم سمجھتے تھے کہ ’جیسے ’ بیوی کی بہن محرم ہے ، ویسے ہی ’ شوہر کا بھائ بھی محرم ہوگا ، ۔ ‘جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ’ سواۓ سگے سسر کے ’سسرال ‘ میں ایک بھی رشتہ ’ محرم ‘ نہیں ہے ، سسرالی رشتہداریاں بھی بہت اہم ہوتی ہیں ، دیور بھابھی ، سالی بہنوئ کے تمام رشتے ’نا محرم ‘ رشتے ہیں ،جن سے پردہ کرنا اور ’ لحاظ کرنا ‘ چاہیۓ ، اس کے برعکس فحش مذاق ٹھٹھہ بہت ہی نازیبا اور غیراسلامی باتیں ہیں ۔ اسی طرح ’مہر ‘ کا معاملہ ہے ، لڑکی کا مہر اس کے والی یا وارث طے کرتے ہیں اور مہر ’ نکاح سے جڑا ہوتا ہے ناکہ ’طلاق ‘ سے ، نکاح ہوگیا تو مہر بھی لازم ہوگیا ، یہ بہت غلط رسم ہے کہ لڑکی کو جب کبھی طلاق ہوگی تو مہر دیا جاۓ گا ، لڑکی کا حق ہے کہ وہ اپنا مہر جلداز جلد وصول کرے ،ناکہ اسکو مہر کی طلبی پر ’بے وفا یا ناقابل برداشت ‘ قرار دیا جاۓ ، اور اس سے یہ امید کی جاۓ کہ وہ مہر معاف کر دے گی ۔ لڑکی کی شادی اسکے شوہر سے ہوتی ہے ،جبکہ میاں بیوی دونوں کے ایک دوسرے پر بہت سے حقوق ہیں ، پوری سسرال کی زمہ داری بیوی پر نہیں ہوتی ، یہی اسلامی طریقہ ہے ، ہماری ایک ملنے والی صاحبہ نے بتایا کہ ’ انکے شوہر ،انکی ان چچی کے سگے بھائ ہیں ، جن چچی نے اپنے کسی بچے کے ساتھ ہماری دوست کو دودھ بھی پلایا ہے ۔‘ ہم حیرت سے انکا منھ دیکھتے رہے کیونکہ وہ صاحب انکے دودھ شریکے ماموں ہوۓ ۔ ایک اور ملنے والی بہت پریشان تھیں کہ انکا کوئ سگا بھائ نہیں ہے ،چچا کے بیٹے پیچھے پڑے ہیں کہ ان صاحبہ کے ضعیف ماں باپ اپنا گھر بیچ دیں اور اپنے بھتیجے کا حصہ ابھی اسکو دے دیں ،وہ خوفزدہ تھیں کہ کہیں انکے اکیلے اور ضعیف والدین کو کچھ نقصان نہ پہنچ جاۓ، ہم نے کہا ، تمہارے چچازاد کا ، تمہارے ابو کی جایئداد میں کچھ حصہ ہی نہیں ہے ، ہاں ، تمہارے چچا ہوتے تو انکا حصہ ہوتا ، وہ بھی تمہارے اور تمہاری امی کا حصہ نکال کر ، رویت ہلال خاص طور سے عیدالاضحی ۱ کے چاند کے سلسلے میں بہت مصروفیت اور عجلت ہوا کرتی تھی ،آج بھی ہوتی ہے ، ہر سال انتیس رمضان کو لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے کئ مسلمان لوگ ’ چاند کی تصدیق ‘ کے لۓ آیا کرتے تھے ،ساتھ ہی جب سے گھر میں فون لگا تھا ، تمام جگہوں سے سیکڑوں فون آیا کرتے تھے ، کئ بار تو تیسویں روزے کو قرب وجوار سے ظہر سے پہلے گواہی آجانے پر خود ’ علماۓ فرنگی محل اور خود مفتی صاحب ،تمام لوگوں کے سامنے پہلے اپنا روزہ ’ افطار ‘ کرتے اور تمام لوگوں کو افطار کرواتے ، گواہی دینے آنے والوں سے مفتیان فرنگی محل بڑی سخت جرح کیا کرتے تھے ، اپنے اطراف ہمیشہ ایسی شخصیات رہیں جو انسان اور انسانیت کی توقیر کی طرف متوجہ کرتی رہیں ، یہی سنتے رہے کہ ’ اگر تم کسی دوسرے کے بزرگوں کو برا کہو گے تو اس بات کے لۓ بھی تیار رہو کہ ایک دن دوسرا تمہارے بزرگوں کو بھی برا کہے گا ، ‘ یہی سیکھتے رہے کہ اگر کسی میت کو نہلانا تو کبھی بھی اس کی پوشیدہ حالت کا ذکر تک کسی سے نہ کرنا اور نہ کبھی کسی میت سے ڈرنا یا گھن کھانا کہ ایک نہ ایک دن سب کو اسی حالت میں مجبور و لاچار پڑے ہونا ہے ۔ کسی کے یہاں غمی کے بعد اپنی ’ خاطر تواضع ‘ کی امید نہ کرنا ، بلکہ اس گھر کی اداس حالت پر افسوس کرنا ،وہی نا کہ جو بات حضور صلم نے فرمائ ہے کہ ’تم زمین والوں پر رحم کرو ۔۔۔ آسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔ ‘۔۔۔۔ افسوس کی بات ہے کہ بہت ضروری اور بنیادی باتوں کا علم ہم میں سے اکثر کو نہیں ہوتا ہے ، اور اگر ہوتا بھی ہے تو اہمیت نہیں دیتے ہیں ، اپنے بچوں کو ’ قطعئ غیر ضروری باتوں ‘ کو حد درجہ ضروری باتیں سمجھ کر ہم بتاتے ہیں ، لیکن ، اسلامی مسائل جو ہماری زندگی کا حصہ ہیں ، نہیں بتاتے ہیں ، اب جبکہ آنکھوں کی روشنی دھندھلانے لگی ہے اور ہاتھ کانپنے لگے ہیں ، دل کو بس یہی ایک اطمینان ہے کہ اللہ کا کرم شامل حال رہا کہ ایسے لوگوں میں پرورش پائ جو انتہائ معتبر اور عالم لوگ تھے ، ساتھ ہی یہ بھی سکون ہے کہ زندگی کی ٹہڑی میہڑی ڈگر پر چلتے چلتے جب جب بھی قدم بہکے ،انہی رہنماؤں کے ارشادات اور احکامات نے بار بار سنبھال لیا ، farzanaejaz@hotmail.com