صورت گر کچھ خوابوں کے۔۔۔ فیض احمد فیض کا انٹرویو۔ آخری قسط۔۔۔ ڈاکٹر طاہر مسعود
فیض: بھئی یہ بات صرف ترقی پسندی تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان و ہندوستان بننے کے بعد جو ایک متفقہ تحریک حصول آزادی کے لیے چل رہی تھی، وہ ختم ہوگئی۔ اس لیے کہ آزادی مل گئی۔ آزادی کے بعد اگلی منزل کون سی ہے یا اس سے آگے کیسے جانا ہے؟ اس کے بارے میں صرف ترقی پسندوں ہی میں نہیں، زندگی کی ہر سطح پر مختلف خیالات و نظریات پیدا ہوئے۔ اس سے ساری سیاسی زندگی متاثر ہوئی۔ یہ بالکل غلط بات ہے کہ پاکستان بننے کی وجہ سے تحریک ختم ہوگئی۔ اگر پاکستان نہیں بنتا اور ہندوستان میں آزادی کے بعد اسی قسم کے مسائل پیدا ہوجاتے تو؟ آزادی تو ایک مجرد چیز ہے۔ صرف یہ کہہ دینا تو کافی نہیں کہ ملک آزاد ہوگیا۔ اس کے بعد اس کا سیاسی نقشہ کیا ہوگا؟ اقتصادی نظام کیسا ہوگا؟ معاشرے کا کاروبار کیسے چلے گا؟ ان ساری چیزوں کے بارے میں نئے طریقے سے سوچنا، تجاویز و منصوبے بنانا تشریح کی صورتیں پیدا کرنا، ظاہر ہے ان تمام مسائل پر ہم متفق نہیں تھے۔ آزادی کے بعد اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی نظام کو ایک مخصوص سانچے میں ڈالنے کے عمل کے بارے میں کسی کا ذہن بھی صاف نہیں تھا۔
طاہر مسعود: ادیبوں کو اس وقت قومی تعمیر کے سلسلے میں جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا کیا انہوں نے وہ کردار ادا کیا یا اس ذمہ داری سے پہلو تہی کی؟
فیض: ادیب کا کردار محدود ہوتا ہے کیوں کہ وہ حکومت تو چلاتا نہیں ہے۔ وہ تو محض عوام کا ترجمان ہوتا ہے اور عوام کی ذہنی اور جذباتی تربیت کرتا ہے۔ اس زمانے میں اچھے ادیبوں کے مقدور میں جتنا کچھ تھا انہوں نے کیا، لیکن ہر دور میں اچھے ادیبوں کی تعداد بہت تھوڑی ہوتی ہے۔
طاہر مسعود: جس دور کا ذکر ہورہا ہے۔ اس وقت تک معاشرے پر ادیبوں اور دانش وروں کے اثرات گہرے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ادیبوں پر بحیثیت مجموعی قومی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کا الزام عائد کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً فرانس میں الجزائر کی جنگ آزادی کے معاملے میں سارتر نے جس بے باکی سے ایک موقف اختیار کیا یا جیسا کہ آپ نے لورکا اور نرودا وغیرہ کے نام لیے، انہوں نے شاعر ہونے کے باوجود جو سیاسی کردار ادا کیا، اس درجے کا کردار ہمارے ادیبوں میں نظر نہیں آتا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
فیض: کیوں نہیں نظر آتا۔ جس حد تک ہمارے ادیبوں میں صلاحیتیں تھیں، اس کے مطابق انہوں نے اپنا کردار ادا کیا اور پھر سارتر اور لورکا جتنے بڑے ادیب بھی تو ہمارے ہاں نہیں تھے اور بڑے ادیب روز روز پیدا نہیں ہوتے، بڑے ادیب پیدا کرنے کا کوئی نسخہ تو ہے نہیں۔ فرانس میں بھی آپ سارتر یا اراگون کا نام لے دیں گے۔ اس سے زیادہ نام تو وہاں بھی نہیں ہیں اور بعض ملکوں میں تو ایک نام بھی نہیں ملے گا۔ یہ تو محض اتفاق ہے۔
طاہر مسعود: مثلاً دیکھیے کہ ہمارے ملک کا ایک حصہ علیحدہ ہوگیا، ایک بازو کٹ گیا، لیکن ادبی سطح پر جمود طاری رہا۔ اتنے عظیم سانحے نے ہمارے ادیبوں کے باطن میں کوئی ہلچل، کوئی طوفان برپا نہیں کیا۔ کوئی بڑا ناول کوئی ایسا ادب تخلیق نہیں ہوا جس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکیں کہ اقتدار پرستوں کے ضمیر مرچکے ہیں لیکن ہمارے ادیب زندہ ہیں۔
فیض: ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ جو بازو کٹا ہے، ادب وہاں پیدا ہونا چاہیے کیوں کہ بازو ہمارا نہیں ان کا کٹا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مغربی پاکستان کے لوگوں کے لیے یہ بات کہ مشرقی پاکستان میں کیا ہورہا ہے؟ کوئی تجربہ نہیں تھا۔ تجربہ تو مشرقی پاکستان یا بنگالیوں کے لیے تھا، لہٰذا انہیں بڑا ادب تخلیق کرنا چاہیے۔
طاہر مسعود: ہمارے مغربی پاکستان کے ادیبوں کے لیے یہ سانحہ ذہنی اور روحانی تجربے کی حیثیت تو رکھتا ہوگا نا؟
فیض: ان کے لیے یہ ذہنی اور روحانی تجربہ بھی نہیں تھا۔ اس لیے کہ دور دراز کی بات تھی، براہ راست تجربہ تو نہیں تھا نا۔ بنگلادیش میں بہت سی چیزیں لکھی گئیں۔ وہاں کے ادیبوں کا تجربہ ہمارے دانش وروں کی نسبت براہ راست تھا۔ یہاں کے ادیبوں کا تجربہ تو خیالی تھا۔ بنگالی تو ہمیں آتی نہیں لیکن مجھے معلوم ہے کہ وہاں کے افسانہ نگاروں اور لکھنے والوں نے بہت موثر چیزیں لکھی ہیں مثلاً شہید اللہ قیصر وغیرہ نے۔
طاہر مسعود: ہمارے لیے ذہنی اور روحانی تجربہ تو تھا۔ خود آپ ہی نے اس تجربے کو موضوع بنا کر بہت ہی اچھی غزل کہی:۔