عبد اللہ دامودی ۔۔۔ ایک باصلاحیت کارکن ۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری ۔ بھٹکل


WA:+971555636151
عید الفطر کے دوسرے روزپتہ چلا کہ عبد اللہ دامودی صاحب چنئی سے آئے ہوئے ہیں۔ تو بندر روڈ پر ان کی رہائش کی طرف ہمارے قدم بڑھ گئے ۔ دو ماہ قبل اچانک خبر آئی تھی کہ آپ کی پیٹھ میں درد کی ٹیس اٹھی تھی ، اور ڈاکٹروں نے تشخیص کی تھی کہ ان کی ہڈیوں میں اندر تک کینسر سرایت کرگیا ہے ۔ انہیں فورا بنگلورسے لے جاکر چنئی میں عائشہ اسپتال میں داخل کردیا گیا ہے ، اور ان کی صحت بڑی تشویشناک ہوگئی ہے ۔ گھر پہنچا تو آپ آرام کرسی پر لیٹے تھے ، چہرے پر وہی بشاشت رواں دواں تھی جو آپ کی پہچان تھی ، بس انہیں اٹھنے اور حاجات ضروریہ میں تکلیف محسوس ہورہی تھی ، لیکن ان کی مجلسیت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا ، زبان سے حسب عادت کے ویسے ہی پھول جھڑ رہے تھے ، ہلکا پھلکا ہنسی مذاق بھی جاری تھا ، چہرے سے کہیں زندگی سے مایوسی کے آثار نمایاں نہیں ہورہے تھے، اللہ کی ذات پر بھروسہ ظاہرہورہا تھا ، اپنے بچپن کی شرارتوں کا ذکر چھیڑا ، مدت تک مشفق استاد حضرت قاضی شریف محی الدین اکرمی علیہ الرحمۃ کا ناشتہ دان لانے ، اور ان کے منہ تک اس کے جانے سے پہلے چپکے سے اس سے لطف اندوز ہونے کا قصہ بھی بیان کیا ۔ ہم نے ان سے دریافت کیا کہ سید عبد الرحیم ارشاد مرحوم نے نوائط اکیڈمی کی تاسیس کے ارادے سے کونے کھدرے سے نائطی زبان و تہذیب کا ذخیرہ اکٹھا کیا تھا۔ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی یہ پورا ذخیرہ پانی اور بارش کی نذر ہوکر ضائع ہوگیا ۔ اب وہ چیزیں تلاش کرنے سے نہیں ملتیں ، اس کے ساتھ نائطی زبان و ثقافت کی بہت سی کڑیاں غائب ہوگئیں ۔ اور کلاسیکل ادب کا بڑا قیمی سرمایہ ناپید ہوگیا ۔ آپ نے بھی برسہا برس کی محنت اور دور دراز کی نائطی بستیوں میں جاکر گھر گھر سے تہذیبی و ثقافتی نوادرات جمع کئے ہیں ۔ کوئی انسان یہاں رہنے کے لئے نہیں آیا ، کبھی نہ کبھی آپ بھی آنکھین بند کرکے اس دنیا سے رخصت ہونگے ، قومی ورثہ کی حفاظت کے لئے عشروں پر پھیلی آپ کی جدو جہد کا کیا ہوگا؟ کہیں یہ بھی ضائع ہوگئی تو پھر گزشتہ نسلوں سے نائطی تاریخ کا ناطہ ٹوٹ جائے گا۔ تو اس وقت بھی ان کے چہرے پر امید کی روشنی جھلک رہی تھی ، انہوں نے گھر کے پچھواڑے میں جاکر دیکھنے کو کہا، وہاں پرلکڑی سے بنا ہوا ایک قدیم دروازے کا چوکھٹ اور ایسی ہی کچھ دوسری پرانی چیزیں پڑی تھیں ۔ کہاکہ اس کی قیمت پچاس ہزار سے زاِئد ہے لیکن ایک شخص نے اس کی حفاظت کے ارادے سے آج ہی انہیں یہاں پہنچایا ہے ۔ آئندہ اس قومی ورثے کی حفاظت کو انتظام ہوگیا ہے ۔ اس دوران دو ایک بار آپ کے پاس جانا ہوا ، رشتے داروں اور انکے چاہنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا، زیادہ ملنے اور بات کرنے کا موقعہ نہیں تھا ، پتا چلا کہ نماز عید پڑھنے گھر سے نکلے تھے ،آج یکم اگست جولائی کو خبر آئی کہ ظہر بارہ بجے ،اللہ کی ذات پر بھروسہ اور اعتماد کرنے والے اس شخص نے آنکھیں بند کرلیں ۔ اور آپ کا جسد خاکی آخری مرتبہ گھر سے نکل کر دائمی سفرپر روانہ ہوا ۔ اناللہ و انا الیہ راجعون ۔
عبد اللہ دامودی مرحوم نے اس دنیا کی اسی بہاریں دیکھیں ، ان کا جنم 1938 کو بھٹکل کے جامعہ محلے میں ہوا تھا ۔ ابتدائی تعلیم اس وقت کے رواج کے مطابق مکتب میں قرآن پاک سے شروع ہوئی ، جس کے بعد آپ نے انجمن اسلامیہ اینگلو اردوہائی اسکول میں داخلہ لیا ، اور 1954ء میں دسویں جماعت پاس کی ۔ یہاں آپ کو مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمی ، اور مولانا محمود خیال مرحوم جیسے اساتذہ نصیب ہوئے ۔ اول الذکر سے انہوں نے فقہ اور ابتدائی دینیات کی تعلیم پائی ، جو آپ کے ذہن میں پتھر کی لکیر کی طرح بیٹھ گئی ۔ لیکن اردو سے محبت اور ادبی ذوق پیدا کرنے میں خیال صاحب نے آپ پر گہرے اثرات چھوڑے ۔ خیال صاحب ایک اچھے ادیب و شاعر کے ساتھ ساتھ بچوں کے پروگرام ترتیب دینے میں بڑے ماہر تھے ۔ اپنا یہ ہنر آپ نے شاگردوں میں بھی منتقل کیا تھا ، جن میں مرحوم مایہ ناز حیثیت رکھتے تھے ،1970ء کی دہائی تک انجمن ہائی اسکول میں بچوں کے اسٹیج پروگراموں میں نونہالوں کی تقاریر اور ڈراموں میں ایک وافر مقدار آپ کی محنت اور صلاحیت کا ثمر ہوا کرتی تھی ۔ ان میں ۱۹۶۳ ء میں انجمن میں کھیلا گیا آپ کا ڈرامہ اکبر اعظم بہت مقبول ہوا تھا ۔
میٹرک کے کچھ عرصہ بعد آپ تلاش معاش کے لئے ممبئی روانہ ہوئے ، جہاں عبد الرحمن اسٹریٹ میں ٹولس اور پائپوں کی مشہور دکان منشی محمد حنیف اینڈ کمپنی میں ملازمت اختیار کی ، بعد میں اس میں آپ سیلس مینیجر بھی بن گئے تھے ۔
آپ کے سن شعور میں دیوبند سے مولانا عامر عثمانی مرحوم کا ماہنامہ تجلی شروع ہوا ، جس کے آپ باقاعدہ قاری بن گئے ،اپنے اساتذہ اور ماحول کے طفیل آپ میں مطالعہ اور کتب بینی کا شوق پیدا ہوا ، اس دوران آپ کو مولانا مودودی علیہ الرحمۃ کی تصنیفات سے لگاو پیدا ہوا ، جماعت اسلامی کے رکن تو نہیں بنے البتہ آپ کی فکر سے مکمل ہم آہنگ ہوگئے ، اور جب ممبئی میں مقیم مولانا کی فکر سے متفق بھٹکلی احباب نے ۱۹۶۹ء میں ادارہ تربیت اخوان کے نام سے ایک تنظیم کا آغآز کیا تو آپ اس قافلے میں شریک ہوگئے ۔ ۱۹۷۱ء میں جب اس ادارے سے نائطی زبان میں پندرہ روزہ النوائط جاری کیا گیا تو اس کے بنیادی قلم کار بن گئے ،چند عرصہ اس کے ایڈیٹر بھی رہے ۔شاید تجلی کے اثر سے آپ میں ناقدانہ ذہن پیدا ہوا تھا،
جس کا اثر کبھی کبھار آپ کی تحریروں میں بھی جھلکتا تھا ، کبھی اس کی کاٹ بہت تیز نظر آتی تھی ، عبد القادر حافظکا مرحوم آپ کو پیدائشی ناقد کہا کرتے تھے ، یاد پڑتا ہے کہ کوئی چالیس سال قبل حافظکا صاحب کو سفیر سعودی عرب مقرر کئے جانے پر انجمن استقبالیہ میں آپ کے پیش کردہ تحریری سپاس نامے میں کاٹ محسوس ہوئی تھی ۔ انجمن آپ کا مادر علمی تھا، اس سے انہیں بے پناہ محبت تھی ، اس کی مجلس انتظامیہ کے مدت تک ممبر رہے ، اور جناب مزمل قاضیا صاحب کی جنرل سکریٹری شپ کے دور میں آپ ادارے کے سکریٹری بھی رہے ۔
سنہ 1970ء میں بھٹکل میں جب پہلی مرتبہ کانونٹ اسکول داخل ہوا تو ادارہ تربیت اخوان نے اسلامی نہج پر نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے لئے شمس نرسری اسکول قائم کیا ،دامودی صاحب اس کے پہلے ناظم تھے ، اس ابتدائی دور میں آپ نے اس تجربہ کو کامیاب کرنے کے لئے جان توڑ کوششیں کیں ۔ اپنی بچیوں کو بھی اس کی ترقی و بہبود کے لئے مامور کیا ، اور ایک وقت ایسا آیا کہ مشنری اسکول اپنا بوریہ بستر بند کرکے چلا گیا ، یہ اور بات ہے کہ کچھ عرصے بعد یہ دوبارہ بہتر پلاننگ کے ساتھ لوٹ آیا ، شمس نرسری اب جامعہ آباد روڈ پر ایک وسیع و عریض قطعہ ارضی پر ہائرسکنڈری انگلش اسکول بن کر شاندار خدمات انجام دے رہا ہے ۔
سنہ 1971 میں انجمن گولڈن جوبلی کے موقعہ پر منیری صاحب کی کنوینر شپ میں آپ کی کوششیں قابل داد تھیں ۔ دستاویزی سوینیر کی ترتیب و تزیین میں آپ کی بے پناہ صلاحیتیں کام آئیں تھیں ، جن کی اس وقت بڑی پذیرائی ہوئی تھی ۔
وہ مجلس اصلاح و تنظیم سے بھی وابستہ رہے ، اس کے ذریعہ فلاحی خدمات میں بھر پور حصہ لیا ۔ اور 2013ء میں منعقدہ صدی پروگرام کی کامیابی کے لئے بھرپور وقت دیا ، اس موقعہ پر قومی شخصیات کی خدمات کو روشن کرنے کے لئے جو یاد گار مجلہ ترتیب دیا گیا تھا ، اس میں آپ کی صلاحیتوں کے نقوش نمایاں تھے ۔
سنہ 1980 کی دہائی میں وہ تلاش معاش کے لئے ینبع ۔ سعودی عرب منتقل ہوئے ، جہاں انہوں نے سماجی خدمات کے لئے بزم بھٹکل قائم کرنے میں اپنا کردار نبھایا ، 1989ء کالیکٹ میں منعقدہ پہلی بین الجماعتی کانفرنس میں آپ نے یہاں سے نمائندگی کی اور اپنا فکر انگیز مقالہ پیش کیا تھا۔
دامودی صاحب آواز کے بادشاہ تھے ، ششتہ اردو بولتے اور لکھتے تھے ، شعری و ادبی ذوق روئیں روئیں میں بسا ہوا تھا ۔ مقامی شعری مجالس میں اپنی اناونسنگ کا جادو جگاتے تھے ۔ 1980 کی دہائی میں جب ہم نے پیغام اسلام کیسٹ سیریز کے نام سے ادبی و علمی صوتیات کا سلسلہ شروع کیا تھا ، تو قاری محمد عبد الباری کی تلاوت اور آپ کی آواز میں تفہیم القرآن سے سورہ نور کے ترجمہ پر مشتمل ایک کیسٹ تیار کیا تھا ۔
آپ کو دستور سازی میں بڑی مہارت تھی ، بھٹکل کے مختلف مرکزی اداروں کے دستور تیار کرنے میں آپ کی صلاحیتیں کام آئیں ۔ 1992ء میں جب بھٹکل میں مسلم یوتھ فیڈریش کے نام سے جملہ محلہ وار کلبوں کی جو تنظیم قائم ہوئی اس کا دستور تیار کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، حالانکہ اس وقت وہ جوانی کا مرحلہ پار کرچکے تھے ، باجود اس کے آپ کے حوصلے نوجوانوں کو مات دیتے تھے ۔ ان ایام میں آپ نے اپنے محلہ مخدوم کالونی کے نوجونوں کے شاہین کلب کو منظم کرنے میں پرجوش انداز سے کام کیا ۔ وہ جامع مخدومیہ کے جنرل سکریٹری بھی رہے ۔
نوائط تہذیب و کلچر سے انہیں بے پناہ لگاو تھا ، انہوں نے اس کی خوشبو کو باقی اور تر وتازہ رکھنے اور ان کے قدیم رہن سہن اور ان کے مکانات کے طرز تعمیر کو محفوظ رکھنے کے لئے مواد جمع کرنا شروع کیا تھا، 2012ء میں جامعہ اسلامیہ کے پچاس سالہ تعلیمی سیمینار کے موقعہ پر بڑی محنت سے نائطی ثقافت و تہذیب کے نقوش پر مشتمل ایک میوزیم نما نمائش رکھی تھی ، جس کی بڑی پذیرائی ہوئی ۔ ان کے ذہن میں اس سلسلے میں بہت سارے پروگرام خوابیدہ تھے ، جو آپ کے ساتھ منوں مٹی میں دفن ہوگئے ، اب کون اس جذبے اور ولولے کے ساتھ اٹھے گا ؟، یہ قدرت ہی بہتر جانتی ہے ، بہر حال اس کا خوف ستا رہا ہے کہ کہیں اس قومی ورثے کا بھی وہی حشر نہ ہو جو مرحوم کے پیشرو سید عبد الرحیم ارشاد مرحوم کی جمع پونچی کے ساتھ ہوچکا ہے ۔
مرحوم بنیادی طور پر تعلیم و تربیت کے میدان کے آدمی تھے ، انہیں نونہالوں کی تربیت میں مزا آتا تھا ، وہ قوم کے نونہالوں کو دین کے سایہ میں پروان دیکھنا چاہتے تھے ، سعودیہ سے واپسی کے بعد انہوں نے اپنے اس مشن کو زندہ رکھنے کے لئے مادر حوا نرسری اسکول کی بنا ڈالی ، رٹائرمنٹ کی عمر میں جوانوں کے حوصلے کے ساتھ اسے آگے بڑھانے کی فکر میں رہے ، اس کے لئے آپ نے بے پناہ جد جہد کی ، اب قوم کا بھی فرض بنتا ہے کہ قوم کے ایک مخلص کی اس نشانی کو زندہ رکھنے کے لئے آگے بڑھے ۔ اس سے جہاں مرحوم کا نام زندہ رہے گا، اس نام کے ساتھ ایک مشن بھی تابندہ رہے گا۔ کون نہیں جانتا کہ قوم کی ترقی کا راز نونہالوں کی صحیح اساس پر تعلیم وتربیت ہی میں پوشیدہ ہے ۔ اللہ مرحوم کی لغزشوں کو معاف کرے اور ان کے نیک کاموں کو قبولیت سے نوازیں ۔ آخر انسان کی اصل کامیابی یہی تو ہے ۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ
01-08-2018